چندہ

اقبال فرماتے ہیں
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
سر آدم ہے ضمیر کن فکاں ہے زندگی
تحریک انصاف کے چیئرمین اور “نئے” پاکستان کے نئے وزیر اعظم جناب عمران خان صاحب نے اپنے اْن ہم وطنوں سے جو ملک سے باہر بسلسلہ روز گار اپنے پیٹ کی آگ بجھانے اور اپنے بیوی بچوں، بھائی بہنوں، ماں باپ اور لواحقین کی ضرورتیں پوری کرنے کیلئے محض اس لئے وطن اور اپنوں سے دوری کی زندگی گزار رہے ہیں کہ انھیں اپنے ملک میں دووقت کی روٹی بھی میسر نہیں ہوتی تھی، سے اپیل (فریاد) کی ہے کہ وہ ملک کے روشن مستقبل کیلئے اور آنے والے خشک سالی کے عذاب سے بچنے کیلئے اپنی اپنی آمدنیوں سے 1000 ڈالرز ملک میں منتقل کریں تاکہ ڈیم بنایا جا سکے اور آنے والے پانی کے بحران پر بند باندھا جا سکے۔ ملک سے باہر جو پاکستانی ہیں ان کی تعدا 80 یا 90 لاکھ بتائی گئی ہے۔ یہ وہ تعداد ہے جو ملازمتوں پر حاضر ڈیوٹی افراد کی ہے۔ اگر وہ افراد جو اپنے گھربار کے ساتھ مقیم ہیں اور ان کی زیر کفالت ہیں تو ممکن ہے تعدا کروڑ سے بھی تجاوز کر جائے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اتنی بھاری تعداد اگر 1000 ہزار ڈالرز ملک میں منتقل کردیں اور اس عمل کو چند مہینے بھی جاری رکھیں تو پاکستان اس پوزیشن میں آسکتا ہے کہ ایک ڈیم تو کیا کئی ڈیم تعمیر ہو سکتے ہیں جس سیملک میں خوش حالی کا ایک ایسا دور شروع ہوسکتا ہے جس کی صبح کی کوئی شام نہیں ہو سکے گی۔
اپنے ہی ہم وطنوں سے امداد کی اپیل کرنا کوئی گناہ نہیں ہے۔ وطن کے لوگ ہی اگر وطن کی خاطر کوئی قربانی نہیں دیں گے تو پھر کون دیگا۔ لیکن ان کی اس اپیل (گزارش) پر پورے پاکستان میں ایک غلغلہ مچا ہوا ہے اور اب تو وہ لوگ جو عمران خان کے اقتدار میں آنے سے قبل عمران خان کے مداح تھے وہ بھی عمران خان کے اس اقدام سے اس حد تک نالاں ہیں کہ عمران خان پر کھل کر تنقید کر رہے ہیں۔
میں ایسی سوچ کا حامل ہوں جو عمران خان کی اس اپیل پر ناخوش ہونے کی بجائے خوش ہوں اور دعا گو ہوں کہ لوگوں کے دلوں میں جذبہ حب الوطنی اتنا عود کر آئے کہ ہر فرد اپنی بساط سے بڑھ کر وطن کی تعمیر نو میں اپنا حصہ ملائے اور ایک ڈیم ہی کیلئے کیا، پاکستان کی ترقی خوشحالی کیلئے جو بھی کیا جاسکتا ہو وہ کچھ کر گزرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ چھوڑے۔
دنیا میں جو جو ممالک آج فرش سے اٹھ کر عرش کو چھو رہے ہیں ان کے عوام نے اسی طرح قربانیاں دی ہیں تو آج وہ قابل فخر حالت میں موجود ہیں اور باقی ماندہ دنیا ان کی تقلید پر مجبور ہے۔ اگر پاکستان چاہتا ہے کہ وہ ان ہی کے جیسا ہو جائے تو اسے بھی ان ہی راہوں کا انتخاب کرنا ہوگا جن راہوں پر سفر کرکے وہ رشک ثریا و برجیس بنے ہوئے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کی اپیل (گزارش) کسی بھی لحاظ سے قابل تنقید و تنخیص نہیں لیکن ان کو بھی اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ ان کی اس “نیک” اپیل پر لوگ طعنہ زن کیوں ہیں؟۔ یہ طعنہ زنی اگر صرف اور صرف ان کے مخالفین ہی کر رہے ہوتے تو پھر تو کوئی تشویش کی بات نہیں تھی لیکن ان کو سوچنا چاہیے کہ اس تنقید میں خود ان کی پارٹی والے اور وہ صحافی و اینکرز بھی شامل ہیں جو آٹھ دس برسوں سے ان کی تعریفیں کرتے رہے ہیں۔ دشمن کا کام ہی دشمنی ہوتا ہے لیکن اگر دوست بھی تنقید پر اتر آئیں تو وہ بہت ہی سنجیدہ بات ہوتی ہے۔ اگر دوستوں کی باتوں پرغور کرنا چھوڑدیا جائے تو زوال کا آغاز وہیں سے شروع ہوجاتا ہے۔ چاروں جانب خوشامدیوں کا ٹولہ جمع ہوجاتا ہے اور وہ آپ تک حقائق کو پہنچنے سے روک کر “سب اچھاہے” کی خبریں پہنچاکر آپ کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیتا ہے۔
چند ہی ہفتوں میں تنقید کا بازار جو آپ کے خلاف گرم ہوا ہے اس کی وجہ کوئی آپ کے دشمن نہیں، آپ اور آپ کے خوشامدی ہیں۔ آپ نے قوم کو جو جو امیدیں دلائیں تھیں اور جو جو وعدے اور دعوے کئے تھے اور جس پر آپ کے ارد گرد جمع ہونے والے مفاد پرستوں نے ان وعدوں اور دعوں سے سو سو قدم آگے نکل کر قوم کو جو نویدیں آپ کی جانب سے سنائیں تھیں، جب قوم نے ان سارے دعوں اور وعدوں کے خلاف اقدامات دیکھے تو پھر نتقیدوں کے بگولوں کا اٹھنا تو بنتا ہی تھا۔
ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جب حکمران اور حکمران ٹولہ اپنی قوم سے تو قربانیوں کا مطالبہ کرے لیکن اپنے آپ کو خود پیش نہ کرے، بقول آپ خود، اپنے پیٹ پر پتھر باندھنے کیلئے تیار نہ ہو تو پھر اعتراضات تو آیا ہی کرتے ہیں۔
بچت کے سلسلے میں بھی آپ نے جن جن اقدامات کو اٹھایا ہے ان اقدامات کا تعلق بھی “سرکار” سے ہے۔ بیشک ان اقدامات سے قومی دولت کو بچایا جاسکتا ہے لیکن آپ یا آپ کے وزرا میں سے کسی نے بھی اپنی جیب کی جانب رتی برابر بھی کسی قربانی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ وہی گھر ہیں، وہی در ہیں، وہی شاہانہ اخراجات ہیں، وہی بینک بیلینس ہیں اور خزانے اسی طرح بھرے ہوئے جس طرح ماضی میں بھرے ہوئے ہوا کرتے تھے۔
حوالہ دیا جاتا ہے چین کا لیکن اس بات کا ذکر نہیں کیا جاتا کہ اس کے صدور سائیکلوں پر سفر کرتے رہے ہیں اور ایوان صدر سے اپنے اپنے ذاتی گھروں میں عام بسوں کے ذریعے آتے جاتے رہے ہیں۔ ان جیسے حکمرانوں کو عوام سے قربانی مانگنے کی اپیلیں سمجھ میں بھی آتی ہیں اور ان کے ان ہی رویوں کی وجہ سے قوم نے اپنے پیٹوں پر پتھر بھی باندھے ہیں لیکن آپ کی اور آپ کے ساتھیوں کی اپیلیں “خام” ہیں اس لئے کہ آپ میں سے کوئی بھی ایسا دکھائی نہیں دے رہا جو اپنی ذات کی قربانیاں پیش کرنے کیلئے تیار ہو۔
ان ساری باتوں کو سامنے رکھیں تو آپ کو نہ تو قوم کے طعنے تشنے برے لگیں گے اور نہ ہی ان کی جانب سے اٹھائی جانے والی آوازیں سماعتوں پر گراں بار ہونگی۔ قوم کا اعتماد حاصل کرنا بہت ہی ضروری ہوتا ہے اور وہ اعتماد کیسے حاصل کیا جاسکتا ہے اس کیلئے اپنے ہی کسی کالم میں میں نے ایک قصہ درج کیا تھا اس قصے کو ذیل میں دہرا رہا ہوں۔
کسی زمانے میں باد شاہ بھی بہت اچھے ہوا کر تے تھے۔ علم ادب کے دلدادہ، عالموں، عاقلوں اور دانش مندوں کے قدردان۔
تاریخ اس بات سے بھری پڑی ہے کہ جب جب بھی کوئی مشکل در پیش ہوتی، اس وقت کے باد شاہ خود چل کر ایسے لوگوں کے پاس جاتے یا بہت عزت و احترام کیساتھ ان کو اپنے دربار میں بلاتے، عزت کے ساتھ بٹھا تے، اپنا مدعا بیان کرتے، ان سے مشورہ اور رائے طلب کرتے اور جہاں تک ممکن ہوتا ان کے مشورے اور آرا پر عمل کرتے۔۔۔۔۔۔۔آج سے سیکڑوں برس قبل اسی طرح ایک شہزادہ ایک بزرگ کے پاس گیا اور اس کی خدمت میں اپنا مدعا رکھا۔
آپ مجھے یہ مشورہ دیں کہ عوام کو خوش اور مطمئن رکھنے کے لئے حکمرانوں کو کیا کرنا چاہیے۔
اپنی “معیشت” بہتر کرو عوام خوشحال ہوجائیں گے اور خوش رہیں گے۔۔۔۔۔۔۔ بزرگ کی جانب سے جواب آیا۔
بہت خوب، شہزادے نے ان کی بات پر غور کرنے کے بعد خوش ہو کر کہا۔۔۔۔۔ اس کے علاوہ، اس نے مزید سوال کیا
طاقتور فوج بناو، اس سے عوام اپنے آپ کو محفوظ سمجھیں گے اور اطمنان، سکون اور بے فکری کے ساتھ اپنے اپنے فرائض انجام دیں کے۔
شہزادہ بہت خوش ہوا، بہت خوب بہت اچھا مشورہ ہے ، ایسا ہی کیا جائے گا، اس نے جواب دیا۔۔۔ اور کیا کرنا چاہیئے؟
عوام پراپنا اعتماد ہمیشہ قائم رکھنا، کیونکہ اگر عوام کا اعتماد حکمرانوں پر سے اٹھ جائے تو پھر ایسے حکمرانوں کا بہت برا حشر ہوتا ہے۔
شہزادہ ان کی یہ بات سن کر “سن” ہو گیا اور بہت سنجید گی کے ساتھ کہا کہ واقعئی آپ نے جو جو مشورے دیئے ہیں۔ بہت ہی اعلیٰ ہیں اور ایسا ہی کیا جائے گا، یہ کہہ کر وہ اجازت لے کر جانے کے لئے اٹھا لیکن دروازے کے قریب سے مڑ کر کہا کہ اگر ان تینوں میں سے کسی بھی سبب، کسی ایک کو چھوڑنا پڑجائے تو؟۔
بزرگ مسکرائے اور فرمایا کہ “فوج” بنانے کا فیصلہ موخر کردینا، معیشت اچھی ہو تو فوج بعد میں بھی بن سکتی ہے۔
شہزادہ پھر جانے لگا لیکن کچھ سوچ کر دروازے میں ہی رک گیا مگر کچھ کہنے کی جرات نہ ہوئی یہ دیکھ کر وہ بزرگ خود اٹھ کر آئے اور کاندھے پر ہولے سے ہاتھ رکھ کر کہا کہ کہ اگر وسائل ساتھ نہیں دے رہے ہوں تو پھر ’’معیشت‘‘ کو بھی موخر کر دینا لیکن ’’اعتماد‘‘ کو ٹھیس کسی صورت نہیں پہنچانا۔
یہ اعتماد کیا ہوتا ہے؟
ایک گھر کا سربراہ جو خود کھاتا ہے وہی اپنے بیوی بچوں کو کھلاتا ہے، ان سے جھوٹ نہیں بولتا، اس کے کردار میں ایسی کوئی بات نہیں ہوتی جس سے اس کی بیوی، ماں باپ، بھائی بہن اور بچے اس پر شک کر سکیں، رات دن محنت مزدوری کرتا ہے اور جو کچھ کماتا ہے لاکر بیوی کی چھولی میں ڈال دیتا ہے، اس کے لب و لہجے سے کسی کی دل آزاری نہیں ہوتی اور اس کی نگاہوں کے سامنے ایک ہی منزل ہوتی ہے اور وہ ہوتی ہے گھر کی خوش حالی۔
ججز کسی کی موت کی سزا کا حکم لکھ کر قلم توڑ دیا کرتے ہیں۔ کیا نئے پاکستان کی حکومت ملک کی ترقی کو راہوں پر گامزن کرنے کیلئے بزرگ کی بتائی ہوئی ساری باتوں پر عمل کر سکتی ہے؟، کیا دفاعی بجٹ6 ایک دو برس کیلئے موخر کر سکتی ہے؟ اور اگر ایسا نہیں کر سکتی تو بزرگ کی آخری بات “اعتماد” پر عمل کرتے ہوئے بالکل غریب انسان کی سطح تک اپنے ذاتی احوال کو لا سکتی ہے؟۔
اگر ایسا کر سکتی ہے تو قوم کو اپنے ساتھ پائے گی بلکہ خود سے بڑھ کر پائے گی لیکن اگر ایسا نہیں ہے، اپنی ہستیوں کو خاک میں ملاکر گل و گلزار نہیں بنا سکتی بلکہ ہر قربانی قوم سے طلب کرنے ہی کو اپنا وطیرہ بنالینا ہی اصول قراردے دیا ہے تو پھر نہ تو خود کوئی خواب دیکھے اور نہ ہی عوام کو سبز باغ دکھائے۔ جیسے ماضی میں ہوتا رہا ہے ویسا ہی کرتی رہے اسے کون روک سکتا ہے۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں