ناکام ریاست کے کامیاب لوگ

پاکستانی عوام کی سمجھداری اور دانائی ہمیشہ سے ہی سوالیہ نشان رہی ہے۔ عدالتوں سے تصدیق شدہ چور، ڈاکو، لٹیروں ، بد عنوانوں یہاں تک کے قاتلوں کی بھی رہائی پریہ عوام انہیں ہار پھول پہناتے ہوئے دیکھائی دیتے ہیں ، انہیں کاندھوں پربھی بیٹھاتے ہیں وہ جو جیل سے شائدسدھرنے کا عزم لے کر باہر آرہاہوتا ہے عوام کا جوش و خروش دیکھ کر وہ اپنا عزم جیل کے دروازے پر ہی پھینکتا ہے اورچھلانگ لگا کر عوام کے کاندھوں پر بیٹھ جاتا ہے اور پھر اسی عوام کو روندا جاتا ہے ، استحصال کیا جاتا ہے۔ آج بھی ہمارے ملک میں نجی جیلیں ہیں، عقوبت خانے ہیں ، عورتوں اور معصوم بچوں کی عصمت دری عام سی بات ہے ، عزت کے نام پر قتلِ عام ہوتا ہے ، باپ اپنی اولاد کو قتل کررہا ہے تو اولاد والدین کی جان کے درپے ہیں۔ ان مسائل کی جہاں دیگر اور کئی وجوہات ہونگی وہیں ایک اہم وجہ حکمرانوں کی حکومتی امور میں عدم دلچسپی بھی ہے اور اس کا حل یہی ہوسکتا ہے کہ حکمران اپنی ذمہ داریاں اور توانائیاں عوام کی فلاح و بہبود پر لگائیں بحالی انصاف پر لگائیں نا کہ اپنے نجی کاروبارکو بڑھانے میں سرکاری مشینری بھی لگادیں۔
دکھ اس بات کا ہوتا ہے کہ ان حکمرانوں کو،ان دنیاوی کامیاب لوگوں کو کسی قسم کی شرمندگی نہیں ہوتی اوران معززین کی جانب سے تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ جو کچھ بھی ان کے خلاف کہا جا رہا یا کیا جارہا ہے وہ سراسر جھوٹ پر مبنی ہے جو ان کی کامیابی اور شہرت کی جلن کا نتیجہ ہے۔یہ لوگ کس بے باکی سے کیمروں کا سامنا کرتے ہیں ،کتنی بے سفاکی سے صحافیوں کے سوالات سنتے اور انکے جوابات دیتے ہیں اورانتہائی دلیری اوربے خوفی سے بڑی بڑی سرکاری گاڑیوں کو نجی بنا کر اور نجی گاڑیوں کو سرکاری بنا کر دندناتے پھرتے ہیں ۔ آپ ملک کے نااہل وزیر اعظم کی پیشیوں پر آنے والے گاڑیوں کے قافلے کو دیکھ لیں ، ناصرف ایک طویل قطار بلکہ نایاب بڑی بڑی گاڑیاں۔ ان کی یہ تمام کاروائیاں ایک طرف دوسری طرف ان لوگوں کے پروٹوکول اور حفاظت پرمعمور سرکاری اہل کارجو سڑی گرمی میں ٹریفک روکتے، انکے آگے پیچھے بھاگتے دیکھائی دیتے ہیں ان لوگوں کی وجہ سے عوام سے گالیاں اور لعنت ملامت سنتے ہیں۔
اداروں میں کام کرنے والے لوگ یعنی نوکری پیشہ افراد اگر اپنے اداروں سے مخلص نا ہوں تو ادارے تباہ ہوجاتے ہیں اور یقیناًیہ اداروں کی تباہی کا بنیادی عنصربھی ہوسکتا ہے جس کا احساس اداروں کی تباہی کے بعد ہی ہوتا ہے ۔بڑے بڑے دانشوار اور آبی امور کے ماہر واشگاف لفظوں میں شور مچا مچا کر یہ بات باور کروانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مستقبل قریب میں پاکستان خشک سالی کی زد میں آسکتا ہے ،خدارا کوئی باقاعدہ پانی کو محفوظ کرنے کا انتظام کرلیجئے ڈیم بنالیں اور ہر سال جو پانی ضائع کرتے آرہے ہیں اسے محفوظ کرلیں۔ ہم اپنے پڑوسی ملک کے اس حوالے سے اٹھائے جانے والے اقدامات پر بھی دھیان نہیں دے رہے ہاں شور ضرور کر رہے ہیں کہ وہ ہمارا پانی بند کرنے پر تلا ہواہے ۔ ہر طرف ایک شور مچا ہوا ہے کہ ڈیم بنالیں ڈیم بنالیں ،یہاں تک کے چیف جسٹس صاحب کوبھی اس معاملے پر نوٹس لینا پڑ گیا ہے۔ سیاست دانوں کی ذہنی ہم آہنگی کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ انہیں اس بات کی سمجھ ہی نہیں آرہی کہ ڈیم بنانا یا اسکی غیر مشروط حمایت کرنا کتنا ضروری ہے۔ ہر سیاست دان کی زبان سے ایک ہی بات سنائی دے رہی ہے کہ کالا باغ ڈیم تمام سیاسی جماعتوں کے تعاون سے ہی بن سکتا ہے، یہ بات تو طے ہے بلکہ ہم عوام پر تو ثابت ہو چکی ہے کہ سیاست دان کسی بھی ایسے معاملے پر متفق ہوتے ہی نہیں ہیں جس سے پاکستان کا اور پاکستانی عوام کا بھلا ہوتا ہو۔ ابھی اپنی تنخواہیں بڑھانے کا بل آجائے تو بغیر مباحثے کے غیر مشروط منظور ہوجاتا ہے ۔
یہاں تو گنتی لکھتے ہوئے بھی ہول سا آتا ہے کہ ہم اربوں کھربوں روپے کے مقروض ہیں اور یہ قرضہ ڈالر کے روز بروز بڑھتے ہوئے قد کیساتھ بڑھتا ہی جارہا ہے۔اگر ملک کی صوتحال دیکھیں تو بے ساختہ یہ سوال اٹھتا ہے کہ یہ اربوں کھربوں روپے کہاں گئے اور پھریک دم اس خیال کا آنا کہ غربت کا مارا ملک جسے درپردہ کہنے والے ناکام ریاست بھی کہہ دیتے ہیں، تو یہ اربوں کھربوں کی رقم ملک کے حکمرانوں اور ان کو راستہ دیکھانے والوں کی جیبوں میں چلا جاتا ہے اور یہ لوگ عوام کا خون منہ پر لگا کر عوام کے نعروں کا جواب ہاتھ ہلا ہلا کر دیتے ہیں اور ہنستے مسکراتے رہتے ہیں کہ بھلا دیکھو کیسی عوام ہے کہ ہم ان کا خون چوس رہے ہیں اور یہ ہمیں اپنے کاندھوں پر بیٹھانے کوبیتاب ہیں۔ لیکن اب امید کی جارہی ہے کہ ایسا نہیں ہونے والا، اب وہ سارا پیسہ واپس کرنے کا وقت آگیا ہے ۔پاکستان کی فضاؤں میں انصاف کی صدائیں گونجتی سنائی دے رہی ہیں۔ اب جو لوگ بندکمروں میں فیصلے تبدیل کروا لیا کرتے تھے اب انکے فیصلے وہی قانون انکے گھروں اور کاروباروں پر پہنچ کر کر رہا ہے ۔ ہر طرف سے ہوشیار باش کی صدائیں سنائی دے رہی ہیں۔ ملک کے اہل ترین لوگ نا اہل قرار پا رہے ہیں عوام اپنے حلقوں میں آنے والوں کے گریبان پکڑنے کو بے چین بیٹھے ہیں ۔
عوام کو پتہ چل چکا ہے کہ ریاست کو ناکام بناکر یہ لوگ کامیاب ہوئے ہیں۔ ۲۵ جولائی کو اس بات کا یقین دلاناعوام کی اولین ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سیاستدانوں کو بتائیں کہ وہ ان سے کہیں زیادہ محب وطن ہیں، ہر برے وقت میں یہ عوام ہی تھی جس نے سیاسی لوگوں کو ہمت اور حوصلہ فراہم کیا اور حالات سے ڈٹ کرنا مقابلہ کرنے کا درس دیا ۔در حقیقت پاکستان پہلے دن سے ہی عوام کی قربانیوں کے بل بوتے پر چل رہا ہے ۔ ہر مشکل وقت میں سیسہ پلائی ہوئی ملک اور دشمنوں کے بیچ دیوار بن کر کھڑی ہوتی ہے ۔اب کی پچیس جولائی کو پاکستان تمام مافیاؤں کی زد سے چھٹکارا پا لے گایہ عوام ہی کے دم سے ممکن ہوگا اور ہمیشہ سے ہم پاکستانی ناممکن کو ممکن کرتے آئے ہیں۔ اب ریاست کے کامیاب ہونے کا وقت آن پہنچا ہے اب عوام کی کامیابی کا ڈنکا بجنے والا ہے لیکن اسکے لئے ضروری ہے ہم عوام اپنا ووٹ اپنے مستقبل کو بہتر بنانے والوں کو دیں ناکہ تاریکی میں بھٹکانے والوں کو دیں۔ فیصلہ جو بھی ہوگا ہمارا ہی ہوگا۔اب ریاست بھی کامیاب ہوگی اور اکسی عوام بھی۔

حصہ
mm
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔

جواب چھوڑ دیں