آسان نہیں ہے

غلام مصطفی  جتوئی 6 اگست 1990 سے لے کر 6 نومبر 1990 تک پاکستان کے نگراں وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہے ۔ یہ سندھ کے نامور سیاستدانوں میں سے ایک تھے ۔ یہ 25 دسمبر 1973 سے 5 جولائی 1977 تک سندھ کے نگراں وزیر اعلی بھی رہے ۔ یہ اس لحاظ سے بھی دلچسپ تھے کہ انکا یوم پیدائش 14 اگست تھا ۔ اور یہ 20 نومبر 2009 کو لندن میں انتقال کرگئے ۔

میرے ایک دوست جو  طلبہ سیاست میں خاصے فعال تھے ۔ زمانہ طالبعلمی میں ایک وفد کے ساتھ ان سے ملاقات کے لئیے گئے اور باتوں باتوں میں جتوئی صاحب سے پوچھا کہ آپ وزیراعظم کیسے بنے تھے ؟ جتوئی صاحب مسکرائے اور بولے ” بس ایک چٹھی آگئ تھی کہ آپ نے وزیراعظم کا حلف اٹھانا ہے تو میں نے اٹھا لیا ۔” میرے دوست نے دلچسپی سے پوچھا تو پھر کابینہ کیسے منتخب کی ؟ انھوں نے زور سے قہقہہ لگایا اور ہنستے ہوئے جواب دیا  کہ ” ایک اور چٹھی آگئی تھی جس میں کچھ لوگوں کا نام درج تھا ، کہا گیا کہ ان سے کابینہ کا حلف لے لیں –”

آپ یقین کریں جب سے  خان صاحب نے اپنی کابینہ منتخب کی ہے میرے کانوں میں رہ رہ کر جتوئی صاحب کے الفاظ گونج رہے ہیں ۔ میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ کہ خان صاحب نے جن لوگوں کو وزارتیں بانٹیں ہیں اور جتنے لوگوں کو عہدے دئیے ہیں ان میں سے زیادہ تر ” چٹھیوں ” اور ” دباؤ ” کے نتیجے میں دی ہیں ۔مجھے خان صاحب پر اب ترس آرہا ہے ۔ یہ پاکستان کی آخری امید ہیں سندھ سے لے کر چترال تک اور کشمور سے لے کر گوادر تک عوام نے ان پر اعتماد کیا ہے ۔ لیکن اس سب کے باوجود ان کو کابینہ سمیت آٹھ آٹھ گھنٹے ان تمام لوگوں کو بریفنگ دینی پڑتی ہے کہ ان کا اقتدار جنکا مرہون منت ہے ۔

مجھے ڈر ہے کہ خان صاحب کی جیب میں صرف کھوٹے سکے ہی نہیں ہیں بلکہ ان کی جیب بھی آخر میں پھٹی ہوئی نکلے گی ۔ صحافیوں سے ملاقات کے دوران خان صاحب نے کاشف عباسی کو واضح الفاظ میں جواب دیا کہ ” ہم واقعی حکومت کے لئیے تیار نہیں تھے “۔ یہ 2013 میں کے – پی حکومت ملنے کے بعد بھی تیار نہیں تھے اور یہ آج 2018 میں وفاقی حکومت ملنے کے بعد بھی تیار نہیں ہیں ۔

عوام نے خان صاحب کی وجہ سے عامر لیاقت حسین تک پر اندھا اعتماد کیا ہے ۔ میں نے 2018 کے انتخابات میں سند ھ  میں نہ سہی لیکن بے شمار سندھیوں میں  ” بھٹو ” کو مرتے دیکھا ہے ۔ میں نے پنجابیوں میں بغاوت دیکھی ہے اور کراچی میں  “مہاجر کارڈ ” بے کار ہوتے دیکھا ہے ۔جن 80 فیصد ڈاڑھی والوں کا آپ کو یقین ہے کہ وہ ” بے ایمان ” ہوتے ہیں ان سب نے بھی آپ ہی کو ووٹ دئیے ہیں ۔ مسجد میں جانے والے سے لے کر مندر میں جانے والے تک سب نے آپ کو اپنا مسیحا سمجھا ہے ۔لیکن آپ کی کابینہ میں موجود کھوٹے سکے اگلی حکومت میں پھر کسی اور کے ساتھ ہونگے لیکن جب تک آپ کا ” وقت ” پورا ہوچکا ہوگا ۔ انسان کے فیصلے اس کی ترجیحات کا تعین کرتے ہیں ۔ آپ نے این – آر – او بنانے والے ، 12 مئی کا کیس لڑنے والے ، بلدیہ ٹاؤن فیکٹری میں آگ لگانے والو ں کے وکیل ، 9 اپریل کو وکلاء کو جلانے والوں کا کیس لڑنے والے اور ” الطاف بھائی ” کو نیلسن منڈیلا کہنے والے کو ” وزارت قانون و انصاف ” قلمدان دے کر کس نئے پاکستان کی بنیاد رکھی ہے ؟

آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں پانچ سال تک بلاشرکت غیرے ریلوے پر حکمرانی کرنے والے شیخ صاحب میں آپ نے وہ کونسی ” خوبیاں ” دیکھی ہیں اور ان پانچ سالوں میں ریلوے کے لئیے وہ کونسی عظیم الشان خدمات  ہیں کہ جن کی بنیاد پر ” چپڑاسی ” تک نہ لگنے والا آج دوبارہ ریلوے کا وزیر ہے ؟دنیا آئی – ٹی اور ٹیلی کام میں چاند تک پہنچ گئی ہے اور ہمارے پاس خالد مقبول صدیقی سے زیادہ ” ٹیلنٹڈ” آدمی تک موجود نہیں ہے  جو ملک میں اس عظیم الشان شعبے کو ترقی دے سکے ۔

زبیدہ جلال سے لے کر فہمیدہ مرزا تک بلوچستان اور سندھ کے سارے ڈاکو ، لٹیرے اور قرض معاف کروانے والے آج صرف آپ کے ساتھ ہی نہیں ہیں بلکہ ” نئے پاکستان ” کی تعمیر میں آپ کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں ۔ چلیں مان لیں کہ اگر یہ سارے کے سارے مفاد پرست لوگ آپ کے ساتھ چل بھی گئے تو ق لیگ اور پیپلز پارٹی کا بیڑہ غرق کرنے والے آپ کے وزیر اطلاعات جن کو جھوٹ بولنے کا کمال ملکہ حاصل ہے کہ جنھوں نے محمد علی درانی جیسے آدمی تک کو شرمادیا  آپ کے پچھتاوے کے لئیے کافی ہوگا ۔

خان صاحب ! میاں صاحب کی آٹھ بھینسیں اور وزیر اعظم ہاؤس میں کھڑے چار خراب ہیلی کاپٹروں کو بیچنے کے بجائے برائے مہربانی ” پلان ” کریں ۔ یہ ملک مزید تجربوں کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے ۔ کرپشن کے بے تاج بادشاہ اور گرو لوگ آپ کے سامنے موجود ہیں  اور اب تو مراد سعید جیسے ” ہونہار اور باصلاحیت ” نوجوان بھی آپ کی کابینہ کا حصہ ہیں ۔ ان سے مشورہ کریں اور ان لٹیروں کے پیٹ پھاڑ کر عوام کا پیسہ نکلوائیں اور ڈیمز سمیت جہاں چاہیں لگوائیں  لیکن اگر آپ کی ” ٹاسک فورس ” بھی مشرف صاحب کی طرح شواہد ہی ڈھونڈتی رہی تو محض نیلامی کی گاڑیوں سے عوام کو روپے کا فائدہ بھی نہیں ہے  وہ آج بھی ڈیم کے پیسے اپنی جیب سے ہی دے رہے ہیں میاں صاحب کے اکاؤنٹ سے نہیں ۔

خدارا ! جمعہ جمعہ آٹھ دنوں میں ہی میاں عاطف جیسے انتہائی نامعقول اور متنازع فیصلے کر کے خود کو دلدل میں نہ پھنسائیں اس آگ سے کھیلنے والے عام طور پر سلمان تاثیر بن جایا کرتے ہیں ۔عوام نے آپ پر بھروسہ مسئلے بڑھانے کے لئیے نہیں مسئلے حل کرنے کے لئیے کیا ہے ۔ پلان کریں  اور فوکس کریں ۔ آسان حالات میں مشکل فیصلے لینا آسان ہے لیکن مشکل حالات میں مشکل فیصلے لینا بہرحال آسان نہیں ہے  اور یہ کام کرنا آپ ہی کو پڑیگا۔

حصہ
mm
جہانزیب راضی تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں،تعلیمی نظام کے نقائص پران کی گہری نظر ہے۔لکھنے کے فن سے خوب واقف ہیں۔مختلف اخبارات و جرائد اور ویب پورٹل کے لیے لکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں