تعلیم ضروری ہے مگر۔۔۔

آپ خدیجۃ الکبریؓ کی مثال لے لیں۔ آپؓ مکہ کی مالدار ترین اورجدی پشتی کاروباری خاتون تھیں۔ آپؓ کی امارت اور مال و دولت کا یہ حال تھا کہ آپ ’’امیرۃ القریش‘‘ کہلاتی تھیں۔ آپ کا کاروبار ملک سے باہر تک پھیلا ہوا تھا۔ ہر سال شام، یمن اور ایران میں لاکھوں ’’انویسٹ‘‘کرتیں اور اس سے کہیں زیادہ منافع گھر بیٹھے کماتی تھیں۔
مکہ کی شریف ترین خاتون تھیں۔ سارا مکہ آپؓ کے کردار کی گواہی دیتا تھا۔ ’’طاہرہ‘‘کے نام سے مشہور تھیں۔ ایک سال بطور ’’بزنس  ریپریذنٹیٹو‘‘ انھوں نے اپنا مال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھوں یمن اور شام بھیجا۔ اس دفعہ واپسی پر منافع کا مال بھی ہمیشہ کی نسبت دوگنا تھا اور صاف معلوم ہوتا تھا کہ کسی نے انتہائی ایماندار اور دیانتدار آدمی نے پوری محنت اور لگن کے ساتھ بزنس کیا ہے۔
حضرت خدیجہؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے بے حد متاثر ہوئیں اور اپنے چچا کے ذریعے سے رشتے کا پیغام بھیج دیا۔ سادگی سے نکاح ہوا اور پھر تاریخ اس کے بعد سے آپ کی’’کاروباری زندگی‘‘ کے بارے میں مکمل خاموش ہے۔ حضرت خدیجہؓ نے اپنا سارا کاروبار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے حوالے کیا اور مکمل طور پر خود کو شوہر اور بچوں میں مصروف کرلیا۔ شادی کے بعد حضرت خدیجہؓ ۵۲ سال تک زندہ رہیں لیکن اس دوران آپؓ نے اپنی ذات اور اپنی ہستی کو گھر کے لیے مخصوص کرلیا۔
آپ ام المومنین حضرت عائشہؓ کی مثال لے لیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو کمال کا حافظہ عطا کیا تھا۔ آپؓ رسول خداصلی اللہ علیہ و سلم کی ان تین ازواج میں سے ایک ہیں جنھیں مکمل قرآن پاک حفظ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ازدواجی و خانگی زندگی کے متعلق جتنا بھی علم ہم تک پہنچا ہے وہ حضرت عائشہؓ کا مرہون منت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی میں آپؓ نے سوائے اپنے شوہر کے گھر اور اس کی خدمت کے کوئی بھی دوسرا کام نہیں کیا۔ آپؓ مسلسل نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ رہتیں۔ ان کے کھانے، پینے، اٹھنے بیٹھنے اور سفر و حضر میں شامل ہوتیں۔ ایک باادب اور وفا شعار بیوی بن کر آپؓ نے اپنا لڑکپن اپنے شوہر کے نام کردیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا حضرت عائشہؓ سے تعلق کا یہ حال تھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات ہوئی تو آپؐ کا سر حضرت عائشہؓ کی گود میں تھا اور آخری چیز جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے منہ میں گئی وہ بصورت مسواک آپؓ کا لعاب تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے فوراً بعد حضرت عائشہؓ نے خود کو مصروف کرلیا۔ اکابرِ صحابہ کرام آپؓ کے پاس علم دین سیکھنے آیا کرتے تھے۔ خواتین کی تعلیم کے لیے پہلا ’’مدرسہ‘‘بھی آپؓ نے اپنے گھر میں ہی شروع کیا۔ کم و بیش 53ہزار احادیث کی راویہ ہیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد سے آپؓ نے باقاعدہ سیاسی طور پر بھی معاملات میں حصہ لینا شروع کردیا۔ یہ اسلامی تاریخ میں پہلی دفعہ تھا کہ کسی خاتون نے کھل کر سیاسی تقاریر کرنا شروع کیں۔ آپؓ نے اس مقصد کے لیے باقاعدہ سفر تک کیے اور دین کی خاطرجنگ تک میں شریک ہوگئیں۔ آپؓ نے اپنی بصیرت کے مطابق جس گروہ کو صحیح سمجھا آپؓ نے اس کی حمایت کی اور اپنا وزن اس کے پلڑے میں ڈالا۔
ام عمارہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا غزوۂ احد میں مریضوں کی مرہم پٹی اور زخمیوں کو پانی پلانے والی خواتین میں شامل تھیں۔ اچانک جنگ کا پانسہ پلٹا اور مسلمان بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و سلم چند ساتھیوں کے ساتھ ایک گھاٹی میں محصور ہوگئے۔ حضرت ام عمارہؓ نے جب یہ منظر دیکھا تو اپنے آپ کو مکمل پردہ میں لپیٹا اور گھوڑے پر سوار ہوکر تلوار بازی کا وہ مظاہرہ کیا کہ اس دن انکا ایک ہاتھ کٹ گیا اور جسم پر 12 زخم آئے۔
آپ یہ تمام واقعات ملاحظہ کریں اور ذرا اندازہ کریں کہ مسلمان خواتین کی ’’فٹنس‘‘کا کیا حال ہوگا؟ گھوڑے پر سوار ہوکر جنگ کے میدان میں تلوار چلانا کوئی آسان کام تو نہیں ہے لیکن اس کے باوجود ہماری خواتین نے کمال کردیا۔ حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تھا ’’دین جس گھر کے مرد میں آتا ہے تو گویا گھر کی دہلیز تک آتا ہے لیکن جب دین گھر کی عورت میں آتا ہے تو اس کی سات نسلوں تک جاتا ہے‘‘۔ آپ اسی کو دوسرے نقطہ نظر سے بھی دیکھ سکتے ہیں کہ اگر دین نہ آیا تو پھر کیا ہوگا؟۔
تعلیم کی جتنی ضرورت مردوں کو ہے اس سے کہیں زیادہ خواتین کو ہے۔ ’’فٹ‘‘ رہنا جتنا ضروری مردوں کے لیے ہے اس سے کہیں زیادہ ہماری خواتین کے لیے ہے۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ لڑکیوں کو سوئمنگ سے لے کر ڈرائیونگ تک بلکہ بندوق سے لے کر سائیکل تک سب کچھ چلانا آنا چاہیے۔ آپ سب کچھ سیکھیں، سب کچھ پڑھیں اور سارے شوق پورے کرلیں لیکن بحثیت مسلمان عورت آپ کے دل و دماغ میں یہ بات ضرور رہنی چاہیے کہ آپ کا ’’ڈومین‘‘ آپ کا گھر ہے۔
بہرحال آپ کو دنیا میں نسل نو کی تربیت کے لیے بھیجا گیا ہے۔ آپ اپنی مکمل تعلیم اور شوق کے باوجود کسی کی بیوی اور کسی کی ماں ہیں اور یہی آپ کی زندگی کا اصل مقصد اور وجہ پیدائش ہے۔ آپ کو زندگی میں جب بھی کبھی گھر یا نوکری، شوہر یا کاروبار اور بچوں یا شوق میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے تو آپ گھر، شوہر اور بچوں کا انتخاب کرلیں۔ اللہ آپ کو حضرت خدیجہؓ، حضرت عائشہؓ اور حضرت ام عمارہؓ کی طرح عزت دے گا۔
اپنی ’’ڈگری‘‘، اپنے شوق اور اپنی نوکری کی خاطر اپنے گھر کو جہنم نہ بنائیں۔ جس دن آپ کو یہ احساس ہونے لگے کہ میری وجہ سے میرا گھر جہنم بن رہا ہے۔ آپ سب چھوڑ کر اپنے گھر کو جنت بنانے کی فکر میں لگ جائیں۔ہمیں جتنی ضرورت آج تعلیم یافتہ ماؤں کی ہے پہلے شاید کبھی نہ تھی۔ جتنی ضرورت آج تربیت یافتہ بیویوں کی ہے شاید ایسا پہلے نہ تھا لیکن اب یہ آج کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ آپ ڈگری بھی لیں، نوکری بھی کریں لیکن یہ سب شوق یا مجبوری کی وجہ سے ہو۔ اس کو اپنی زندگی کا حصہ نہ بنائیں۔ تعلیم ضروری ہے مگر ترجیحات اس سے زیادہ ضروری ہیں۔

حصہ
mm
جہانزیب راضی تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں،تعلیمی نظام کے نقائص پران کی گہری نظر ہے۔لکھنے کے فن سے خوب واقف ہیں۔مختلف اخبارات و جرائد اور ویب پورٹل کے لیے لکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں