شاباش پاکستان

ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا ایمان ہے کہ ہر کام اپنے متعین شدہ وقت پر وقوع پذیر ہوتا ہے ۔ مشاہدہ کرنے والے لوگ اس بات کو زیادہ بہترانداز سے سمجھ سکتے ہیں کہ کچھ بھی ایک دم سے نہیں ہوتا اور جو لگتا ہے کہ ایک دم سے ہوا ہے اس ہونے کے بعد جب گزشتہ حالات پر نظر ڈالی جاتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ تو ایک طے شدہ نظام کی بدولت رونما ہوا ہے لیکن ہماری سمجھ سے اسے دور رکھا گیا یا پھر ہم نے اسے سمجھنے میں دیر کردی یا ہوگئی۔ انسان جو کر رہا ہوتا ہے وہ بھول جاتا ہے اور جو اچانک سے ہوجاتا ہے اس میں الجھ جاتا ہے ۔ یہ وہ بشری تقاضے ہیں جنہیں ہم کبھی جان بوجھ کر کبھی انجانے میں کرتے چلے جاتے ہیں۔ نڈر وہ ہوتا ہے کہ جو ڈر کی حد پھلانگ چکا ہوتا ہے اور ڈرپوک اسے کہتے ہیں جو ڈرتا چلا جاتا ہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی سے پاکستان کے وجود میں آنے تک کے سفر پر غور کرلیجئے تو ایسا محسوس ہوگا کہ یہ سب کچھ تو پاکستان بنانے کیلیے ہی کیا گیا اور کرنے والی قدرت تھی ۔
عمران خان کی بائیس سال کی جدوجہد دراصل قدرت کی جانب سے سیاسی تربیت تھی ، عمران خان نے ایک نسل کو تیار کیا ہے ایک تازہ اور نئی نسل کی ذہن سازی کی ہے پاکستان کے حقیقی تشخص کو اجاگر کیا ہے اور شاباش پاکستان کہنے والوں کے منہ میں زبان دی ہے اور باطل قوتوں کے سامنے بولنے کا حوصلہ دیا ہے ۔
آپ اسے ہماری خوش فہمی کہہ لیں کیوں کہ لگتا نہیں کہ ہمارے ملک کی سیاسی و جماعتیں پاکستان مخالف ہوسکتی ہیں، ماسوائے ان چند ایک کے جو واقعی کہتے ہیں کہ پاکستان سے علیحدگی چاہتے ہیں۔ اس امر سے تو سب ہی واقف ہیں کہ پاکستان ہے تو ہم سب ہیں۔ اس سوچ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے پاکستان کی تمام جماعتیں انتخابات میں حصہ لیتی ہیں اوراپنا اپنا منشور عوام کے سامنے رکھ دیتی ہیں۔ پاکستان اپنے وجود میں آنے سے ابتک ایسے چلایا جاتا رہا جیسے یہ کسی فرد کے نام پر آلاٹ ہوا پلاٹ ہو یا کسی کی نجی ملکیت ہو۔ پاکستان میں رہنے والے پاکستان سے معلوم نہیں کیسی محبت کرتے رہے ہیں ، کیونکہ جس سے محبت ہوتی ہے اس کی بدنامی کا سبب نہیں بنا جاتا ایسے کسی کام کو پذیرائی نہیں دی جاتی جو محبوب کے خلاف ہوتا ہے ۔ ذرا بتائیں کیا پاکستان کو ساری دنیا میں تضحیک کی علامت نہیں بنا دیا گیا ہے۔ دنیا کے دوسرے ممالک میں مختلف وجوہات کی بنا پر رہنے والے پاکستانی اپنے پاکستانی کہلانے پر شرمندگی محسوس کرتے رہے ہیں۔ زیادہ تفصیل میں جائیں تو ہمارے ملک کے بڑوں بڑوں کے ساتھ دوسرے ملکوں کے ہوائی اڈوں پر کیا کچھ ہوا جس کی وجہ سے خوب جگ ہنسائی ہوئی۔
گزشتہ پانچ سالوں میں پاکستان بغیر کسی بدامنی کا شکار ہوئے اپنی بقاء کی جنگ لڑتا رہا ، جنگ بھی صاحبِ اقتدار سے تھی ، اقتدار بھی چلتا رہا اور یہ جنگ بھی چلتی رہی۔ انصاف اور عدل کی زنجیر بھی ہلتی رہی ایوانوں میں تلخیاں بھی گونجتیں رہیں اوروہ پاکستان کیلیے کچھ بھی تو نہیں کر سکے تھے ۔ جوکچھ کزشتہ چند سالوں میں ہوا اس پر پاکستان خود بھی حیران دیکھائی دیا لوگوں کی ایک قلیل تعداد آج بھی پاکستان کوبیساکھیوں پر چلتے ہوئے دیکھنا چاہتی ہے لیکن اب انہیں اپنی سوچ بدلنی پڑے گی پاکستان کو اپنے پیروں پر چلتے دیکھنا ہوگا اوردل سے شاباش پاکستان کہنا ہوگا۔
ملک نئے دور میں داخل ہونے جا رہا ہے ۔ آج پاکستان کی پندہرویں قانون ساز اسمبلی کے نو منتخب نمائندوں نے حلف اٹھا لیا ہے ۔اب وقت کم اور مقابلہ سخت والی صورتحال درپیش ہے ۔ بہت تیزی سے خارجی اور داخلی امور میں اصطلاحات کرنی ہیں۔
مخالف جماعتیں اپنا مثبت کردار ادا کرنے کے سوائے کچھ اور کرنے کی اہل نہیں ہیں اور یہ لوگ بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ اگر انہوں نے ایسا نہیں کیا تو اگلی بار وہ حلف اٹھانے کی تقریب اپنے گھر کے ڈرائینگ روم میں ٹیلی ویژ ن کی اسکرین پر دیکھ رہے ہونگے اور شائد دل ہی دل میں اپنے کئے پر پچھتا رہے ہونگے۔ آج ہم گنتی میں بیس کروڑ یا بائس کروڑ ہیں لیکن ہم ایک ہیں ہمارے اس ایک ہونے میں ہی تبدیلی پوشیدہ تھی اور دشمن طرح طرح کے ہتھکنڈوں سے ہمیں تقسیم در تقسیم کرتا جا رہا تھا۔ پاکستان کو، کئی بار اقتدار میں رہنے والوں نے مصنوعی میک اپ سے تبدیل کرنے کی بھرپور کوششیں کیں لیکن تبدیلی نہیں لاسکے ہاں البتہ ان کے خاندانی حالات میں دائمی تبدیلی آتی ہی چلی گئی اور یہ تبدیلی اب کہاں پہنچا چکی ہے یہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی۔
پاکستان کی تبدیلی کا انحصار کسی ایک فرد کے تبدیل ہونے پر منحصر نہیں ہے ، تبدیلی تب آئے گی جب ہر ایک پاکستانی دل سے شاباش پاکستان کہتا ہوا سنائی دے گااور اپنے چھوٹے سے چھوٹے عمل میں پاکستان کی محبت کی آمیزش کرے گا۔
۷۱ سال بعد پاکستان ایک ٹیم کی طرح نمودار ہونے جارہا ہے ، انتخابات میں کامیابی سے عروج کی پہلی کرن پھوٹ چکی ہے ، تابناک اجالا ہونے کا وقت آن پہنچا ہے ۔اب کی چودہ اگست ایسی منانی ہے کہ پچھلے سارے ملک سے محبت کے ریکارڈ ٹوٹ جائیں ، پاکستان کے ساتھ کی جانے والی بدعنوانیوں کی توبہ کریں ، پاکستان اور پاکستانیوں سے باہمی ربط قائم کریں دلوں سے نفرتوں کے بیج نکال دیں بلکہ پاکستان کو درختوں کی پودوں کی بہت ضرورت ہے ایک ایک پودا پاکستان سے محبت کی گواہی میں لگادیں۔ ہر شخص یہی کہتا سنائی دے شاباش پاکستان شاباش پاکستان۔
اہل وطن اور وطن سے دور رہنے والے اہل وطنوں کو جشن آزادی دل سے مبارک ہو۔ اللہ پاکستان کو بد عنوانی اور بے ایمانی سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے پاک کردے آمین یا رب العالمین۔
ساحر لدھیانوی کے اس شعر پر مضمون کا اختتام کرتا ہوں کہ
جہانِ کہنہ کے معلوم فلسفہ دانو نظام نو کے تقاضے سوال کرتے ہیں

حصہ
mm
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔

جواب چھوڑ دیں