جاگنے والوجاگومگرخاموش رہو

اگر ایماندارانہ تجزیہ کیا جائے تو اب اس بات میں کسی بھی قسم کا کوئی ابہام نہیں رہا کہ الیکشن 2018 میں صرف اور صرف دھاندلی ہی ہوئی ہے اور کچھ نہیں ہوا۔ الیکشن کیلئے افواج پاکستان کو نگرانی کیلئے طلب کیا گیا لیکن وہ خود کمیشن بن بیٹھے۔ آر ٹی ایس سسٹم کو جان بوجھ کر بند کیا گیا۔ اندر بیٹھے ہوئے پریزائیڈنگ افسران کو کسی بھی معاملے میں دخل اندازی سے منع کر دیا گیا، بولنے کی صورت میں سخت اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں۔ نمائندوں کے پولنگ ایجنٹوں کے احتجاج پر ان کو یا تو یرغمال بنالیا گیا یا پھر پولنگ اسٹیشنوں سے باہر نکال دیا گیا، 17 لاکھ ووٹ مسترد قرار دیئے گئے اور ان مسترد شدہ ووٹوں میں پی ٹی آئی کے ووٹوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں تھی، کچروں، نالوں، گٹروں اور پولنگ اسٹیشنوں میں بکھرے اور پڑے ہوئے ووٹ بھی پی ٹی آئی کے مخالف جماعتوں کے ووٹ تھے اور سب سے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ ووٹوں کی گنتی تک درست نہیں کی گئی جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اب تک جہاں جہاں بھی دوبارہ گنتی کی گئی وہاں نتائج یکسر تبدیل ہوکر رہ گئے اور شاید یہی وجہ ہے کہ فی الحال دوبارہ گنتی کا عمل روک دیا گیا ہے اور اس عمل کو رکوانے کا عمل بھی ملک کی سب سے بڑی عدالت کے حکم پر روکا گیا ہے جس کے متعلق یہ بات طشت از بام ہو چکی ہے کہ وہ اب کہیں سے کہیں تک بھی غیر جانب دار نہیں رہی ہے۔ یہ ہے اس الیکشن کا ایک اجمالی خاکہ جو ملک کے دو معتمد ترین اداروں، عدلیہ اور افواج پاکستان کی نگرانی میں ہوئے۔

ممکن ہے میری اس رائے کو جانبدارانہ سمجھا جائے اس لئے کہ عام طور پر ایسا ہی ہوتا ہے کہ جو پارٹیاں الیکشن میں ہارجاتی ہیں وہ الیکشن کے نتائج کے بعد ایسے ہی الزامات لگاتی ہیں اور پڑھنے والے میری ان آرا کو کسی ہاری ہوئی پارٹی کا نمائندہ سمجھ کر یہی سوچیں کہ لکھنے والے فرد کی ہمدردیاں ہاری ہوئی جماعتوں میں سے کسی کے ساتھ ہونگی۔ بات شاید ان کی بھی غلط نہ ہو اس لئے کہ اس دور میں یہ بات بہت کھل کر سامنے آگئی ہے کہ خواہ کوئی ٹی وی اینکر ہو، صحافی ہو، لکھاری ہو، مبصر ہو، تجزیہ نگار ہو اور حد یہ ہے کہ عدلیہ اور ججز ہوں یا لاانفورسمنٹ ایجنسیوں کے ذمہ داران، سب کے سب کھل کر سامنے آگئے ہیں اور وہ اپنے اپنے شعبوں کی ذمہ داریوں سے زیادہ پارٹیاں بن چکے ہیں۔ لہٰذا کسی کا میرے متعلق کسی بھی قسم کی کوئی رائے بھی قائم کرنا کوئی ایسی بات نہیں ہوگی جو انہونی یا اجنبی ہو۔ میں جس ملک میں ہوں اس ملک کا ہر باسی اب کسی نہ کسی کا ہوچکا ہے خواہ اس کا تعلق ملک کے کسی بھی شعبے یا ادارے سے کیوں نہ ہو۔ جب کسی ملک کا مزاج ایسا ہوجائے تو پھر ملک سے باہر اداروں کی رائے کا وزن بڑھ جاتا ہے۔ اگر دیانتداری سے اس بات کا جائزہ لیا جائے تو پھر یہ بات کہ سنہ 2018 کے الیکشن میں جو اعلیٰ قسم کی دھاندلی ہوئی ہے اس کی دھوم پاکستان سے باہر شاید اس سے کہیں زیادہ دھوم دھام سے مچی ہوئی ہو جو اس وقت ملک میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فافن ہو یا کوئی اور ایجنسی، سب نے ہی اس الیکشن کے نتائج کو خوب آڑے ہاتھوں لیا ہے۔

پاکستان ہی میں کیا، پوری دنیا میں بی بی سی کو ایک قابل اعتماد خبررساں ایجنسی سمجھا جاتا ہے۔ اس کی رپورٹنگ کو سند حاصل ہے کیونکہ اس کی کہی ہوئی کوئی بات بنا تحقیق نہیں ہوتی۔ پاکستان کے الیکشن 2018 پر انھوں نے بے پناہ تنقید کی ہے۔ ضروری نہیں کہ اس میں جھکاؤ نہ ہو لیکن اگر ان کی کہی باتیں درست ہیں تو یہ صورت حال بہت ہی سنگین ہے کیونکہ اس سے ہمارے معتمد ترین اداروں پر حرف آتا ہے اور الزامات غلط ہیں تو الیکشن کمیشن ہو یا ہمارے معتمد ادارے ان کو چاہیے کہ وہ بی بی سی سے ان باتوں کی وضاحت طلب کریں اور حکومت برطانیہ سے مطالبہ کریں کہ ایسی رپورٹنگ پر بی بی سی کے خلاف وہاں کے قانون کے مطابق کارروائی عمل میں لائیں۔ خاموشی اس بات کی علامت ہوگی کہ دال میں کچھ کالا نہیں بلکہ ساری کی ساری دال ہی کالی ہے۔

٭٭٭بی بی سی کے مطابق اس نے 25 جولائی کے عام انتخابات میں دو پریزائیڈنگ افسروں کی رائے لی تو معلوم ہوا کہ دونوں کے مطابق اس روز آر ٹی ایس نظام بخوبی کام کر رہا تھا۔ ایک کے مطابق انھیں نتائج بھیجنے سے روک دیا گیا تھا۔ بی بی سی کے مطابق محمد رمضان (فرضی نام) کو جو ایک سکول ٹیچر ہیں، 25 جولائی کو ملک میں ہونے والے عام انتخابات کے دوران راولپنڈی میں قومی اسمبلی کے ایک حلقے میں پریزائیڈنگ افسر تعینات کیا گیا تھا۔ اس دن ان کے پولنگ سٹیشن پر کیا ہوا، اس بارے میں وہ خود اپنی روداد سناتے ہیں۔ ’مجھے24 جولائی کو رات دس بجے کے قریب فون آیا جس پر کوئی نمبر تو نہیں دکھائی دے رہا تھا صرف اس پر ’ان نون‘ (نامعلوم) لکھا ہوا تھا۔ فون کرنے والے نے اپنا نام بتایا اور کہا کہ وہ الیکشن کمیشن سے بات کر رہا ہے۔ میں نے کہا جی حکم کریں تو اس نے کہا کہ پولنگ چونکہ صبح آٹھ بجے شروع ہونی ہے اس لیے وہ کوشش کریں کہ دو ڈھائی گھنٹے پہلے پولنگ سٹیشن پہنچ جائیں تاکہ انتظامات کا جائزہ لیا جا سکے۔ حکم کی تعمیل کرتے ہوئے میں دو گھنٹے پہلے اپنے پولنگ سٹیشن پر پہنچ گیا۔ پہلے تو وہاں پر موجود پولیس اہلکاروں نے وقت سے پہلے اندر جانے کی اجازت نہیں دی لیکن جب اندر سے سکیورٹی اہلکار آئے تو وہ مجھے اندر لے گئے۔ جس عمارت میں پولنگ سٹیشن بنایا گیا تھا وہ ایک سکول کی عمارت تھی۔ میں جب اس عمارت میں داخل ہوا تو سوچا کیوں نہ اس علاقے کا دورہ کر لیا جائے جہاں مردوں کا پولنگ سٹیشن بنا ہوا ہے۔ چنانچہ سکیورٹی اہلکار بھی میرے ساتھ ہو لیے۔ اس دورے کے دوران میں نے دیکھا کہ اس عمارت کے اندر سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہوئے تھے لیکن اکثر کیمروں کا رخ آسمان کی طرف تھا جبکہ ایک دو کیمروں کے اوپر کپڑا ڈالا گیا تھا۔ یہ وہ کیمرے تھے جن کا رخ اس جانب تھا جہاں پولنگ سٹاف اور پولنگ ایجنٹوں نے بیٹھنا تھا۔ جب میں نے ان کیمروں پر ڈالے گئے کپڑوں کے بارے میں پوچھا تو سکیورٹی اہلکار نے اس بارے میں لاعملی کا اظہار کیا۔ جب میں نے ان کیمروں کی تصویر لینے کی کوشش کی تو ایک سکیورٹی اہلکار نے مجھے سختی سےایسا کرنے سے منع کیا  اور کہا کہ سر جی بس اپنے کام سے کام رکھو۔ پولنگ کے عمل کو تین گھنٹے گزرے تو سکیورٹی اہلکار میرے پاس آیا اور رازداری کے انداز میں پوچھا کہ لوگوں کا کس امیدوار کو ووٹ ڈالنے کا رجحان زیادہ ہے۔ اس پولنگ سٹیشن پر جب ڈالے گئے ووٹوں کی گنتی کا عمل شروع ہوا تو پولنگ ایجنٹوں کو اس ڈبے کے قریب نہیں آنے دیا گیا جس میں ووٹ ڈالے گئے تھے بلکہ اُنھیں دس فٹ دور بیٹھنے کا کہا گیا۔ اس دوران مسلم لیگ ن کے امیدوار کے پولنگ ایجنٹ نے اعتراض کیا تو سکیورٹی اہلکار نے اپنے افسر کو فون کیا اورکچھ دیر کے بعد چار پانچ سکیورٹی اہلکار وہاں آئے اور پولنگ ایجنٹوں کو سخت الفاظ میں کہا گیا کہ جس طرح کہا جاتا ہے اسی طرح عمل کریں ورنہ ان کے لیے ٹھیک نہیں ہو گا۔ کچھ دیر کے لیے پولنگ ایجنٹوں کو کمرے سے نکال دیا گیا اورڈبوں کو ایک کمرے میں تقریبا آدھ گھنٹے کے لیے رکھ دیا گیا۔ اس دوران سکیورٹی کی دو گاڑیاں پولنگ سٹیشن کے اندر آئیں بھی۔ یہ نہیں معلوم تھا کہ کتنے ڈبے کمرے کے اندر رکھے گئے اور جب نکالے گئے تو کتنے تھے۔ تاہم الیکشن کمیشن کے ترجمان ندیم قاسم نے بی بی سی کو بتایا کہ بیلٹ باکس ہر وقت پریزائڈنگ افسر کی نگرانی میں ہونے چاہیے تھے۔ “سکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ پریزائڈنگ افسر کی موجودگی اس لیے ضروری ہے کہ کہیں کسی امیدوار کا پولنگ ایجنٹ انتخابی ریکارڈ یا پریزائڈنگ افسر کو نقصان نہ پہنچائے۔ کچھ دیر کے بعد پولنگ ایجنٹوں کو کمرے میں آنے کی اجازت دی گئی اور میں نے وہ تمام ڈبے خالی کیے جن میں ووٹ ڈالے گئےتھے۔ پولنگ ایجنٹوں کو دور سے ہی ایک ایک کرکے ووٹ دکھائے۔ اتنے فاصلے سے صرف یہ تو نظر آتا تھا کہ کس انتخابی نشان پر مہر لگی ہوئی ہے لیکن اگر اس کی سیاہی کسی دوسرے نشان پر چلی گئی ہو تو یہ نظر آنا تھوڑا مشکل تھا۔ سکیورٹی اہلکاروں کی موجودگی میں کسی پولنگ ایجنٹ نے اونچی آواز میں بات بھی نہیں کی۔ جب ووٹوں کی گنتی مکمل ہوگئی اور میں فارم 45 پر کر کے نتیجہ تیار کرنے لگا تو سکیورٹی اہلکار میرے پاس آیا اور کہا کہ سر ابھی یہ تیار نہ کریں جب کہا جائے گا تو پھر تیار کریں۔ اس دوران سکیورٹی اہلکار نے اپنے کیمرے سے رزلٹ کی تصویر کھینچی اور تھوڑی دیر کے لیے وہ وہاں سے چلا گیا۔ میں نے غصے میں آکر ایک سادہ کاغذ پر رزلٹ تیار کر کے پولنگ ایجنٹوں کو دینے کی کوشش کی تو مجھے روک دیا گیا۔ رات 12بجے کے قریب اس پولنگ سٹیشن کا نتیجہ آر ٹی ایس کے ذریعے الیکشن کمیشن کو بھیجنے کی اجازت دی گئی۔ اس پریزائیڈنگ افسر کے بقول اس کا آر ٹی ایس نظام ٹھیک تھا لیکن اسے فوری نتیجہ بھیجنے کی اجازت نہیں تھی٭٭٭۔

وہ ساری عبارت جو “اسٹیرک” یعنی ٭٭٭ کے درمیان درج کی گئی ہے وہ حرف بحرف وہی ہے جیسا کہ بی بی سی اردو کی ویب سائیڈ میں درج ہے۔ اس رپورٹ میں اور بھی بہت سارے سنگین الزامات ہیں جس کو مصلحتاً درج نہیں کیا گیا۔ صرف ان باتوں کو درج کیا گیا ہے جو پاکستان میں کافی کہی جارہی ہیں یا “فافن” کی رپورٹ میں موجود ہیں۔

یہ اور ایسی ہی بہت ساری باتیں جو اور بہت سارے مصدقہ ذرائع سے موصول ہوتی رہی ہیں اور اب تک ان کا سلسلہ جاری ہے، تحقیق طلب ہیں جن پر ایک غیرجانب دارانہ کمیشن کے قیام کی ضرورت تو ہے لیکن “کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں”۔ جو کمیشن بھی بیٹھتا ہے وہ آزاد اور غیرجانب دار نہیں ہوتا جس کی وجہ سے یا تو تحیقات “مرضی” کے مطابق ہوتی ہیں یا اگر کوئی جرات مند حقیقت حال لکھ ہی جائے تو وہ کبھی پبلک نہیں کی جاتی۔ یہی اس ملک کا المیہ ہے جو اس کو تباہی و بربادی کی جانب دھکیلے لئے جارہا ہے لیکن جو بھی اس ملک کے کرتا دھرتا ہیں انھیں ان باتوں سے کوئی سروکار نہیں۔ بس اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائے۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں