نیوٹرل تعلیم

ڈاکٹر منصور درانی کا تعلق ہندوستان سے ہے ۔ یہ قابلیت کا کے – ٹو ہیں ۔ انھوں نے ہارورڈ اور اسٹینفورڈ جیسی یونیورسٹیز سے ڈگریاں لی ہوئی ہیں  جبکہ یہ اسلامک بینکنگ میں برطانیہ سے پی – ایچ – ڈی بھی ہیں ۔ ڈاکٹر منصور درانی اسوقت نیشنل کمرشل بینک جدہ کے سینئیر وائس پریزیڈینٹ اور ہیڈ آف فنانس بھی ہیں ۔ تعلیم انکا عقیدہ ہے ۔یہ پروفیسر خورشید احمد صاحب کےشاگرد بھی ہیں ۔چاہتے تو یہ بھی اپنی پوسٹ کے ذریعے ایک ” عیاش ” زندگی کے مالک بن سکتے تھے –

لیکن ڈاکٹر صاحب نے بھوپال میں 2003 میں “ایسٹرن پبلک اسکول” کی بنیاد رکھی ۔ اسوقت ان کے  اسکول میں 350 بچے زیر تعلیم ہیں  اور پورے ایشیاء میں فیس کے لحاظ سے سب سے سستا جبکہ معیار کے لحاظ سے مہنگے ترین اسکولوں سے زیادہ بہترین ہے ۔ ڈاکٹر صاحب اپنی آمدن کا نوے فیصد اپنے اسکول پر خرچ کرتے ہیں ۔

انھوں نے اپنے اسکول میں قابل ترین اساتذہ رکھے ہوئے ہیں ۔انکا ماننا ہے کہ ” اسلامی کیریکٹر ”  سے بڑھ کر کوئی بھی چیز اہم نہیں ہے ۔ اگر کسی مسلمان میں قابلیت ہے لیکن اسلامی کردار نہیں ہے تو پھر اس قابلیت کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔سر دست ہمارا موضوع ڈاکٹر منصور درانی نہیں ہیں ۔بلکہ ڈاکٹر صاحب کا سنایا ہوا واقعہ ہے ۔

یہ واقعہ انھوں نے خود سنایا کہ اسرائیل میں ایک اسکول ہے جہاں نو سے دس مہینے کے بچوں کا داخلہ ہوتا ہے ۔ ماں باپ مستقلا ان بچوں کو وہاں داخل کروادیتے ہیں ۔ ہفتے میں ایک آدھ دن ان سے مل بھی سکتے ہیں دیکھ سکتے ہیں لیکن ان کی رہائش اور تربیت وہیں اسی اسکول میں ہوتی ہے ۔3 سال کی عمر تک بچہ اس اسکول میں ” زیر تعلیم ” رہتا ہے ۔ 3 سال بعد اسے گھر لے جانے کی اجازت ہوتی ہے اور ساتھ ہی ان بچوں کو سرٹیفکیٹ بھی دیا جاتا ہے ۔ یہ بچے ” گریجویٹ ” کہلاتے ہیں ۔

اس ” گریجویشن ” کے بعد بچے اپنی نارمل کلاس میں داخل ہوتے ہیں  لیکن شعوری طور پر ان کی تربیت اور ذہن دونوں عام بچوں سے کہیں زیادہ تیز ہوتا ہے ۔وہ ہر کلاس میں بچوں کے لیڈر ہوتے ہیں حتی کے اپنی روایتی  تعلیم مکمل کرنے کے بعد  اسوقت کم و بیش اسرائیل کے بڑے اداروں کے تمام بڑے عہدوں پر یہی ” گریجویٹس ” موجود ہیں ۔

ایک یہودی بچے کے دل دماغ میں بچپن سے ہی یہ بات بٹھادی جاتی ہے کہ اس دنیا پر حکومت اور امامت کا حق صرف اور صرف تمھیں حاصل ہے اور تم دنیا کے کسی بھی کونے اور گوشے میں چلے جاؤ اسرائیل اور یہودیوں کو فائدہ پہنچانا تم پر واجب ہے ۔ یہ بچپن سے ہی اپنے بچوں کو کاروبار کی ترغیب بھی دیتے ہیں اور اگر آج دنیا میں کہیں ایک ڈالر کا کاروبار بھی ہوتا ہے تو بلواسطہ یا بلا واسطہ اس کے فائدے میں کہیں نہ ہیں کوئی نہ کوئی یہودی ضرور شریک ہوتا ہے ۔

آج سے سو سال پہلے خانہ بدوشوں کی سی زندگی بسر کرنے والے یہ یہودی آج امریکا کی یونیورسٹیز میں بطور پروفیسر نوے فیصد موجود ہیں جبکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ پورے امریکا میں یہودیوں کی تعداد صرف دو فیصد ہے ۔آپ کو نیویارک کی سڑکوں پر صبح اسکول جاتے ہوئے جو بچے سب سے زیادہ خاموش طبعیت اور سنجیدہ نظر آئیں سمجھ جائیں کہ وہ یہودی بچے ہیں ۔

اسرائیل میں اسوقت چار قسم کے اسکولز ہیں ۔ ان میں سے ایک قسم خاص مذہبی ” آرتھوڈکس ” اسکولوں کی ہے اور یہودیوں کے بچوں کی سب سے زیادہ تعداد یعنی 51 فیصد انھی اسکولوں میں زیر تعلیم ہے ۔بارھویں مکمل کرنے کے بعد کسی بھی اسرائیلی لڑکے یا لڑکی کو یونیورسٹی میں داخلہ اسوقت تک نہیں مل سکتا جب تک لڑکے 3 سال اور لڑکیاں 2 سال کی فوجی ٹریننگ مکمل نہ کرلیں ۔

آپ کمال ملاحظ کریں 85 لاکھ نفوس پر مشتمل اسرائیل کی 3 جامعات اسوقت ٹاپ 100 میں شامل ہیں  جبکہ آبادی کے لحاظ سے جامعات میں جانے والے نوجوانوں میں اسرائیل سرفہرست ہے ۔ تعلیمی درجہ بندی میں اسرائیل کا نمبر تیسواں ہے ۔اسرائیل کے نصاب میں انکا کلچر بنیادی اہمیت کا حامل ہے ۔ سرکاری و غیر سرکاری ، مذہبی و غیر مذہبی ہر قسم کے اسکولوں کو ” یہودی کلچر ” کو فالو کرنا لازم ہے ۔

آپ اسرائیلی کلچر کی چھاپ کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ بچے اساتذہ کو  ان کے نام کے پہلے حصے سے بلاتے ہیں کیونکہ یہ اسرائیلی روایات کا حصہ ہے۔اور دوسری طرف ہم نے اپنی روایات تو چھوڑیں اپنے تعلیمی اداروں اور  تعلیمی نظاموں سے اپنے دین تک کا جنازہ نکال دیا ہے ۔ اقبال نے کہا تھا:

سادگی اپنوں کی دیکھ اوروں کی عیاری بھی دیکھ

دنیا بھر کے ” سادہ لوح ” مسلمان اگر یہ سمجھتے ہیں کہ تعلیم کوئی ” نیوٹرل ” چیز ہے اور یہ محض بچوں میں شعور پیدا کرنے کا کوئی ذریعہ ہے تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں ۔ انگریز کے ہندوستان آمد کے بعد انھیں اپنے ” غلام ” درکار تھے  اور اس کے لئیے انھوں نے ” غلاموں ” والا نظام تعلیم بنا کر ہمارے حوالے کردیا ۔ آج تقریبا پونے دو سو سال گذر جانے کے باوجود ہم ابھی تک ” غلاموں ” والے نظام تعلیم کے زیر اثر ہیں ۔ اس نظام تعلیم کا سب سے بڑا اثر یہ ہے کہ ہم نے اپنے دین کو اپنے دنیاوی معاملات سے جدا کردیا ہے ۔ دین ہماری نئی نسل کے لئیے محض ایک ” ضمیمہ ” بن کر رہ گیا ہے ۔

یاد رکھیں اس غلط فہمی کو اپنے دل دماغ سے نکال دیں کہ ” نیوٹرل تعلیم ” نامی کوئی چڑیا بھی اس دنیا میں کہیں  پائی جاتی ہے ۔ جب دنیا بھر کے یہودیوں کے لئیے اپنے بچوں کو یہودی بنانا لازم ہے ۔جب امریکا کے اسکولوں میں بائیبل نصاب کا حصہ ہے اور امریکی بیوروکریسی کے افسران اور حکومتی ارکان اپنی پریس کانفرنسسز  تک میں بائیبل کے حوالے دیتے نظر آتے ہیں تو یہ تعلیم ” نیوٹرل ” کیسے ہوسکتی ہے ؟یہ صرف مسلمانوں کے لئیے نیوٹرل ہے کہ جس کو حاصل کرنے کے بعد وہ صرف ایک عدد نوکری کا طوق اپنے گلوں میں لٹکالیں اور اپنے مذہب کو مسجدوں  میں قید کردیں وہ بھی اگر وہ چاہیں ۔باقی رہی معیشت ، معاشرت ، سیاست اور قانون تو اس پر حکمرانی کا حق باآسانی وہ لوگ جتاسکیں جنھوں نے مسلمانوں کو پہلے ہی ان شعبوں سے اٹھا کر باہر پھینک دیا ہے ۔

حکومتی سطح پر تو مجھے خیر دور دور تک اس بات کی نہ امید ہے اور نہ ہی خوش فہمی کہ وہ تعلیم کو ہمارے دین یا کلچر سے جوڑینگے لیکن پرائیوٹ اداروں کو چلانے والے لوگ ڈاکٹر منصور درانی کی طرح تعلیم کے ساتھ ساتھ  ” اسلامی کردار ” کی چھاپ اپنے بچوں کی زندگیوں پر ضرور لگادیں تاکہ ان کو کم از کم یہ ضرور پتہ ہو کہ اللہ میاں صرف مسجد میں نماز کے دوران ہی سب سے بڑے نہیں ہیں  بلکہ معیشت ، معاشرت ، سیاست اور قانون ہر جگہ بڑی صرف اور صرف اللہ ہی کی ذات ہے ۔

حصہ
mm
جہانزیب راضی تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں،تعلیمی نظام کے نقائص پران کی گہری نظر ہے۔لکھنے کے فن سے خوب واقف ہیں۔مختلف اخبارات و جرائد اور ویب پورٹل کے لیے لکھتے ہیں۔

3 تبصرے

  1. اسرائیل میں بچوں کی صلاحیتوں کی تعمیر کا کام اس وقت شروع ہوجا تا ہے جب وہ ماں کے پیٹ میں ہوتے ہیں ۔ حاملہ خواتین مچھلی ، زیتون اور اس جیسی مخصوص غزائیں ہی کھاتی ہیں اور پریگننسی کے تیسرے مہینے سے حاملہ خواتین شطرنج کھیلتی ہیں ۔ ریاضی کی مشق کرتی ہیں اور زیادہ سے زیادہ کتابیں پڑھتی ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں