تسخیر پاکستان ایک چیلنج

تحریر: عرفان اقبال، جتوئی
اللہ رب العزت جہاں خالق کائنات ہیں وہیں انھوں نے اس کے سارے نظام کی ساری قدریں اور سارے معاملات اپنے پاس رکھے ہیں۔ وجود باری تعالی ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا۔ یہ ایسی حقیقت ہے جس سے کسی مسلمان کو انکار نہیں۔ ہم مسلمان ہونے کے ناطے اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ تعالی احکم الحاکمین ہے۔ چنانچہ ہر وہ چیز جس کو وجود باری تعالی سے نسبت ملی اس کو ختم کرنا یا نیست و نابود کرنا مشکل تو کیا نا ممکن ثابت ہوا۔ مثلا رسول ﷺ کے دین کو رب تعالی کی طرف سے نسبت حاصل تھی یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ باری تعالی کی سرپرستی تھی۔ تو ہم دیکھتے ہیں کہ کفار قریش کی بیش بہا کوششوں اور کاوشوں کے باوجود بھی یہ دین محمدﷺ نہ صرف پھیلا بلکہ آپ نے یہ بشارت عظمی بھی دی تھی کہ اسلام کا پیغام توحید کی دعوت دنیا کے صحرا و جنگل ہر کچے پکے مکان تک پہنچ کر رہے گی۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا :
نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بھجایا نہ جائے گا
بات صرف اسی دعوت توحید کی نہیں بلکہ معاملہ اس سے بھی تھوڑا آگے چلا گیا۔ تاریخ اسلام میں اگر جرنیل، جری اور جنگجو بہادر کی بات کریں تو حضرت خالد بن ولیدرضی اللہ عنہ ایک خاص مقام کے حامل اسلام کے سپوت نظر آتے ہیں۔ سیف اللہ کا خطاب پانے والے اس عظیم صحابی نے کل ایک سو چار جنگیں لڑی لیکن کسی میں بھی شکست نہیں کھائی۔ نو تلواریں توڑنے کا اعزاز آپ کو حاصل ہے۔ لیکن اس نڈر صحابی کی اگر وفات کو دیکھیں تو ہمیں بستر پر وفات پاتے نظر آتے ہیں۔ جس کی وجہ صرف یہی تھی کہ رسول اللہ صلیﷺ نے آپ کو سیف اللہ کے خطاب سے نوازا تھا۔ چنانچہ اللہ کی تلوار کہلائے جانے کی وجہ سے آپ کی نسبت باری تعالی سے جڑی اور اسلام کے لیے جو جنگ آپ نے لڑی اس میں فتح یاب ٹھہرے۔
اب میں اپنے اصل موضوع کی طرف آتا ہوں۔ اور وہ یہ ہے کہ وجود پاکستان کیسے چیلنج ہے؟ قارئین کرام! قیامِ پاکستان کی بنیاد لاالہ اللہ پر رکھی گئی ہے۔ اب جب تک لاالہ اللہ کا وجود رہے گا تب تک پاکستان کا وجود بھی رہے گا۔ کیونکہ وجود پاکستان کی نسبت لا الہ اللہ سے جوڑ دی گئی ہے۔ اب میں اس بات کو ثابت کرنے کے لیے ایک دو مثالیں دیتا ہوں۔ جب سویت یونین(روس) کو اپنی تجارت اور سمندری اسفار کے لیے بہت مسائل کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ تب ہمیں اس حقیقت سے کوئی خبر نہ تھی کہ روس کیا کرنے والا ہے اور اس کے ارادے کیا ہیں۔ وہ تو کراچی بندرگاہ پر اپنی نظریں جمائے ہوئے تھے یہ وہ حقیقت تھی جس کا علم مالک حقیقی کو تھا۔ چنانچہ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے رب تعالی نے ہماری ملکی اور سیاسی صورت حال تبدیلی کی جس کی بدولت جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء لگا کر ساری حکومت اپنے ہاتھ میں لے لی۔ ہمیں تو کچھ اندازہ نہیں تھا کہ ملکی سالمیت کے لیے ہمارے ملک و قوم کے لیے کون زیادہ بہتر ہے۔ لیکن رب تعالی تو اس حقیقت سے بخوبی واقف تھے۔ چنانچہ جیسے ہی روس نے حملہ کیا جواب میں اسے پسپائی اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔ اور یوں یہ بپھرا ہوا سانپ زخمی حالت میں اپنے اندر سے وسطی ایشیا اور افغانستان سے نکل کر اپنے بل میں جا گھسا۔ دوسری طرف پاکستان کے سیاسی معاملات بتدریج ٹھیک ہوتے گئے۔ اور یوں پاکستان کی گاڑی آہستہ آہستہ جمہوریت کی پٹڑی پر دوبارہ بحال ہو گئی اور سارا سیاسی نظام اپنے محور پہ آگیا۔
اسی طرح شکست سے دوچار ہونے کے بعد روس نے اپنے بڑے مفکرین کا ایک خفیہ وفد پاکستان بھیجا۔ جس کا مقصد یہ تھا کہ روس کی شکست کے اسباب میں پاکستان کا معاشی، معاشرتی اور اقتصادی نظام پر تحقیق کی جائے اور رپورٹ لی جائے کہ آخر وہ کون سے اسباب تھے جن کی بدولت ایک چھوٹا سا ملک اس وقت کی سپر پاورز کے لیے ترنوالہ ثابت نہ ہوا۔ اس وفد نے یہاں سے جاکر سب سے پہلا کام تو یہ کیا کہ وہ دائرہ اسلام میں آگئے۔ رہی وہ رپورٹ جو انھوں نے کی اس کا خلاصہ یہ تھا۔’’پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کے ذرائع آمدن کوئی ایسے خاص نہیں ہیں۔ ہر شخص اس کو لوٹنے اور کھانے کے چکر میں ہیں۔ لیکن پھر بھی ہمیں یہ سمجھ نہیں آئی کہ یہ ملک چل کیسے رہا ہے‘‘؟
وقت کی ٹرین اپنی رفتار میں چلتی رہی اور یوں آہستہ آہستہ تہذیبوں کے تصادم نے زور پکڑنا شروع کیا اور عالمی حالات بھی آہستہ آہستہ تبدیل ہونا شروع ہوئے۔ نتیجتاً امریکی ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ ہوا۔ یوں امریکہ گویا کسی باؤلے کتے کی طرح پاگل ہو گیا۔ اس بار بھی ہمیں اپنے مستقبل کے حالات سے کوئی آشنائی نہیں تھی۔ لیکن ہمارے خالق ہمارے مالک، رب کائنات کفار کی ہونے والی ہر سازش کو جانتے تھے۔ یوں امریکہ دراصل پاکستان پر اٹیک کرنا چاہتا تھا اور اس مقصد کے لیے اسے بہانے چاہیے تھے۔ چنانچہ ان حالات سے پیشگی ایک بار پھر باری تعالی نے ہماری سیاسی پالیسیوں میں دراڑیں ڈالی اور یوں ملک کی قیادت ایک سول کی جگہ ایک فوجی جرنل کے ہاتھ چلی گئی۔ جرنل مشرف نے ملک کی قیادت سنبھالی اور ملکی جغرافیائی معاملات کو سمجھنا شروع کر دیا۔ اس سے قبل کہ امریکہ افغانستان پہ اٹیک کرتا مشرف نے تقریبا چار سال میں ملکی اور خارجہ پالیسیاں سمجھ کر آنے والے حالات سے نمٹنے کے لیے تیار ہو گیا۔ امریکہ افغان وار چلتی رہی آٹھ سے دس سال کے اندر حالات کا دھارا بدلنا شروع ہوا۔ اور یوں افغانستان پر امریکہ کا نام نہاد قبضہ آہستہ آہستہ شکست میں بدلنا شروع ہو گیا۔وقت گزرتا رہا اور یوں پاکستان کی سیاسی صورت حال بہتر سے بہتر ہوتی رہی اور ملک ایک دفعہ پھر اپنی سابقہ روایت اور بنیاد پر استوار ہو گیا۔ قطع نظر اس بات سے کہ ہمارا ملک اندرونی مسائل اور خلفشار کا شکار ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ سرزمیں سایہ خداوندی کے تحت چل رہی ہے۔ اس بات کو واضح کرنے کی دلیلیں تو بہت ہیں۔ مگر آمدم برسر مطلب کے تحت اختصار سے کام لیا ہے۔ یہاں ایک اور بات قابل غور ہے کچھ لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ مشرقی پاکستان جو الگ ہوا تب سایہ خداوندی کہاں تھا۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر بنگلہ دیش کے مقامی لوگ اپنے ملک کو جس مقصد کے لیے وہ بنایا گیا تھا انھی بنیادوں پر جوڑے رکھتے تو شاید اس کا بال بیکا تک نہ ہوتا ۔پاکستان کل بھی لاالہ الا اللہ کی جاگیر تھا پاکستان آج بھی لاالہ الا اللہ کی جاگیر ہے اور جب تک ان شاء اللہ یہ رہے گا لاالہ الا اللہ کی جاگیر رہے گا۔ اس کی تسخیر ممکن نہیں۔
نقش ہے جو دل پہ وہ تحریر پاکستان ہے
لا الہ الا اللہ کی جاگیر پاکستان ہے
اللہ تعالی اس ارض پاکستان کو تاقیامت سلامت رکھے۔ آمین

حصہ

جواب چھوڑ دیں