الیکشن کے آتے ہی…کراچی میں ٹوپی ڈرامے والوں کی تعداد بڑھ گئی

بیشک ، آج ایک بار پھر چھ ماہ میں لوڈشیڈنگ ختم کرانے والے شہباز شریف اپنے نئے سیاسی چورن کے ساتھ کراچی کو چھ ماہ میں شیشے کی طرح صاف کرنے اور پانی گھر گھر پہنچانے کا وعدہ اور دعویٰ لے کر ووٹرز کی دہلیز پر آئے ہیں۔نہ صرف یہ بلکہ سندھ اور کراچی میں بچے کی پیدائش سے لے کراِسے قبر کی آغوش میں جانے اور کروڑوں ، ا ربوں اور کھربوں روپے کی لاگت سے میگاپروجیکٹس/ ترقیاتی منصوبوں کے آغاز سے لے کر اختتام تک میٹھائی مانگنے والے بھی یکم جولا ئی سے اپنی الیکشن مہم کو شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں یعنی کہ سب اگلے متوقع الیکشن میں اپنی جیت کے لئے ووٹرز کی آنکھ میں دھول جھونک کر میٹھائی لے کر دھمال ڈالنے کے لئے پَر تول رہے ہیں۔ اور اِسی طرح کراچی کی ٹھیکدار بننے کی دعویدار جماعت جو ٹولیوں اور ٹکڑیوں میں بٹ گئی ہے؛ مگر ابھی تک اِس کی گردن میں سریا پڑاہواہے۔ یہ اپنا سب کچھ لٹا کر بھی اپنی جیت کاخواب دیکھ رہی ہے؛ اور ابھی تک شہر پر اپنی ٹھیکیداری کا بھرم قا ئم رکھے ہوئے ہے۔ اَب جو کہ مضحکہ خیز ہے۔ جبکہ اُن سمیت جن کی اپنی جماعت کے کارکن بے لگام رہتے ہیں۔ آج وہ بھی نئے پاکستان کا نعرہ لگا کر اورکراچی پر قابض ہو کر پورے پاکستان کی باگ دوڑ سنبھالنے کے دعویدار ہیں۔ غرضیکہ ، سب کی دوڑ یں کراچی پر قبضے کے لئے لگی ہو ئی ہیں ۔ ایسے میں اَب کراچی کے عوام کی ذمہ داری بڑھ گئی ہے کہ اِس صورتِ حال میں اپنے سیاسی شعور کا مظاہرہ کریں، اور اپنے ووٹ کی اہمیت اور افادیت کو سمجھتے ہوئے اپنے لئے جو بہتر سوچیں اور بہتر سمجھیں وہ کریں۔
ورنہ پھر کراچی کے عوام سیاسی بازی گروں کی چکنی چپڑی باتوں میں آگئے اور پھر سیاسی چورن بیچنے والوں ، میٹھا ئی مانگنے والوں ، 35/30سال سے زبان اور بیرونِ مُلک بیٹھے قائد کی شخصیت پرستی کرنے والوں اورنئے پاکستان کا نعرہ لگا نے والوں کو ہی آنکھ بند کرکے ووٹ دیتے رہیں گے۔ تو پھراِنہیں یہ بھی پتہ ہونا چاہئے کہ یہ اپنی تباہی اور بربادی کاخود سامان کریں گے۔
آج اگر کو ئی کراچی کے عوام کو اِن کا اصل حق دلاسکتا ہے۔ تو وہ صرف ایک ہی جماعت ہے ۔جو اِن ہی میں سے ہے۔ جو کل بھی یکتا تھی۔ اور آج بھی بے مثال ہے۔ اِس کے سربراہ نے کل بھی اپنے نام کے ساتھ ایک پہچان مہاجر بنا ئی تھی۔ اور آج بھی اُس جماعت کاسربراہ اپنے نام کے ساتھ اپنی پہنچان کو لے کر چل رہاہے۔
اگر چہ، ماضی میں اِس پرآج کی ٹولیوں اور ٹکڑیوں میں بٹی جماعت کے کارندوں نے اِس کے خلاف انگنت منفی پروپیگنڈے کئے۔ مگر اِس جماعت کا سربراہ کل بھی تنہاتھا۔ اور آج بھی تنہا ہے۔ مگر اپنے عزم اور اپنے حوصلے پر قائم ہے۔ یہ نہ کل بکا تھا۔ اور نہ آج بکا ہے۔ اپنی پارٹی کے نام پر اِس نے نہ کل سیاسی بنیادی پرسودے بازی کی تھی اور نہ ہی اِس نے کبھی کھوکھلی مفاہمت اور مصلحت سے کام لیا تھا۔ اور نہ آج کسی دباؤ میں آن کر اپنی پارٹی کا نام تبدیل کرنے کا کو ئی ارادہ رکھتا ہے۔ جبکہ کراچی کی ٹھیکدار بننے والی جماعت نے اپنے ابتدا ئی دور کے نام پر سودے بازی کرکے اپنا نام ہی تبدیل کرلیاتھا ۔ اور یہی وجہ ہے کہ آج یہ اِس پربھی باہم متحد ومنظم خود نہ رہ سکی ہے۔ بلکہ ٹکڑیوں اور ٹولیوں میں بٹ کر اپنا شیرازہ بکھیر چکی ہے۔
تاہم اِس حال میں کراچی والوں کے لئے اِن سیاسی بازی گروں کی ہر چال اور حربے کو سمجھنا اور اَب اِنہیں اِن کی اوقات (اپنے قدموں ) میں رکھنے کا موقعہ آگیاہے۔ بس ووٹرز یہ سمجھ لیں کہ جس کا ماضی جھوٹ سے بھرا ہوا ہو، وہ آج بھی جھوٹا ہے۔ اورآنے والے کل میں بھی جھوٹا ہوگا۔ جس کی عزت گزرے کل میں نہیں تھی۔ وہ بھلاآج باعزت کیسے ہوسکتاہے؟ اور مستقبل میں بھی کو ئی اِس کی عزت کیوں کرے گا۔؟ اِسی طرح جو کل ٹوپی ڈرامے میں اپنی مثال آپ تھے وہ آج بھی اپنی کرتوتوں سے باز نہیں رہ سکتے ہیں، اور اُن کا آنے والا کل بھی ٹوپی ڈراموں سے رنگین ہی رہے گا۔ جھوٹ اور ٹوپی ڈرامے کسی کی کامیابی کے ضامن زیادہ دیر تک نہیں رہ سکتے ہیں۔ مگر آج کوئی اِنسان کو ئی بھی جماعت یا کوئی ٹولہ کیوں نہ ہو اگروہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ ٹوپی ڈرامے اور جھوٹ کی بدولت اپنی کامیا بیوں کے جھنڈے گاڑ سکتا ہے۔ تو وہ یہ بھی یاد رکھے کہ کوئی بھی مہذب معاشروں میں کھوکھلی بنیا دوں پر کبھی بھی قابل اعتماد نہیں ہوسکتاہے۔
معاف کیجئے گا! اِس موقع پر مجھے یہ سوال آپ سب سے پوچھنا ہے کہ ’’ کیا ہم مہذب معاشرے کے باشعور اِنسان ہیں؟؟ اگر آ پ کا جواب یہ ہے کہ ’’ جی ہاں ہم ایک مہذب معاشرے کے باشعور اِنسان ہیں۔ تو پھر اِس الیکشن میں آپ کو شکل، زبان، مذہب، ذات، رنگ و نسل کو بلائے طاق رکھتے ہوئے ۔ خالصتاََ باصلاحیت اور اصولوں پرقائم رہ کر آئین و قانون کی پاسداری کرنے والے اُمیدوار کو اپنا ووٹ قومی فریضہ سمجھ کر دینا ہوگا ۔ تا کہ ستر سال سے مُلک و قوم پر جمہوریت کا لبادہ اُوڑھ کر قابض رہنے والے مٹھی بھر اشرافیہ سے چھٹکارہ نصیب ہو۔
بہر کیف ، اِس میں شک نہیں ہے کہ ارضِ مقدس میں الیکشن کا طبل بجتے ہی مجموعی طور پر پورے مُلک میں ، مگر با لخصوص شہرِ قائد کراچی میں ٹو پی ڈرامے والوں کی تعداد دوسرے شہروں کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی ہے ۔ مدتوں سے ہر دو اڑھائی یا کبھی کبھار قسمت سے پانچ سال کے بعد انتخابات کا دور شروع ہوتا ہے۔ تو پھر نئے چہروں کے ساتھ پرا نے نظامِِ حکومت کو لے کر شاطرا ور شارپ مائنڈ اشرافیہ مسندِ اقتدار پر قابض ہوجاتا ہے۔ اور قومی خزا نے کو اپنے اللے تللے کے لئے اپنے باپ دادا کی جاگیر سمجھ کر استعمال کرتا ہے۔ جس سے بحالتِ کرپٹ اشرافیہ امیر سے امیر تر اور غریب بیچارہ غریب سے غریب تر ہوتاجاتا ہے۔ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کے باعث مُلک اور معاشرے میں توازن بگڑ گیاہے۔ مُلک کا غریب مدتوں سے قومی چوروں ، لیٹروں اور کرپٹ اشرافیہ کو ووٹ دے کر اِن ہی کے ہاتھوں تباہ وبربادہورہاہے۔ یعنی کہ میری جوتی میراسراور میرا ووٹ میری ہی بربادی کا سلسلہ ستر سال سے جاری ہے۔ ووٹ لے کر کو ئی اِس کی داد رسی کرنے والا نہیں ہے۔ غریبوں ذرا سوچو اب تمہیں کیا کرنا ہے۔؟؟

حصہ

جواب چھوڑ دیں