ہم کجا وہ کجا

چہرے کا پردہ ایک ایسا حکم ہے جس سے سراسر انکار ارتداد میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ کسی واضح حکم پر عمل نہ کرنا ایک قابل تعزیر جرم ہے لیکن کسی واضح حکم کو ماننے سے انکار کردینا کفر میں آتا ہے۔ کفر یا انکار کا مطلب “رد” ہے جس کا مطلب ارتداد ہے ۔ اسلام کے کسی بھی حکم کا انکار کرنے والا مرتد کہلاتا ہے جس کی سزا گردن زدنی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔

افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہم یہ تو کہتے ہیں کہ اللہ کے بندے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے قانون کے مطابق زندگی گزارنے اور اس کے احکامات پر عمل پیرا ہونے کیلئے تیار نہیں۔ ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز

چراغ مصطفوی سے شرار بو لہبی

روز ازل نیکی و بدی ایک دوسرے سے بر سر پیکار ہیں بلکہ یوں کہنا زیادہ درست اور صحیح ہوگا کہ نیکی سے بدی ٹکراتی چلی آرہی ہے اور بدی کی ہر ممکن کوشش یہی رہی ہے کہ نیکی کے تمام نور کو تاریکی و ظلمات میں بدل کر رکھ دے۔ نیکی کی روشنی کو قائم و دائم رہنا ہے بلکہ آخر کار اس کو اس طرح چھا جانا ہے کہ کائینات کے کسی بھی گوشے میں تاریکی کا کوئی نام و نشان تک باقی نہیں رہے۔ یہ ایک ایسی عالم گیر سچائی ہے جس سے مفر ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب جب بھی روشنیوں پر تاریکی و ظلمات کا حملہ ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی جانب سے کوئی نہ کوئی روشنیوں کا شیدائی کھڑا ہوجاتا ہے اور وہ کفر و الحاد کے طوفان کے سامنے چٹان کی طرح ڈٹ جاتا ہے۔

خواتین کا پردہ کرنا، اپنی زینتوں کو پوشیدہ رکھنا، اپنے حسن و جمال کو رال ٹپکاتی نظروں سے بچا کر رکھنا خود ان کیلئے تو ضروری ہے ہی ساتھ ہی ساتھ معاشرے کو بگڑنے سے بچانے کیلئے بھی بے حد ضروری ہے۔ خواتین کو اچھی طرح معلوم ہونا چاہیے کہ اسی معاشرے میں صرف غیر ہی نہیں رہتے خود ان کے بھائی، باپ، چچا، ماموں، تایا، پھوپھا، بھتیجے، بھانجے اور سب سے بڑھ کر ان کے شوہر اور بچے بھی اسی معاشرے میں پر ورش پا رہے ہوتے ہیں۔ معاشرے کے بگاڑ کی صورت میں صرف یہی نہیں ہوگا کہ وہ غیر محفوظ ہوجائیں گی بلکہ ان کے سارے مرد معاشرے میں برباد ہو کر رہ جائیں گے۔ مردوں کی اخلاقی بربادی گھرکے اندر تک داخل ہوجائے گی اور پھر ہوگا یہ کہ گھرمیں بہنوں، ماؤں، بیٹیوں اور بہوئوں تک کی عزت محفوظ نہیں رہ سکے گی۔

کسی معاشرے کو گندا کرنا ہو، تباہ و برباد کرنا ہو اور اس کو ہلاک کرنا ہو تو وہاں قتل و غارت گری کرنے سے کہیں زیادہ خطرناک کام اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ وہاں کی خواتین میں شرم و حیا کو مٹا کر رکھ دیا جائے۔ آج یورپ اور امریکہ میں کیا ہو رہا ہے اور معاشرہ اخلاقی انحطاط کا کس بری طرح شکار ہو کر رہ گیا ہے اس کا اندازہ دنیا میں بسنے والے ہر فرد و بشر کو بہت اچھی طرح ہے لیکن عالم یہ ہے کہ کوئی پلٹنے کیلئے تیار و آمادہ نظر نہیں آرہا۔

رواں ماہ میں ڈنمارک میں ایک قانون پاس ہوا ہے جس میں خواتین کا چہرہ ڈھانپ کر کسی بھی پبلک مقام پر آنا جانا قابل گرفت و تعزیر قرار دیدیا گیا ہے اور ایسی خواتین جو اس قانون کی خلاف روزی کی مرتکب پائی گئی ہیں ان پر ہزاروں روپے جرمانے لگادیئے گئے ہیں۔

بی بی سی نے اپنی ایک رپورٹ میں بیان کیا ہے کہ 5 اگست کو لکھے گئے اپنے کالم میں “بورس جانسن” نے ڈنمارک میں نافذ کیے گئے اس نئے قانون کا ذکر کیا تھا جس کے تحت ملک میں چہرہ چھپانے یا نقاب پہننے پر پابند عائد کر دی گئی تھی۔

انھوں نے اپنے مضمون میں لکھا کہ وہ ڈنمارک کے نئے قانون کے حامی نہیں ہیں لیکن انھوں نے برقع پہننے والی مسلمان خواتین کا مذاق اڑاتے ہوئے انھیں “بینک ڈاکو” اور”ڈاک خانہ” قرار دیا تھا۔ ساتھ ساتھ انھوں نے مزید یہ بھی لکھا کہ وہ اپنے حلقے کے عوام سے ملاقات کے دوران ان سے توقع کرتے ہیں کہ وہ نقاب ہٹا کر بات کریں۔

ڈنمارک کوئی اسلامی ملک نہیں، ان کو حق ہے کہ وہ جس قسم کا قانون بنانا چاہیں بنائیں لیکن دنیا کے ہر ملک میں مختلف الخیال لوگ آباد ہوتے ہیں اور ہر ملک میں کئی کئی مذاہب کے حامل افراد پائے جاتے ہیں۔ اس بحث سے ہٹ کر کہ وہ اکثریت میں ہوتے ہیں یا نہایت اقلیت میں، لیکن دنیا کا ہر ملک اپنے اندر رہنے والی اقلیتوں کا خیال رکھتا ہے اور قوانین وضع کرتے ہوئے ان کے بہت سارے حقوق کا خیال رکھتا ہے جس میں مذہبی رسومات و عقائد کو خاص طور سے بڑی اہمیت دی جاتی ہے۔ لیکن معلوم نہیں کیوں دنیا میں دوسرے مذاہب کو تو بہت فوقیت دی جاتی ہے اور ان کے مذہبی حقوق کاخیال رکھا جاتا ہے لیکن جب بات اسلام کی آتی ہے تو دنیا ان کے عقائد کو تاراج کرنے میں ذرا بھی تامل سے کام نہیں لیتی۔ کچھ ایسا ہی ڈنمارک میں مسلم خواتین کے ساتھ پیش آرہا ہے اور ان کے پردہ کرنے سے قانوناً منع کیا جارہا ہے۔

اگر ایماندارانہ انداز میں دیکھا جائے تو اس قانون کے خلاف مسلم امہ کو سخت احتجاج کرنا چاہیے تھا اور دنمارک کی حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہیے تھا کہ وہ ایسے قوانین وضع کرنے سے باز رہے اور اگر کوئی قانون اسلامی نقطہ نظر سے خلاف شرع بن گیا ہو تو اس کی تنسیخ کر دینی چاہیے لیکن افسوس تو یہی ہے کہ ایسا کچھ کسی بھی مسلمان ملک کی جانب سے نہیں ہوا۔

جیسا کہ میں نے کہا کہ نور حق کو پھیلنے سے روکنے کیلئے ازل سے ہی ظلمتِ کفر و شر بر سر پیکار رہی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کسی نہ کسی کو ان کی شرارتوں سے بچانے کیلئے کھڑا کر دیتا ہے۔ جس بات پر مسلم ممالک میں ایک بیداری ہوجانی چاہیے تھی بے شک نہیں ہوئی لیکن “بورس جانسن” کے اس اداریہ کو ان ہی کے ملک میں تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق “بورس جانسن” کے اس کالم پر برطانوی وزیر اعظم نے ان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انھوں نے جماعت کے چئیرمین برانڈن لوئیس کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ اس کالم پر بورس جانسن کو معافی مانگنی ہوگی کیونکہ اس سے مسلمان برادری کی دل آزاری ہوئی ہے۔  یہی نہیں، بی بی کے مطابق  کنزرویٹو مسلم فورم کے لارڈ شیخ نے بھی وزیر اعظم کی تنقید کے بعد زور دیا ہے کہ بورس جانسن کے خلاف کاروائی کی جائے اور ان کو پارٹی کے عہدے سے ہٹایا جائے۔  تاہم بورس جانسن نے ابھی تک معافی کی کسی بات کو قبول نہیں کیا بلکہ اس کے برعکس اپنے مؤقف پر ڈٹے رہنے کوترجیح دے رہے ہیں۔ بی بی سی کے پروگرام نیوز نائٹ سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ “ان سے چابک لے لینی چاہیے۔ وہ کوئی مافوق الفطرت شخص نہیں ہیں۔ وہ صرف پارٹی کے ایک رکن ہیں اور جماعت کے چئیرمین اور وزیر اعظم کے پاس پورا حق ہے کہ وہ ان سے ’وہپ‘ لے لیں اور میں یہی دیکھنا چاہتا ہوں”۔

رپورٹ کے مطابق کنزرویٹو جماعت کے سابق چئیرمین ایرک پکلز نے بھی زور دیا کہ بورس جانسن اپنے بیان پر معافی مانگیں۔

تشویشناک بات یہ ہے بورس جانسن کے کے بیان سے  برطانیہ میں اسلام مخالف قوتوں کو تقویت مل سکتی ہے اور وہاں پر موجود ایسے عناصر جو مسلمانوں کے مخالف ہیں ان کے رویوں میں شدت آسکتی ہے۔ جب برطانوی وزیر اعظم سے پوچھا گیا کہ کیا بورس جانسن اسلام کے خلاف ہیں تو انھوں نے برہ راست اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا البتہ انھوں نے کہا کہ جو بھی اس معاملے میں کچھ کہے اسے بہت سوچ سمجھ کر کوئی بات اپنے منھ سے نکالنی چاہیے اور لفظوں کا چناؤ خوب سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے۔

کنزرویٹو پارٹی کی سابق چیئرمین سعیدہ وارثی نے بھی بورس جانسن کو آڑے ہاتھ لیا اور کہا کہ بورس جانتے تھے کہ وہ کیا کر رہے ہیں، جب انھوں نے وہ الفاظ استعمال کیے، وہ جانتے تھے کہ اس کا کیا رد عمل ہوگا اور کیسے وہ لوگوں کو متاثر کرے گا۔ وہ لیڈرشپ حاصل کرنے کی ایک اور کوشش کر رہے ہیں اور کامیابی حاصل کرنے کے لیے وہ کچھ بھی کرنے اور کہنے کےلیے تیار ہیں۔

یہ ساری باتیں اپنی جگہ لیکن افسوس یہ ہے کہ جن کے دین کے ساتھ یہ معاملہ ہے وہ اس تضحیک آمیز قانون اور لکھے گئے کالم پر منھ میں ایلفی ڈالے بیٹھے ہوئے ہیں۔ کسی مسلم ملک کی جانب سے کسی آواز کا اٹھنا تو کجا، کہیں سے کسی قسم کا کوئی مؤثر دباؤ تک ڈنمارک کی حکومت پرڈالا جانا نظر نہیں آرہا۔ ان سب مسلمانوں اور مسلم ممالک سے تو کہیں اچھے وہ لوگ ہیں جو غیر مسلم ہونے کے باوجود بھی بورس جانسن پر دباؤ ڈالتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔

یاد رہے کہ “ٹرمپ” نے بھی اپنی انتخابی مہم میں مسلمانوں اور اسلام کو حرف تنقید بنایا تھا۔ یہی بات ان کی شہرت کا سبب بنی تھی اور شاید بورس جانسن کی یہ ہرزہ سرائی بھی کسی ایسی ہی جد و جہد کا حصہ ہو۔ یہ دونوں باتیں اور کچھ ثابت کرتی نظر آئیں یا نہ آئیں، ایک بات ضرور واضح کرتی ہیں کہ تمام ترقی یافتہ ممالک کی یہ بات کہ وہ کسی بھی مذہب یا ان پر چلنے والوں سے کسی بھی قسم کی کوئی نفرت نہیں رکھتے، محض زبانی دعوں کے علاوہ اور کچھ نہیں اگر ان میں ذرا بھی سچائی ہوتی تو ٹرپب کو اپنا الیکشن ہار جانا چاہیے تھا اس لئے کہ اس کی کامیابی میں مسلم دشمنی کے علاوہ اور کسی کا ہاتھ نہیں تھا۔

ہم جس بری طرح یورپ اور امریکہ کی مسلم دشمنی کا ذکر کرتے ہیں اگر اس سے دس گنا کم بھی اپنی جانب دیکھ لیں تو ہمیں اپنے اندر بڑے بڑے گھن نظر آنے لگیں گے۔ جس پردہ دشمنی کا ہم یورپ کے حوالے سے ذکر کر رہے ہیں کبھی اس بات پر بھی غور کیا کہ ہمارے معاشرے میں کس بیدردی کے ساتھ نقاب نچ رہے ہیں۔ ہماری گلیاں، سڑکیں، بازار، مذہبی رسومات، شادی بیاۃ کی تقاریب میں کس بے رحمی کے ساتھ پردے کی توہین کی جارہی ہے۔ وہ کونسا مغربی انداز اور انداز فکر ہے جس کا فروغ ہر آنے والے دنوں کے ساتھ بڑھتا جارہا ہے۔ بے پردگی کا شعور تو اب ثانوی بات ہو کر رہ گئی ہے اب تو بات عریانیت کی حدود میں داخل ہو چکی ہے۔ اگر سچائی سے کام لیا جائے تو بات عریانیت سے بھی تجاوز کرکے بیہودگی اور فحاشی میں داخل ہوچکی ہے۔ ٹی وی چینلوں پر چلنے والے اشتہارات میں تو مسلمانوں نے اپنی تہذیب کا جلوس نکال کر رکھ دیا ہے۔  جب عالم یہ تو یہ کسی ایسے ملک کو جو اسلامی شعائر کے خلاف کوئی قانون بنارہا ہو یا اسلامی تہذیب کی تضحیک کر رہا ہو تو کوئی بھی مسلمان کس طرح اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ کھڑی کر سکتا ہے۔

ہم اپنی اصلاح کئے بغیر اگر پوری قوت کے ساتھ بھی ایسے عناصر کے خلاف کھڑے ہوجائیں تب بھی اس کا فائدہ نہیں اٹھا سکتے لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی اور اپنے معاشرے کی اصلاح کریں اور تیزی سے بڑھتے ہوئے فحاشی اور عریانی کے رجحان کو ختم کریں۔ اسی میں ہماری اصلاح ہے اور یہی وہ راستہ ہے جس کو اپنا کر ہم اپنی اور اپنے معاشرے کی کردار سازی کر سکتے ہیں۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

1 تبصرہ

  1. اگر قرآن کی رو سے چہرے کے پردے کا واضح حکم ہوتا تو اس معاملے میں کبھی اختلاف نہ ہوتا۔

جواب چھوڑ دیں