الجھن کی سلجھن

گالم گلوچ سے تر زبان کٹر کٹر چلی جا رہی تھی۔ تیز آواز سے وہ اپنے بیٹے کو کوس رہے تھے۔ راہ گیر رک رک کر دیکھتے، کون ہے وہ عظیم انسان جس پر مغلظات کی بارش ہو رہی ہے۔ وہ سر جھکائے بیٹھا تھا۔ سر اٹھاتا بھی کیسے؟ تماش بین تھے کہ دکان کے باہر جمگھٹا لگائے کھڑے تھے جیسے کرتب کی ندیا بہہ رہی ہو۔ ”غلطی ہو گئی” اس نے سر اٹھا کر اتنا ہی کہا تھا کہ چٹاخ کی آواز کے ساتھ تھپڑ لگا اور چار انگلیوں کے نشان گال پر ثبت کر کے ہٹ گیا۔ غلطی؟ کیسی غلطی؟ یکے بعد دیگرے تین تھپڑ لگے۔ اس کی آنکھوں سے آنسو کے قطرے گال پر گرے، وہ اٹھا اور مٹھیاں بھینچتا ہوا دکان سے نکل گیا۔ آخر کو وہ بھی انسان تھا۔ عزت نفس مجروح ہوئی تھی۔ چھناک کی آواز کے ساتھ اندر ہی اندر کچھ ٹوٹا تھا۔ مان لیا والد ہیں۔ بہت معزز ہیں لیکن اب اس کا یہ مطلب بھی تو نہیں کہ کسی وجہ یا بغیر وجہ کے سب کے سامنے اپنا اور اپنے بیٹے کا مذاق بنائیں اور یہ کوئی پہلی بار نہ تھی۔ اس سے پہلے بھی کئی بار ایسا ہو چکا تھا۔
ایک بار تو بینچ پر سے انہوں نے اسے گھسیٹا، لاتوں سے مارنا شروع کر دیا تھا۔ جوان خون تھا کب تک برداشت کرتا؟ چلو فقط گالیاں یا صرف مار، وہ بھی اکیلے میں کسی حد تک برداشت کر بھی لی۔ یوں سر راہ سب کے سامنے عزت کا فالودہ فی زمانہ بھلا کون سہہ سکتا ہے؟ فرار کا راستا تلاشنا ہی پڑتا ہے کہ جان کو امان ملے۔ پھر ایسا ہی ہوا اس نے تنگ آکر فرارکا راستا تلاشا اور نکل کھڑا ہوا۔ دن گزرا، سورج غروب ہوا، رات ہوئی اب ’’بچے‘‘ کی فکر کھانے لگی۔ مغرب کی اذان ہو گئی اب تک آیا نہیں۔ خیالات کا جالا بنتا گیا۔ عشاء کا وقت ہو گیا اب تک بیٹا نہیں آیا ضرور کچھ گڑبڑ ہے۔ اب اپنی غلطی کا احساس ہونے لگا۔ ہاں میں نے غلط کیا۔ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ ندامت سے فون اٹھایا، لیکن بیٹے کا نمبر بند جا رہا۔ اب ہاتھ پاؤں پھولنے لگے۔ بیٹے کے دوستوں سے رابطہ کیا لیکن وہاں سے بھی خبر نہ ملی۔ عزیز و اقارب نے بھی نفی میں سر ہلایا۔ گھر پر کہرام سا مچ گیا۔جوان بیٹا غائب ہے۔
ماں الگ پریشان، ہزاروں شبہات ہیں جو سر اٹھا اٹھا کر سامنے آرہے ہیں۔ اور وہ سر جھٹک کر خیالات کو جھٹلاتی ہیں۔ اف! میں نے سوچ بھی کیسے لیا۔ میرے بیٹے کو کچھ نہیں ہوگا۔ بس وہ آنے ہی والا ہو گا۔ وہ اپنے دل کو تسلی دیتیں۔ رات یوں ہی کانٹوں پر گزری، اللہ اللہ کر کے صبح ہوئی روشنی تو آگئی مگر بیٹا تاحال نہ آیا۔ اب باپ راز و نیاز اور غلطیوں پر ندامت سے خدا تعالیٰ سے ڈیل کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ بیٹا مل جائے صدقہ دوں گا۔ دوسری طرف بیٹے کو فکر لاحق ہوئی رات گھر سے باہر رہا۔ والدہ پریشان ہوں گی۔ سو رابطہ کر کے اپنی خیریت کی اطلاع دی۔ میں ٹھیک، سلامتی سے ہوں۔ مجھے ڈھونڈنے کی زحمت نہ کریں۔ یہی آپ سب گھر والوں کے لیے رحمت ہے۔ ابا کو بھی بتا دیں میں ٹھیک ہوں مجھے تلاشنے کی ضرورت نہیں۔ ماں کے رونے پر اتنا ضرور ہوا کہ اس نے اپنا نمبر آن رکھنے کی حامی بھر لی تھی۔ اب باپ بیٹا جی بیٹا جی کر کے ورغلانے کی کوشش کرتے۔ اپنی محبتوں کا ڈھونک رچاتے۔ بتاتے کہ بیٹا میں تیرا باپ ہوں۔ کچھ دن گزرے تو نمبر ٹریس کر کے معلوم کروا ہی لیا بیٹا کہاں ہے۔ اب پھر اسے دم، دلاسے، اب کچھ نہیں ہو گا۔ دیکھ، مجھ سے غلطی ہوئی۔ تو کاروبار چلا، میں کچھ نہیں کہوں گا۔ تو ٹھیک ہے ٹھیک کر رہا ہے۔
بالآخر بیٹا مان جاتا ہے اور ہفتے بعد گھر واپس آتا ہے۔ گھر کے افراد کو سختی سے منع کر رکھا ہے کہ کوئی ایسی بات نہ کریں۔ کچھ نہ پوچھیں۔ بس شکر کریں جو آگیا۔ لیکن وعدوں پر پانی پھر جاتا ہے جب وہ عادت کے موافق حرف غلط ثابت کر کے دوبارہ سے ہاتھ اٹھاتے ہیں اور اس پر خط تنسیخ کھینچ لیتے ہیں۔ خدا نہ کرے وہ بھی آگے سے ہاتھ اٹھا لے تو؟؟ فقط اختلاف رائے سے بے ادب، بدتمیز باور کروا کر دنیا کے سامنے ذلیل کروایا جائے گا۔ لیکن کوئی باپ کو یہ نہ کہے گا کہ صاحب! آپ کی غلطی ہے۔ آپ غلطی پر ہیں۔ طرہ یہ کہ باپ کو مزید شہہ دی جائے گی۔ ہاں ٹھیک کیا۔ یہ بڑا ہو گیا ہے۔ اسے باتیں کرنا آگئی ہیں۔ یعنی بیٹے کی ٹھیک بھی غلط اور اپنا غلط بھی ٹھیک۔ یاد رکھیں تمام تر خرابیاں اسی وقت شروع ہوتی ہیں جب بالکل غلط بات کو درست ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جائے۔ ہم اپنی اولاد کے دلوں میں نفرت، کدورت کا بیج خود بوتے ہیں۔ پھر جب کاٹنے کا وقت قریب آتا ہے تو مچلتے ہیں۔ پھر ہمیں تکلیف ہوتی ہے۔ بچہ پیدا ہوتا ہے وہ تو جنت کے پانی کی مانند پاک ہوتا ہے۔ اس کے معصوم ذہن کو پراگندگی، گھر، اسکول، کالج، مدرسے، معاشرے اور ماحول سے ملتی ہے۔ وہ اسی ماحول میں پروان چڑھتا ہے۔
گھر کی گھٹن، پیار اور شفقت سے محرومی اور جذباتی تشنگی اسے سرکش بناتی ہے۔ دل و دماغ پر لگا سیاہ دھبہ بڑھ جاتا ہے۔ ہم اپنی اولاد سے محبت و اپنائیت سے پیش نہیں آتے، نظر انداز کرتے ہیں تو دوریاں بڑھ جاتی ہیں۔ اولاد متنفر ہوجاتی ہے وگرنہ کون بیٹا باپ کے حکم سے سرتابی کر سکتا ہے؟ بیٹے سے غلطی ہو گئی یا وہ سرکشی پر اتر آیا تو اتنا ڈانٹنے، بات بے بات ٹوکنے، مارنے اور اودھم مچانے سے کیا ہوگا؟ والدین کو سوچنا چاہیے کہ الجھے ہوئے دھاگے ہمارے ہاتھ لگانے سے کہیں اور ہی نہ الجھ جائیں۔ اس لیے اگر آپ الجھن کی سلجھن چاہتے ہیں تو یاد رکھیں: غلطیوں کی اصلاح ایسے تو نہیں ہوتی۔ یوں تو نفرتیں ہی پروان چڑھتی ہیں۔ غلط سے غلط انسان کیلئے بھی اصلاح کا واحد راستہ محبت ہے۔ تنقید اور تلخی چاہے کتنی ہی حق پر کیوں نہ ہو، وہ اصلاح کیلئے کارگر ثابت نہیں ہوتی۔ اپنے رویے پر غور کرتے ہوئے محبتوں کو پروان چڑھانا چاہیے۔

حصہ
mm
مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے عبد الباسط ذوالفقارمختلف سماجی موضوعات پر انتہائی دل سوزی سے لکھتے ہیں،جو براہ راست دل میں اترتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔مختلف اخبارات و جرائد میں ان کے مضامین شایع ہوتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں