الیکشن یا اٹینشن

جب بھی ترجمان ترجمانی کیلئے تشریف لاتے ہیں ان کا یہی کہنا ہوتا ہے کہ “ہمارا الیکشن یا سیاست سے کوئی تعلق نہیں”۔

بات تو “دل لگتی” ہی کہتے ہیں۔ خود ہی سوچئے، بھلا سرحدی محافظوں کا ملک کی مقننہ، سیاست دانوں یا الیکشن سے تعلق بھی کیا ہو سکتا ہے۔ ان کاکام تو جو قوانین بنادیئے جائیں ان پر عمل کرنا اور حکومت اگر حکم دے تو جو ان قوانین پر عمل سے گریز کر رہے ہوں یا بغاوت پر اتر آئے ہوں ان کو گرفت میں لینا اور ان سے قانون کے مطابق عمل کروانا جیسے امور ہیں۔ ایک بات جو سب سے اہم ہے وہ یہ ہے کہ جن کا مضمون ہی سیاست نہ ہو ان کو بھلا سیاست آتی ہی کب ہوگی۔ اگر انھیں سیاست کی شد بدھ ہوتی تو وہ کبھی 1958 میں حکومت پر قبضہ نہیں کرتے۔ ویسے بھی 1958 میں ایسے ہی مذاق مذاق میں سول حکومت کو فارغ کرکے کرسی اقتدار پر قبضہ کر لیاتھا۔ کرسی پر آیت الکرسی پڑھ کر بیٹھنے کے بعد معلوم ہوا کہ سیاست تو آتی ہی نہیں ہے تو کیا کیا جائے۔ یونہی کرسی چھوڑچھاڑ کر بھاگ لینا کچھ مناسب نہیں تھا اس لئے حکم ہوا کہ 1956 کا دستور پیش کیا جائے۔ اس کا مطالعہ کرکے پسینے جھوٹ گئے۔ اتنی میم مینخیں، فلاں ادارے کے یہ اختیارات ہیں، فلاں کی ترتیب ایسی ہے، یہ صوبائی حکومت ہے، اس میں وزیراعلیٰ بھی ہوتا ہے۔ ایک اسمبلی بھی ہوتی ہے۔ وزیراعلیٰ کے اختیارات یہ ہیں، اسمبلی ممبران کا کام اور ذمہ داریا یہ ہوتی ہیں۔ پھر ایک اسمبلی اور ہوتی ہے جو قومی اسمبلی کہلاتی ہے۔ اس میں کوئی اسپیکر بھی ہوتا ہے اور اسکا ڈپٹی بھی۔ اس اسمبلی کے یہ اور یہ امور ہوتے ہیں۔ قائد اعوان، قائد حسب اختلاف کے دم چھلے۔ اللہ توبہ۔ پھر ایک سینیٹ، اس کا چیئرمین۔ عدالتیں، درجہ بدرجہ بلند ہوتی عدالتیں، ہائی کورٹس، پھر سپریم کورٹس، ان کے ججز اور پھر ہر ایک میں انکا چیف۔ دائرہ اختیار وہ بھی سب کا الگ الگ۔ دستور کی کتاب کا ہر ورق دماغ کی لسی بناتا چلا گیا تو چلانا پڑگیا۔ اس سب بکواس کا فوجی حکومت سے کیا تعلق۔ چلو اس کتاب کو آتش دان میں ڈالو۔ ارے قانون کیا ہوتا ہے، جو ہم نے کہہ دیا بس وہ قانون ہے۔ فوج میں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ ویسے بھی ہم نے کب کہا ہے ہمیں سیاست آتی ہے۔ ایک ہی بات تو ہم کہہ رہیں کہ سیاست سے افواج کا کوئی تعلق ہے ہی نہیں۔ ویسے بھی ہم کہتے ہیں کہ “کتابی” سیاست ہی سیاست ہوتی ہے یا دستور کی کتاب ہی میں لکھے اصول چلیں گے تو ملک چلے گا۔ چلنا ولنا ویسے بھی ہمیں کب آتا ہے۔ ہم تو پریڈ کیا کرتے ہیں یا پھر مقابلہ سخت ہوجائے تو “دوڑ” لگاتے ہیں اس لئے یہ سارے شیطانی اصول مسترد کیونکہ ہم سیاست کے قائل ہی نہیں ہیں اور نہ ہمیں آتی ہے۔ ہم نے کہا بھی کب ہے ہم “کتابی” ہیں۔ ہم تو حسابی ہیں۔ سیدھے سیدھے 2 اور 2 چار والے۔ اسی لئے ہم جب بھی آتے ہیں اس دور کو “مارشل لا” کہا جاتا ہے۔ 2 اور 2 چار والا دور۔ یہ ہونا ہے اور یہ نہیں ہونا۔ ہم “کُن” کرتے ہیں اور نعوذ (باللہ) وہ “ہو” جاتا ہے۔ یہ کیا کہ ہر کام کو پہلے ہزار پانچسو افراد کے سامنے رکھو۔ پھر کوئی اس میں سے “میم” نکالے اور اور کوئی “مینخ”۔ بھلا یہ کیا “دستور” ہوا۔ بھائی کام کرنا ہے یا نہیں کرنا؟۔ یعنی وہی 2 اور 2 چار۔ پھر خوامخواہ کسی سے پوچھنے کی اور مشورے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ وقت برباد ہوتا ہے۔ کہہ دیا اور ہوگیا، کیا یہ اچھا نہیں ہے۔ دیکھ لیں، مشرقی پاکستان کے حالات ہماری مرضی کے مطابق نہیں تھے اور بنگالی، جو ہماری نظروں میں “بھوکے” تھے ان کو کیسا سبق سکھایا۔ کاٹ کر رکھ دیا۔ کوئی “دستوری” حکومت ہوتی تو نہ جانے کتنے برس انتظارکرتی، منتیں کرتی، سماجت کرتی، خوشامد کرتی، اپنے ٹوپیاں، پگ اور نہ جانے کیا کیا ان کے قدموں پر رکھ دیتی۔ ہمیں معلوم تھا کہ وہ ضدی، ہٹی اور بے کہی قوم ہے اس لئے ہم نے معاملہ 2 اور 2 (بلکہ دوہی دوملک ہی دیدو) چارکی بجائے ملک کو پہلے 2 کیا پھر ایک ان کو دیدیا اور ایک اپنے پاس رکھ لیا۔ سارا ذہنی تناؤ ختم ہو گیا۔ وہ ادھر خوش اور ہم ادھر ابھی تک نہ خوش اس لئے کہ ابھی تو اور بھی چار صوبے باقی ہیں جن کا حساب کتاب باقی ہے۔ اللہ مالک ہے ان کا بھی کچھ نہ کچھ حل نکل ہی آئے گا۔

پتہ نہیں ہم پر “سیاست” کا الزام کیوں لگایا جاتا ہے۔ ہم سناروں کی طرح 100 کے قائل ہی نہیں بس “ایک” لگاتے ہیں سب کچھ برابر کردیتے ہیں۔ مشرقی پاکستان کی “روشن” مثال سب کے سامنے ہی ہے۔ ڈھاکہ فال کے بعد ہم نے ایک سویلین کو اقتدار دیا۔ اس کو اپنا ہی کمانڈر بنادیا یعنی “مارشل لا ایڈمنسٹریٹر”۔ بڑا پاگل نکلا۔ سویلین تھا سویلینوں کی طرح قانون اور دستور کی کتابوں کا کیڑا تھا، کتابوں ہی میں جا گرا۔ صوبے اور ان کی اسمبلیاں، وفاق اور ان کی اسبملیاں، پھر سینیٹ کی پخ بھی ساتھ، اس کا یہ قانون، فلاں کا یہ آئین۔ ہم سمجھے کہ ہم جیسا ہی ہوگا، بیوقوف پاکستانی قوم کو دستور دینے کے چکر میں پڑگیا۔ ویسے کیونکہ تھا وہ ہمارا ہی لاڈلا اس لئے ہمارا سایہ بھی اس پر پڑگیا جس کی وجہ سے دھوبی کا کتا بن گیا۔ دماغ سویلین کا رکھتے ہوئے بھی چال ڈھال ہماری اختیار کر بیٹھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ عوام اس کے ظلم کا شکار ہونے لگے اور ہمیں اسی بہانے اسے ایک “لات” سے کرسی سے فارغ کردیا۔ ہم سیاست کیا جانیں۔ اس لئے ہینگ کرنے (پھانسی دینے) کا منصوبہ بنا لیا۔ ہماری اپنی کورٹ بھی فیصلہ سنا سکتی تھی لیکن “سیاسی” لوگوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے کچھ کچھ “چاپلوسی” ہمیں بھی آگئی تھی اس لئے اپنی “کورٹ” بنانے کی بجائے “آئینی” کورٹ کو ہی “مارشل” بنادیا۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ پاکستان کیا جب بھی دنیا کوئی سوال اٹھاتی ہے کہ یہ کیا ہوا؟، ہم کہتے ہیں آئینی کورٹ جانے۔ ابھی تک ججوں کو، خواہ زندہ ہوں یا مردہ، لوگ جی بھر کر گالیاں دیتے ہیں۔ دیں، بھلا اس میں ہمارا کیا جاتا ہے۔ کوئی ہمیں دے کر دیکھے، پھر جو دنیا دیکھے گی وہ دیکھنے کا منظر ہوگا۔

ہم ہیں تو سیاست سے نابلد، بلکہ کئی مرتبہ یہ جملہ دہرا چکے ہیں کہ سیاست ہمیں آتی ہی نہیں ہے۔ پھر بھی ہم نے اپنے ماضی سے بہت سبق حاصل کیا ہے۔ پہلا مارشل لا، پھر یحییٰ کا، پھر ضیا کا اور پھر مشرف کا۔ ہر ایک کے بعد رسوائیاں گلے پڑیں۔ سیاست کرتے کرتے اور سیاستدانوں کے ساتھ بدتمیزیاں کرتے کرتے کچھ کچھ اٹھکیلیاں ضرور سیکھ لیں چنانچہ یہ فیصلہ کیا کہ کیوں نہ ایسا کیا جائے کہ سانپ بھی مرتے رہیں اور ہماری لاٹھیاں بھی سلامت رہیں۔ سیاست کا اس کے علاوہ اور کیا مقصد ہوتا ہے کہ ریاست اور ملک کے وسائل قبضے میں آجائیں۔ اب ان وسائل پر قبضے کے بعد خواہ ان سے ملک بنالیا جائے یا خود کو بنالیا جائے۔ یہی دو باتیں تو ہوتی ہیں وسائل پر قبضہ حاصل کرنے کے بعد۔ خوامخواہ بدنام ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ جن کاکام سیاست ہے، کرتے رہیں سیاست، ہم وسائل کو اپنے قبضے میں کیوں نہ کرلیں۔ قبضہ کرنا مشکل نہیں ہوا کرتا اس کو برقرار رکھنا اصل کام ہوتا ہے۔ یہ نہتے لوگوں کاکام تو ہوتا نہیں لیکن اس کو بے اسبابِ حرب و ضرب کیا جانیں۔ سمجھتے ہیں اکثریت میں آجائیں تو جیسے پوری ریاست ان کی ہوگئی۔ ارے چندہزار کیا پورے پاکستان کے عوام بھی ٹوپوں اور طیاروں والوں کا کیا بگاڑ سکتے ہیں۔ ڈھیٹ بہت ہیں۔ نہ جانے کتنی مرتبہ رسواکیا ہے لیکن پھر آجاتے ہیں آنکھیں دکھانے۔ اب کی بار تو ہم نے وہ منصوبہ بندی کی ہے کہ بس۔ سامنے یہ ہونگے اور پیچھے۔۔۔۔؟۔ ہم نہ بھی کہیں تو کیا۔ پورا پاکستان ہی کیا پوری دنیا کو اشاروں کی زبان آتی ہے۔ وہ ڈھیٹ تو ہم کونسا کم ہیں۔ وہ اپنی خو چھوڑنے کیلئے آمادہ نہیں اور ہم بھی اپنی وضع کے پکے ہیں۔

کیا کشمیر (آزادکشمیر) آزاد ہے؟۔ اگر ہے تو کیا اس کا وزیراعظم، صدر یا اسمبلی خود مختار ہے۔ وہ آزاد کہلا کر بھی آزاد نہیں تو پھر کیا یہ ضروری ہے کہ یہاں کی حکومت کو بھی خود مختاری دیدی جائے۔ جس طرح “آزاد” کشمیر کو پابند کیا ہوا ہے اسی طرح اس میں کیا حرج ہے کہ “آزاد” پاکستان بھی پابند ہو۔ کیا آزاد کشمیر کے صدر کو، وزیراعظم کو اور اسمبلی کو ساری مراعات حاصل نہیں؟۔ ہم بھی کب چاہتے ہیں کہ کسی کی بھی تنخواہ میں اور مراعات میں کوئی کٹوتی ہو۔ نامعلوم اس میں کسی کے پیٹ میں مروڑ کیوں ہوتا ہے۔ اس سے تو ہزاردرجے بہتر ہے کہ سب کچھ ماضی کی طرح چھین لیا جائے۔ خوش ہونا چاہیے کہ اللہ نے سب کچھ دیا ہوا ہے۔

ابھی تک منصوبے پر اطمنان (ہمارے اطمنان) کے مطابق کام ہو رہا ہے۔ بس بیچ میں “شریف لوگ” گلے پڑ گئے ہیں۔ بہت سمجھایاتھا کہ مہینہ دو مہینہ لندن ہی میں آرام کرو۔ الیکشن کے بعد آجانا۔ اچھا خاصہ امن ہو گیا تھا۔ دیکھو جمعہ 13 جولائی 2018 کو کیا ہوتا ہے۔

ارادہ اٹل ہی سمجھو ان کا بھی اور اپنا بھی۔ وہ آئیں گے اور ہم اٹھا لیجائیں گے۔ پھرکیا ہوتا ہے یہ تو ڈھاکہ فال سے قبل کس نے سوچا تھا۔ ویسے بھی سوچتے “بزدل” لوگ ہیں۔ ہم تو “ماردو۔ مرجاؤ یا ۔۔۔۔ جانے دیں” والے ہیں۔ کچھ بھی ہو جو بات طے ہے وہ یہی ہے دنیا کے سامنے جب بھی کوئی چہرہ ہوگا وہ “منتخب” والا ہوگا خواہ وہ پہلے سے طے شدہ ہو یا ڈبوں کی پرچیوں سے وجود میں آیا ہو۔ رہی پیچھے کی بات کہ وہ کون ہوگا، آپ کو اس سے کیا اور اگر کوئی شک کسی کو ہے تو ہوا کرے۔ ہم نے تو صاف صاف اور واشگاف الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ ہمارا سیاست سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ جس کاکام سیاست ہے وہ سیاست کئے جائے اور جو وسائل پر ہے اسے وسائل پر رہنے دیا جائے۔ سیدھا سادہ سا اصول بنا لیا جائے یعنی ایک دوسرے کو ایک دوسرے کے کام میں دخل اندازی کی ضرورت ہی نہیں۔ یہ اصول مروج ہوجائے تو کسی کو بھی کوئی ٹینشن ہی نہ رہے۔ سب ہی اٹینشن (ہوشیار) رہیں یا “آرام باش”۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں