نیلامی کی کامیاب ناکامی

            خواب دیکھنے کی عادت ہماری گھٹی میں ایسی پڑی ہے کہ جاکر ہی نہیں دیتی۔ ہم جب بھی کوئی منصوبہ سازی کر تے ہیں مستقبل کے ہرے ہرے خواب دیکھنے لگتے ہیں۔ مجھے خواب دیکھنے کی صحیح تاریخ کا علم تو نہیں لیکن سناہے کہ لگ بھگ ایک صدی قبل، اس سے کچھ کم یا اس سے کچھ سوا، علامہ اقبال(رح) خواب دیکھا کرتے تھے۔ ان خوابوں میں سے بس ایک ہی خواب شاید ایسا تھا جس کا تذکرہ انھوں نے قوم سے کیا اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی فرمایا کہ تھا “دیکھا ہے جو کچھ میں نے اوروں کو بھی دکھلا دے”۔

            انھوں نے مسلمانوں کا ایک ملک بنتے دیکھا لیکن قوم کو وہ کچھ نہیں دکھایا اور بتایا جس میں ان کا فرمان تھا کہ ” دیکھا ہے جو کچھ میں نے اوروں کو بھی دکھلا دے”۔ اب عالم یہ ہے کہ بر صغیر کے تمام ہی مسلمان خوب اچھی طرح جان چکے ہیں کہ ایک الگ ملک حاصل کرنے کے بعد علامہ اقبال (رح) نے وہ سب کچھ کیا دیکھا ہوگا جو آج کے مسلمان اپنی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔

            بس وہ دن اور آج کا دن، ہر پاکستانی خواب دیکھنے کا عادی ہوتاجارہا ہے اور نہ صرف خود عادی ہو گیا ہے بلکہ جو بھی اسے خواب دکھاتا ہے وہ اس کو بھی حقیقت مان کر ہرا ہرا دیکھنے لگتا ہے۔ جب تک وہ ساری ہریالی خزاں زدہ ہوکر بالکل ہی پیلی زرد نہ ہوجائے وہ اسے باغ و بہار سے بھی زیادہ حسین نظر آنے لگتی ہے تاآنکہ ہر جانب سے اسے مکمل مایوسی نہ ہو جائے۔

            بی بی سی کے “عابد حسین” رپورٹ کرتے ہیں کہ ” وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی جانب سے کفایت شعاری مہم کے سلسلے میں وزیر اعظم ہاؤس میں سو سے زائد عام اور لگژری گاڑیوں کی نیلامی منعقد ہوئی جہاں مقامی طور پر تیار کی گئی گاڑیاں تو بک گئیں لیکن لگژری اور بولٹ پروف گاڑیوں کی نیلامی میں حکومت کی توقعات پوری نہ ہو سکیں۔

            منتظمین میں سے ایک محمد آصف نے نیلامی کے آغاز سے قبل خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ حکومت کو امید ہے کہ اس نیلامی کی مدد سے وہ دو ارب روپے اکٹھا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے لیکن اس نیلامی میں حکومت 102 میں سے 62 گاڑیاں نیلام کرنے میں کامیاب ہو سکی جن سے اسے تقریباً پانچ سے چھ کروڑ روپے کی آمدنی ہوئی”۔

            نیلامی کے انعقاد اور اس طرز عمل کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہے لیکن اس عمل کی منصوبہ بندی کے ساتھ ہی یہ “خواب” کہ اس سے حکومت کو 2 ارب روپے سے بھی زائد کی آمدنی حاصل ہو سکے گی، ایک خواب ہی ثابت ہوا۔

            نیلام ہوجانے والی گاڑیوں میں سے بھی دوچار گاڑیاں ایسی تھیں جن کو بولی لگا کر حاصل کرنے والوں کا کہنا تھا کہ بے شک ہم نے انھیں مارکیٹ کی قیمت سے زیادہ میں لیا ہے لیکن اس میں ہم نے جو بات مد نظر رکھی ہے وہ یہ ہے کہ اس رقم سے فائدہ حکومت ہی کو ہوا ہے۔ ایک صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ بات عام مارکیٹ کی نہیں بات یہ ہے کہ ہم وزیراعظم ہاؤس میں استعمال ہونے والی گاڑی لیکر جا رہے ہیں جو ایک اعزاز ہے اور فخر کی بات ہے۔

            بی بی سی کی نیلامی کے اختتام کے فوراً بعد کی رپورٹ کے مطابق “سب سے مہنگے داموں بکنے والی گاڑی 2015 ماڈل کی ٹیوٹا کی بولٹ پروف لینڈ کروزز تھی جس کی نیلامی دو کروڑ 74 لاکھ روپے میں ہوئی۔ اس کے علاوہ مرسیڈیز کی 2005 ماڈل کی چار بلٹ پروف جیپ گاڑیوں کی نیلامی بھی کامیاب ہو گئی لیکن 2016 ماڈل کی ایک بھی لگژری گاڑی بک نہ سکی۔ ان میں سے دو گاڑیاں مرسیڈیز کمپنی کی ’مے بیک‘ تھیں جن کی نیلامی کی قیمت 16 کروڑ روپے متعین کی گئی تھی لیکن کسی خریدار نے اتنی مہنگی قیمت کی وجہ سے ان گاڑیوں میں دلچسپی نہیں دکھائی۔ جب نیلامی کے منتظمین نے اس گاڑی کی قیمت کا اعلان کیا تو وہاں موجود خریداروں نے زوردار قہقہہ لگایا”۔

            جس گاڑی کی قیمت سن کر بولی لگانے والوں کی جانب سے قہقہہ بلند ہوا تھا اس کے خواہشمند سابق رکن اسمبلی اور ماضی میں متحدہ قومی موومنٹ کے رکن خواجہ سہیل منصور بھی نیلامی میں شامل تھے لیکن قیمت سننے کے بعد انھوں نے منتظمین کو اپنا وزیٹنگ کارڈ دیتے ہوئے کہا کہ “جب آپ لوگوں کو خیال آ جائے اور قیمتیں کم کر کے دوبارہ نیلامی لگائیں تو مجھے بلا لیجیے گا، میری جانب سے نو کروڑ روپے آخری بولی ہے”۔

            نیلامی کے دوران ماحول نہایت خوشگوار تھا۔ بولی لگانے والے کوئی موقع، جہاں مزاح کا کوئی پہلو نکلتا ہو، اسے ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔ بی بی سی کے رپورٹر کے مطابق ایک موقع پر جب 2014 ماڈل کی بی ایم ڈبلیو کی سیون سیریز کی نیلامی کی قیمت 11 کروڑ بتائی گئی تو خریداروں میں سے ایک نے کہا کہ “جو کوئی بھی آصف زرداری کا قریبی ساتھی ہے سامنے آ جائے”۔

            اسی طرح ایک موقع پر جب نیلامی میں پرانے ماڈل کی گاڑیوں کی بولی شروع ہوئی تو 1986 ماڈل کی کرولا کو زیادہ قیمت نہیں مل رہی تھی۔ اس پر نیلامی کے منتظم نے کہا کہ خریدار زیادہ بولی لگائیں۔ اس کے جواب میں ایک شخص نے فقرہ کسا کہ’ بھائی 30 سال پرانی گاڑی ہے، کیوں زیادہ بولی لگائیں، یہ تو یہاں سے پارلیمنٹ ہاؤس تک بھی نہیں جائے گی۔

            روزنامہ جسارت میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق وزیراعظم ہاؤس میں گاڑیوں کی نیلامی کا عمل ادھورا رہا۔ نیلامی میں تقریباً2ہزار خواہشمند افراد نے حصہ لیاتاہم زیادہ تر لوگ اصل قیمت کے مقابلے میں ڈیوٹی کی وجہ سے پیچھے ہٹ گئے۔ 102گاڑیوں میں سے62 گاڑیاں نیلام ہوئیں، جن میں 7 بلٹ پروف گاڑیاں بھی شامل ہیں تاہم ابھی20بلٹ پروف گاڑیاں گاہکوں کے انتظار میں ہیں۔ وزیراعظم ہاؤس کی گاڑیوں کی نیلامی کے دوران چند دلچسپ امور بھی دیکھنے میں آئے، تقریباً 10 مرتبہ ایسا ہوا کہ گاڑیوں کی کامیاب بولی دینے و الے حضرات کامیاب قرار دیئے جانے کے بعد یہ کہہ کر انکار کر گئے کہ وہ دی جانے والی ڈیوٹی کو سمجھ نہیں سکے۔ ایک صاحب جو سیالکوٹ سے اس نیلامی میں شرکت کے لیے آئے تھے انہوں نے جس مرسڈیز کی 61 لاکھ روپے کی کامیاب بولی دی اس کے لیے پہلے نہیں بتایا گیا تھا کہ کامیاب بولی والے شخص کو تقریباً ایک کروڑ 40لاکھ روپے کی ڈیوٹی اور کل رقم پر10 فیصد ایکسٹرا بھی دینا ہوں گے بعد ازاں اس شخص نے گاڑی خریدنے سے انکار کر دیا۔

            اسی طرح 2016 ماڈل کی دو بی ایم ڈبلیو جیپ کا بھی کوئی خریدار نہیں تھا اور نہ ہی 1993 ماڈل کی 14 مرسیڈیز ایس 300 کلاس کی گاڑیوں کو کوئی خریدار ملا۔

            یاد رہے کہ عمران خان نے وزیرِ اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد قوم سے خطاب میں کہا تھا کہ وہ ایوانِ وزیرِ اعظم کی 88 لگڑری گاڑیوں کو نیلام کر دیں گے، تاہم حکومت کی جانب سے دو ستمبر کو دیے گئے اشتہار میں صرف 59 گاڑیاں ہی ایسی تھیں جنھیں “لگژری” گاڑیاں قرار دیا جا سکتا تھا اور ان میں سے بھی کئی پرانے ماڈل کی گاڑیاں تھیں۔

            عمران خان کی کہی ہوئی ایک بات کہ وہ “دو” گاڑیوں کے سوا تمام گاڑیوں کو نیلام کر دیں گے، پوری ہوئی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ناکام نیلامی کے بعد مزید نئی، بولٹ پروف اور لگژری گاڑیاں مستقبل میں کسی طور نہیں خریدی جائیں گی یا معاملہ اس کے برعکس ہوگا۔

            جس طرح توقع اور دعوں کے بر خلاف نیلامی سے حاصل شدہ رقم نہایت قلیل ہے اور اس رقم میں ایک معمولی نوعیت کی غیر بولٹ پروف ٹویوٹا بھی نہیں خریدی جا سکتی، نیلامی کا عمل غیر سود مند ثابت ہوا اسی طرح ممکن ہے کہ دیگر منصوبے جن میں حکومت پاکستان کی دیگر املاک کو جس میں وزیراعظم ہاؤس، ایوان صدر، وزیر اعلیٰ ہاؤسز اور گورنر ہاؤسز شامل ہیں اور بلاشبہ یہ کھربوں روپے مالیت کے علاوہ بہت سارے حکومتی امور کیلئے مختص ہیں، اگر ان کے تجربات میں بھی ناکامی ہوئی اور اس سے وہ سب منفعت حاصل نہ ہوسکی جس کی توقع کی جارہی ہے تو یہ ملک کا بہت بڑا خصارا ہوگا۔

            اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسی بڑی بڑی عمارتوں کا اعلیٰ قسم کی یونیورسٹیوں میں بدل جانا ملک کی قسمت بدل سکتا ہے لیکن یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ کیا یہ ساری سرکاری عمارتیں سرکاری یونیورسٹیاں بنائی جائیں گی یا ان کو پرائیویٹ سیکٹرز میں دیدیا جائے گا۔ اگر ان کو پرائیویٹ سیکٹرز میں دیا جائیگا تو اس سے غریب طلبہ کا جو اپنی امتحانی اور داخلہ فیسوں جیسے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے، کیا فائدہ ہوگا اوراس سے قوم کی کیا خدمت ہوگی۔ اگر ان عمارتوں کو سرکاری یونیورسٹیوں میں تبدیل کیا گیا تو ایسا کرنے سے سرکار کو کیا مالی فائدہ ہوگا اور سرکار تعلیم کا مزید بوجھ کیونکر برداشت کر سکی گی؟ نیز یہ کہ متبادل انتظامات کیلئے معمولی سے معمولی عمارتیں کرائے پر حاصل کرکے اگر ان تمام ہاؤسز کو کرائے پر حاصل کیا جائے گا تو کیا حکومت کیلئے یہ ایک اضافی بوجھ نہیں ہوگا؟۔ یہ ایسے معاملات ہیں جن پر بہت ہی سوچ بچار کی ضرورت ہے ورنہ عجلت اور جذباتی انداز میں کئے گئے فیصلے کسی بڑی خرابی کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔ امید ہے ہر فیصلے پر عملاً قدم اٹھانے سے قبل ہرپہلو پر نہایت سنجیدگی اور برد باری سے کام لیا جائے گا اور کسی بھی فیصلے میں وہی کچھ پیش نظر ہوگا جس میں ریاست پاکستان کا مفاد پوشیدہ ہو۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں