اُف یہ جانور ! بلکہ ان سے بھی بد تر

ہم انسانوں کا معاملہ بھی عجیب ہے ۔ایک طرف اَشرف ِمخلوق تو دوسری طرف ’’ کَالاَ نعام بَل ھُم  اَضَلّ‘‘!لیکن  ابلیس کی پیروی میں اِنسانیت کے منصب سے خود کو گرادینے  اور  عقل و ارادہ  رکھنے والے  ، دو ہاتھ  اور دو پاؤں  کے مالک    اِن جانوروں کا حشر بھی وہی ہوگا جو  اُن کےولی و سرپرست ابلیس کا  مقدر ہے ۔ یہ جانور خواہ بھار ت میں ہوں یا دنیا کے کسی بھی حصے میں ،اُن کا’ وقت ِآخر‘ اَب بہت زیادہ دور نہیں ۔ ’وہ اُسے دور سمجھتے ہیں ہم اُسے قریب دیکھ رہے ہیں ‘۔اِ نَّھم  یَرَو نہ بعیدا ًوََّنرٰ یہ قریبا۔!

اوریا مقبول جان اپنے ایک کالم میں دنیا کے سب سے ظالم ،خونخوار ،پُر تشدد اور سفاک جانور SHREWشریوکی فطرت کا تذکرہ کرتے ہوئے بالکل درست لکھا ہے کہ اس جانور کا مطالعہ جن دو خصوصیات ۔نسلی اور علاقائی تعصب۔کو واضح کرتا ہے اس کو انسانی تاریخ پر چسپاں کر کے دیکھیں تو حیرت سے آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں ۔انسان نے بھی رنگ و  نسل اور علاقے کے نام پر جتنا خوں بہایا ہے  اُس کی مثال کسی  اور تعصب کی بنیاد پربہائے جانے والے خون میں نہیں ملتی ۔

’’شریو‘‘ایک ’مَیمَل ‘ یعنی بچے جننے اورانہیں اپنا  دودھ پلانے  والا جانور ہے ۔چوہے کے برابر اس جانور کی تھوتنی سور (خنزیر ) کی طرح لمبی اور نوکدار ہوتی ہے ۔اُس کے ظلم ، تشدداور ستم کے  دو اسباب بتائے جاتے ہیں ۔ایک یہ کہ اس کی بھوک اور کھانے کی ہوس اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے جسم کے نوے فی صد وزن کے برابر خوراک کھا جاتا ہے اور دوسرے یہ کہ وہ اپنے رہنے کے لیے جو کھوہ ،بِل، یا زیر زمین گڑھا  بناتا ہے یا ویسا ہی کوئی اور مقام  تلاش کر کے اس کو اپنا گھر بناتا ہے  وہ (انسانی قارونوں امبانیوں اور شہریاروں کی طرح ) اُس کی حقیقی ضروریات سے کئی سو گنا زیادہ ہوتا ہےاور وہ اس ناجائز اور غاصبانہ قبضے کا قائم رکھنے کے لیے اپنے سے بڑے سائز کے جانداروں کو، اُن کی تعداد زیادہ ہونے کے باوجود ،اُن پر حملہ آور ہوکر اُنہیں ختم کر دیتا ہے۔ اپنے سائز کے جانوروں کو تو یہ بلا خوف  موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے ۔’شریو ‘ اپنے گھر اور علاقے کا جارحانہ حد تک تحفظ کرتا ہے اور اپنی نسل یا قوم کی بنیاد پر اکٹھا ہو کر(یہود و مشرکین کی طرح )  دوسری نسل کے جانوروں پر بلا وجہ (یورپیوں اور امریکیوں کی طرح )حملہ آور ہوتا ہے اور اُنہیں اُ ن کے علاقے سے در بدر کر کے (فلسطین و رخائن کی طرح ) اس پر قبضہ کر لیتا ہے ۔’شریو ‘ اپنی غار نما  وسیع و عریض پناہ گاہوں میں اپنے شکار کو لے جاکر (گوانتا نامو اور ابو غریب کی طرح ) محض لذت لینے کے لیے ان پر ناقابل تصور تشدد بھی کرتے ہیں اور اس طرح ’شریو ‘ کی یہ پناہ گاہیں دوسرے جانوروں کے لیے ’عقوبت خانے بن جاتے ہیں ۔اس طرح کا نسلی اور علاقائی تعصب دنیا کے کسی اور جانور میں نہیں پایا جاتا ۔

۱۴۹۰ سے ۱۸۹۰ تک امریکہ میں آباد تقریباً ساڑھے گیارہ کروڑ ’سرخ ہندیوں (Red Indians)میں سے نوے فی صد لوگ بے گناہ و بے خطا موت کے گھاٹ اتار دیے گئے تھے  ۔سفید فام اینگلو سیکسن  پروٹسٹنٹ (یورپی اور امریکی)عیسائیوں (WASP)نے براؤن اور سیاہ فام نسل کے انسانوں  کو محض ان کے مکانوں ، زمینوں  اور شہروں پر قبضہ کرنے کے لیے تہ تیغ کر ڈالا ۔نسل اور زبان کے اس   SHREWDتعصب  سے انسانی تاریخ کا کوئی ورق خالی نہیں ۔!

ابھی دو عالمی جنگوں میں بھی بد ترین قتل و غارت ہو چکا ہے جس میں کروڑوں انسان مارے گئے اور اتنے ہی جلاوطن ہو ئے ۔ان میں سے اکثر کا تو مذہب بھی ایک تھا یعنی قاتل اور مقتول دونوں ہم مذہب تھے ! بس اُن کا علاقہ اور نسل مختلف تھی !

بعد میں ( پہلی اور دوسری دنیا کہلانے والی )ان بڑی طاقتوں نے غریب ،پسماندہ و درماندہ(ایشیا اور افریقہ پر مشتمل ) تیسری دنیا میں جو ’’شریوی زہر ‘‘ بویا اُس کے نتیجے میں صرف افریقہ کےایک ملک ’رَوانڈا ‘میں محض سَو دِن کے اندر  ۱۹۹۴ میں  دس لاکھ لوگ قتل کر دیے گئے جو دوسرے قبیلوں سے تعلق رکھتے تھے۔اس کے بعد سے آج تک ٹارگٹ کلنگ اور’ دہشت گردی کے خلاف جنگ ‘کے نام پر  افغانستان ،عراق ،سیریا ، بحرین ،نائجیریا ، یمن  ،کشمیر اور   پاکستان  میں بھی یہی ہو رہا ہے !

اور اب وطن عزیز بھارت کو بھی فلسطین و کشمیر ،یمن و سیریا اور عراق و افغانستان بنانے کی تیاریاں شباب پر ہیں ! اللہم ا حفظنا ۔۔! ۔

ہم انسانی جنگل کے وہ بدترین ’شریو ‘ہیں جو زبان اور علاقے پر لڑتے ہیں ۔لیکن ہم میں اور’’شریو‘‘ میں ایک اور فرق ہے ۔ وہ یہ کہ ’ایک شریو کسی دوسرے شریو کو کبھی قتل نہیں کرتا ! ‘لیکن ہم  وہ بدترین مخلوق ہیں جو کُتّے ، بلی ،طوطے اور کبوتر پال لیتے ہیں لیکن ایک ماں باپ ( آدم اور حوا کی) اولاد  اپنے ہی انسانی بھائیوں کو بے دریغ قتل کرتے  رہتے ہیں۔

اور اب بھی  ہمارا دل نہیں بھرا ہے اہل ایمان کے دائمی دشمن وطن عزیز کو بھی فلسطین و بوسنیا ،عراق و سیریا اور افغانستان و یمن  بنا دینے پر تلے بیٹھے ہیں اور خود کو مسلمان کہنے والے کچھ ’منافقین خلق ‘ دین و ایمان کے دائمی دشمنوں  سے ’رِشتہ ءِ ولایت‘ اُستوار کیے بیٹھے ہیں اور یہ بھول گئے ہیں کہ جب ہلاکو اور چنگیز حملہ کرتے ہیں تو وہ کسی کو نہیں بخشتے !

یہ سب ، جن میں مَلَا ء (اُمراء)بھی ہیں اور  (ظاہری بھگل کے اعتبار سے ) نام نہاد علماء بھی ،اُس پیغمبر آخری ا لزماں کو ماننے کے دعویدار ہیں جس فرمایا ہے کہ ’’۔۔تمہاری جاہلیت،عصبیت  اور غرور کے تمام  بت میرے پاؤں کی ٹھوکر میں ہیں ۔۔‘‘ لیکن ان بد بختوں ،جاہلوں اور منافقوں نے  نے وہی بت اُٹھا کر پھر سے اپنی آستینوں میں چھپا لیے ہیں ! اور بھول گئے ہیں  کہ دنیا کو، جس طرح وہ اِس وقت ظلم و جور و تعصب سے بھری ہوئی ہے ،’’ عدل و قسط سے  بھر دینے والے‘‘ کی آمد قریب ہے  جس کے ہاتھوں صرف وقت کے تمام  فرعون،نمرود،قارون اور یزید ہی نہیں مارے جائیں گے بلکہ اہل ایمان کے دشمن  ’ملاء اور علماے سوء‘ بھی جہنم کا کندہ بننے کے لیے بھیج دیے جائیں گے ۔ان شاء اللہ !

حصہ
mm
لکھنو کے رہنے والے عالم نقوی ہندوستان کے ایک کہنہ مشق صحافی،اور قلم کار ہیں وہ ہندوستان کے مختلف اخبارات و جرائد ور ویب پورٹل کے لیے لکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں