اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے

                میں اپنے پورے تیقن کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ فی زمانہ کوئی بات انصاف کے ساتھ کہنا ازحد دشوار ہی نہیں قریب قریب ناممکن ہے اور اگر کسی نے اس ناممکن کو ایمان کی پختگی کے سبب جرات اور بہادری سے کام لیتے ہوئے ممکن کرلیا تو پھر اس کو چاہیے کہ وہ اپنی موت کا انتظار کرے۔ ایک تو حق بات کہنا ہی زندگی سے ہاتھ دھولینے کے برابر ہے اور اگر کسی نے مسلمانوں کے حق میں کچھ طرفداری سے کام لے لیا تو سمجھ لو کہ وہ تو اس دنیا سے گیا ہی گیا۔ مسلمانوں کے حق میں کچھ کہنے والوں کے لئے یہ بات کوئی شرط نہیں کہ کہنے والا مسلمان ہی ہو، اگر وہ غیر مسلم بھی ہوگا تو اس کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ تو ممکن ہے کہ اگر کوئی مسلمان اس طرح کی بہکی بہکی باتیں کرے تو انھیں نظر انداز کیا جا سکتا ہے لیکن اگر کوئی غیر مسلم ایسا کرے تو اس سے نمٹنا ضروری ہو جاتا ہے۔

                تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں سے نفرت کرنے والوں نے جناح کے بجائے گاندھی کو قتل کیا تھا کیونکہ ہندو ہوتے ہوئے وہ جس انصاف کی بات کر رہے تھے وہ کچھ لوگوں کو مسلمانوں کی طرفداری نظر آ رہی تھی۔ میں یہ کالم مسلمانوں کی طرفداری میں نہیں لکھ رہا ہوں لیکن خدشہ ہے کہ اسکو اسی طرح پڑھا اور سمجھا جائے۔ کیا سیکولر، کمیونسٹ اور مسلم پرست ہونے کے الزامات کے خوف سے انصاف پسند اور حقیقت پسند لوگ لکھنا اور بولنا بند کر دیں؟ ایسے لوگوں کی بڑی تعداد موجود ہے جو دنیا کے کسی بھی کونے میں ہونے والے پرتشدد واقعات کا حساب کتاب مسلمانوں سے مانگنے پر تلے ہوئے ہیں۔ عراق کا حساب راجستھان میں، نائیجیریا کا حساب جھارکھنڈ میں مانگا جا سکتا ہے، کشمیری مسلمانوں کا غصہ میواتی مسلمانوں پر اتارا جا سکتا ہے، اور ایسے تشدد کے متاثرین سے ہمدردی رکھنے والوں کو منصوبہ بند طریقے سے قابل مذمت بنا دیا گیا ہے۔

                امریکہ، یورپ سے لے کر انڈیا تک میڈیا، سوشل میڈیا اور سیاست میں جوسکرپٹ لکھا جا رہا ہے اس کے مرکز میں ہیرو کے بجائے ولن ہیں۔ اس سکرپٹ میں جو کوئی بھی ولن کو مار سکے ہیرو ہو سکتا، یہ ایک ہٹ فارمولہ ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے سر عام مسلم مخالف بیان اور اس کے بعد انڈیا میں ان کی کامیابی کے لیے کی جانے والی پوجا اور دعا کے پس پشت کارفرما چاہت کسی سے پوشیدہ نہیں۔ یہ یگیہ (پوجا) ”دیوتا “جیسے” ٹرمپ“ کی جیت اور ”دیو“ جیسے” مسلمانوں“ کی بدحالی کے لیے کیے جا رہے تھے۔

                کیا مسلمان کبھی کسی کے ہاتھوں ظلم و ستم کا شکار نہیں ہوئے؟ کیا مسلمانوں پر ہر آنے والا دن قیامت نہیں بنتا جا رہا؟ کیا ان کے خون سے ہولی نہیں کھیلی جارہی؟ کیا ہر جانب مسلمانوں کا خون نہیں بہایاجارہا؟ لیکن دنیا میں ہر جانب یہی چیخ و پکار مچی ہوئی ہے کہ دولت اسلامیہ، بوکو حرام سے لے کر طالبان اور لشکر تک، دنیا کی ہر متشدد سرگرمیوں کے صرف مسلمان ذمہ دار ہیں۔ اس کا آسان نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ظلم کے شکار کسی مسلمان کے لیے ہمدردی ظاہر کرنا دہشت گردی کی حمایت کرنا ہے۔ مقبول نظریہ ان دنوں یہ ہے کہ مسلمان ہر طرح سے یا تو فتنہ گر ہیں یا پھر ان کے حامی ہیں۔ وہ آفت زدہ، مصیبت زدہ اور ظلم و جبر کا شکار ہو ہی نہیں سکتے۔ پہلے مسلمانوں کو سدھرنا ہوگا۔ اس سے پہلے انھیں ملک، سماج اور قانون سے انصاف یا رحم کی توقع نہیں کرنی چاہیے۔اسی دلیل کے تحت کشمیر میں پیلیٹ گن کی مار سے اندھے ہونے والے نوجوانوں سے ہمدردی کا اظہار کرنے والوں کو غدار ہونے کا تمغہ دیاگیا۔ اخلاقوں اور جنیدوں کی ہلاکتوں کو حادثہ سمجھ کر نظر انداز کرنے کا مشورہ دیا گیا۔

                برما میں مسلم اقلیت روہنگیا کے مکانوں کو نذر آتش کیے جانے اور انھیں مارے جانے کی اطلاعات ہیں، یہ ایک خوفناک صورتحال ہے جس میں انصاف، منطق، صوابدید اور انسانی رحم کے جذبات کی جگہ نفرت، انتقام، فساد غلط پرچار اور ظلم نے لے لی ہے۔چند لوگوں کے غلط کام کی وجہ سے 1.6 ارب لوگوں کے ہرکسی کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے اور جو غیر مسلم ہیں انھیں ناانصافی نظر آنی بند ہو جائے تو ہم واقعتاً ایک خطرناک دور میں جی رہے ہیں۔ میں سوچ رہا ہوں کہ روہنگیا آخر جائیں تو جائیں کہاں؟ ایسے ماحول میں جب اقوام متحدہ روہنگیا مسلمانوں کو دنیا کی بدحال ترین برادری کہہ رہا ہے تو ان کو پناہ دینے کی بات تو دور، ان کے درد اور مصیبت کے بارے میں بات کرنے والے کہیں نظر نہیں آتے ہیں۔

                امریکی اور یورپی میڈیا میں رپورٹ شائع ہو رہی ہیں کہ کیسے برما میں ہزاروں روہنگیا کھانے اور پانی کے بغیر پھنسے ہوئے ہیں۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ برما کے فوجی معصوم، بے سہار افراد کی لاشوں کو ٹھکانے لگانے میں مصروف ہیں۔ برما انھیں اپنا شہری ماننے کو تیار نہیں ہے، ان کے لیے نہ بنگلہ دیش میں جگہ ہے، نہ ہی دنیا کو امن، عدم تشدد اور ہمدردی کا پیغام دینے والے بدھ-گاندھی کے ہندوستان میں ان کے لیے کوئی جگہ ہے۔

                پیلٹ گن کا شکار ایک لڑکی کو ہسپتال میں زندگی اور موت کی جنگ لڑتے دیکھا جا سکتا ہے، عالمی سربراہ بننے کی خواہش رکھنے والا انڈیا اچھی طرح جانتا ہے کہ دنیا میں ایسا کوئی طاقتور، بااثر اور عزت دار ملک نہیں جس نے پناہ گزینوں کو جگہ نہ دی ہو۔ بہر حال یہ دنیا کی سیاست میں ٹرمپ کا دور ہے، جس میں کمزوروں کے خلاف آگ اگلنے کو مردانگی سمجھا جانے لگا ہے۔

                ایک طرف امریکہ فرعون بنا ہوا ہے تو دوسری جانب انڈیا بھی دوہرے معیار کو اپنا رہا ہے؟ انڈیا نے ہی سری لنکا سے آنے والے تاملوں، پاکستان اور بنگلہ دیش سے آنے والے ہندوؤں اور افغانستان سے آئے سکھوں کو پناہ دی ہے، مگر مسلمانوں کو پناہ دینے کے معاملے میں اس کا دل فراخ نہیں ہے۔ دو سال پہلے ہی انڈیا نے بنگلہ دیش اور پاکستان سے آنے والی اقلیتوں (ہندوؤں) کو طویل مدتی ویزا دینے کا اعلان کیا ہے، جو واقعی ایک خوشگوار قدم ہے۔ دوسری طرف، انڈیا پناہ لینے والے روہنگیا مسلمانوں کو ملک سے نکالنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ حکومت ہند نے سنہ 2015 میں ہندووں کو طویل مدتی ویزا دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ انسانی بنیاد پر دیا جا رہا ہے۔ کیا اب وہ انسانی حقوق کی بنیاد ختم ہو چکی ہے کیونکہ برما سے آنے والی اقلیت مسلمان ہے؟

                انڈیا میں ایک گروپ نے امریکی صدر ٹرمپ کی کامیابی کے لیے پوجا کی اور وہ ان کے مسلم مخالف بیان کی کھلے عام حمایت کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر جو لوگ روہنگیا مسلمانوں کو ملک سے نکالنے کی کا مطالبہ کر رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ یہ لوگ پاکستان کیوں نہیں جاتے، انڈیا کیوں آ رہے ہیں؟ یہ ایسے لوگ ہیں نقشے پر یہ دیکھنے کی زحمت بھی نہیں کرتے برما کہاں ہے اور پاکستان کہاں۔یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ ہندوستانی نسل کے نہیں ہیں لہذا ان کو پناہ دینا انڈیا کی ذمہ داری نہیں ہے۔ پھر امریکہ میں رہنے والے افغان یا ناروے میں رہنے والے سری لنکن کس نسل کے ہیں؟ اس کا جواب دینے کیلئے کوئی تیار نہیں۔ جس ٹرمپ کیلئے بھارت میں دعائیں کی جا رہی ہیں اگر وہ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم پر ایک لفظ بھی کہدے تو یہی انڈیا ٹرم کے پتلے اور امریکہ کے جھنڈے نذر آتش کرنا شروع کردیکا اس لئے کہ اصل مسئلہ کسی ظلم و ستم کا نہیں، پرخاش اقوام عالم کو مسلمانوں سے ہے جو انھیں ہنستاہوا اور آگے بڑھتا ہوا دیکھ کر چراغ پا ہوجاتے ہیں اور ظلم و زیادتی دیکھ کر کِھل اٹھتے ہیں۔

                مبصرین کہتے ہیں کہ اگر ان پناہ گزینوں کو انڈیا اپنے ملک سے نکالتا ہے تو یہ بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی ہوگی، پتہ نہیں ایسی حالت میں وہ کہاں جائیں گے۔

                اب میں سوال کرتا ہوں کہ کہاں گئی ہے انسانیت؟ روہنگیائی مسلمانوں کیلئے کوئی کیوں تیار نہیں ہے؟ یہی بات ہے نا کہ وہ مسلمان ہیں۔ داعش ہو، لشکر ہو، بوکوحرام ہو، القائدہ ہو، الشباب ہو یا حزب المجاہدین، ان کو مسلمان بھی درست تصور نہیں کرتے لیکن کیا کسی روہنگیائی مسلمان سے کسی نے معلوم کیا کہ یہ سب کون ہیں؟ یہ ان پڑھ، غریب، راندہ درگاہ تو شاید اپنے اپنے نام سے بھی ناواقف ہو چکے ہوں، وہ کیا جانے یہ یہ بلائیں کیا ہیں تو دنیا کی ان سے ہمدردی کیوں نہیں؟ ان سب باتوں کا کیا یہی ایک جواب نہیں ہے کہ وہ مسلمان ہیں؟ کیا ورڈ آرڈر میں یہی ہے کہ وہ مسلمانوں کی شرپسندی کو شمار کرے؟ وہ ظلم اور تشدد جو مسلمانوں پر ہو رہا ہے اس شدت پسندی کے خلاف کوئی آرڈر نہیں؟

                ان باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بات مسلمانوں کو اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ وہ دنیا سے ہر قسم کی توقعات ختم کر لیں اور خواب غفلت سے بیدار ہو جائیں۔ تمام طاغوتی طاقتیں ان کے خلاف یکجا ہو چکی ہیں، کمر ہمت کسیں اور ان کے سامنے سینہ سپر ہو جائیں ورنہ جان رکھیں کہ اس روئے زمین پر ان کیلئے کوئی جائے پناہ نہیں۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں