پاک و ہند کی کشیدہ صورت حال

وزیراعظم جناب عمران خان کے دورہ سعودی عرب کے ساتھ ہی جو اچھی ڈؤلپمنٹ ہوئی تھی وہ یہ تھی کہ پاکستان کی جانب سے اس بات کی بھرپور کوشش کی گئی کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جو کشیدگی ہے اس کو ختم کیا جائے یا کم از کم اس سطح تک تو لایا جائے جہاں دونوں ملکوں کے ٹکراؤ کا اندیشہ ختم ہوجائے۔ اس نقطہ نظر کو سامنے رکھ کرپاکستان نے بھارت کو مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے اس کی جانب ایک خط بھیجا۔ پاکستان کیا دنیا جانتی ہے کہ خواہ کچھ بھی ہو جائے آخر کار فریقین کو مذاکرات کی میز پر ہی آنا پڑتا ہے۔ پاکستان کی اس امن کی پیشکش اور مذاکرات کے آغاز کی کوشش پر خیال یہی تھا کہ بھارت کی جانب سے مثبت جواب آئے گا لیکن افسوس ایسا نہ ہو سکا اور بھارت نے مذاکرات کی اس پیشکش کو درخور اعتناع بھی نہ سمجھا اور مذاکرات کی میز پر آنے سے انکار کردیا۔

بی بی سی نے رپورٹ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ” پاکستان نے انڈیا کے ساتھ وزرائے خارجہ کی سطح پر ہونے والی مجوزہ ملاقات کو انڈیا کی جانب سے منسوخ کرنے کے فیصلے پر گہری مایوسی کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ انڈیا کا بیان مہذب دنیا اور سفارتی روابط کے منافی ہے۔ خیال رہے کہ دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کی نیویارک میں مجوزہ ملاقات کی منظوری کے اعلان کے 24 گھنٹے بھی مکمل نہیں ہوئے تھے کہ انڈین وزارت خارجہ کی جانب سے ملاقات منسوخ کرنے کا اعلان کیا گیا۔

انڈیا کا کہنا ہے کہ ملاقات کے اعلان کے بعد رونما ہونے والے بعض واقعات سے پاکستان کے نئے وزیر اعظم عمران خان کا اصلی چہرہ سامنے آگیا اور اب نیو یارک میں دونوں وزرائے خارجہ کے درمیان ملاقات نہیں ہوگی، کیونکہ اس ملاقات کا کوئی مقصد باقی نہیں رہ جاتا۔ دلی سے نامہ نگار “سہیل حلیم” کے مطابق وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے کہا کہ ’(اس اعلان کے بعد) ہمارے سکیورٹی اہلکاروں کو پاکستان سے سرگرم عناصر نے بربریت کے ساتھ قتل کیا ہے اور پاکستان نے دہشت گردی اور دہشت گرد کے اعزاز میں 20 ڈاک ٹکٹ جاری کیے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان نہیں سدھرے گا”۔

مذاکرات کی میز پر آنا یا نہ آنا ایک الگ بات ہے لیکن انکار کا یہ انداز سفارتی آداب کے نہایت خلاف ہے۔ “پاکستان نہیں سدھرے گا” جیسے الفاظ نہایت غیر مہذبانہ ہیں اور ان الفاظ میں بڑائی اور تکبرٹپکتا ہے جو کسی بھی لحاظ ایک اچھا رویہ نہیں۔

مذاکرات سے انکار کا سبب جس واقعہ کو قرار دیا جا رہا ہے اس کے متعلق پاکستانی دفتر خارجہ نے تحریری بیان جاری کیا تھا اور کہا تھا کہ انڈین سکیورٹی اہلکاروں کی مبینہ ہلاکت کا واقعہ ملاقات کے لیے انڈیا کی آمادگی سے دو دن پہلے کا ہے۔ اور پاکستان نے انڈین باڈر سکیورٹی حکام کو بتایا تھا کہ پاکستان کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ پاکستان اس کی مشترکہ تحقیقات میں شامل ہونے کو تیار ہے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ پاکستان کی جانب سے بھیجے گئے خط کے جواب میں بھارت کی جانب سے پہلے مثبت جواب آیا تھا اور بھارت نیویارک میں مذاکرات پر آمادہ ہوگیا تھا۔ جس وقت بھارت مذاکرات پر آمادہ ہو گیا تھا اس وقت تک واقعہ ہوئے 2 دن گزر چکے تھے۔ کیا دودنوں تک بھارت کی وزارت خارجہ کو اس کا علم نہیں ہو سکا تھا؟۔ یہ امر اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بھارت نے مذاکرات سے اچانک انکار کسی اور ہی کے اشارہ ابرو پر کیا ہوگا۔

رہی کشمیر کے حوالے سے ڈاک ٹکٹ جاری کرنے والی بات تو پاکستانی دفتر خارجہ نے یہ بھی واضح کر دیا تھا کہ کشمیر کے حوالے سے ڈاک کے ٹکٹ 25 جولائی سے قبل جاری کیے گئے تھے اور عمران خان کی حکومت اس کے بعد آئی۔ یہ بھی کہا گیا کہ ان ٹکٹوں میں کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اجاگر کیا گیا ہے جس کے بارے میں رواں برس جون میں اقوام متحدہ نے ایک رپورٹ بھی جاری کی تھی۔

ابھی مذاکرات کی تنسیخ کی خبر چل ہی رہی تھی کہ بھارت کے آرمی چیف کا ایک نہایت سخت بیان سامنے آگیا۔ انڈین اخبار ٹائمز آف انڈیا کے مطابق انڈین فوج کے سربراہ جنرل بپن راوت نے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان کوان کی ہی زبان میں جواب دینا چاہیے، ان کی طرح بربریت نہیں لیکن میرے خیال میں انھیں بھی وہی تکلیف محسوس ہونا چاہیے۔ انڈین آرمی چیف بپن راوت کا یہ بیان پاکستان وزیراعظم عمران خان کے اس بیان کے بعد سامنے آیا ہے جس میں انھوں نے پاکستان اور انڈیا کے درمیان حالیہ مـجوزہ وزرائے خارجہ سطح کی ملاقات کی منسوخی پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے انڈین رویے کو منفی اور متکبرانہ قرار دیا تھا۔

بھارتی آرمی چیف کی جانب سے اس بیان کے بعد پاکستان کی جانب سے بھی ایک رد عمل سامنے آیا۔ سنیچر کو نجی ٹی دنیا نیوز سے بات کرتے ہوئے پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ ’ہمیں امن کی قیمت کا علم ہے جو ہم نے ادا کی ہے۔

میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ انڈیا کی حکومت کرپشن کے الزامات اور ملکی سیاست میں گھری ہوئی ہے لہذا انھوں نے پاکستان دشمنی کا بیانیہ اختیار کیا ہے۔

پاکستان نے گذشتہ دو دہائیوں میں امن قائم کیا ہے اورہمیں معلوم ہے کہ امن کی قیمت کیا ہے اور اسی تناظر میں پاکستان کے نئے وزیراعظم نے امن کی پیشکش کی تھی جسے انھوں نے قبول بھی کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد انڈیا کی جانب سے بارڈر سکیورٹی فورس کے ایک اہلکار کی لاش مسخ کرنے کا الزام عائد کیا جسے مسترد کیا گیا ہے۔ ہم کسی بھی فوجی کی بے حرمتی نہیں کر سکتے خواہ وہ دشمن ملک کا ہو۔

انڈین فوج کے سربراہ جنرل بپن راوت کے بیان کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ  یہ ایک غیر ذمہ دارانہ بیان ہے۔ ہم جنگ کے لیے تیار ہیں لیکن ہم نے امن کا راستہ اختیار کیا ہے اور یہ بات انڈیا اور ان کے آرمی چیف کو سمجھنا چاہیے کہ اس امن کو خراب نہیں کرنا، ہم نے اس امن کو آگے لے کر چلنا ہے۔ اگر امن رہے گا تو پاکستان بھی ترقی کرے گا، انڈیا بھی ترقی کرے گا اور خطہ بھی ترقی کرے گا۔ کسی کی امن کی خواہش کو کمزوری نہیں سمجھنا چاہیے۔

پاکستان کی جانب سے یہ جواب ایک دلیرانہ اور نہایت مہذبانہ ہے۔  انڈیا ہی کیا، ہرجارح کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں۔ جنگ وحشت و بربریت کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ اس میں ہارنے والی کی تو ہار اور تباہی وبربادی ہے ہی، جیتنے والا بھی تباہ و برباد ہو کر رہ جاتا ہے اس لئے جنگ کو جس حدتک بھی ہو نظرانداز کرنا چاہیے۔ پاکستان نے تو اپنا موقف دنیا اور بھارت کے سامنے رکھ دیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ بھارت پر یہ بھی واضح کردیا ہے کہ جنگ سے وہ گھبرایا کرتے ہیں جو جنگ کیلئے تیار نہیں ہوتے۔ ہم جنگ کو اچھا تو نہیں سمجھتے لیکن ہر جارحیت کا جواب دینا خوب اچھی طرح جانتے ہیں۔

روز نامہ جسارت میں شائع ہونے والی تفصیل کے مطابق پاک فوج ترجمان نے بھارتی آرمی چیف کے بیان کو غیر ذمے درانہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان ایٹمی قوت ہے اور جنگ کے لیے بالکل تیار ہیں مگر پرامن طریقے سے معاملات کو حل کرنا چاہتے ہیں، امن کی خواہش کو کمزوری نہ سمجھا جائے اور اگر کسی نے ہمارے صبر کا امتحان لینے کی کوشش کی تو قوم کو کبھی مایوس نہیں کریں گے اوربھرپور جواب دیں گے۔ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے میڈیاسے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ گزشتہ 2 دہائیوں میں خطے میں کیاحالات رہے ہیں، ہمیں پراکسیز کے ذریعے دہشت گردی کا شکار بنایا گیا، پاکستان اور افواج پاکستان دنیا کا واحد ملک اور فوج ہے جس نے اس دہشت گردی کا کامیابی سے مقابلہ کیا اور خطے میں دہشت گردی کا خاتمہ کیا۔ ہم نے نہ صرف اپنے ملک میں امن قائم کیا بلکہ خطے میں اس کے خاتمے کے لیے بھرپور تعاون کیا اور اپنا کردار ادا کیا اور اب یہ خطہ مثبت سمت میں بڑھ رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں سیاسی تحریک کا سامنا ہے جسے وہ دبا نہیں پا رہے جبکہ بھارتی حکومت پر اپوزیشن کی جانب سے کرپشن کے الزامات بھی عاید کیے گئے ہیں، ان تمام چیزوں سے توجہ ہٹانے اور رخ موڑنے کے لیے بھارت نے آج یہ ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور ایسا مؤقف اپنایا ہے، اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان نے بھی انہیں مذاکرات کی پیشکش کی جسے انہوں نے قبول تو کر لیا مگر اس کے بعد بھارتی سیکورٹی فورسز کے جوان کی لاش کی بے حرمتی کا الزام عاید کر دیا جس کی ہم نے تردید بھی کی ہے کیونکہ ہم ایک پروفیشنل فوج ہیں اور کسی بھی فوجی کی لاش کی بے حرمتی نہیں کر سکتے۔

پاکستان آرمی کی جانب سے وضاحتوں کے بعد اس بات کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ ماحول کو مزید تلخ بنانے کی کوشش کی جائے۔ اس کے برعکس حالات کا تقاضہ ہے کہ ماحول کو کبیدہ بنانے کی بجائے خوشگوار فضا ہموار کی جائے، جنگ کے امکانات کو معدوم سے معدوم تر کیا جائے اور دشمنیوں کو دوستیوں میں بدلنے کی جانب بڑھاجائے۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر ہم سب ترقی و خوشحالی کی منزل حاصل کر سکتے ہیں۔

یاد رہے کہ جنگ ہتھیاروں سے نہیں جذبہ جہاد، حوصلہ و ہمت اور عزم و یقین سے جیتی جاتی ہے۔ ہم ان سب اوصاف کے ساتھ ساتھ ہتھیار بھی رکھتے ہیں اور فن ضرب و حرب کا صدیوں کا تجربہ بھی۔ بس اتنا آگاہ کرنا چاہتے ہیں کہ

سن لو اے ہندیو ہر مقابل کو یوں

خود سے کمتر سمجھنا بڑی بھول ہے

راکھ کو کم نہ سمجھو کبھی آگ سے

راکھ مانا کہ کچھ بھی نہیں دھول ہے

ہم نے دیکھا ہے بجھتی سی چنگاریاں

پھونک دیتی ہیں اچھی بھلی بستیاں

ختم جب تک نہ ہو جنگ تو جنگ ہے

سنگ ریزہ سہی سنگ پھر سنگ ہے

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں