دورہ سعودی عرب کے پس منظر میں

وزیراعظم جناب عمران خان صاحب جب سعودی عرب پہنچے توان کا پرتپاک استقبال کیا گیا اور میڈیا کی رپورٹ کے مطابق جس انداز میں ان کا استقبال عوام اور سرکار کی جانب سے کیا گیا وہ اس سے قبل شاید ہی کسی پاکستانی حکمران کا ہوا ہو۔

کسی حد تک اس دورے کو ہنگامی بنیاد پر کر کیا گیا دورہ بھی کہا جاسکتا ہے اس لئے کہ شنید یہی تھی کہ وزیراعظم پاکستان 3 ماہ تک کسی بھی دورے پر ملک سے باہر تشریف نہیں لے جائیں گے۔

یہاں اس بات کو پیش نظر ضرور رکھنا چاہیے کہ وزیر اعظم پاکستان کے دورہ سعودی عرب سے قبل ایک دو باتیں بہت اہمیت اختیار کر چکی تھیں جس میں پاکستان میں امریکی وزیر خارجہ کا دورہ بھی شامل تھا۔ امریکی وزیر خارجہ کے اس دورے سے بھی قبل امریکہ نے دہشتگردی کی کوششوں کے سلسلے میں دی جانے والی امداد روکنے کا واضح اور صاف صاف اعلان بھی کردیا تھا اور اس کے علاوہ بھی پاکستان کو دھمکانے اور دبانے کیلئے امریکہ کے صدر اور ان کے دیگر وزرا و مشیران نے پاکستان کے بارے میں کئی سخت بیانات بھی دیئے تھے جس سے اندازہ ہو ہی گیا تھا کہ امریکی وزیرخارجہ پاکستان آتو رہے ہیں لیکن وہ کوئی دوستی کی خبریں نہیں لا رہے ہیں اس لئے ان سے کسی خوش کن خبر کی کوئی توقع رکھنا فضول ہی ہے۔ جیسا کہ توقع کی جارہی تھی ویسا ہی ہوا اور وہ “یس نو” والا ایجنڈا سامنے رکھ کر نہ صرف دشمنوں سے ملاقات کیلئے روانہ ہو گئے بلکہ وہاں بہت کچھ نچھاور کرکے واپس اپنے ملک امریکہ چلے گئے۔

امریکہ کے وزیر خارجہ کے دورے کے فوراً بعد چین کے وزیرخارجہ کا دورہ ہوا۔ یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی۔ اس دورے میں کیا کچھ ہوا اس کی کوئی تفصیل تو سامنے نہیں آئی البتہ یہ ضرور ہے کہ “سی پیک” کے نام سے چین نے جو معاہدہ کیا ہوا ہے، بات چیت اسی کے گرد گھومتی رہی ہوگی۔

گزشتہ چند برسوں سے پاک چین تعلقات جس تیزی کے ساتھ قربتوں میں بدلے ہیں یہ امریکہ اور بھارت کیلئے سوہانِ روح بنے ہوئے ہیں جس کی اس کے علاوہ اور اور کوئی وجہ نہیں کہ بھارت پاکستان کو خوشحال ملک بنتے اور امریکہ چین کو مزید مضبوط ہوتے نہیں دیکھ سکتا۔ اگر اس نقطہ نظر کو سامنے رکھا جائے تو چین نے یقیناً اس خطرے کو بھانپ لیا ہوگا کہ امریکہ “سی پیک” کو پایایہ تکمیل تک پہنچنے میں رکاوٹ بن رہا ہوگا اور قیاس یہی ہے کہ چین کا یہ تین روزہ دورہ سی پیک کے حوالے سے ہی ہوا ہوگا۔ اب وہ معاہدہ کیا رخ اختیار کرتا ہے، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن دال میں کچھ نہ کچھ کالا ضرور ہے۔

اسی دوران پاکستان کے سابق اور پابند سلاسل وزیر اعظم نواز شریف کی اہلیہ کا انتقال بھی ہوا جس کا اثر پاکستان کی سیاست پر رونما ہوا۔ نواز شریف کو پے رول پر غیر معمولی رہائی ملی۔ اسی دوران نواز شریف سے کئی اہم سعودی شخصیات ملاقات کیلئے “جاتی امرا” آئیں۔ عمران خان صاحب کا اسی دوران سعودی عرب کے دورے کا پروگرام بنا۔ اسی دورے کے پروگرام کے ساتھ ہی یہ خبر سننے میں آئی کہ “نیب” نے ہائی کورٹ میں اٹھائے جانے والے مقدمے کو جس میں نواز شریف کو دی جانے والی سزاؤں کو معطل کرنے کی درخواست کی گئی تھی اور اس کی کارروائی روکنے کیلئے جو پٹیشن داخل کی تھی ہائی کورٹ نے نہ صرف اس کو مسترد کردیا تھا بلکہ سزاؤں سے معطلی کی کارروائی نہایت تیز تر کردی تھی اور ٹھیک جب وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان صاحب نے سعودی عرب کی سرزمین پر اپنا قدم رکھا، سابق وزریر اعظم میاں محمد نواز شریف، ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد صفدر کی سزا نہ صرف معطل ہوئی بلکہ چند منٹوں میں ان کی رہائی کے پروانے بھی جاری ہوگئے اور وہ سب جاتی امرا پہنچا بھی دیئے گئے۔

اب ان چند باتوں کو سامنے رکھا جائے، امریکی وزیر خارجہ کا دورہ اور “ڈومور” مور کی فرمائش، چین کے وزیر خارجہ کا دورہ پاکستان، نواز شریف کی اہلیہ کے انتقال پر پابند سلاسل وزیر اعظم کی پے رول پر طویل رہائی، پھر نیب کی درخواست کا نہ صرف مسترد ہونا بلکہ نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی رہائی۔ ان ساری باتوں کے پس منظر میں وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان کا دورہ سعودی عرب۔ بظاہر ہر واقعہ ایک دوسرے سے جدا ہے لیکن غور کیا جائے تو سب ایک ہی دھاگے میں پروئے ہوئے ہیں۔

یہاں اس امر کو بھی مد نظر رکھا جائے کہ پاکستان کے وزیر خارجہ جناب شاہ محمود قریشی اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کیلئے امریکہ روانہ ہونے والے ہیں۔ جن لوگوں کو امریکی وزیر خارجہ کے دورے کے بعد پاکستان کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والا یہ بیان یاد ہو کہ “ہم واشنگٹن” کے دورے کے دوران امریکہ کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات کا جواب واشنگٹن میں دیں گے”، کو بھی دورہ سعودی عرب کے ساتھ منسلک کر دیا جائے تو بات اور بھی نکھر کے سامنے آجاتی ہے۔

کون نہیں جانتا کہ پوری مسلم امہ میں سب سے زیادہ اہمیت سعودی عرب کی ہے اور کون نہیں جانتا کہ امریکہ سے سب سے زیادہ قریب اور اس کا پکا دوست پوری امت مسلمہ میں سعودی عرب ہی ہے۔ سعودی عرب کا مسلم امہ اور خاص طور سے عرب ممالک میں اتنا اثرورسوخ ہے کہ اس کے کہنے پر تقریباً تمام عرب ممالک نے اپنی ایک مشترکہ فوج تک بنا ڈالی ہے جس میں پاکستان بھی شریک ہے بلکہ اس فوج کی سربراہ پاکستان کے ریٹائرڈ سالار ہی ہیں۔ پھر یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ سعودی عرب ایک طویل عرصے سے امریکہ کا اتحادی چلا آرہا ہے۔

ان سارے نقاط کو سامنے رکھا جائے اور پھر ان سب کو مربوط کرتے ہوئے دورہ “واشنگٹن” کا جائزہ لیا جائے تو پھر شاہ محمود قریشی کے اس بیان کو جس میں انھوں نے فرمایا تھا کہ “ہم امیرکہ کی جانب سے پیش کئے گئے سوالات کا جواب واشنگٹن میں جاکر دیں گے” تو وہ جواب کیا ہوگا؟، عمران خان صاحب کے دورہ سعودی عرب کی روشنی میں خوب اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے۔

ان حالات میں عمران خان صاحب کا یہ کہنا کہ “پاکستان میں جو بھی اقتدار میں آئے گا، وہ پہلے سعودی عرب جائے گا”۔

یا یہ فرمانا کہ “پاکستان سعودی عرب کی حمایت جاری رکھے گا” کچھ اوپرا اوپرا سا نہیں لگتا؟۔ کیا اب یہ اصول پتھر کی لکیر بنا دیا جائے گا کہ اب پاکستان میں جو بھی حکمران بنے گا وہ پابند ہوگا اس بات کا کہ وہ اقتدار سنبھالتے ہی سب سے پہلا دورہ سعودی عرب ہی کا کرے؟۔ کیا یہ ایک ایسی سلامی ہے جیسے “مزارقائد” پر حاضری دینا وغیرہ۔ پھر عزیزیہ نیوز چینل پر یہ کہنا کہ “پاکستان سعودی عرب کی حمایت جاری رکھے گا” کیا بے محل نہیں؟۔ کیا پاکستان میں کسی حکمران یا ادارے کی جانب سے کوئی ایسا تاثر گیا ہے جس میں سعودی عرب کی حمایت سے پھر جانے کا اشارہ دیا گیا ہو؟۔

عمران خان کا یہ کہنا کہ “ہماری حمایت سعودی عرب کے ساتھ ہے لیکن ساتھ ساتھ ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ مسلم دنیا میں کہیں بھی کوئی تنازع یا لڑائی نہیں ہونی چاہیے۔ پہلے ہی لیبیا، صومالیہ، شام، افغانستان، میں لڑائیاں جاری ہیں۔ پاکستان نے بھی بہت مشکلات دیکھی ہیں۔ مسلم دنیا میں لڑائیاں ہم سب کو کمزور کر رہی ہیں۔ پاکستان ان لڑائیوں کی آگ کومفاہمت کے ذریعہ بجھانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتا ہے”۔ بہت ہی قابل تعریف ہے لیکن اس بات کو بھی مد نظر رکھنا ضروری ہے کہ مسلم امہ میں ان ساری لڑائیوں میں 100 فیصد امریکہ کہ پالیسیوں اور اس کے مذموم مقاصد کا عمل دخل ہے اور جو ملک بیشمار وسائل رکھنے کے باوجود بھی اپنے آپ کو مکمل طور پر امریکہ کے حوالے کر چکا ہو اس سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کر لینا بھی کوئی دانشمندی کی بات نہیں ہوگی۔

تمام باتوں کا نچوڑ نکالاجائے تو سعودی عرب کے دورے کے بعد وزارت اطلاعات کے وزیر کی جانب سے اس قسم کی باتیں سامنے آنا کہ سعودی عرب کے دورے کا مقصد اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ پاکستان کو مدینہ جیسی فلاحی ریاست بنانے کیلئے سعودی حکومت سے مدد لی گئی ہے اور سعودی شاہ سے کہا گیا ہے کہ وہ پاکستان کو اسلامی فلا ہی ریاست بنانے میں پاکستان کی مدد کرے۔ کیا اس قسم کے بیانات پاکستان کے عوام کیلئے ایک بہلاوہ نہیں؟۔ کیا اسلامی ریاست کی شکل و صورت کیا ہونی چاہیے، کوئی باشعور مسلمان اس سے آگاہ نہیں؟۔ اور کیا سعودی عرب واقعی اسلامی فلاحی مملکت ہے؟۔ یہ وہ سوالات ہیں جو ہر مسلمان کے ذہن میں لازماً جنم لیں گے اور حکمرانوں کو ان کا جواب بھی دینا ہوگا۔

پاکستان واشنگٹن میں امریکہ کی جانب سے کئے گئے مطالبے کا کیا جواب دیتا ہے، اس بات سے ہٹ کر میں یہ بات میں کہنا چاہونگا کہ پاکستان جو بھی فیصلہ کرے خوب سوچ سمجھ کر کرے اور ریاست کی حق میں کرے۔ پاکستان کو اس بات کی بھی بھرپور کوشش کرنی چاہیے کہ پاکستان میں سی پیک کے حوالے سے جو پیش رفت ہو چکی ہے اس کو بیک فٹ پر نہ لیکر جائے۔ اس سلسلے میں ایک اور اہم ترین بات کو بھی اولیت دی جائے کہ اگر چین امریکہ کیلئے مسئلہ ہے تو اسے امریکہ کیلئے ہی چھوڑدیا جائے، پاکستان کو اس سلسلے میں سینڈوچ نہیں بنایا جائے۔ واشنگٹن میں اگر اس سلسلے میں کوئی بات ہو تو پاکستان کو اپنا موقف صاف صاف طریقے سے رکھ دینے میں ہی پاکستان کی فلاح ہے۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں