قمیص کیسے بنی؟

امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہاہے کہ عوام کے ہاتھ اب نام نہاد عوامی نمائندوں اور سالہا سال سے عوام کودھوکا دینے والوں کے گریبانوں تک پہنچنا شروع ہوگئے ہیں اور لوگ امیدواروں سے اپنی محرومیوں اور پریشانیوں کا حساب مانگ رہے ہیں۔ دیکھنے میں تو ایسا ہی آرہا ہے کیونکہ اب سیاسی حلقوں یا وہ علاقے جن علاقوں میں نام نہاد عوامی نمائندے کئی کئی برسوں سے کسی نہ کسی طرح منتخب ہو کر اپنے علاقے کے لوگوں کو محض وعدوں پر ٹرخاتے رہے تھے اب ان میں سے بیشتر نمائندوں کے ساتھ ان علاقہ مکینوں کے ہاتھوں ذلت اٹھارہے ہیں۔ علاقہ مکینوں کا ان کے خلاف سخت رد عمل سامنے آرہا ہے اور بعض مقامات پر انھیں لاتیں گھونسے بھی کھانے پڑرہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسا رد عمل کسی حد تک خوش کن ہے لیکن اس بات کا خطرہ بہت ہی شدت کے ساتھ موجود ہے کہ یہ چھوٹے چھوٹے احتجاجات کسی بھی وقت آپس کی لڑائی جھگڑوں اور اس سے بڑھ کر فتنہ و فساد کا سبب نہ بن جائیں۔ ہر علاقے میں نہ تو حامیوں کی کوئی کمی ہوتی ہے اور نہ ہی مخالفین کی جس کی وجہ سے کسی بھی صورت حال کا پیدا ہوجانا بعید از قیاس نہیں۔ پھر بھی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہو رہا ہے جس سے سیاسی امید واروں، سیاسی پارٹیوں اور ان کے قائدین کواس صورت حال سے عبرت حاصل کرنی چاہیے اور جان لینا چاہیے کہ اب پاکستان کے عوام ماضی کے عوام سے بہت مختلف ہیں اور اب ان کو محض جھوٹے وعدوں اور طفل تسلیوں سے نہیں بہلایا جاسکتا۔ عوامی احتساب کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوسکتی ہے کہ پاکستان کی ایک بہت بڑی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ عزت ماۤب محترم جناب بلاول زرداری جو اپنے بھٹو ہونے سے انکار کر چکے ہیں ان کا ان کے اپنے گڑھ لیاری میں بہت ہی والہانہ انداز میں استقبال ہوا اور لوگوں نے فرط محبت میں ان پر وہ خشت باری کی کہ مجنونوں کا سارا جنون خاک میں مل گیا۔ یاد رہے کہ یہ وہی لیاری ہے جس کو پی پی پی ماضی میں اپنا گڑھ کہتی رہی تھی اور حالیہ آپریشن میں لیاری کو خون میں نہلادینے کے بعد ایک مرتبہ پھر اسے اپنا گڑھ کہنا شروع کر دیا تھا لیکن اس گڑھ نے ان کے ساتھ وہ سلوک کیا جو کبھی کراچی میں “علی گڑھ” کر کے ساتھ پاکستانیوں نے کیا تھا۔ اتنی بڑی پارٹی کے اتنے بڑے لیڈر کے ساتھ اتنی عزت افزائی کے بعد کسی کا بھی خوش فہمی میں مبتلا رہنا ایک احمقانہ فعل ہی ہوگا۔ مزید برآں کراچی میں “کراچی والوں” کے ساتھ جو عوامی رد عمل سامنے آرہا ہے وہ بھی لائق دید اور قابل داد ہے لیکن اس میں اور لیاری والوں کے رد عمل میں کسی حد تک فرق ہے جس کو فہم و شعر رکھنے والے واضح طور پر محسوس کر سکتے ہیں۔ تحریک انصاف کے کراچی کے رہنماؤں کو بھی اپنی مہم کے سلسلے میں عوامی رد عمل کا شدید سامنا ہے۔ لہٰذا یہ بات کہنے میں کوئی عار نہیں کہ سراج الحق صاحب کی بات سولہ آنے درست ہے اور اب سیاسی قائدین کو عوام کے سامنے جو بھی وعدے اور دعوے کرنے ہونگے وہ بہت سوچ سمجھ کر کرنے ہونگے ورنہ ان کو مستقبل میں اور بھی زیادہ مشکلات کا سامنا در پیش ہوگا۔

 اپنے بیان کے تسلسل میں سراج الحق صاحب کا مزید کہنا تھا کہ آنے والا وقت پاکستان کی عزت و وقار کی بحالی اور ترقی و خوشحالی کا ضامن ہے، 26جولائی کا سورج عالمی استعمار کے آلہ کاروں کی شکست اور پاکستان کے عوام کے لیے حقیقی آزادی کا پیغام لے کرطلوع ہوگا ، 25 جولائی کو قوم نے درست فیصلہ کرلیا تو آئندہ کوئی چور اچکا اور لٹیرا پاکستان کے ایوانوں میں نہیں پہنچ سکے گا ۔ ان خیالات کااظہار انہوں نے اپنے حلقہ انتخاب”میدان” میں انتخابی جلسے سے خطاب اور بعد ازاں یونین کونسل کوٹھو میں انتخابی دفتر کے افتتاح کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ جیسے جیسے الیکشن کا دن قریب آرہاہے، کرپٹ اور بددیانت امیدواروں کے چہروں پر ہوائیاں اڑنا شروع ہوگئی ہیں اور کرپٹ جاگیرداروں اور ظالم سرمایہ داروں کو اپنی شکست واضح نظر آرہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ عوام کے ہاتھ اب نام نہاد عوامی نمائندوں اور سالہا سال سے عوام کودھوکا دینے والوں کے گریبانوں تک پہنچنا شروع ہوگئے ہیں اور لوگ امیدواروں سے اپنی محرومیوں اور پریشانیوں کا حساب مانگ رہے ہیں۔

سراج صاحب کی تقریر کا یہ حصہ جس میں وہ آنے والے وقت کو پاکستان کی عزت و وقار کی بحالی اور ترقی و خوشحالی کا ضامن قرار دے رہے ہیں اس پر میں “آمین” کے علاوہ اور کوئی بھی تبصرہ نہیں کرونگا اس لئے کہ الیکشن 2018 میں ایسا کوئی نقشہ نظر نہیں آرہا ہے۔ میری اس بات کی تائید وہ اپنے اگلے ہی جملوں میں کرتے نظر آرہے ہیں کہ ” جولائی کو قوم نے درست فیصلہ کرلیا تو آئندہ کوئی چور اچکا اور لٹیرا پاکستان کے ایوانوں میں نہیں پہنچ سکے گا”۔ بات ان کی یہ بھی غلط نہیں کہ فیصلہ بہر حال قوم ہی کو کرنا ہے لیکن جو صورت حال سامنے ہے اس کو دیکھتے ہوئے ایسا صرف سوچا ہی جاسکتا۔

صورت حال یہ ہے کہ ایک جانب تو عوامی رد عمل سیاسی رہنماؤں کے سامنے آرہا ہے لیکن وہ سارے ایسے افراد ہیں جو اپنے علاقوں سے منتخب ہونے کے بعد وہاں کے عوام کی مرضی کے مطابق یا حسب وعدہ کام نہ کر سکے لیکن وابستہ ابھی تک اپنی اپنی پارٹیوں کے ساتھ ہی ہیں اور انھوں نے تا حال اپنی وفاداریاں نہیں بدلیں لیکن وہ تمام افراد جو خوب لوٹ گھسوٹ کرنے کے بعد، اقتدار کے مزے اڑانے کے بعد اور اپنی اپنی تنخاہیں مع سود وصول کرنے کے بعد وفاداریاں بدل کر کسی اور پارٹی کا حصہ بن کر از سرنو منتخب ہونے کی امید پر چلے گئے ہیں یا بھیج دیئے گئے ہیں ان کے خلاف ان کے حلقوں میں ابھی تک کسی رد عمل کا سامنے نہ آنا کیا اس بات کا ثبوت نہیں کہ 2018 کے الیکشن میں کسی تبدیلی کا آنا ایک خواب سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ اگر ایسے لوٹوں کے خلاف کوئی رد عمل آیا بھی ہے تو وہ پارٹی کارکنان کی جانب سے آیا ہے جو خیال کرتے ہیں کہ لوٹوں کے آجانے سے ان کے حقوق پر ڈاکہ پڑا ہے۔

“سراج احق صاحب کا یہ کہنا کہ3,3 بار حکومتیں کرنے والے ایک بار پھر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کرر ہے ہیں مگرعوام کے تیور بتا رہے ہیں کہ اب وہ ایسے لوگوں کو اپنے اوپر مسلط کرنے کے لیے تیار نہیں”، بھی بہت درست نہیں اس لئے کہ جو پارٹیاں 3۔3 بار منتخب ہو کر ایوان میں پہنچ چکی ہیں، چاہے ان کے منتخب افراد ایوان کی زینت بنیں یا وہ لوگ جو “لوٹے” بن کر کسی اور ابھرنے والی پارٹی کی جانب سے ایوان میں پہنچنے میں کامیاب ہوجائیں، بات تو ناک پکڑنے والی ہی جیسی ہوگی خواہ سامنے سے پکڑلی جائے یا ہاتھ گھما کر۔ پاکستان کی تقدیر میں ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور فی الحال اس بات کی کوئی توقع نہیں کہ کہ صورت حال میں کوئی خوشگوار تبدیلی رونما ہو۔

 سراج الحق صاحب کی یہ بات کہ ملک میں روزانہ ہونے والی 12 ارب روپے کی کرپشن پر قابو پالیا جائے اور بیرونی بینکوں میں موجود قومی سرمایہ ملک میں آ جائے تو ہمیں امریکا سمیت کسی عالمی طاقت اور صہیونی مالیاتی اداروں کے دباؤ میں آنے کی ضرورت نہیں۔ کرپٹ حکمرانوں اور اسٹیٹس کو کی قوتوں نے ہماری آزادی و خودمختاری کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ہاتھوں گروی رکھ دیاہے۔ متحدہ مجلس عمل کے منشور میں آزاد خارجہ و داخلہ پالیسی کے ساتھ ساتھ مختلف ممالک سے برابری کی سطح پر تعلقات، سود سے پاک معاشی نظام اور عوام کو تعلیم و صحت کی سہولتوں کی فراہمی کے لیے دفاع کے بعد سب سے زیادہ بجٹ مختص کرنے کی ترجیحات ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ عوام کے تمام مسائل کا حل اور دکھوں کا علاج متحدہ مجلس عمل کے پاس ہے۔ انہوں نے کہاکہ اگر ایک دن کے لیے بھی ہمیں اقتدار ملا تو ہم نظام مصطفیؐ کا نفاذ کریں گے اور اسی نظام میں ملک و قوم کے مسائل کا حل ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فلاح و صلاح کا حل اسلام ہی میں ہے۔ نیز پاکستان بنایا ہی اسلام کے لئے گیا تھا لیکن بد قسمتی سے یہاں پورے 70 سال کے بعد بھی ایک لمحے کیلئے اسلام کا نفاذ نہیں ہو سکا البتہ اسلام کا نام لیکر چلائی جانے والی تحریکوں میں ہزاروں افراد مارے جا چکے ہیں۔ مشرقی پاکستان میں مسلمانوں کا قتل عام، مغربی پاکستان میں قتل عام، جہاد کے نام پر ابھار کر ہزاروں لوگوں کو اس آگ میں جھونکا گیا اور پھر اسلام کے نام پر ہی اپنے ہاتھوں ان پر پاکستان کی زمین تنگ کردی گئی اور بچ جانے والوں کو “لاپتہ” کر دیا گیا۔ یہ سلسلہ ایسا چلا کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا اور مستقبل میں بھی ایسا کوئی امکان نہیں کہ قتل و غارت گری کا یہ طوفان تھم جائے گا البتہ ہمیشہ کی طرح اس طوفان کے نام ضرور تبدیل ہوتے رہیں گے۔

اس صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے پہلے تو مجلس عمل کو اپنے آپ کو ہی کلیر کرانا ہوگا اس لئے کہ 2008 میں بھی ایسی ہی بات عوام کے سامنے آئی تھی اور اسلام اورکتاب کے نام پر بھاری تعداد میں کامیاب ہونے والی اور دو صوبوں میں حکومت بنانے والی جماعت خود اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکی اور تسبیح کے دانوں کی طرح بکھر گئی اور پھر اگلے الیکشن میں اپنے جسم و جان کو یکجا ہی نہ کر سکی۔ ایک مرتبہ پھر ایک نئے عزم و حوصلے کے ساتھ میدان میں اترنے والی مجلس عمل کیلئے بھی مختصر تریں تبصرہ یہی کیا جاسکتا ہے کہ “آمین”۔

آخر میں بس اتنا اور کہ آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ عوام کا رد عمل زمینی خداؤں کے سامنے آہی رہا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ لوگ آپ سے بھی پوچھ بیٹھیں کہ تقسیم ہونے والے کپڑوں سے ایک لمبے چوڑے انسان کی پوری قمیص کیسے بنی اور آپ کے پاس اس کا کوئی جواب ہی نہ ہو۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں