حجاب : قیمتی ہونے کا احساس دلاتا ہے‎

یہ ۱۹۹۴ کی بات ہے جب خوشبوؤں کے شہر فرانس میں باحجاب لڑکیوں کے تعلیمی اداروں میں داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی ۔ اس سلسلے میں فرانسیسی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ “حجاب عورت کو کم تری کا احساس دلاتا ہے اور اس نے فرانسیسی معاشرے میں مشکلات پیدا کی ہیں” ۔ اس سے قبل سیکولر ترکی میں حجاب پرجبراً کنٹرول کے احکامات آ چکے تھے۔ بعد ازاں ،یہ معاملات صرف فرانس اور ترکی تک محدود نہ رہے بلکہ مغرب و یورپ کے بیشتر ممالک خصوصاً امریکا برطانیہ جرمنی ڈنمارک اور سری لنکا وغیرہ میں پھیل گئے ۔ ان حالات میں عالمی تحاریک اسلامی کے رہنما یوسف القرضاوی کی سربراہی میں لندن میں ایک بین المذاھب کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں 4ستمبر کو یوم حجاب کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا گیا اس میں امیر جماعت قاضی حسین احمد بھی شریک تھے۔

نائن الیون کے بعد جوں جوں حجاب کی مخالفت میِں تیزی آتی گئی یوم حجاب کی اہمیت بھی بڑھتی گئی۔ آخر وہ دن بھی آ گیا جب جرمنی کی بھری عدالت میں مصری نزاد خاتون کو حجاب لینے کے جرم میں خنجر کے وار کر کے شہید کر دیا گیا۔ مروۃالشربینی کے پاکیزہ لہو نے یوم حجاب کی تحریک میں گویا جان ڈال دی اور اب یہ مہم لاکھوں، کروڑوں دلوں کی دھڑکن ہے۔

     پردہ و حجاب اسلامی معاشرے کے متنازعہ امور نہیں بلکہ ان کے لئے الہامی احکامات بہت واضح ہیں جو سورۃ النور کی آیت   31 اور سورۃالاحزاب کی آیت 59 میں بیان ہوئے ہیں ۔ ان احکامات میں واضح کر دیا گیا ہے کہ” پردے کا حکم اس لئے ہےکہ تاکہ یہ خواتین بحیثیت حیا دار پہچان لی جائیں اور ستائی نہ جا سکیں” ۔ یہاں رب کائنات خود حجاب کو مسلم عورت کی پہچان قرار دیتا ہے ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ حجاب جو عورت کی پہچان ہے اسے چھیننے کی کیوں کوششیں ہورہی ہیں ؟ صرف اس لئے کہ حجاب و پردہ محض شعار ہی نہیں بلکہ ایک نظام اخلاق ہے جومعاشرے میں حیا کی آبیاری کرتا ہے اور عفت کے چلن کو عام کرتا ہے ۔ کون نہں جانتا کہ اسلامی تہذیب کا آغاز ہی شرم و حیا سےہوا ،جب آدم اور حواعلیہاالسلام نے خود کو درختوں کے پتوں سے چھپا کر بے لباسی سے بچنا چاہا ۔ یہی معراج آدمیت اور عروج انسانیت ہے اور بے حیائی شیطان کے واروں میں سے ایک وار ہے ۔ گویایہ مقرس و عفیف حجاب فحش و عریاں تہذیب وثقافت کو ملیامیٹ کرنے کا نام ہے۔

      فطرت کا تقاضا ہے ہر قیمتی چیز ملفوف ہوتی ہے ۔ اسے لوگوں کی نظروں سے بچایا جاتا ہے،تاکہ اس کی قدروقیمت میں کمی نہ ہو۔ ہر مبارک چیز غلاف میں لپیٹی جاتی ہے۔جیسے قرآن پاک ، خانہ کعبہ اور دوسری متبرک اشیاء ۔ عورت بھی خدا کی ایسی تخلیق ہے جسے غلاف یا پردے سے ڈھانکنے کی تلقین آئی ہے ۔ شاعر مشرق ، علامہ اقبال اپنی ایک رباعی میں فرماتے ہیں ۔” اللہ خالق ہے اور حجابوں میں ہے اس نے اپنی صفت تخلیق صرف عورت کو عطا کی ہے، اس لئے اسے بھی حجاب میں رہنا چاہئے اور اپنے اس اعزاز پر فخر کرنا چاہئے۔”

 حجاب سے متعلق یہ غلط فہمی بھی دور ہونی چاہئیے کہ اسلام عورتوں کی  سرگرمیوں کو محدود کرنا چاہتا ہے ۔ رب کائنات نے صلاحیتوں کے لحاظ سے مرد و عورت میں کوئی  تخصیص نہیں رکھی۔ البتہ اسلام ، ترقی کی آڑ میں میں صالح و پاکیزہ تمدن کے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کر سکتا ۔ وہ مرد و زن کے اختلاط ، مخلوط سرگرمیوں کا مخالف ہے۔ اسلام ایسے تمدن کا خواہاں ہے جہاں ہر بری اور فحش نگاہ سے عورت  محفوظ ہو۔ انہیں تحفظ اور مضبوط حصار حاصل ہو۔ اس پاکیزہ تمدن کے اظہار کا اہم ذریعہ حجاب ہے جو عورت کو قیمتی ہونے کا احساس دلاتا ہے۔

حصہ

1 تبصرہ

  1. بہت اچھا مضمون ہے۔ اللہ آپ کو اس سے بھی اچھا لکھنے کا ذوق اور ہمت دے۔ مجھے امید ہے کہ آج کل کے اس بے حجاب دور میں حجاب کی اہمیت کو سمجھانے کی ایسی ساری کوششیں جاری و ساری رہیں گی

جواب چھوڑ دیں