بین الاقوامی دہشت گردی اور اس کا علاج

طاقت طاقت ہی ہوتی ہے اور جس کے پاس بھی طاقت ہو وہ بدمعاشی پر کمر بستہ نہ ہو ایسا ممکن ہی نہیں۔ میرے نزدیک یہ بھی پاگل پن کا ایک خطرناک مرض ہے جو سو فیصد لا علاج ہوتا ہے۔ آپ کسی بھی طاقتور انسان سے اختلاف رائے کر کے دیکھ لیں، وہی چہرہ جو بظاہر نہایت پرسکون، خوش خُلق، مسکان بھرا اور ہنستا ہنساتا دکھائی دے رہا ہوگا اس کے چہرے کا رنگ، آنکھوں کی بناوٹ، لہجہ اور آواز ایک لمحے میں تبدیل ہو جائے گی اور وہ انسانی شکل رکھنے کے باوجود ایک خونخوار درندہ بن جائے گا۔ یہ پاگل پن نہیں تو پھر کیا ہے؟۔

اسلام کہتا ہے کہ سب سے بڑا پہلوان وہ ہے جو اپنے غصے پر سوار ہو جائے۔ غصہ آئے اور تم کھڑے ہوئے ہو تو بیٹھ جاؤ، بیٹھے ہوئے ہو تو لیٹ جاؤ یعنی کیفیت حال کو فوراً تبدیل کرو تاکہ توجہ ٹلے اور کسی بڑی خرابی اور نقصان سے بچا جا سکے۔ یہ سب ہدایات اسی لئے دی گئی ہیں کہ معاشرہ فتنہ و فساد سے بچ سکے۔

اگر آج کل کے حالات پر نظر ڈالی جائے تو پورے معاشرے میں ہی کیا، دنیا بھر میں انسانی چہرے تو اربوں کے حساب سے ملیں گے لیکن ان میں انسان یا انسانیت ڈھونڈے نہ ملے گی۔ درندے ہونے کے ناطے ان میں جو جتنا زیادہ طاقتور ہوگا اتنا ہی بڑا درندہ اور بدمعاش ہوگا۔

انسان انفرادی حیثیت میں ہو یا اجتمائی شکل میں، طاقت اور دہشت کا مظاہرہ کرنے سے کبھی باز نہیں آسکتا۔

طاقت کیا کرتی ہے؟، کمزوروں پر زور چلاتی ہے انھیں اپنا طابع کرتی ہے، ان پر اپنی مرضی مسلط کرتی ہے اور ان پراپنا حکم نافذ کرتی ہے۔ جب تک معاملات زندگی طاقت کی مرضی و منشا کے مطابق چلتے رہتے ہیں، طاقت کا چہرہ نہایت پرسکون، مطمئن اور خوش نظر آتا رہتا ہے لیکن ذرا بھی دائیں بائیں ہونے کی کوشش کی تو وہی چہرہ ایک خونخوار درندہ بن کر کمزوروں کی ہڈیاں تک چچوڑ کر رکھ دیتا ہے۔

کسی ایک گھر، گلی، محلے، گاؤں، شہر یا ملک کے حالات کا تجزیہ کر لیں، ہر جگہ ایک ہی کہانی سننے اور دیکھنے کو ملے گی۔ یہی حال ملکوں اور ملکوں کا ہے۔ ہر چھوٹا ملک کسی نہ کسی بڑے ملک کے حصار میں ہے۔ بین الاقوامی قانون بن چکا ہے کہ جو بھی کمزور ہو وہ اپنے سے زیادہ مضبوط اور طاقتور ملک کی غلامی اختیار کرے بصورت دیگر اس کا وجود خطرے میں پڑسکتا ہے۔

پوری دنیا کا جائزہ لیا جائے تو اس وقت تمام کمزور ممالک امریکہ کے نشانے پر ہیں۔ اس لحاظ سے کہا جاسکتا ہے کہ دنیا کی ایک بہت بڑی طاقت کمزور ممالک پر اپنی بدمعاشی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ اس ساری بدمعاشی اور پاگل پن کا شکار کیونکہ مسلمان ہیں اس لئے وہ سارے پاگل جو پاگل امریکہ سے مقابلے کی پوزیشن میں ہیں وہ خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ یہی پاگل امریکہ اگر مسلمان ممالک کے علاوہ کسی اور کمزور لیکن کفر ا الحاد کی حامل کسی ریاست پر اپنا رعب و جلال دکھانے کی کوشش کرے تو مقابلے کے ممالک کا خاموش رہنا ممکن نہ رہے گا۔

ہر طاقتور، اپنے سے زیادہ طاقتور سے خوف کھاتا ہے اس لئے اس وقت کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا انتا مشکل نہیں کہ طاقتور امریکہ کسی بھی طاقتور ملک سے کسی بھی قسم کی کوئی ٹکراؤ والی پالیسی پر عمل پیرا نہیں ہونا چاہتا اور دنیا بھی سارے خلفشار میں اس لئے خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے کہ دنیا کی ساری اقوام اگر کسی قوم و ملت سے خوف زدہ ہیں تو وہ صرف مسلمان ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کسی بھی مسلمان ملک کو سر ابھارتا نہیں دیکھنا چاہتے جس کی مثال پاکستان اور ایران ہیں۔

بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے ایران پر اقتصادی اور سفارتی دباؤ بڑھانے کے لیے ایک نئی اور اعلیٰ سطح کی ٹیم کا اعلان کیا ہے جس کا نام ’ایران ایکشن گروپ‘ رکھا گیا ہے۔ ایران ایکشن گروپ تہران کے رویے کو تبدیل کرنے اور اس کے ساتھ تجارت کرنے والے دیگر ممالک پر پابندیاں لگانے کے لیے واشنگٹن کی ’زیادہ سے زیادہ دباؤ‘ کی حکمت عملی پر کام کرے گا۔ اس گروپ کی قیادت برائن ہُک ایران کے لیے محکمہ خارجہ کے خصوصی نمائندہ کے حیثیت سے کریں گے۔

بی بی سے کے مطابق مائیک پومپیو کا اس بارے میں کہنا تھا کہ ’تقریباً 40 سال سے تہران کی حکومت امریکہ، ہمارے اتحادیوں، ہمارے شراکت دارو اور ایرانی عوام کے خلاف تشدد کو ہوا دینے اور غیرمستحکم کرنے والے رویے کی ذمہ دار ہے۔‘

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق مائیک پومپیو نے کہا کہ ’ہمیں امید ہے کہ بہت جلد ایک دن ہم ایران کے ساتھ نیا معاہدے کریں گے، لیکن ہم ایرانی حکومت کے رویے میں اندرونی اور بیرونی طور پر بڑی تبدیلیاں دیکھنا چاہتے ہیں۔

امریکہ جو تبدیلیاں ایران میں دیکھنا چاہتا ہے اس کی ایک طویل فہرست ہے جن میں شامی حکومت اور حزب اللہ کی حمایت بند کرنا، جوہری پروگرام کی بندش اور قید امریکیوں کی رہائی شامل ہے۔

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق برائن ہک کا کہنا ہے کہ یہ ٹیم ایرانی رویے کو تبدیل کرنے کے لیے مضبوط عالمی کوشش پر کاربند ہے۔ انھوں نے مزید کہا ہے کہ دنیا بھر میں ہمارے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ قریبی مطابقت چاہتے ہیں۔ امریکہ ایران پر اقتصادی دباؤ بڑھانے کے لیے دیگر ممالک کو ساتھ ملانے کے لیے کوشش بڑھا رہا ہے۔ اس اقتصادی دباؤ میں ایران کی تیل کی تجارت کا کریک ڈاؤن، فنانشل سیکٹر اور شپنگ کی صنعت شامل ہے۔

امریکہ کے اس رویے میں ایک خطرناک خبر یہ بھی شامل ہے امریکہ چاہتا ہے کہ ایران سے تیل لینا بالکل بند کر دیا جائے۔ منصوبہ بندی کے مطابق ایرانی تیل کی خریداری کو کم کرکے اس سال نومبر تک “صفر” کر دی جائے۔ بھارت پہلے ہی ایرانی تیل کی خریداری نصف کر چکا ہے۔ با الفاظ دیگر ایران کی معاشی اور اقتصادی توازن کو ڈانواں ڈول کرکے یا اس کی دھمکی دے کر ایران کو ایک ماتحت ملک بننے پر مجبور کیا جائے۔

ایران کو بھی یہ بات نہیں بھولنا چاہیے کہ سعودی عرب کے شاہ فیصل نے جب امریکہ کا تیل بند کر دیا تھا اور امریکہ کی آدھی ٹریفک روڈ سے غائب ہو گئی تھی اور اس نے مصلحتاً سعودی حکومت کے آگے اپنے گھٹنے ٹیک دیئے تھے تو یہ ایران ہی تھا جس نے اسلامی ملکوں کا ساتھ دینے کی بجائے امریکہ کیلئے تیل کی ترسیل نہ صرف جاری رکھی تھے بلکہ اس کی مقدار کو کئی گناہ بڑھا کر دونوں ہاتھوں سے ڈالر سمیٹے تھے۔ اس وقت اگر وہ اسلامی ممالک کے ساتھ کمر سیدھی کر لیتا تو آج امریکہ اس مقام پر نہ ہوتا جہاں وہ پوری دنیا اور خصوصاً اسلامی ممالک کو آنکھیں دکھا رہا ہے۔

عام طور پر دنیا یہ سوال اٹھاتی ہے کہ اسلامی ممالک نے ایران کو تنہا کیوں چھوڑا ہوا ہے تو جواب یہی ہے کہ خود ایران نے اسلامی ممالک کا ساتھ کیوں نہیں دیا تھا جب اس کا ساتھ امریکہ کی موت بھی بن سکتا تھا۔ جواب الجواب میں ایران کے ساتھ عدم تعاون کا رویہ خود اسلامی ممالک کیلئے نقصان دہ ہے اور ایسا ہر گز نہیں ہونا چاہیے۔ ماضی کو فراموش کرکے مستقبل کی جانب بڑھنا چاہیے لیکن محدود مفادات ایسا کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں جس کا خمیازہ پوری مسلم برادری بھگت رہی ہے۔

ایک جانب ایران کے گرد دائرہ تنگ سے تنگ کیا جارہا ہے اور اس پر پابندیاں در پابندیاں لگائی جا رہی ہیں تو دوسری طرف پاکستان پر بھی دباؤ بڑھتا جاریا ہے۔ پاکستان کو بھی چہار جانب سے گھیرا جا رہا ہے۔ پاکستان کے گرد گھیرہ تنگ ہونا تو یوں بھی سمجھ میں آتا ہے کہ ایک جانب تو امریکہ افغانستان میں جس امن کا خواہاں ہے وہ ممکن ہی نہیں کہ پاکستان کے تعاون کے بغیر مکمل ہو سکے اور دوسری جانب پاکستان ایران، عراق، کویت، سعودی عرب یا افغانستان کی طرح کوئی کمزور ملک بھی نہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ ہماری افواج کا شمار دنیا کی بہترین فوج میں ہوتا ہے جو ہر مشکل اور مسئلوں سے خوب اچھی طرح نمٹنا جانتی ہے اور دوسری جانب اس کی ایٹمی صلاحیتوں کا علم پوری دنیا کو ہے۔ چین سے قربت اس کی طاقت کو تقویت دیتی ہے۔ اقتصادی پابندیاں لگانے سے چین کو اس بات کا موقع مل سکتا ہے کہ وہ امداد دے کر پاکستان میں تو اپنا گھر بنا ہی چکا ہے، پاکستانیوں کے دلوں میں بھی گھر کر سکتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ امریکہ پاکستان پر دباؤ بڑھا تو رہا ہے لیکن اس کا رویہ بہت محتاط ہے۔

طاقت تو طاقت ہی ہوتی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ہر طاقت کی پوجا پاٹ ہی کی جائے۔ مصلحتاً خاموشی اختیار کر لینے اور غلامی اختیار کر لینے میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ یہی وہ نقطہ ہے جس کو مسلم ممالک اور خاص طور سے پاکستان کو سمجھنا بہت ضروری ہوگا۔ اب تک کا جو رویہ سامنے آیا ہے  اس میں غلامانہ انداز بہت ممتاز ہے جو بے حد افسوس ناک ہے۔ اس رویے کو بدلنا ہوگا۔

 طاقت لازوال نہیں ہوتی۔ ہر عروج کو زوال لازمی ہے۔ طاقت سے مقابلہ دو ہی انداز میں ممکن ہے اول یہ کہ طاقت سے زیادی طاقت حاصل کی جائے اور دوئم یہ کہ ایمانی قوت کو خالص کیا جائے۔ اول الذکر ضوری سہی لیکن ایمان کی خالص قوت سب سے زیادہ ضروری ہے۔ تاریخ نہتے، نادار، مفلوک الحال لوگوں کے انقلاب سے بھری پڑی ہے۔ کاش یہ بات ہر مسلمان کی سمجھ میں آجائے تو سارے بین الاقوامی بدمعاشیوں کی بدمعاشی اور دہشتگردی کا بھرم کھل جائے اور روئے زمین پر ان کو سر چھپانے کی کوئی جگہ نصیب نہ ہو سکے۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں