کراچی کےافغانی ہی کیوں؟

ایک طویل عرصے سے یہ بات سننے میں آرہی تھی کہ وہ تمام افغانی جو افغانستان کے خراب اور مخدوش حالات کی وجہ سے اپنا ملک افغانستان چھوڑ کر پاکستان آنے پر مجبور ہوئے اور پھر یہیں کے ہو رہے، ان تمام کو افغانستان واپس جانا ہوگا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ایسے افغانی جو عارضی پناہ کے نام پر پاکستان کی جانب ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے تو بار بار ان کو واپس جانے یا بھیجنے کی باتیں کس جانب سے ہوتی رہیں اور اس دوران جن جن کو واپس بھیجا بھی گیا تو اس سب حکم کس کی جانب سے آیا اور اگر عارضی طور پر بھیجے جانے کے عمل کو روکا گیا تو وہ کس کے کہنے پر روکا گیا۔

حال ہی میں جب امریکہ نے پاکستان کی امداد پر پابندی عائد کی تھی تو یہ شور کس جانب سے بلند ہوا تھا کہ ہم افغان مہاجرین کو واپس افغانستان بھیج رہے ہیں اس لئے کہ اب ہم سے ان کی مزید مہمان داری نہیں ہو سکتی۔ جس شدت سے یہ آواز اٹھائی گئی تھی اس سے کہیں زیادہ برق رفتاری کے ساتھ یہ آواز دب گئی۔ ایک سمندر کا طوفان اٹھا تھا جو جھاگ کی طرح ایسا بیٹھا جیسے بھٹہ بیٹھ جانے کا محاورہ مشہور ہے۔

امریکی امداد کیا مشروط ہی مہاجرین کی آبادگاری سے تھی؟ اگر ایسا ہے تو پھر گزشتہ چالیس برس سے ایسا ہی ہوتا رہا ہوگا اور مہاجرین کی مہمان داری کے سلسلے میں گزشتہ 40 سال سے پاکستان کو امداد ملتی رہی ہوگی تو پھر یہ سوال تو پیدا ہونا لازمی ہے کہ ایک طویل عرصے سے یہ امدادی رقم کس کو ملتی رہی، اور پھر کیا اس کا کوئی ریکارڈ ہے کہ کھانے پینے، پہنے اوڑھنے اور رہائش کی مدات میں اس رقم کا حساب کیا بنتا ہے اور اس کو طلب کرنا کیا کسی کے اختیار میں بھی ہے؟۔ اگر ایسا نہیں تھا اور افغان پناہ گزین کی مد میں کسی قسم کی کوئی امداد نہیں ملتی تھی اور خاص طور سے اس امداد کا تعلق کم از کم امریکہ سے ملنے والی امداد سے قطعاً نہیں تھا تو امریکہ کی وارننگ کے ساتھ ہی اس بات کو زور و شور سے کیوں اٹھایا گیا کہ گزشتہ پینتیس چالیس برسوں سے پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کو بہر صورت اپنے ملک میں جانا ہوگا؟۔

ابھی اس آواز کو اٹھے چند ہفتے ہی گزرے تھے کہ اچانک صورت حال تبدیل ہو گئی۔ وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان نے ایک تہلکہ خیز اعلان کیا کہ جتنے بھی افغان پاکستان میں موجود ہیں ان سب کو پاکستانی تسلیم کرتے ہوئے انھیں پاکستان کا شناختی کارڈ جاری کر دیا جائے گا۔ یہ خبر میرے نزدیک کسی بھی لحاظ سے بری خبر نہیں تھی اس لئے کہ اگر کسی بھی سبب کوئی بھی ایسا فرد یا افراد یا خاندان، جس کو پاکستان میں رہتے ہوئے اتنا عرصہ گرز جائے اور اس کی دوسری نسل بھی صاحب اولاد بننے کے قابل ہو جائے تو یقیناً اس کو پاکستان کی شہریت حاصل کرنے کا حق ہونا چاہیے لیکن جو بات تکلیف دہ بنی وہ یہ تھی کہ صرف وہ افغان جو کراچی میں رہائش پزیر ہیں، ان کو ہی یہ حقوق دیئے جا رہے ہیں۔ یہ بات کسی عام ذریعے کی مرہون منت ہوتی تو اس میں ابہام بھی ہو سکتا تھا لیکن یہ بات از خود پاکستان کے وزیراعظم نے کی اور اپنے بات کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ سہولت صرف کراچی کیلئے ہے۔ میرے نزدیک یہ بات اہل سندھ اور اہل کراچی کیلئے قابل قبول ہو یا نہ ہو، افغان مہاجرین کے ساتھ بہت ہی زیادتی کی بات ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جتنے بھی افغان مہاجرین پاکستان میں موجود ہیں اور پاکستان کے جن جن علاقوں، شہروں، دیہاتوں اور صوبوں میں مقیم ہیں ان سب کو یہ حق حاصل ہونا چاہیے کہ وہ پاکستان کی شہریت حاصل کر سکیں البتہ ان کیلئے یہ آپشن موجود ہو کہ اگر وہ افغانستان واپس جانا چاہیں تو ان پر کوئی پابندی نہیں ہوگی اور اگر ان کے نزدیک پاکستان میں رہنا اور یہاں کی شہریت کے حقوق حاصل کرنا زیادہ پسندیدہ بات ہے تو بخوشی ان کو یہاں کی مکمل شہریت دینے میں کوئی بھی شے مانع نہیں ہونی چاہیے۔

یہ بات میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ اگر کراچی میں آباد افغانیوں کو ہی پاکستانی ہونے کا شرف بخشا گیا تو اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ پورے پاکستان میں پھیلے افغانی کراچی کا رخ نہیں کریں گے۔ کیا کراچی شہر میں جو افراد داخل ہوتے ہیں یا کراچی سے ہزاروں کی تعداد میں جو لوگ باہر جاتے ہیں ان کا کسی بھی جگہ ریکارڈ رکھا جاتا ہے؟۔

مجھے ماضی قریب کی یہ بات بھول ہی نہیں سکتی کہ جب جنوبی وزیرستان آپریشن شروع ہوا تو وہاں سے ایک بہت بڑی تعداد نے کراچی کا رخ کیا۔ اس وقت کراچی کی ایک سیاسی جماعت نے اس بات کو اٹھایا کہ آنے والوں کی رجسٹریشن ہو نی چاہیے تاکہ اگر واپسی کا پروگرام بنے تو معلوم ہو سکے کہ آخر رہ جانے والوں اور واپس چلے جانے والوں کی صورت حال کیا ہے لیکن بد قسمتی سے اسے ایک سیاسی اشو کے طور پر لیا گیا اور اب اس بات کا حساب لگانا کہ آنے والے جاچکے ہیں یا یہیں کہیں غائب ہو گئے ہیں، ایسا کام بن کر رہ گیا ہے جو جوئے شیر لانے کے برابر ہے۔

اس بات کو سامنے رکھ کر کیا حکومت پاکستان یا حکومت پاکستان کا کوئی بھی ادارہ اس بات کا اہل ہے جو یہ جان سکے کہ کراچی میں اب تک کتنی تعداد میں افغان پناہ گزین ہیں اور جب ان کو پاکستانی ہونے کی سندیں بانٹی جانے لگیں گی تو ان کی تعداد اس وقت تک کتنی ہو جائے گی؟۔

یہ سوال بھی اپنی جگہ بہت اہمیت رکھتا ہے کہ اس اعلان کے ساتھ ہی ہر روز کتنی تعداد میں کتنے افغان کراچی کی جانب منتقل ہونا شروع ہو جائیں گے اور کیا ہمارے پاس ایسے ادارے ہیں جو روزانہ لاکھوں کی تعداد میں آنے جانے والوں کا پراپر ریکارڈ رکھ سکیں۔

یہ چند بنیادی باتیں ہیں جو بہت سنجیدگی مانگتی ہیں اور اگر اسے غیر سنجیدہ لیا گیا تو اہل سندھ جس میں کراچی والے بھی شامل ہیں، یہ سمجھنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ ایوب خان کے دور سے چلنے والی یہ مہم کہ یہاں اہل سندھ اور اہل کراچی کی آبادی کو اقلیت میں تبدیل کیا جائے یہ اچانک صرف کراچی کے افغانیوں کو پاکستانی سرٹیفیکیٹ جاری کرنا اسی سازش کا ایک تسلسل ہے جو ایک خان سے شروع ہوا تھا اور دوسرے خان کے دور حکومت تک آ پہنچا ہے۔ لہٰذا افغانی جہاں جہاں بھی موجود ہیں اور اپنے حساب سے جہاں جہاں بھی آباد ہیں اور آباد رہنا چاہتے ہیں ان سب کو قومی دھارے میں شامل کیا جائے تاکہ ذہنوں میں اٹھنے والے منفی ابہامات کو پھولنے پھلنے کا موقع نہ مل سکے۔

افغانیوں کے ساتھ پاکستان کی شہریت دینے کے ذکر خیر میں “بنگالیوں” کا بھی تذکرہ کیا گیا تھا۔ مجھے اس سلسلہ میں دو باتیں کرنی ہیں اور میں کسی بھی لحاظ کے بغیر وہ باتیں کر کے رہوں گا۔ سارے پاکستان کو یاد ہوگا کہ آج سے 45 سال سے بھی قبل “برما” جو آج کل “میانمار” کہلاتا ہے، وہاں سے ہزاروں کی تعداد میں “برمی” پاکستان کی جانب ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے تھے۔ کراچی ہی ایک ایسا شہر ہے جو ہر آنے والے کیلئے اپنے دروازے بنا کسی تنگ دلی کے، کھلے رکھتا ہے اور یہی پاکستان کا وہ واحد شہر ہے جس میں ہر قسم کے روزگار کے مواقع ہیں اور ہر فرد کو یہاں اپنی روزی روٹی مل جاتی ہے۔ چنانچہ وہ سارے کے سارے برمی کراچی ہی میں آباد ہیں اور دنیا جانتی ہے کہ نہ تو وہ جانے کیلئے کراچی آئے تھے اور نہ ہی ان کا لوٹ جانا ممکن ہے یہاں تک کے تاحال میانمار میں برمی مسلمانوں کیلئے حالات اتنے خوفناک ہیں کہ وہ سمندر میں جھلانگ لگاکر مرجانا تو پسند کر لیتے ہیں لیکن واپس اپنے ملک جانا انھیں گوارہ نہیں۔ ماضی کے وہ سارے برمی ابھی تک پاکستان کی شہریت سے محروم ہیں جبکہ ان کی تیسری نسل بھی آل اولاد والی ہو گئی ہے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ اس نیک کام میں ان کانام تک نہیں لیا گیا۔ گزارش ہے کہ ان کو بھی اگر اس اسکیم میں شامل کر لیا جائے تو یہ قدم پاکستان کیلئے اور بھی خیر و برکت والا ثابت ہو سکتا ہے۔

بنگالیوں کا ذکر اس لحاظ سے کرنا کہ ان کو پاکستان کا شہری تصور کرتے ہوئے پاکستان کا شناختی کار جاری کرنے کی خوش خبری کے طور پر لیا جائے، میرے لئے نہایت دکھ، رنج اور غم کا باعث بنا۔ کیا بنگالی بھی غیر پاکستانی تھے؟۔ کیا بنگلہ دیش پاکستان نہیں تھا؟، کیا ان کا پاکستان بنانے میں کوئی بھی کردار نہیں تھا؟، کیا وہ مشرقی پاکستان نہیں کہلاتا تھا؟۔ اگر بنگالی، مسلمان اور پاکستانی نہیں تھے اور مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) پاکستان کا حصہ نہیں تھا تو پھر ہماری افواج وہاں کس خطے کو بچانے گئی تھیں؟۔

اس رشتے کو سامنے رکھیں اور سوچیں کہ کیا ان کو مغربی پاکستان میں قدم رکھنے کے ساتھ ہی پاکستان بلکہ سچا پاکستانی سمجھ کر اسی دن پاکستان کا شناختی کارڈ جاری نہیں کردینا چاہیے تھا؟۔ یہ وہ بنگالی تھے جنھوں نے بنگلہ ڈیش کو تسلیم نہ کرتے ہوئے پاکستان کا رخ کیا تھا۔ اگر یہ فرض بھی کرلیا جائے کہ وہ غربت کی وجہ سے پاکستان آئے تھے تب بھی کیا مشرقی پاکستان کے پاکستانیوں کا پاکستان پر کوئی حق نہیں تھا؟۔ آج 50 برس بعد ان سے یہ کہا جارہا ہے کہ وہ خوش ہوجائیں اس لئے کہ ہم ان کو پاکستانی ہونے کی سندیں تقسیم کرنے کا اعلان کر رہے ہیں۔

بنگالی ہی کیا، کیا بہاری جو پاکستان کا ساتھ دینے کی وجہ سے ہی بنگلہ دیش میں ظلم و ستم کا نشانہ بنے ان میں سے بھی ہزاروں ایسے مردوزن ہیں جو آج تک پاکستانی شناختی کارڈوں سے محروم ہیں۔ کیا ان سے سچا اور پکا پاکستانی اور بھی کوئی ہوسکتا ہے جنھوں نے پاکستان کی خاطر دو ہجرتیں کیں پھر بھی پاکستان میں غیر پاکستانیوں کی سی زندگی گزار رہے ہیں۔

بنگالیوں، برمیوں اور بہاریوں کو جتنی بھی جلدی ممکن ہو سکے پاکستان کی شہریت دی جائے اور ساتھ ہی ساتھ چالیس بچاس سال تک ان کے ساتھ جو زیادتی ہوئی ہے اس کا ازالہ کرنے کی بھی کوئی مربوط کوشش کی جائے تاکہ ان کے زخموں، دکھوں، اذیتوں اور غموں کا مداوا کیا جاسکے۔

ماضی کے مشرقی پاکستان اور اب کے بنگلہ دیش میں آباد ساری وہ آبادی جو عرف عام میں بہاری کہلاتی تھی اور جنھوں نے پاکستان بچانے میں اس بات کی پروہ کئے بغیر کہ ناکامی کی صورت میں بنگال کے کروڑوں عوام ان کے ساتھ کیا کچھ نہ کر گزریں گے، اسلام اور پاکستان کی خاطر پاک فوج کے شانہ بشانہ پاکستان بچانے کی جدوجہد میں حصہ لیا تھا اور آج تک وہ پاکستان کے حق میں آواز اٹھانے کی سزا پارہے ہیں، ایسے وقت میں جب پاکستان میں مقیم بنگالیوں کو پاکستانی شاختی کارڈ جاری کرنے کا اعلان کیا جا چکا ہے تو میری موجودہ حکومت سے گزارش ہوگی کہ وہ ان بہاریوں کو جو بنگلہ ڈیش میں پھنسے رہ گئے تھے اور آج بھی وہ اپنے آپ کو پاکستانی کہلانے کی سزا پارہے ہیں، ان کو پاکستان لانے کی منصوبہ بندی کرے۔ مجھے یقین ہے کہ پاکستان کا یہ قدم پاکستان کو اور بھی مضبوط و مستحکم بنا نے کا سبب بن سکتا ہے۔

امید کرتا ہوں کہ میں نے اپنے دل کی جو جو باتیں کھول کھول کر ضبط تحریر کی ہیں، ان پر ارباب اختیار و صاحبان تخت و تاج نہ صرف غور کریں گے بلکہ وہ ان کو عملی جامہ پہنانے کیلئے بھی ضروری اور مثبت قدم اٹھائیں گے۔ اللہ ہم سب کا حامی ناصر ہو (آمین)

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں