خدمتِ خلق عین عبادت

آج کل کے دور میں ہر انسان بے حد مصروف ہے۔ ہر انسان اپنے لئے سوچتا ہے اور فکر معاش میں ارد گرد سے لا تعلق سا نظر آتا ہے۔ دوسروں کے مسائل سے بالکل نا واقف ہو چکا ہے اور اس معاشرے میں رہنے والوں کا لوگوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ عبادت کو صرف نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ تک محدود کر چکے ہیں ۔ جب کہ ہمارا دین ہمیں یہ دوسروں کے کام آنا اور ایثار کرنا سیکھاتا ہے۔ آج کل کے دور میں کوئی کسی کے کام آبھی جائے تو اسے فوراً فراموش کردیا جاتا ہے۔ اس وجہ سے اگر کوئی کسی کے کام آنا بھی چاہے تو یہ سوچ کر پیچھے ہٹ جاتے ہیں کہ خود غرضی کا زمانہ ہے ۔
خدمت خلق کی اہمیت اس وقت اور زیادہ ہوجاتی ہے جب کسی علاقہ میں کوئی قدرتی آفت یا طوفان آجائے یا کہیں کوئی حادثہ ہوجائے۔ ایسی صورت میں ان لوگوں کو فوری مدد و تعاون کی ضرورت ہوتی ہے اور بہت خدمت کا موقع بھی ملتا ہے۔ ان حالات کو غنیمت جانتے ہوئے ان جگہوں پر پہنچ کر مصیبت زدہ لوگوں کی زیادہ سے زیادہ خدمت کی جاسکتی ہے۔
یہاں یہ چیز قابل ذکر ہے کہ خدمت خلق صرف مال و دولت کے ذریعہ نہیں ہوتی بلکہ افراد طاقت کے ذریعے بھی ہوسکتی ہے۔ جہاں مال و دولت خرچ کرنے کی ضرورت ہو وہاں مال خرچ کرنا ہی افضل ہے ، مگر کہیں مال کی نہیں اخلاقیات کی خدمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یعنی انسان کو خدمت کے لیے لازمی نہیں پیسے ہی چاہئیں ہوں، ممکن ہو اسے آپ کی مدد چاہیے۔ کچھ کام میں مدد فراہم کردیں۔
ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ شاید ہمیں کسی کے ساتھ کی گئی نیکی کا بدلا اس دنیا میں نہیں ملتا نہ ملے مگر اللہ کے ہاں ضرور مقبول ہوگی اورہمیں اس کا اجر ضرور ملے گا ہمیں اپنی آخرت پر نظر رکھنی چاہیے اور اللہ تعالی کی خوشنودی ہر حال میں ہمارے لیے مقدم ہونی چاہیے۔ یہ ہی کامیابی کا زینہ ہے۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں