امریکہ کا اطمینان قلب

            امریکہ کتنا ہی برا ہو لیکن کسی بھی معاملے میں اگر اس کی جانب سے کوئی تصدیق آجائے تو ہم جیسے روز و شب گالیاں پٹخارنے والے لوگ بھی اس کے فرمان کو اآخری سند مان لیتے ہیں۔

            معاملہ خواہ “توتھ پیسٹ” کا ہی ہو، اگر اس کے مفید ہونے کی تصدیق امریکہ نے کر دی تو اس توتھ پیسٹ کو بنانے والی کمپنی اس کی تشہر کے لئے ہر چینل پر اپنے اشتہارات “لانچ“ کر دے گی اور قیمت میں تین سو فیصد اضافہ ہو جائے گا۔

            امریکہ بہادر نے فرما دیا کہ

            کراچی ماضی کے کے مقابلے میں اب زیادہ محفوظ شہر ہے ۔۔ اور ۔۔ ٹاگٹ کلنگ میں چالیس فیصد کمی ہوئی ہے، وغیرہ وغیرہ

            بات غلط بھی نہیں ۔۔۔ لیکن میرے نزدیک بہت درست بھی نہیں۔

            کراچی میں کمی ضرور ہوئی ۔۔ لیکن کیا پاکستان کے دوسرے صوبوں، پنجاب ، کے پی کے، اور بلوچستان میں قتل و غارت گری میں اضافہ نہیں ہو گیا؟ کیا ان صوبوں میں ماضی میں اتنے ہی خراب حالات رہے ہیں جو اب ہیں، ماضی کے مقابلوں میں اب ان صوبوں میں کہیں زیادہ ٹارگٹ کلنگ کی وارداتیں ہونے لگی ہیں۔

            اس سے دو چیزیں عیاں ہوتی ہیں، ایک تو یہ کہ کراچی میں ساری قتل و غارت گری صرف اور صرف سیاسی بنیادوں پر نہیں ہوتی تھی، بلکہ حالیہ کارروائیوں اور گرفتا ریوں کو سامنے رکھا جائے تو اس میں جہادی تنظیمیں، گینگ وار سے تعلق رکھنے والے اور محض لوٹ مار اور کرائے پر قتل کرنے والے افراد 95 فیصد سے بھی زیادہ نکلیں گے، باقی گرفتار شدگان بھی ابھی تحقیقی مراحل سے گزر رہے ہیں اس لئے ان کے متعلق فی الحال کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جاسکتی۔

            کراچی سے باہر اگر دیگر صوبوں میں ایسی واداتوں کا اضافہ ہوتا جا رہا ہے تو یہ اور بھی سنگین معاملہ ہے، یہ اس بات کی نشاندہی کے لئے کافی ہے کہ جب جب رینجرز یا قانون نافذ کرنے والے ادارے کراچی کا رخ کرتے ہیں تو وہ سب جرائم پیشہ افراد جو دوسرے صوبوں سے آکر کراچی میں قتل و غارت گری میں شریک ہو جاتے ہیں وہ واپس اپنے اپنے علاقوں میں چلے جاتے ہیں اور جونہی یہ ادارے اپنی بیرکوں میں واپس جاتے ہیں، وہ تمام پھر سے کراچی کا رخ کر لیتے ہیں، حال ہو یا ماضی، اس بات کا جب جب بھی تجزیہ کیا جائے گا ، تاریخ اس بات کی گواہی دیتی نظر آئے گی۔ وہ تمام افراد جو کراچی میں اپنے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ مستقل بنیادوں پر مقیم ہیں وہ شاید ہی کسی سنگین جرم میں ملوث نہیں ہو سکتے خواہ ان کا تعلق پاکستان کی کسی بھی قومیت سے ہو اس لئے کہ ہر فرد کو اپنی اور اپنے خاندان کی زندگی اور عزت پیاری ہوتی ہے۔ کون چاہے گا کہ اس کے جرائم کی سزا اس کے بیوی بچوں کو بھگتنی پڑے۔ ایسے کام وہی کرتے ہیں جو یا تو خاندانی نہیں ہوتے یا پھر چھڑے چھاڑ ہوتے ہیں۔ لہٰذا اس بات کا امکان بدرجہ اتم موجود ہے کہ سنگین جرائم میں ملوث افراد پیشہ ور مجرم ہوتے ہیں اور وہ کراچی میں اپنے خاندان کے ساتھ مستقل بنیادوں پر قیام پذیر نہیں ہوتے اور صرف وارداتوں کی نیت سے کراچی میں داخل ہوتے ہیں۔

            ایک اہم پہلو اس بات کا یہ ہے کہ بے شک ، ٹارگٹ کلنگ کی ایسی وارداتیں جو “سویلین اور سویلین” کے درمیان ہوئی ہیں اس میں چالیس فیصد کی ریکارڈ کمی ہوئی ہے لیکن ان وارداتوں کو کیا کہا جائے گا جس میں جنوری سے لیکر جولائی 2017، تک ہزاروں کے حساب سے افراد قانون نافذ کرنے والوں نے یہ کہہ کر مار دیئے کہ یہ سب دو طرفہ مقابلوں میں مارے گئے۔

            کہیں بیس، کہیں تیس، کہیں اس سے کم اور کہیں اس سے بہت زیادہ۔

            مزے کی بات ہے کہ ایسے مقابلوں میں مارے جانے والوں میں اسی فیصد سے زیادہ وہ افراد ہیں جن پر الزام ہے کہ وہ حملہ اآور ہوئے تھے ۔۔۔ مگر ۔۔۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان کے حملے سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہل کاروں کا نہ کوئی فرد زخمی ہوا ، نہ گاڑیوں کے شیشے ٹوٹے اور نہ ہی کسی گاڑی کا ٹائر بھرسٹ ہوا۔

            آج تک ایسے مبینہ مقابلوں کی کوئی عدالتی تحقیق نہیں ہوئی، اس لئے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ کچھ تو وہ ٹارگٹ کلنگ ہے جو سویلین اور سویلین کے درمیان ہوئی اور کچھ وہ ٹاگٹ کلنگ ہے جوقانون نافذ کرنے والوں اور سویلین کے درمیان ہوئی، اس طرح ٹارگٹ کلنگ کی یہ وارداتیں شاید ماضی کے سارے ریکارڈ توڑ گئی ہیں۔

            لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں امریکہ کے اطمنان قلب کی نہیں اپنے اطمینان قلب کی فکر کرنی  چاہیے۔

            یہ اطمنان قلب کب حاصل ہوگا؟۔ کاش اس کا ادراک پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ پاکستان کے ایک ایک شہری کو ہوجائے۔ اطمنان سچ میں ہے جھوٹ میں نہیں۔ اطمینان ان راہوں پر چلنے میں ہے جن پر آپ کو یقین ہو کہ یہ راہیں اسی منزل کی جانب لیجائیں گی جن تک آپ پہنچنا چاہتے ہیں۔ اطمینان انصاف کے تقاضے پورے کرنے میں ہے اس میں نہیں کہ خود ہی منصف بن کر جس کے ساتھ چاہیں جو سلوک بھی کر گزریں خواہ وہ کسی کی جان بھی لے لے۔ اطمنان اس بات میں ہے کہ کسی سے حسن سلوک کیا جائے ناکہ اس کے ساتھ ظلم کی تمام حدود پار کردی جائیں۔ اطمنان دو گروہوں کوآپس میں گلے لگانے میں ہے ان کی پھوٹ میں اضافہ کرنے یا ان کے اختلافات کو اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کرنے میں نہیں۔ اطمینان نفرتیں مٹا کر خوشیوں میں اضافہ کرنے میں ہے نفرتوں کو مزید پروان چڑھانے میں نہیں اسی لئے اطمینان اسلام میں ہے نظام کفر میں نہیں۔

            یہ کوئی بہت بڑی راکٹ سائنس نہیں لیکن معلوم نہیں لوگ اتنی سی بات کو سمجھنے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ کیوں محسوس کرتے ہیں۔ دعا ہے کہ لوگ ان حقیقتوں کو جان اور سمجھ سکیں تاکہ پاکستان کو ایک ایسا اسلامی اور مثالی ملک بنا سکیں جس کو دیکھ کر دنیا خود اپنے تمام پیمانے بدلنے پر مجبور ہو جائے اور دنیا کا ہر فرد امریکہ یا یورپ کی اسناد کی بجائے پاکستان سے جاری سندوں کا حوالہ دیا کرے۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں