ووٹ کے ذریعے تعلیمی نظام کی اصلاح

علم کے حصول کیلئے سوال کی اہمیت کو نطر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ جب تک سوال نہیں پوچھا جائے گا تب تک کوئی بھی طالبِ علم کوئی نئی بات نہیں سیکھ سکتا۔ دنیا بھر میں سوال کی اہمیت کو مانا جاتا ہے اور سوال کو تعلیم کی پہلی سیڑھی کہا جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہے۔ آج بھی ہمارے سرکاری سکولوں اور بہت سے پرائیویٹ سکولوں میں بھی سوال پوچھنے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور طالب علم کے سیکھنے کے عمل پر قدغن لگائی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک کا معیارِ تعلیم دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے ۔ آج بھی ہم ایک فرسودہ تدریسی نظام کو لے کر چل رہے ہیں جس میں اساتذہ صرف نصاب مکمل کروانے پر زور دیتے ہیں اور والدین بھی صرف اپنے بچے کے امتحانات میں نمبر دیکھ کر خوش ہو جاتے ہیں۔ کوئی بھی یہ نہیں سوچتا کہ آخر بچے نے اس سارے عمل کے دوران سیکھا کیا ہے۔
چند ایلیٹ پرائیویٹ سکولوں کو چھوڑ کر کہیں پر بھی سیکھنے کے معیار پر توجہ نہیں دی جاتی اور یہی وجہ ہے کہ سرکاری سکولوں کے بچے اعلیٰ تعلیم میں پیچھے ر ہ جاتے ہیں اور ترقی یافتہ ممالک کی  تعلیمی سکالرشپس کے حصول میں بھی ناکام رہتے ہیں۔سیکھنے کے عمل میں ناکامی ہی دراصل پاکستان کے تعلیمی نظام کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ ہے ۔ سکولوں سے باہر بچوں کی ایک بڑی تعداد، ڈراپ آوٹ اور سیکھنے کے معیارکے خراب نتائج اسی سے جڑے ہیں ۔ ہمارے پورے تعلیمی نظام کو اوور ہال کی ضرورت ہے جس کیلئے پاکستان کوایسی قیادت کی ضرورت ہے جو تعلیم کی اہمیت سے واقف ہو اور حکومت میں آ کر تعلیمی نظام کی اوورہال پر بھر پور توجہ دے۔  نئی حکومت کے انتخاب میں اب چند دنوں کا فاصلہ رہ گیا ہے، ہم سب کو اپنے ووٹ کا استعمال سوچ سمجھ کر کرنا ہوگا اور اپنا ووٹ ایسے امیدوار اورسیاسی جماعت کو دینا ہوگا جو اقتدار میں آکرتعلیمی نظام کی اوورہالنگ کرے۔
حصہ

جواب چھوڑ دیں