Leader in Me

اسٹیفن رچرڈ کووے ۲۴ اکتوبر ۱۹۳۲ کو امریکا کی مشہور و معروف ریاست یوٹا کے شہر سالٹ لیک سٹی میں پیدا ہوئے ۔ سائنس میں گریجویشن کرنے کے بعد انھوں نے ایم  بی  اے کی ڈگری حاصل کی اور  “مذہبی تعلیمات” کے موضوع پر ڈاکٹریٹ مکمل کرلی ۔ اسٹیفن رچرڈ کووے جان ہنٹس مین یونیورسٹی  یوٹا میں پروفیسر بھی رہے ۔

۱۹۸۹ میں انھوں نے اپنی شہرہ   آفاق کتاب  “پر اثر لوگوں کی سات عادتیں” تصنیف کر ڈالی ۔ اس کتاب نے دیکھتے ہی دیکھتے کامیابی کے جھنڈے گاڑ دئیے ۔ بے شمار اداروں اور لوگوں کی زندگیوں کو تبدیل کرنے کا سبب بن گئی اور خود اسٹیفن کووے کو بھی بذات خود ایک “ادارے” کی شکل دے دی ۔ بعد ازاں فرینکلن کووے کے نام سے اسی کتاب پر” کارپوریٹ سیکٹر “میں باقاعدہ ورکشاپس شروع ہوگئیں ۔

کمال یہ ہوا کہ ۲۰۰۸ میں اے- بی کومبس لیڈر شپ میگنٹ ایلیمنٹری اسکول ، نارتھ کیرولینا کی پرنسپل مورئیل سمر نے اسٹیفن کووے کی ورکشاپ اٹینڈ کی اور ان کی سات عادتوں کو اپنے اسکول کے بچوں پر “اپلائی” کرنے کی ٹھان لی ۔ ۲۰۰۸ سے ۲۰۰۹ صرف ایک سال میں مورئیل سمر یہ دیکھ کر حیران رہ گئیں کہ ان سات عادتوں نے محض ایک سال کے اندر ہی اندر ان کے اسکول کے بچوں کی عادتوں میں حیران کن تبدیلی پیدا کردی ہے ۔

انھوں نے اپنی یہ” آبزرویشن” اسٹیفن کووے کے سامنے رکھی اور ان سے درخواست کی کہ آپ فرینکلن کووے کا دائرہ کار کارپوریٹ سے بڑھا کر ایجوکیشن میں بھی لے آئیں ۔ طویل غور و خوض کے بعد” ایجوکیشن سیکٹر “میں اسکا نام” لیڈر ان می” رکھ دیا گیا ۔ ۲۰۰۹ سے لے کرآج تک دنیا کے ۵۰ سے زیادہ ممالک کے چار ہزار سے زیادہ اسکولز اب تک “لیڈر ان می” کے تحت خود کو رجسٹر کرواچکے ہیں ۔

۲۰۱۲ مٰیں ورلڈ اکنامک فورم نے ایک اجلاس منعقد کیا جس کا سوال یہ تھا کہ ہمیں مستقبل میں کارپوریٹ میں کس طرح کے لوگ درکار ہیں ؟ اس اجلاس کا لب لباب یہ تھا کہ دنیا کو ۲۰۲۰ تک کام کرنے والی مشینیں اور رٹے رٹائے طوطوں کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ایسے نوجوانوں کی ضرورت ہے جن میں بروقت فیصلہ کرنے کی صلاحیت موجود ہو ، جو لوگوں کے ساتھ مل کر نہ صرف چلنا جانتے ہوں بلکہ آگے بڑھنا بھی جانتے ہوں ۔جو روزانہ کی بنیاد پر دنیا میں آنے والی نت نئی ایجادات اور تحقیقات کی روشنی میں تخلیقی ذہن رکھتے ہوں اور نئی نئی سوچوں کے دروازے کھول سکتے ہوں ۔

“لیڈر ان می” تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کو بھی اسکول کے نصاب حصہ بنانا چاہتا ہے ۔ آپ یقین کریں اسٹیفن کووے نے کوئی بھی ایسی نئی بات نہیں کی ہے جس کا ذکر اور بنیاد آقائے دو جہاںﷺ نے پہلے ہی نہ کردیا ہو ۔ فرینکلن کووے اور “لیڈر ان می” کی خصوصیت یہ ہے کہ انھوں نے ان عادتوں کو انسانی شخصیت میں ڈھالنے کا ایک ایکشن پلان ضرور دے دیا ہے ۔ آئیے ایک نظر ان سات عادتوں پر بھی ڈال لیں ۔

پہلی عادت وہ ہے جو جذباتیت کے بجاےتحمل اور بردباری پیدا کرنا سکھاتی ہے ۔ کسی بھی عمل پر فوری “ری ایکشن” دینے کے بجائے سوچنے پر مجبور کرتی ہے ۔

 دوسری عادت کام کے اختتام اور انجام کو سوچ کر کام شروع کرنے کا سبق دیتی ہے ۔

 تیسری عادت اہم کاموں کو ٹالنے کے بجائے پہلے نمٹانے پر توجہ دلاتی ہے ۔

 چوتھی عادت ہر دوسرے انسان کے لیے بھی جیت اور فتح کی وہی سوچ پروان چڑھاتی ہے جو انسان اپنی ذات کے لئیے سوچتا ہے ۔

 پانچویں عادت لوگوں کی باتوں کو توجہ سے سننا سکھاتی ہے اور جواب دینے کے بجائے دوسرے کو سمجھنے کا احساس دیتی ہے ۔

چھٹی عادت ٹیم ورک اور جڑ کر کام کرنے کا سبق دیتی ہے ۔

 جبکہ ساتویں اور آخری عادت انسان کے دل ، دماغ  ، جسم اور روح کا خیال رکھنے کی دعوت دیتی ہے ۔ کیونکہ بقیہ چھ عادتیں اسی صورت میں آپ کے لئیے کار آمد ہونگی جبکہ آپ کا جسم ، روح ، دل اور دماغ روزانہ کی بنیاد پر تازہ دم ہوگا ۔

اسکول کی در و دیوار پر ، کلاس رومز کے سافٹ بورڈز پر ، اساتذہ اور طلبہ کی زبانوں پر کسی بھی کام کو کرنے یا کروانے کے لیے انھی سات عادتوں کی گردان کروائی جاتی رہے گی  اور جب بچے اپنے اپنے اسکولوں سے فارغ التحصیل ہوکر نکلیں  تو وہ ایک اچھے اور پر اثر انسان بن کر نکلیں نہ کہ صرف گریڈز ، پوزیشنز اور کومپیٹیشن کے ذہن کے ساتھ ۔

۲۰۱۷ میں “لیڈر ان می پروسیس” پاکستان میں بھی آچکا ہے اور  اب تک تیس سے زیادہ اسکولوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لے بھی لیا ہے ۔اگر آپ بھی اپنا کوئی اسکول  چلاتے ہیں تو ذیل میں دئیے گئے نمبروں پر رابطہ کر کے اپنے اسکول کو اس تربیتی پروسیس لیڈر ان می سے جوڑ سکتے ہیں ۔

0333-9299428

0333-9231999

حصہ
mm
جہانزیب راضی تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں،تعلیمی نظام کے نقائص پران کی گہری نظر ہے۔لکھنے کے فن سے خوب واقف ہیں۔مختلف اخبارات و جرائد اور ویب پورٹل کے لیے لکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں