ووٹ تو تبدیلی کا تھا

امیدوار: بھائی کے الیکٹرک کا معاملہ تو ہم نے اٹھایا تھا،اس ایشو کو عدالتوں میں لے گئے، نیپرا کو عدالتوں میں گھسیٹا۔ آپ کے حق کے لیے لڑائی لڑی۔

تبدیلی پسند :ہاں  یہ تو مجھے پتا ہے۔ یہ تو واقعی بڑا کارنامہ ہے۔

امیدوار:اور آپ کو پتا ہے نا کہ نادرا والوں کو بھی ہم نے ہی نکیل ڈالی، ان کی فرعونیت کو ختم کیا۔ نادرا کے دفاتر رات 12 بجے تک کھلوائے۔ عوام کا یہ مسئلہ حل کرایا۔

تبدیلی پسند :بالکل بالکل ! یہ تو آپ لوگوں کا اور آپ کے قائد کا شاندار کارنامہ ہے، اور کسی نے یہ معاملہ اس طرح نہیں اٹھایا۔

امیدوار: اور یہ بھی پتا ہے نا کہ کراچی میں پانی کے معاملے پر بھی ہم نے ہی آواز اٹھائی،واٹر بورد کے ایم ڈی سے ملاقات کی،شہر میں پانی کی قلت کے خلاف آواز اٹھائی۔ اس مسئلے کو بھی صرف ہم نے ہی اٹھایا آپ لوگوں کی خاطر؟

تبدیلی پسند:ہاں میں یہ سب جانتا ہوں ۔ اہل کراچی کے یہ سارے مسائل صرف آپ لوگوں نے ہی اٹھائے اور ان کو حل کرنے کی کوشش کی۔

امیدوار: تو پھر آپ نے ہمیں ووٹ کیوں نہیں دیا؟

تبدیلی پسند: سوری یار! ووٹ تو اس بار تبدیلی کا تھا۔

امیدوار: ارے!!!! بھائی خائن لوگوں کی جگہ دیانتدار، بے ایمانوں کی جگہ ایمان دار، آپ کے حقوق بیچنے والوں کی جگہ آپ کو آپ کا حق دلانے والے، آپ کے مفادات کا سودا کرنے والوں کی جگہ آپ کے حق میں آواز اٹھانے والوں کو منتخب کرنا ہی تو تبدیلی ہے۔

تبدیلی پسند :نہیں ! یہ تبدیلی نہیں، دوسری تبدیلی

امیدوار : کون سی دوسری تبدیلی؟

تبدیلی پسند: ارے وہی جوجلسوں میں نظر آئی تھی، وہی جو ڈی چوک پر ھرنے کے دوران آئی تھی، وہی تبدیلی  جس کی ایک جھلک  26 جولائی کو ڈیفنس کراچی کی سڑکوں پرنظر آئی تھی۔ ہم نے اس تبدیلی کو ووٹ دیا ہے۔

امیدوار: اور وہ جو آپ کے مسائل؟ آپ کے حقوق؟ ان کا کیا ہوگا؟

تبدیلی پسندـ :سوری بھائی اب چلتا ہوں۔ پارٹی شروع ہونے والی ہے۔ روک سکو تو روک لو تبدیلی آئی رے

حصہ
mm
سلیم اللہ شیخ معروف بلاگرہیں ان دنوں وہ درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ اس کے علاوہ ٹیچرز ٹریننگ بھی کراتے ہیں۔ درس و تردیس کے علاوہ فری لانس بلاگر بھی ہیں اور گزشتہ دس برسوں سے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر مضامین لکھ رہے ہیں۔ ...

جواب چھوڑ دیں