نو مور مسٹر پومیو

گذشتہ دنوں امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ مختصر دورہ پر پاکستان تشریف لائے ہوئے تھے۔ان کا آنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں تھی کیونکہ جب کبھی بھی نئی حکومت کا قیام عمل میں آتا ہے تو دنیا میں موجود سپر پاورز اپنے اپنے مفادات کی خاطر اپنی طرف جھکاؤ رکھنے والے ممالک کا دورہ کرتے ہیں ،ایسا ہی ہوا کہ جب سے پاکستان میں ایک نئی پارٹی تحریک انصاف کی حکومت بنی ہے دنیا کے مختلف ممالک کے سربراہان نے دورہ پاکستان میں دلچسپی کا اظہار کیا اور امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ کا دورہ پاکستان بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی،تاہم پاکستانی عوام اور بین الاقوامی مبصرین اس دورہ کو اس لئے بھی مختلف انداز میں لے رہے ہیں کہ سابق حکومتوں کی طرف سے پیش کردہ استقبال اور موجودہ استقبال میں زمین و آسمان کا فرق نظر آیا، استقبال سے الوداع تک مکمل سادگی نظر آئی۔کوئی ایسا پروٹوکول دیکھنے میں نظر نہیں آیا کہ ہٹو بچوکی صدائیں بلند ہو رہی ہوں ،استقبالیہ کے لئے وزرا ،مشیران یا افسران کی ایک فوج ظفر موج موجود ہو،سوٹ بوٹ میں ملبوس سرکار کے نمائندے ہاتھ باندھے غلاموں کی طرح کھڑے ہوں،بلکہ اس سارے دورہ میں سادگی اور سادگی ہی نظر آئی جو اس سے قبل دیکھنے میں کم ہی نظر آتی رہی ہے۔ائیر پورٹ پر کل چار افراد نے ان کا استقبال کیا اور وزیر اعظم سیکرٹریٹ میں ایک سادہ سے کمرے میں ان سے ملاقات کی گئی۔دلچسپ بات یہ بھی دیکھنے میں آئی کہ مہنگے سوٹوں کے مقابلہ میں وزیر اعظم سادہ سے شلوار قمیص میں ملبوس تھے۔بات یہ نہیں کہ یہ سب کیوں کیا گیا ان میں سفارتی ادب و آداب کو ملحوظ خاطر رکھا گیا کہ نہیں بلکہ سیدھی سی بات یہ تھی کہ یہ امریکی حکومت کو دراصل پیغام تھا کہ ہم کیا چاہتے ہیں اور آپ کی ہم سے توقعات کیا ہونی چاہئیے؟
مسٹر پومیو کے دورہ کے بعد امریکی خارجہ آفس سے جو بیان ایک خط کی صورت میں جاری ہوا،ان کے چند اہم نکات یہ تھے کہ سب سے پہلے تو نو منتخب وزیر اعظم کو مبارکباد دی گئی جس کے بعد یہ کہا گیا کہ پاکستان افغانستان کے معاملے میں ہمارے لئے negotiated peace کے لئے اپنا کردار ادا کر سکتا ہے،اور پھر مزید پاکستان علاقائی امن اور استحکام کے لئے بھی ہمارے ساتھ تعاون کرے۔اب اگر ہم علاقائی امن اور استحکام کی ہی بات کو لیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس سے مراد صرف افغانستان ہرگز مراد نہیں ہے بلکہ اس سے مراد افغانستان کے ساتھ ساتھ ہمارے ارد گرد کے تمام علاقے ہیں جہاں جہاں امن اور سیاسی استحکام کی ضرورت ہے مثلا کشمیر،بھارت،بلوچستان اور افغان سرحد کے ساتھ ہماری ایجنسیاں،یہ سب علاقائی مسائل ہیں جن پر پاکستان سے مل کر بات ہو سکتی ہے۔اب اس پورے بیان میں نہ تو دہشت گردی کی بات ہوئی نہ ڈو مور اور نہ ہی کسی اہم مسئلہ پر پاکستان کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا گیا۔المختصر ہمیں وزیر اعظم پاکستان کے مصافحہ کرنے کے انداز سے ہی بطور قوم ہمارے اندر احساس فخر پیدا ہونا چاہئے اور امریکہ کو جان لینا چاہئے کہ بس مسٹر پومیو اب ڈو مور نہیں بلکہ نو مور،اور یہی احساس ہماری فتح کا باعث ہوگا ان شا اللہ۔

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں