اور بازار پر ابلیس بیٹھا تھا ۔۔۔

وہ اٹھارہویں صدی کی دوسری دہائی میں پیدا ہوا تھا ۔اس کا نام آدم اسمتھ تھا وہ جدید سیاسی  معیشت کا باوا آدم بھی کہلایا ۔۱۷۷۶ ء میں شایع ہونے والی اس کی کتاب ’دی ویلتھ آف نیشنس ‘آج سرمایہ پرستی یا سرمایہ داریت کی ’بائبل ‘ سمجھی جاتی ہے ۔لیکن نہ لوگوں نے اس کتاب کی روح کو سمجھا نہ اُس کی ایک اور کتاب کو اہمیت دی جو در حقیقت اس کے تمام نظریات کی بنیاد تھی ۔

یہ عظیم اسکاٹش اسکالر صرف معاشیات کا ماہر نہیں تھا۔وہ اس سے زیادہ ’فلسفہ اخلاق ‘ کا ماہر تھا ۔اس نے گیارہ سال تک ’گلاسگویونیورسٹی ‘ میں بحیثیت پروفیسر فلسفہ اخلاق کا درس دیا تھا۔’دی ویلتھ آف نے شَنس ‘ کی اشاعت سے سترہ برس قبل ۱۷۵۹ ء میں ا‘ُس نے ’اے تھیوری آف سِوِل سِنٹی منٹس‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی تھی جسے آج پوری طرح بھلا دیا گیا ہے ۔

ہم سرمایہ دارانہ نظام کے حامی نہیں ۔لیکن کمیونزم  کی طرح سر مایہ داری کو مطلق شر بھی نہیں سمجھتے۔ کمیونزم ایک غیر فطری نظریہ اورنظام ہے ۔جبکہ سرمایہ داری نجی ملکیت کے فطری اصول پر مبنی ہونے کی وجہ سے ’’بہ شرط اعتدال ‘‘خیر کے متعدد پہلو بھی رکھتی ہے ۔کمیونزم ایک تنگ و تاریک بند کوٹھری ہے جہاں نور کا گزر ہی نہیں ۔جبکہ سرمایہ داری میں کئی اَیسے رَوزَن ہیں جو بہ شرط استعمال ’خیر‘ کے خنک جھونکے اندر لا سکتے ہیں اور ’بہ شرط توفیق ‘ ،’نور‘ کو بھی اندر آنے سے نہیں روکتے ۔ ہم سرمایہ داریت کے وکیل نہیں اسلام  کے امین ہیں ۔اور اسلام مزدور کو بھی سرمایہ دار کے ساتھ منافع میں حصہ دینے کا حکم دیتا ہے ۔جبکہ رائج سرمایہ دارانہ نظام  سود اوعر اجارہ داری کی بنیادوں پر قائم ہے اور اسلام ان دونوں برائیوں کی سختی سے نفی کرتا ہے ۔

نہ آدم اسمتھ مسلمان ہیں ،نہ پروفیسر چارلس ہینڈی ۔لیکن یہ طے ہے کہاٹھارہویں اور بیسویں صدی کے ان دونوں فلاسفہ نے اسلام کا مطالعہ ضرور کیا ہے ۔اُن کی فکر میں اسلامی فکر کی جھلکیاں جا بجا ملتی ہیں ۔ آدم اسمتھ نے اپنی کتاب ’ دی تھیوری آف مورل سنٹی منٹس ‘میں لکھا ہے کہ ’’ہمدردی ‘‘ یعنی دوسروں کے دکھ درد کا خیال رکھنا (سِم پَیتھی ) ایک مہذب سماج کی بنیاد ہے ۔مہذب قوموں کو چاہیے کہ ’دولت اور مہارت‘ (ویلتھ اینڈ ایفی شیئنسی)کے حصول کی راہ میں بازار اور بازار کی قوتوں کو ہم دردی کے ذریعے متوازن رکھیں ‘‘۔

غریبی اور امیری کے درمیان بڑھتی ہوئی کھائی اسی ’ہمدردی ‘ کے فقدان کا نتیجہ ہے ۔نجی ملکیت بجنسہ اور بذات خود غلط نہیں لیکن مزدور اور کاریگر کو اس کا جائز حق نہ دینے ۔منافع میں اس کو حصہ دار نہ بنانے اور ہم دردی کا عنصر ختم ہوجانے اور اس کی جگہ  خود غرضی اور اندھی مفاد پرستی کے حاوی ہوجانے اور اس کے نتیجے میں عیش پرستی کے غالب آجانے کی وجہ سے نجی ملکیت بری طرح غیر متوازن  ہو گئی ہے ۔سود (اِنٹرسٹ،رباء)اور اجارہ داری (مونو پلی)نے مل کر اگر ایک طرف  دولت کے انبار لگا دیے ہیں تو دوسری طرف اکثریت کی قوت خرید کا خاتمہ کردیا ہے ۔

اسی بے رحم مفاد پرستی ،سود اور اجارہ داری نے مل کر سماجی بے انصافی (سوشل اَن جسٹس) کو جنم دیا ہے ۔عدل اجتماعی (سوشل جسٹس ) کا خون ناحق اسی غیر متوازن سرمایہ داری  کی گردن پر ہے جو فی الواقع قارونیت میں تبدیل ہو گئی ہے ۔

پیداوار کے ذریعے منافع کا حصول بذات خود نا جائز نہیں ۔ لیکن جب  پیداوار بے اصول اور  آپے سے باہر ہو جائے  یعنی بازار میں ’لازمی اشیاے صرف  ‘(ای سنشئل کمو ڈیٹیز )کے بجائے غیر ضروری اشیا ء کے ڈھیر لگنے شروع ہو جائیں اور عوام کی قوت خرید کم ہو جانے کی وجہ سے کساد بازاری یا مَندِی  (ری سے شن )کی صورت حال پیدا ہو جائے تو افراط کا وہی عالم ہوتا ہے جس سے آج ہم دو چار ہیں ۔

بازار میں جتنی اشیا ء آج برائے فروخت موجود ہیں کیا ہمیں واقعی ان کی ضرورت ہے ؟ یا مزدور اور کاریگر کا حق مارکر اشتہار بازای کے ذریعے مصنوعی ضرورت پیدا کی جا رہی ہے ؟

آدم اسمتھ لکھتا ہے کہ :

ایک منافع بخش  سودا مفاد عامہ کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ اس کی پیداوار طلب کو بڑھاتی ہے اور ہر طرف آرام اور بہتری پھیل جاتی ہے ۔کوئی محب وطن یا صاحب احساس شخص اس کی مخالفت نہیں کرے گا ۔لیکن اس پیداوار کی فطرت ،کاشت کاری کے بر خلاف یہ ہے کہ وہ اک دم سے بے سمت ہو جاتی ہے اور دنیا کی تمام بے مصرف چیزوں کی مانگ پوری کرتے رہنے کا کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔‘‘

اگر چہ پیداوار ،خواہ وہ ہاتھوں سے ہو یا مشین سے ،اَز خود گھٹنے بڑھنے والی چیز نہیں ۔ اس کی بنیاد وہ نظریہ ہوتا ہے جس پر پیداوار کی دیوار کھڑی کی جاتی ہے ۔لیکن جب یہ پیداوار فرد کی بے لگام آزادی اور اجارہ داری کے نظریے کی بنیاد پر شروع ہوتی ہے تو بلا شبہ وہی ہوتا ہے جس کی طرف آدم اسمتھ نے سوا دو سو سال قبل اشارہ کیا تھا ۔

آج کسی بڑے شہر کے کسی فیشن ایبل بازار سے گزر جائیے  یا کسی بھی چھوٹے بڑے شہر کے کسی ’مال‘(MALL)میں چلے جائیے  آپ کو بے کار بے مصرف اشیا ء کے ڈھیر کے ڈھیر لگے دکھائی دیں گے ۔آپ کو وہاں ہر وہ چیز بہ اِفراط نظر آئے گی جس کی کسی کو مطلق ضرورت نہیں ہوتی ۔

ہم آج جس سماج میں جی رہے ہیں وہاں پیداوار کی بنیاد حقیقی ضرورت نہیں ،نقلی اور مصنوعی ضرورت ہوتی ہے جو اشتہار بازی کے ذریعے پیدا کی جاتی ہے تاکہ لوگ زیادہ سے زیادہ وہ چیزیں خریدتے رہیں جن کی انہیں مطلق کوئی حاجت نہ ہو !

لیکن چالس ہینڈی کے لفظوں میں ’’مصنوعی مانگ پیدا کیے بغیر بھی ایسی پیداوار کی جا سکتی ہے جو آدم اسمتھ کے بقول ’آرام اور بہتری پھیلنے ‘‘کا باعث ہو اُن لوگوں کے لیے جو واقعی ضرورت مند ہوں۔ لہٰذا ضرورت اس کی ہے  کہ ہماری مصنوعی چکا چوند والی بے ہودہ معیشت لوگوں کو روزگار بھی مہیا کرے ۔‘‘ تاکہ ان کی قوت خرید میں اضافہ ہو جس سے وہ اپنی حقیقی ضرورتیں پوری کر سکیں ۔

۸۶ سالہ چارلس ہینڈی نے یہ بات اپنی کتاب ’بیانڈ سرٹین ٹی ‘میں لکھی ہے جو ۱۹۹۸ میں شایع ہوئی تھی ۔آج وہ بھی ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدن کی تصویر بنے  دیکھ رہے ہوں گے کہ اکیسویں صدی کی قارونیت کے نزدیک آدم اسمتھ اور چارلس ہینڈی جیسے ماہرین معاشیات کو بھی کنارے لگا دیا ہے ۔ ایک طرف دنیا کی اکثریت مسلسل بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور بھکمری  کی شکار ہے اور دوسری طرف اڈانیوں اور امبانیوں  جیسے مٹھی بھر لوگوں کی اقلیت سارے وسائل پر قبضہ کیے بیٹھی ہے اور صرف اپنے غلام حکمرانوں اور سیاست دانوں کے پیٹ کا دوزخ بھرنے میں مصروف ہے تاکہ ان کی قارونیت پر کوئی آنچ نہ آنے پائے ۔

  ایسی حدیثیں جن میں بازار کو شیطان کا مسکن بتایا گیا ہے ،ایسے ہی بازاروں کے لیے ہیں جہاں رکھی ہوئی اشیا نہ صرف حاجت مندوں کی دسترس سے باہر ہوتی ہیں بلکہ بیشتر بے ضرورت ہوتی ہیں جن کی خریداری (شاپنگ ) اسراف کہلاتی ہے ۔۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ ایسے بازار آج مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ تک میں نہ صرف موجود ہیں بلکہ حرمین شریفین کے چاروں طرف بنی ہوئی کثیر منزلہ عمارتوں  میں بھی پھیلے ہوئے ہیں ۔ممتاز مفتی مرحوم نے اکیسویں صدی کے دوسرے دہے میں حج کیا ہوتا اور  دس دس بیس بیس منزلہ درجنوں عمارتوں کے ساتھ وہ ایک سو منزلہ عمارت بھی اپنی آنکھوں سے دیکھی ہوتی جس میں سوا پانچ سات ستارہ رہائشی کمروں اور بازاروں کے اور کچھ نہیں تو پتہ نہیں وہ کیا لکھتے جب انہوں نے آج سے قریب نصف صدی قبل کا حال اپنے سفر نامہ حج ’لبیک ‘ میں  ان لفظوں میں بیان کیا تھا  کہ :۔۔’’وہ بازار زائرین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا ،لوگ دھڑا دھڑ چیزیں خریدنے میں مصروف تھے ۔اس گہما گہمی اور افراط کو دیکھ کر میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔۔میں بھول گیا کہ میں زائر ہوں ۔۔میں بھول گیا کہ مکہ معظمہ میں ہوں ۔۔میں بھول گیا کہ حرم شریف میں لوگوں پر ہنستا تھا کہ وہ حاضر ہو کر بھی غیر حاضر ہیں ۔۔بازار کے اوپر ابلیس بیٹھا  ہواتھا۔ اس کے دانت نکلے ہوئے تھے ۔۔۔پھر جو آنکھ اٹھا کر دیکھتا ہوں تو میں مسجد نبوی سے ملحقہ بازار  میں کھڑا تھا ،سامنے دوکانیں ہی دوکانیں ۔مال سے لدی ہوئی دوکانیں ۔بائیں فٹ پاتھ پر جھلمل جھلمل کرتی ہوئی اشیا کے ڈھیر لگے تھے ۔خوبصورت دلکش چیزیں ،میڈ ان فرانس ،میڈ ان اطالیہ ،انگلینڈ ،یو ایس اے ۔۔جگہ جگہ چیزیں ۔۔پارچہ جات ،ریشم ،کمخواب ،اطلس ،نائلون کے کپڑے ،برتن ،چینی ،شیشے ،پلاسٹک ،پتھر کے برتن ،گھڑیاں ،رسٹ واچز سے بھرے ہوئے جھابے ،ٹائم پیس ،کلاک ،طرح طرح کی گھڑیاں ،فرج ،ائیر کنڈیشنر ،کولر ،پنکھے ہی پنکھے ،ٹیبل فین،پڈسٹل ،مٹی کے تیل سے چلنے والے پنکھے ،چھت کے پنکھے ۔پاؤڈر ،لپ اسٹک ،خوشبو کی شیشیاں ،لمبی شیشیاں ،لمبوتری شیشیاں ،ململ ،کمخواب اور ریشم کے ڈبوں میں رکھی ہوئی شیشیاں ۔۔اس بازار میں سیکڑوں زائر خریدو فروخت میں مصروف تھے ،یون، جیسے علی بابا کے غار سے سامان لوٹنے میں مصروف ہوں ۔جن میں خریدنے کی استطاعت نہ تھی ،وہ پھٹی پھٹی آنکھوں اور گرسنہ نگاہوں سے چیزوں کے ڈھیروں کو دیکھ رہے تھے ۔اُن کی آنکھوں میں ھسرت بھری ہوس کے انبار لگے ہوئے تھے ۔۔اور میں نے محسوس کیا کہ جیسے بازار کے اوپر خود ابلیس بیٹھا فاتحانہ انداز میں مسکرا رہا ہو ۔۔شاید وہ حقارت سے میرا منہ چڑا رہا تھا ۔۔‘‘(لبیک ۔ممتاز مفتی ۔۱۹۸۷ص ص۹۱ اور ۲۱۵)

ظاہر ہے کہ یہ بیان پچاس سال قبل حج ۱۹۶۸ کا ہے ۔آج تو صورت حال ناقابل بیان بلکہ ناقابل تصور حد تک ابتر ہو چکی ہے ۔ دنیا کا کوئی بڑے سے بڑا شاپنگ مال ، ریٹیل اسٹور اور پانچ سات ستارہ ہوٹل  ایسا نہیں جس کی شاخیں حرمین  شریفین کے اطراف موجود نہ ہوں !

حصہ
mm
لکھنو کے رہنے والے عالم نقوی ہندوستان کے ایک کہنہ مشق صحافی،اور قلم کار ہیں وہ ہندوستان کے مختلف اخبارات و جرائد ور ویب پورٹل کے لیے لکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں