’’قبل از وقت متنازع الیکشن‘‘

مستونگ دھماکے میں 128بے گناہوں کی شہادت ہوئی ۔اس سانحے نے صرف جانیں ہی نہیں لی، بل کہ 128 خاندانوں کو اجاڑ ا ۔بلوچ قوم تقسیم پاکستان سے ہی کشمش کا شکار رہی ہے، ا س کا ادراک کسی جمہوری حکومت نے نہیں کیا۔ستم بالائے ستم یہ کہ سینٹ کے انتخابات میں بلوچستان سے چیئرمین سینٹ لا کر پیپلز پارٹی نے جو بڑا تیر مارا ہے ،وہ گیم شو لیاری کے بلوچوں نے فلاپ کر دیا ۔ہم باحیثیت قوم متحد کب ہوں گے۔اس کا دور دور تک اتا پتا نہیں۔ایک ہفتے میں ملک کی اہم ترین سرحدوں کے قریب دشمن نے اپنی موجودگی کی خبر دے دی۔پہلے پشاور میں اے این پی کے ہارون بلور اور ان کے بیٹے کو شہید کیا گیا ۔اور پھرمستونگ میں بلوچ رہنما سراج رایئسانی کے انتخابی جلسہ کو نشانہ بنایا گیاجس میں سراج رائیسانی شہید ہوئے۔سیاسی امیدواروں پر دہشت گردانہ حملے اس ملک کی جمہوری قوتوں کو ثبوتاژ کرنے کی ناکام کوششیں ہیں۔اور یہ بہادر قوم کسی بھی دہشت گرد تنظیم سے ڈرنے والی نہیں ہے۔
دونوں دھماکوں میں بلا شبہ قوم دو محب وطن سیاست دانوں سے محروم ہو گئی ۔ دونوں رہنما صوبائی اسمبلیوں کے لیے امیدوار تھے۔اہم ترین بات یہ ہے کہ ہارو ن بلور شہید ،اور سراج رایئسانی شہید دہشت گردتنظیموں کے ناک کابال سمجھے جاتے تھے۔اس لیے دہشت گردوں نے الیکشن سے قبل ہی ان کی زندگی چھین لی ۔شہید ہارون بلور شہید باپ بشیر بلور کے بیٹے تھے ۔بشیر بلور شہیدکو 2012 میں ان پر ہونے والے 4 خود کش حملے میں شہید کردیا گیاتھا۔ان کی بہادری ،جوان جگری کی فوج بھی معترف تھی ۔اور اسی بنا پر ا ن کی شہادت کے بعد ان کے شہید بیٹے ہارون بلور کو کئی ایوارڈ دیے گئے ۔جو کہ اس بات کا ثبوت تھے کہ بلور خاندان اس ملک میں دہشت گردانہ کاروایوں کی بیخ کنی کرتا رہے گا۔اور ملک میں عدم تحفظ کی پھیلتی بو کو ختم کرکے دم لے گا ۔ سراج رائیسانی کے بیٹے میر حقمل ر ایئسانی بھی چند سال قبل ایک دھماکے میں شہید ہوگئے تھے۔داعش نے اس دھماکے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے ۔جس پر سکیورٹی اداروں کو سیاسی ماحول سازگار بنانے ،اور ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال پر گہری سوچ بچار کرنی چاہیے۔
سیاسی شخصیات اور انتخابی امیدواروں پر حملوں میں کئی سو جانوں کے ضیاع کے بعد الیکشن کمیشن خواب غفلت میں سو رہا ہے۔امیدوار انتخابی پروٹوکول کے مستحق ہیں ۔اور چیف الیکشن کمشنر کے احکامات کے باوجودانہیں سکیورٹی فراہم کیوں نہیں کی جارہی۔الیکشن کمشنربنوں دھماکے کی رپورٹ کے ساتھ ،پشاور اور مستونگ میں ہوئے دھماکوں کی بھی رپورٹ طلب کریں ۔ساتھ ہی چیف الیکشن کمشنر نیشنل کورآرڈینیٹرکو فعال کریں۔ تاکہ الیکشن کمیشن کا شفاف انتخابات کا وعدہ وفا ہوسکے۔تا کہ جیسے جیسے انتخابات قریب آرہے ہیں ملک کے سیاسی درجہ حرارت میں جو تپش پڑ رہی ہے اسے کم کیا جاسکے۔سوال اٹھ رہے ہیں کہ جس ملک میں الیکشن کمیشن متنازع ہو ،وہاں ترقی کیسے آ سکتی ہے۔وہاں جمہوریت کیسے مضبوط ہو سکتی ہے۔تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ ٓاج تک جتنے بھی انتخابات ہوئے، کوئی بھی غیر متنازع نہیں رہے۔ لیکن 25 جولائی کو ہونے والے انتخابات قبل از وقت متنازع ہو چکے ہیں۔اب الیکشن کمیشن اس بات کو سمجھتے ہوئے کہ پہلے حلقہ پی کے 78 ، اور حلقہ پی بی35 میں شہادتوں کی وجہ سے انتخابات ملتوی ہو چکے ہیں ،مزید کسی حلقے میں دہشت گردی کے واقعات نہ ہوں ۔اور الیکشن غیرجانب دارانہ طریق سے اور شفاف ہوں۔
حالات حاضرہ کا جائزہ بتاتا ہے کہ ملک کی تمام قومی سیاسی جماعتوں کے سربراہان ،سینئر قیادت کو حملوں کا خطرہ ہے۔ذرائع اور انٹیلی جنس اداروں نے بھی انتخابی مہمات پر دہشت گردوں کے حملوں کا عندیہ دیا ہے۔یہ وقت آنکھیں بند کرکے بیٹھنے کا نہیں ہے۔ان واقعات کا مقصد انتخابی مہموں کو عدم تحفظ کاشکار بنانا ہے۔پاکستان دہشت گردی کے خلاف 2001 جنگ لڑ رہا ہے۔اس جنگ نے کئی مراحل دیکھے ہیں۔اس عرصے میں جنگ سے پورا ملک متاثر ہوا۔اس بات کو یاد رکھنا چاہئے کہ دہشت گردی سے ملک کے تزویراتی اثاثوں ، افواج پاکستان، عوام ، سرکاری املاک کے ساتھ ساتھ وہ لوگ خاص طور پردہشت گردوں کا ہدف رہے ہیں جو ان کی نظریات ومقاصد کے آگے کھڑے ہوئے۔یہ کام حکومت ،قانون نافذ کرنے والے سکیورٹی اداروں کا ہے کہ وہ ملک کے سیاسی نظام کو لاحق خطرات سے بچائیں۔اور ایسے منہ زور عوامل کو مسلیں جن کے عزائم ووٹ کی جگہ تشدد کو ہوا دینا ہیں۔پاکستان کی عوام کو اپنے نمائندے منتخب کرنے کا حق چھیننے والوں کو معاف نہ کیا جائے ۔اس لیے کہ ملک کے لیے کثیر الجہتی جمہوریت ناگزیر ہے۔
سیاسی قیادت بھی اپنے سکیورٹی پروٹوکول کوتبدیل کرے۔جلسوں کو چار دیواریوں تک محدود کردیں۔اور تمام بڑی جماعتیں اس بات کا اہتمام کریں کہ جلسہ گاہ سے پندرہ ، بیس گز کے فاصلے پر پہلا سکیورٹی حصار بنوائیں۔جس پر واک تھرو گیٹ، اورمیٹل ڈٹیکٹرزکے ذریعے لوگوں کی تلاشی لی جائے ،اس کے بعد اندر جلسہ گاہ میں جانے کی اجازت ہو ۔ کارنر میٹنگز کے لیے بھی یہی فارمولا اپنایا جائے۔جلسہ اگر کسی میدان میں کرنا مقصود ہو تو سکیورٹی حصار بھی جلسہ گاہ کے حجم کے مطابق رکھا جائے۔سٹیج کے لئے خصوصی انٹری پاس جاری کیے جائیں۔میڈیا کے مخصوص انٹری پاسز رکھنے والے نمائندوں کو اجازت ہو۔اور ان کے لیے اسپیشل انٹری پاس جاری کیے جائیں۔سیاسی قائدین اس بات کو خاص مد نظر رکھیں کہ جلسہ گاہ میں آنے اور جانے کے وقت امبریلا سکیورٹی حصار بنوائیں۔اگر موبائل جیمرز کی ضرورت ہوتوجلسہ کے اختتام تک جیمرز لگے رہنے چاہئیں۔تمام بڑی چھوٹی جماعتیں ،اور صوبائی و قومی اسمبلی کے ممبران اپنے انتخابی جلسہ گاہ ، پارٹی میٹنگز ، کارنر مٹنگز میں ڈرون کیمروں کا استعال نہ کریں۔یہ اس لیے بھی اہم ہے کہ دہشت گرد ی سے سیاسی نظام کو نقصان پہنچانے والوں کی آنکھیں چاروں طرف لگی ہیں۔ذرا سی خطا بھی بہت بڑے نقصان کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔یہ ملکی وقومی ایشوز کی طرف قدم بڑھاتے ناپاک اجسام کو روکنے کا وقت ہے ۔اور 25 جولائی کے الیکشن کو قبل از وقت متنازع ہونے سے بچانے کا وقت ہے۔

حصہ
mm
محمد عنصر عثمانی نے کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات و عربی کیا ہے،وہ مختلف ویب پورٹل کے لیے لکھتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں