دین و سیاست کی جدائی یا ہم آہنگی

فی زمانہ ہی نہیں ہر دور میں یہ کہا جاتارہا ہے کہ  سیاست ایک ایسا کارزار ہے جو جھوٹ ،ہوس،لوٹ کھسوٹ و دغابازی سے پر ہے لہذا  مذھبی جماعتوں کا سیاست میں کیا کام ؟؟ کہیں کہیں مذھب اور سیاست کو الگ کرنے کی آواز بھی اٹھتی ہے اس تناظر میں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ ایک اسلامی ملک کے اندر امور مملکت چلائے جانے کےاصول کیااسلام کے بتائے گئے ضابطوں، طریقوِں، قاعدوں اور قوانین سے علیحدہ ہو سکتے ہیں ؟ اس سوال کاجواب تلاش کرنے سے قبل ضروری ہے کہ اسلامی سیاست کے اصولوں سے واقفیت حاصل کی جائے۔ اسلامی سیاست یا اسلام کے سیاسی نظام کی تین بنیادیں ہیں : ۱- توحید           ۲- رسالت      ۳-  خلافت

     توحید کے معنی ہیں کہ حکومت و فرمانروائی صرف اللہ تعالی کی ہے اور بندگی و طاقت بلا شرکت غیرے اسی کے لئے ہے ۔ ہماری یہ ہستی، جسمانی صلاحتیں و طاقتیں اور اختیارات سب اسی کی دین ہے اور اس معاملے میں حدود و قیود متعین کرنا ہمارا کام نہیں اللہ کا کام ہے۔ توحید کایہ اصول انسانی حاکمیت کی سرے سے نفی کر دیتاہے ۔ حاکم صرف اللہ ہے اور اسی کا حکم قانون ہے۔

      اللہ کا قانون جس ذریعے سے بندوں تک پہنچتا ہے اس کا نام “رسالت ” ہے۔ اس ذریعے سے ہمیں دو چیزیں ملتی ہیں ۔ ۱-  کتاب (کلام الہی) ۲ –  کتاب کی مستند تشریح ( نبی کریمﷺ کا قول و عمل)۔ اللہ نے قرآن حکیم میں وہ تمام اصول بیان کر دیئے ہیں جن پر انسانی زندگی کا نظام قائم ہونا چاہیے اور رسول اللہﷺ نے کتاب کی اس منشاء کے مطابق عملاً ایک نظام زندگی بنا کر ،چلا کر اور اس کی ضروری تفصیلات بتا کر ہمارے لئے ایک نمونہ قائم کر دیا۔

           خلافت کا لفظ عربی ز بان میں نیابت کے ہم معنی ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے دنیا میں انسان اللہ کا نائب ہے جو اس کے ملک میں اس کے دئیے ہوئے اختیارات اس کی مرضی کے مطابق استعمال کرتا ہے۔ اختیارات اللہ نے دئیے ہیں جن کو اللہ کی ہدایت کے مطابق ان حدود میں استعمال کرنا ہے جو خدا نے مقرر کر دی ہیں ۔ اسلامی نظریہ سیاسی کی رو سے جو ریاست قائم ہو گی وہ دراصل اللہ کی حاکمیت کےتحت انسانی خلافت ہو گی جسے اللہ کی ملک میں اس کی دی ہوئی ہدایات کے مطابق ، اس کی مقرر کردہ حدود کے اندر کام کر کے اس کی منشاء و مدعا کو پورا کرنا ہو گا ۔ اہم بات یہ ہے کہ اسلامی معاشرے کا ہر فرد خلافت کے حقوق اور اختیارات رکھتا ہے۔ ان حقوق و اختیارات میں تمام افراد برابر کے حصے دار ہیں یہی وہ نقطہ ہے جہاں سے” اسلامی جمہوریت” کا تصور جنم لیتا ہے۔ اسلامی ریاست میں کسی کو کسی پر نہ تو فوقیت حاصل ہے اور نہ یہ حق پہنچتا ہے کہ کسی کو حقوق و اختیارات سے محروم کیا جائے۔ ریاست کے انتظام و انصرام کی خاطر جو حکومت بنائی جائے گی وہ ان ہی افراد کی مرضی سے بنے گی۔ ان ہی کے مشورے سے کام کرے گی اور جو ان کا اعتماد حاصل کرے گا وہ ان کی طرف سے خلافت کے فرائض انجام دے گا۔ اس لحاظ سے اسلامی جمہوریت ایک مکمل جمہوریت ہے۔

          تقابلی طور پر مغرب کا نظریہ سیاسی “افراد کی حاکمیت”کا قائل ہے اور اسلام “افراد کی خلافت” کا ۔ وہاں افراد کے پاس حاکمیت اعلٰی ہے اور یہاں حاکمیت اعلی اللہ کی ہے اور افراد اس کے خلیفہ ہیں۔ وہاں حکومت کا کام عوام کی منشاء پورا کرنا ہے اور یہاں حکومت اور عوام سب کا کام اللہ کی منشاء پورا کرنا ہے ۔ مختصر یہ کہ مغربی جمہوریت ایک مطلق العنان خدائی ہے اور اپنے اختیارات کا آزادانہ استعمال کرتی ہے ۔اس کے بر عکس اسلامی جمہوریت پابند دستور ہے جو اپنے اختیارات  کو خدا کی دی ہوئ ہدایات کے مطابق اس کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرتی ہے۔ اسلام کے ان واضح اصولوں اور روشن ضابطوں سے آگاہی کے بعد یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ ایک اسلامی ملک دین و سیاست کی راہیں جدا کرکے اپنے اسلامی تشخص کو برقرار رکھ سکے گا اور ان فیوض سے سیراب ہو سکے گا جو اسلامی حصولوں سے مزین نظام  سیاست کی حامل ریاست ہو سکتی ہے۔

        اب آئیے نظر ڈالیں اس نقشہ پر جس پر اسلامی نظریہ سیاست کی حامل ریاست استوار ہوگئ۔ایسی اسلامی ریاست کا مقصد نہ محض انتظام ملکی ہو سکتا ہے اور نہ یہ کہ وہ کسی خاص طبقے ،گروہ یا قوم کی اجتماعی خواہشات پوری کرے۔ اسلام اس کے سامنے بلند نصب العین رکھ دیتا ہے جس کے حصول میں اس کو اپنے تمام وسائل و ذرائع اور طاقتیں صرف کرنی چاہئیں اور وہ یہ کہ بھلائیوں کو قائم کریں اور برائیوں کے فروغ کو روکیں ۔ اپنے افراد پر ترقی اور فلاح، خیر و صلاح کی راہیں کھولیں اور فساد و بگاڑ کے تمام اسباب اور صورتوں کا سدباب کریں۔ اسلامی ریاست کے لئے اخلاقی اصولوں کی پابندی سب سے مقدم ہے۔ ایسی ریاست کے لئے ضروری ہے کہ اس کی سیاست بے لاگ انصاف،بے لوث سچائی اورکھری ایمانداری پر قائم ہو اور کسی مفاد یا مصلحت کی خاطر بھی ان سے روگردانی نہ کرے۔ ریاست کے اندر راعی و رعایا کے باہمی تعلقات ہوں یا خارجہ تعلقات دونوں میں صداقت و دیانت اور انصاف کو اولیت دی جائے ۔ عہد کی پابندی،حقوق کی ادائیگی اور طاقت کا درست استعمال مسلم حکومت کی اہم خصوصیات ہیں ۔ یہ بھی اخلاق کا لازوال نمونہ ہے کہ اسلامی ریاست کے اندر غیر مسلموں کے حقوق متعین کر دئیے گئے ہیں ان کی جان ومال وآبرو بالکل ایک مسلمان کی طرح محترم ہے ۔ فوجداری و دیوانی قوانین دونوں کے لئے یکساں ہیں۔ ان کے پرسنل لاء میں حکومت مداخلت نہیں کر سکتی اور ان کو  مذھبی رسوم و عبادات میں پوری طرح آزادی حاصل ہے ۔ اسلامی ریاست کے افراد ہر سوچ سے بالاتر ہو کر اس شخص کا سربراہِ حکومت کے طور پر انتخاب کریں جو سیرت و کردار، خداترسی و تدبرکے اعتبار سے فوقیت رکھتا ہو۔اسلامی ریاست میں قانون سازی ان حدود کے اندرہو گی جو شریعت الہی میں مقرر کی گئی ہیں ۔ یہاں عدالت انتظامی حکومت کے ماتحت نہیِں بلکہ براہ راست اللہ کی نمائندہ اور اس کو جوابدہ ہے ۔اور اس کے انصاف کی زد سے خود حکومت اورحاکم وقت بھی نہ بچ سکے گا۔

        اسلامی ریاست کی یہ جھلک اسی وقت نظر آسکتی ہے جب سیاست کے بے لگام گھوڑے کو دین و مذھب کےاصول و ضوابط کاماتحت کیا جائے۔ آج اگر ہماری سیاست غلط کاریوں کا مرقع ہے تو صرف اس لئے کہ اس میدان میں ایسے لوگ غالب رہے جنھوں نے سیاست کو کرپشن، لوٹ مار اور قانون شکنی کا دوسرا نام بنا دیا جب تک اس کارزار میں صالح قوتیں غالب نہ ہوں گی تو وہ حدود و قیود بھی لاگو نہ ہوں گی جو اسلام کے نظام سیاست کی بنیاد ہیں جن کی نہ صرف دین و مذھب نے آگاہی دی بلکہ ان انمول اصولوں پر رسول اللہﷺ اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنھم نے اسلامی ریاست کے خدوخال تشکیل دے کر اس کو نمونہ تقلید بنایا۔ جب تک سیاسی نظام کی تبدیلی عمل میں نہیں لائی جاتی صالح، پرامن اور آسودہ ریاست کا خواب بھی پورا نہیں ہو سکتا۔

حصہ

2 تبصرے

  1. اسی لیئے اقبال نے ایک صدی قبل ہی فرما دیا تھا:
    جلال بادشاہی ہو یا جمہوری تماشا ہو
    جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی!!!

  2. کافی مدلل تحریر ہے! خاص طور پر خلافت اور جمہوریت کے بارے میں کی گئی گفتگو نے ذہن میں موجود بہت سارے ابہام کو دور کر دیا ہے! جزاک اللہ خیر

جواب چھوڑ دیں