خواب ٹوٹ کر نہیں دے رہا ہے

اکثر ایسا ہوتا ہے کہ خواب میں ایک اور خواب دیکھ رہے ہوتے ہیں اور بیدار ہونے تک نظر آنے والا خواب میں ایک اور خواب ہمیں حقیقت سے بھی زیادہ حقیقی محسوس ہو رہا ہوتا ہے لیکن جب آنکھ کھلتی ہے تو دونوں خواب تسبیح کے دانوں کی مانند بکھر کر رہ جاتے ہیں۔

خواب در خواب اکثر لوگوں نے دیکھے ہونگے لیکن ایک خواب ایسا بھی ہے جس کو 70 دھائیوں سے بھی زیادہ عرصہ ہو گیاہے پھر بھی ٹوٹنے کا نام نہیں لے رہا۔ عالم خواب میں خوابوں کا ایک تسلسل ہے جو ختم ہونے کا نام لینے کیلئے تیار ہی نہیں ہوتا۔

ایک تو وہ خواب ہوتا ہے جو انسان خود دیکھتا ہے لیکن کچھ وہ خواب ہوتے ہیں جن کو دکھانے والا کوئی اور ہوتا ہے۔ اپنے خواب سے تو بیداری ہوہی جاتی ہے خواہ اس ایک خواب میں کتنے ہی اور خواب حقیقت سے بھی زیادہ روشن دکھائی دیئے ہوں لیکن وہ خواب جو اوروں کے دکھائے ہوئے ہوں ان سے بیداری تاقیامت نہیں ہوتی اس لئے کہ خواب دکھانے والا یا والے پہلے خواب کے عبرت ناک انجام کے بعد ایک اور اس سے حسین خواب آپ کی آنکھوں میں سجا دیتے ہیں اور یوں خوابوں کا ایک نہ ٹوٹنے والا سلسلہ شروع ہو جا تا ہے۔

مشہور تو یہی ہے کہ پاکستان کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا۔ ٹھیک ہی دیکھا ہوگا لیکن اس خواب سے بر صغیر میں بسنے والے  مسلمانوں کی آنکھیں کچھ ایسی بھردی گئیں کہ آج دن تک ان کی آنکھوں سے خواب کا خمار جانے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ بات وہیں پر آکر ختم ہوتی ہے جو خواب انسان خود دیکھتا ہے وہ بالآخر ضرور ٹوٹتا ہے لیکن جن کو دنیا دکھاتی ہے انھیں موت ہی ٹوڑے تو توڑے۔

بر صغیر پاک و ہند میں بسنے والے مسلمانوں کی آنکھوں میں علامہ اقبال کا خواب پاکستان کی صورت میں سجایا اور بسایا گیا تھا۔ ایک ملک ہوگا، ایسا ملک جس کا آئین “لاالہٰ الاللہ ہوگا” اور قانون “محمدرسول اللہ” ہوگا۔ مسلمانوں کی آنکھوں میں اللہ اور اس کے رسول کے اس خواب کو اگر جھوٹ موٹ بھی سجادیا جائے تو وہ اللہ اور اس کے رسول کے نام پر اپنا سب کچھ قربان کر دینے کیلئے تیار ہو جاتے ہیں۔ پھر وہ پلٹ کر یہ نہیں دیکھتے کہ ان کی آنکھوں میں خواب ڈالنے والے خود کون ہیں۔ ان کے چہرے، لباس اورکردار کیا ہیں۔ اللہ اور رسول کی محبت ان کے نزدیک دنیا کی ہر شے سے زیادہ قیمتی ہوتی ہے۔ جان، مال، عزت اور آبرو اس محبت کے آگے دھول مٹی بن جایا کرتے ہیں۔ علامہ اقبال کا خواب کیا تھا “صور” تھا جو بر صغیر کے مسلمانوں میں پھونک دیا گیا تھا۔ ہر جانب اللہ اکبر کی صدائیں گونجنا شروع ہو گئیں۔ پورا بر صغیر پاک و ہند اللہ اللہ کے نام سے گونج اٹھا۔ ہر سو ایک ہی نعرہ تھا “پاکستان کا مطلب کیا لا الہٰ الاللہ”۔ اس نعرے کی خاطر عزتیں پامال ہوتی رہیں، گردنیں کٹتی رہیں، گھر جلتے رہے، مال و اسباب لٹتے رہے لیکن قدم اور آگے، اور آگے اور آگے بڑھتے رہے۔

اسی خواب  کے تسلسل میں بر صغیر انڈو پاک کے مسلمانوں نے پاکستان کی سرزمین کو ابھرتے دیکھا، سر زمین بھی کیسی جو مغرب تا مشرق پھیلی ہوئی تھی۔ کاش یہ مغرب تا مشرق کی بجائے مشرق تا مغرب ہوتی تو ممکن ہے کہ لوگوں کے خواب ادھورے نہ رہ جاتے۔

خواب کسی بھی شکل کے ہو سکتے ہیں، سیدھے بھی اور الٹے بھی اسی لئے عموماً سارے خواب الٹے سیدھے ہی ہوتے ہیں۔ اس لئے جو پاکستان (مشرقی)  بڑا تھا وہ چھوٹا دکھائی دے رہا تھا اور جو پاکستان (مغربی) چھوٹا تھا وہ نگاہوں کو نہ جانے کیوں بڑا دکھائی دیتا رہا۔ پھر وہ اتنا بڑا ہوا کہ بڑا پاکستان اس کے آگے اتنا چھوٹا ہو کر رہ گیا جیسے وہ بڑے پاکستان کو نگل ہی بیٹھے گا۔ خواب میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ اچانک مناظر تبدیل ہوجاتے ہیں اور معاملے کی نوعیت کچھ سے کچھ ہوکر رہ جاتی ہے۔

پاکستان بنا تو یوں لگا تعبیر مل گئی لیکن ہوا یوں کہ لا الہٰ الاللہ کی گونج یک دم معدوم ہو کر رہ گئی۔ شاید ایسا ہونا بھی خواب کی حقیقتوں میں سے ایک حقیقت ہوتی ہے۔ خواب میں خواب کا سلسلہ ٹوٹا تو معلوم ہوا کہ اس کو کسی مغربی انداز میں ڈھالا جا رہا ہے۔ یہاں سے خواب ہی کے اندر ایک اور خواب شروع ہو گیا۔ کہا تو یہ گیا تھا کہ آئین لا الہٰ الا اللہ ہوگا لیکن فرنگیوں کے آئین میں مناسب ترامیم کر کے ایک اور وضع کا آئین تراشنا شروع کیا گیا، پہلے خواب میں قانون محمدرسول اللہ کی بجائے مغرب کی نقالی کی گئی اور پھر خواب کا یہ حصہ جوآدھا تیتر آدھا بٹیر تھا اس کو 1956 کا دستور قرار دیکر کوشش کی گئی کہ خواب کا یہ تسلسل حقیقت کا ایسا روپ دھارلے کہ کروڑوں خوابیدہ آنکھیں اسے پہلے خواب کی تعبیر سمجھ کر اسے خواب کی بجائے حقیقت ہی سمجھنے لگیں۔

ایک خواب کے اندر سے دوسرا خواب اور پھر اسی دوسرے خواب کے اندر سے ایک اور تیسرے خواب کا ظہور ہوا۔ خواب دیکھنے والے خوب اچھی طرح واقف ہیں کہ خواب کے رنگ اتنے تیزی سے بدلتے ہیں کہ خواب دیکھنے والا نہ صرف حیران رہ جاتا ہے بلکہ پریشان بھی ہو جاتا ہے۔ بہت حسین مناظر اچانک جہنم بن جاتے ہیں اور ہنسی قہقہے چیخ و پکار کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ دوسرے خواب میں سے ابھرتا تیسرا خواب فرنگی طرز کی آزادی کو بھی نگل بیٹھا اور فوجی آمریت کی شکل میں ظاہر ہوا۔ بظاہر اس خواب میں کوئی ایسی پابندیاں نہیں تھیں لیکن یہ آزادی سونے کی زنجیروں اور جیل کی سلاخوں کو ہیرے موتیوں سے مزین کئے ہوئے تھی۔ کھانے کیلئے سونے کے نوالے تھے اور پلیٹیں چاندی کی تھیں۔ پاکستان نے بے شک بے حد ترقی کی لیکن غلاموں کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ کوئی حرف شکایت لبوں پر نہیں سجائیں ورنہ وہی سونے کی سلاخیں اور زنجیریں لوہا بنا دی جائیں گی اور اس لوہے کو بھی سرخ کر دیا جائے گا۔ اسی خواب کے سلسلے میں ایک بھیانک منظر بھی تھا جو کرفیو، قتل و غارت، اور لوٹ مار کا تھا۔ پھر اسی خواب کا ایک منظر یہ بھی تھا جس میں ایک چھوٹا پاکستان بڑے پاکستان کو اپنے پنجوں میں چکڑے ہوئے دکھائی دیا لیکن اسی کے پس منظر کے اندر نہ جانے کہاں سے ایک لومڑی (اندرا گااندھی) کود پڑی اور جھوٹے بڑے پاکستان کی لڑائی کے بیچوں بیچ پڑے شکار کو لے اڑی۔ خواب کے اس دہشتناک منظر کو دیکھنے والی ہر آنکھ اس حدتک خوفزدہ ہوئی کہ چیخ مار کر بیدار ہونا چاہا۔ لگا تو ایسا ہی کہ ہر آنکھ بیدار ہو گئی ہے لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ اس بھیانک خواب میں سے ایک اورخواب کا سورج طلوع ہوا ہے۔ سسکیاں بھرتا، آنسو بہاتا، زخموں سے چور چور ایک ٹوٹے پھوٹے پاکستان کا سورج۔ درد و غم سے نڈھال پاکستان میں سویلین جمہوریت کا سورج۔ قوم اللہ اور اس کے رسول کی آئین و قانون کو بھول کر ایک مرتبہ پھر اس جمہویت کے آگے سجدہ ریز نظر آئی۔ کاش کہ خواب کے بھیانک منظر کے ساتھ ہی سہی، اس کی نیند کا سلسلہ ٹوٹ جاتا اور وہ حقیقت کی جانب پلٹ جاتی لیکن افسوس صد افسوس کہ اس کی آنکھوں کی نیند اور بھی زیادہ گہری ہو گئی اور وہ اس سویلین جمہویت کے خواب کو حقیقی تعبیر سمجھ بیٹھی۔ خواب میں تو مناظر ایسے ہی ہوتے ہیں۔ کسی ایک منظر کا تسلسل بھی اپنے انجام کار تک نہیں پہنچتا کہ مناظر بدلنے لگتے ہیں۔ کبھی آنکھیں جنت نظیر مناظر دیکھ رہی ہوتی ہیں اور کبھی جہنم کے دروازوں پر دروازے کھلنے لگتے ہیں۔ لیکن ابھرنے والے اس خواب میں ایک منظر بھی ایسا نہیں گزرا جس کو جنت مثال سمجھ لیا جاتا۔ تعصب، قتل و غارت، ہڑتالیں، اغوا، مقتل گاہیں، مخالفین کا قتل، دلائی کیمپ اور ان میں چیختے، گڑگڑارتے، آہیں بھرتے اور سسکیاں لیتے مناظر کے علاوہ خواب زدہ آنکھیں اور کچھ نہ دیکھ سکیں۔

سات آٹھ برس بعد اس خواب کا سلسلہ ٹوٹا تو وعدوں بھرا ایک اور خواب پچھلے خواب کے بطن سے طلوع ہوا۔ قال قال اور اللہ اللہ کرتا خواب، پہلے سارے منظر کو ملیامیٹ کرتا ہوا خواب۔ لوگوں کے دل موہ لینے والا خواب، پاکستان کے مسلمانوں ہی کیلئے نہیں ساری مسلم امہ کو اپنا مدح خواں بنانے والا خواب۔ اس مرتبہ تو ہر آنکھ کو یقین آگیا کہ اس خواب میں جھوٹ کا کوئی شائیبہ تک نہیں ہے نہیں ہے لیکن یہ طویل خواب بھی حقیقت نہ بن سکا۔

یہ خواب ختم ہی ہوا تھا کہ اس کے لاشے سے کئی چھوٹے چھوٹے خوابوں نے سر اٹھا یا، ایک خواب کے بعد دوسرا خواب اور بھر خواب در خواب۔ ان خوابوں کے بعد آگ و خون میں ڈوبے ایک اور طویل خواب نے پاکستانی مسلمانوں کی ساری زندگی اجیرن بنا کر رکھ دی۔ عزتوں اور آبروؤں کے سودے ہوئے۔ ملک گروی ہوا، وطن کی بیٹیاں اور مائیں بہنیں فروخت ہوئیں۔ غیرملکی مفادات کا گڑھ بنا۔ پرائی جنگ کو اپنے ملک پر ایسا مسلط کیا گیا کہ آج تک اس سے نجات کی کوئی راہ سجھائی نہیں دے رہی۔

خوابوں کے یہ مناظر ایک طویل خواب کے بعد ختم ہو کر نہ دیئے اور ایسے ایسے مناظر دیکھنے کا باوجود محو خواب مسلمانوں نے اپنی آنکھیں کھول کر نہیں دیں۔

آسیب زدہ جمہوری ادوار کا آغاز ہو، ایک آیا، دوسرا آیا، تیسرا آیا۔ آنے والے آسیب زدہ جمہوریت پر لہرانے والا آسیب کا سایہ گہرے سے گہرا ہوتا گیا۔ فریب زدہ قوم ایک سے ایک وعدے کا شکار ہوتی گئی۔ وزرائے اعظم بدلتے رہے، ہر آنے والا آسیب زدہ ہوتا رہا، آسیب کے ہاتھ پاؤں جوڑتے جوڑتے اس کے چرنوں میں سجدہ ریز ہو گیا۔ 2008 گیا، 2013 گیا اور اب 2018 میں مدینہ کی ریاست کے خواب سجائے جا رہے ہیں۔ یہی وہ مسلمان ہیں جن کی آنکھوں میں اسلام کے نام پر 1940 میں ایک خواب سجایا گیا تھا۔ اسی نام پر آج تک خواب در خواب سجائے جا رہے ہیں لیکن یہ شیدائیان اللہ اور رسول ہر خواب کو حقیقت اور ہر خواب دکھانےوالے کو اللہ کا بر گزیدہ بندہ سمجھ کر اس کے پیچھے ہو لیتے ہیں۔

میں نے ابتدا میں عرض کیا تھا کہ ایک وہ خواب ہوتا ہے جو انسان خود دیکھے اور ایک وہ خواب ہوتا ہے جو انسانوں کو دکھائے جائیں، دونوں میں زمین و اسمان کا فرق ہوتا ہے۔ جوخواب خود دیکھا جاتا ہے آخر کا اس سے بیداری نصیب ہو ہی جاتی ہے لیکن دوسروں کے دکھائے جانے والے خوابوں سے بیداری ممکن ہی نہیں ہوتی۔

کاش جو خواب علامہ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اس خواب کو انڈو پاک کا ہر مسلمان خود اپنی آنکھوں سے دیکھے ہوئے ہوتا تو پاکستان کے بنتے ہی وہ ایسا بیدار ہوتا کہ اگر کوئی اسے جھوٹے خواب دکھانے کی کوشش کرتا تو وہ اسے نشان عبرت بنا کر رکھ دیتا۔ اس پاکستان میں کسی کو لسانیت کو بنیاد بناکر، علاقائیت کو بھڑکا کر اور کسی بھی قسم کےتعصب کو ہوا دیکر مقصدِ پاکستان کے خلاف کوئی آئین یا قانون بنانے کی جرات نہ ہوتی اور جو بھی ایسا سوچتااس کا قلع قمع کر دیا جاتا۔

جو عمارت جس مقصد کیلئے تعمیر کی جاتی ہے اس کی حرمت، تقدس اور وقار اسی وقت تک برقرار رہتا ہے جب تک اس کو اسی مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا رہے۔ مسجد ہو یا مندر، کلیسا ہو یا کنشت اور مدرسے ہوں یا کھیل کے میدان، ان سب کا استعمال ان کے مقاصد سے تعبیر ہے۔

پاکستان بنا تو اس کو مسجد کادرجہ دیا گیا لیکن پورا پاکستان دیکھ رہا ہے اس مسجد میں جوئے خانے بھی ہیں، تعیش گاہی بھی ہیں ، شرابیں بھی چل رہی ہیں، خواتین اور بچیوں کی عزتیں بھی تاراج ہو رہی ہیں، بینک لٹ رہے ہیں، سودی کاروبار ہو رہا ہے، قتل اور اغوا برائے تاوان بھی ہو رہے ہیں۔ کہنے کومسجد ہی ہے لیکن دنیا کا ہر جرم اسی ممبر و محراب کے نیچے ہو رہا ہے اور مسلمان ہیں کہ خواب سے بیدار ہونے کا نام ہی لیکر نہیں دے رہے ہیں۔

2018 میں مسلمانوں کی آنکھوں میں کچھ اور نئے خواب بھرے گئے ہیں اور مسجد کی ہر گندگی ختم کرکے اسے ریاست مدینہ کا ہم مثل بنانے کا دعویٰ ہے، میں نہ تو اس دعوے کو سچ مانتا ہوں اور نہ ہی جھوٹ۔ خوابوں میں گم تمام مسلمانوں سے اپیل کرتا ہوں خدارا آنکھیں کھول کر یہ ضرور دیکھ لیں کہ ریاست مدینہ بنانے کا دعویٰ کرنے والوں کی شکلیں، لباس، وضع قطع، چال ڈھال، انداز، سوچ و فکر، ان کا علم اور کردار کیا مدینے کومدینہ بنانے والوں کے دیوانوں جیسا لگتا ہے یا بقول قائد اعظم محمد علی جناح، ان کی جیب میں جتنے سکے ہیں وہ سارے کے سارے کھوٹے ہیں۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں