دین مائینس سیاست برابر چنگیزی

جب بھی اسلام  میں سیاست کے حوالے سے بات چھڑتی ہے یا بحث و مباحثہ ہوتا ہے تو عام طور پر شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کے اس مصرع کا حوالہ ضرور دیا جاتا ہے کہ “جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی”۔ یہ بات نہ صرف پتھر کی لکیر بن گئی بلکہ اسقدر بلیغ ثابت ہوئی کہ اسلام کا دین رکھنے  والےوہ علمائے کرام جو سیاست کو دین اسلام کا جزولاینفک ماننے کیلئے کسی قیمت پر تیار ہی نہیں تھے وہ بھی اس بات کو ماننے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ اگر سیاست کو دین میں نکال دیا جائے تو واقعی جو چیز باقی بچ رہے گی وہ صرف اور صرف چنگیزی اور نظام کفر ہی ہوگا اس کے علاوہ اور کچھ نہ ہوگا۔ فی زمانہ  اسلام کو ماننے والے عام افراد ہوں یا علمائے کرام، ان میں کوئی ایک فرد بھی ایسا نہیں جو سیاست میں حصہ لینا ایسا سمجھتا ہو جیسے شجر ممنوعہ کا پھل چکھنا بلکہ وہ مسٹروں سے بھی دس قدم آگے بڑھ کر اس راہ کا شہسوار بنا نظر آتا ہے۔

اصل میں اس بحث میں شمولیت سے قبل اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ لفظ “سیاست” کے معنیٰ کیا ہیں کیونکہ جب تک اس لفظ پر ہماری گرفت مضبوط نہیں ہوگی اس وقت تک ہم بہت ساری باتیں سمجھتے سمجھتے کبھی بھٹک رہے ہونگے اور کبھی بھٹک بھٹک کر درست سمت بڑھ رہے ہونگے اور یہی سمجھتے سمجھتے بھٹکنا اور بھٹکتے بھٹکتے سمجھنے کے راستے پر آنا ہماری الجھنوں کا سبب بن کر رہ جائے گا۔

لفظ سیاست دراصل بہت وسیع، فصیح اور بلیغ معنیٰ رکھتا ہے۔ یوں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سیاست کا تعلق ان امور سے ہے جو کسی بھی حاکم کو حکومت چلانے کیلئے درکار ہوتے ہیں۔ ایک اچھی حکمرانی کیلئے یہ ضروری ہے کہ حاکم کو نہ صرف ان کا بھرپور علم ہو بلکہ وہ ان کو انجام دینے اور  ان کو اپنی رعایا سے منوانے پر بھی قادر ہو۔ اگر اس کی معلومات محدود ہوں یا محض معلومات ہی کیلئے اس کو بیشمار سہاروں  (مشیروں) کی ضرورت ہو یا اس کے پاس قوت نافذہ کا فقدان ہو یا وہ خود خادم قوم سے بڑھ کر حاکم مطلق بن بیٹھے اور ایک ہی لاٹھی سے سب کو ہانکنا چاہے تو معاملات کوئی بھی غیر معمولی صورت اختیار کر سکتے ہیں اور اس کے مشیران کے مشورے اس کی نیا کو پارلگانے کی بجائے بیچ منجھدارپھنسانے کا سبب بن سکتے ہیں۔

گفتگو کا آغاز ہم اس بات سے کرتے ہیں کہ آخر لفظ “سیاست” کو ہم کس معنوں میں لیا کرتے ہیں یا باالفاظ دیگر سیاست کی تعریف کیا؟۔  محمدعسکری ممتاز جو کہ ایم فل ہیں اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں “پولیٹکل سائنس میں سیاست کی تعریف بڑا پیچیدہ موضوع سمجھا جاتا ہے اور آج تک علم سیاسیات اور ماہرین ،علم سیاست کی کوئی جامع تعریف پیش کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔اور اب تک سیاسیات کے ماہرین نے سیاست کی جتنی تعریفیں پیش کی ہیں کسی ایک پر اجماع حاصل نہیں ہوسکاہے۔اور معلوم نہیں آئندہ یہ لوگ کسی نتیجے پر پہنچیں گے بھی یا نہیں۔لیکن ہم اسلام کی زبان یعنی عربی زبان کی رو سے اگرسیاست کے لفظی معنی کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے لفظ سیاست عربی میں حکومت کرنے کی مصلحت کو پیش نظررکھ کر امور کو انجام دینے وغیرہ کے معنی ٰ میں استعمال ہوا ہے۔اس لفظ کے اصطلاحی معنیٰ یوں ہیں جیسے مخلوق خدا کی راہ نجات کی طرف رہنمائی کرنا اور لوگوں کی اس چیز کی طرف راہنمائی کرنا جو ان کیلئے مفید ہو۔یایہ کہ سیاست یہ ہے کہ سماج اور معاشرے کی تمام ایجاد ات اور اس کے تقاضوں کو دیکھتے ہوئے اس کی صحیح راہ پر ہدایت کرنا”۔ اسی طرح ایک اور مقام پر کہا کہ”سیاست کسی گروہ کی بنائی گئی اس پالیسی کو کہا جا سکتا ہے۔ جس کا مقصد اپنی با لا دستی کو یقینی بنانا ہو “۔

یہ رائے ممتاز صاحب کی ہے لیکن ایسا بھی نہیں کہ سیاست کی تعریف سیاست  کاعلم رکھنے والوں نے کی ہی نہ ہو یا سیاسی فلسفیوں کے نزدیک سیاست ایک ایسا موضوع رہا  ہو جس کی تعریف کی ہی نہ جا سکتی ہو۔

مولانا گوہر رحمان ، صدر ادارہ تفہیم الاسلام، شیخ الحدیث جامعہ اسلامیہ تفہیم القرآن (مردان) نے ایک کافی مفصل کتاب بعنوان “اسلامی سیاست” تصنیف کی ہے جس سے کچھ حوالے ذیل میں درج کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں جس سے سیاست کیا ہے؟، اس بات کو سمجھنا کسی حد تک آسان ہوجائے گا۔

“سیاست بروزن امارت، سا سَ بر وزن قالَ، یقول سے مصدر ہے۔ اس باب کا مصدر سَو س بروزن قول آتا ہے۔سیاست اور سوس کے اساسی معنیٰ اصلاح کرنا اور سنوارنا کے ہیں۔ اس لغوی مفہوم کی مناسبت سے یہ دونوں مصدر ریاست  و حکومت اور تدبرِ مملکت کے معنوں بھی بکثرت استعمال ہوتے ہیں اس لئے کہ حکومت اور ریاست کا مقصد بھی عوام کی حالت کو سنوارنا اور اصلاح کرنا ہوتا ہے”۔

آگے چل کر وہ مزید فرماتے ہیں کہ “سیاست کسی چیز کی اصلاح کیلئے کمر بستہ اور کھڑے ہوجانے کو کہا جاتا ہےاور سیاست ایک مدبر اور قائد کا کام ہوتا ہے۔ سائس اس شخص کو کہا جاتا ہےجو سرداروں اور قائدین کی قوم میں سے ہوتا ہے”۔

علامہ ابن خلدون فرماتے ہیں “سیاست اور حکومت مخلوق کی نگہداشت اور ان کے مفاد کی کفالت و ضمانت کا نام ہے۔ یہ سیاست اللہ کی نیابت ہےاس کے بندوں پر اسی کے احکامات نافذ کرنے کے کام ہیں”۔ 1۔ عمارت الارض (زمین کو آباد کرنا اور عمرانی تمدن قائم کرنا)۔ 2۔ تنفیذ احکام اللہ (اللہ کے احکامات کو نافذ کرنا) اور 3۔ مکارمُ الشریعہ  (اخلاق فاضلہ اختیار کرنا)۔ آگے چل کر لکھتے ہیں ہیں کہ “سیاست ان تدابیر کا نام ہے جن کی وجہ سے لوگ صلاح و مصلحت عامہ کے قریب ہوجائیں اور فساد و بگاڑ سے دور ہوجائیں”۔

حضرت شاہ ولی اللہ  محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں “سیاست وہ حکمت (فن و علم) ہے جو ان تدابیر سے بحث کرتا ہے جن کے ذریعہ شہریوں کے باہمی ربط و تعلق کی حفاظت کی جاتی ہے”۔

فقہائے کرام نے سیاست کا عام مفہوم معاشرے کی اصلاح کیلئے  تدابیر اختیار کرنا  لیا ہے اور کچھ نے سیاست کو “تعزیری ” سزاؤں کیلئے استعمال کیا ہے۔ پھر یہ بھی بہت اہم بات ہے کہ کچھ تو وہ تعزیری سزائیں ہیں جن کا حکم بہت واضح طور پر قرآن میں بیان کر دیا گیا ہے۔  کچھ وہ ہیں جو احادیث  مبارکہ سے ثابت ہیں اور کچھ وہ ہیں جو صحابہ کرام (رض) کی سنت سے ثابت ہے۔ یہ تو وہ سزائیں ہیں جن کو اسی طرح نافذ کرنا اور مجرموں کو ان کے انجام تک پہنچانا ضروری ہے لیکن کچھ غلطیاں، جرائم اور معاشرے کے بگاڑ کی وہ کوششیں یا طرز عمل ہے جس کو اگر نہ روکا جائے اور بگاڑ کی صورت حال پیدا کرنے والوں کیلئے ان کے جرائم یا طرز عمل کے مطابق ان کی سر کوبی نہ کی جائے تو معاشرہ فتنہ و فساد کا شکار ہو سکتا ہو تو ان کیلئے سزائیں تجویز کی بھی جاسکتی ہیں   اور دی بھی جاسکتی ہیں لیکن ان سب کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ہونا ضروری ہے تاکہ ان میں خلاف عدل کوئی بات نہ ہوجائے اور وہ ظلم و زیادتی کے زمرے میں نہ آجائیں۔ سزاؤں کے سلسلے میں بھی ایسا  کیا جاسکتا ہے کہ اسلام کی مقرر کردہ سزاؤں میں اضافہ کر دیا جائے جیسے رمضان یا اور  مقدس ایام میں اگر کسی جرم کو کیا جائے تو حدود کے مطابق تو سزا بنتی ہی بنتی ہے لیکن مقدس ایام اور رمضان کا احترام نہ کرنے پر اس سزا میں اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے مثلاً “حضرت علی (رض) نے شراب پینے والے کو مقررہ 80 کوڑوں کے ساتھ 20 کوڑے مزید بھی لگوائے تھے”۔

یہاں غور کرنے کا مقام یہ ہے کہ معاشرے  کی اصلاح کرنا کیا بنا اقتداروقدرت ممکن ہے؟ کیا انسانوں کو اس بات پر راضی کرنا کہ وہ سب ایک  اللہ کے بندے ہیں اور اسی کی اطاعت ان پر فرض ہے، کوئی ایسا کام ہے جو محض سمجھانے یا زبان ہلادینے سے انجام پزیر ہو سکتا ہے؟۔ اس کا ہر جانب سے ایک ہی جواب ملے گا کہ بنا اقتدار، اختیار اور قدرت ایسا ممکن نہیں اسی لئے اس بات کو کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ نفاذ اسلام یا احکامات خداوندی  پر عمل در آمد کرانےکیلئے اقتدار بھی ضروری ہے، اختیار بھی ضروری ہے مکمل طاقت و قدرت بھی درکار ہے اور یہی سب کچھ سیاست ہے۔ گویا سیاست کا دوسرا نام حکومت، مقتدر اعلیٰ، قوت نافذہ اور بھرپور طاقت، قدرت اور اختیار کا نام ہے۔

بد قسمتی سےسیاسی باگ ڈور دور حاضر میں ایسے خواہش پرست اور دین سے عاری لوگوں کے ہاتھ میں ہے کہ انکی بدکرداریوں کی وجہ سے لوگ سیاست ہی سے نفرت کرنے لگے ہیں۔اور ہر نیک اور پاک شحص کو سیاست سے دور رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ انکے ہاں سیاست فقط جھوٹ ،خیانت ،دھوکہ بازی اورفراہمی تحفظ کے نام پر خزانوں کو لوٹنا،اور خوشحالی کے خوبصورت نعروں کے ذریعے  عوام کو خواب غفلت میں ڈال کر اپنی جیب بھرنا اور اپنے ملک کا پیسہ باہر منتقل کرنا  جیسے کام ہیں۔ دور حاضر  میں سیاست کے یہی معنی لئے اور سمجھے جاتے ہیں جبکہ سیاست ایسی چیز نہیں بلکہ سیاست ایک ایسا خوبصورت اور بہترین انسانی زندگی اور حفاظت عالم کے اصول طے کرنے والا عمل ہے جسکے ہر مفہو م کے اندر فلاح و صلاح کے بہترین معنی پنہا ہیں۔
اسلامی فلاسفر حضرت امام غزالی سیاست کی تعریف کچھ یوں کرتے ہیں کہ “سیاست وہ تدابیر ہیں جو زندگی کے وسائل اور انکے دائرے میں معاشرے کے افراد کے درمیان باہمی محبت،تعاون اور اتحاد پیدا کریں”۔ علامہ ابن خلدون لکھتے ہیں کہ سیاست اور سلطنت مخلوق کی نگہبانی اور انکے مفادوں کی کفالت اور ضمانت کا کام ہے جو اللہ کی نیابت ہے اوراسکے بندوں میں اللہ تعالی کے احکام جاری و نا فذ کرنے کا نام ہے”۔ امام شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں کہ سیاست ریاست کے اندر حکمت شرعیہ کے ساتھ عدل و انصاف ،احسان اور بہترین قانون معاملات و معاشرہ قائم و تشکیل دینے اور نافذ کرنے کا نام ہے”۔ علامہ شمس الحق افعانی کہتے ہیں کہ “سیاست ایسا نظام ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے احکامات اور انسانی حقوق کا تحفظ ہو۔اور قائدہ ہے کہ یہ سیاست نہ ہو تو یہ دونوں حقوق ختم ہو جائنگے”۔
مندرجہ بالا حوالوں سے یہ بات روز روشن کیطرح عیاں ہوتی ہے کہ جو بھی عمل و فعل عدل و انصاف کا سبب بنے وہ شریعت کا ہی حصہ ہے۔تو کیا سیاست خلق خدا اور انکی مصالح کے تحفظ کا نام نہیں؟۔  اسلام نہ صرف سیاست کے جواز کو مانتا ہے بلکہ انکے اندر اپنے زرین اصول اور اسپر عمل کو بہت سارے انفرادی عمل پر فضیلت کا حکم دیتا ہے۔چنانچہ ارشاد فرمایا گیا کہ
مخلوق اللہ تعالی کا کنبہ ہے پس اللہ کے نزدیک بہترین شحص وہ ہے جو اسکی مخلوق کے ساتھ اچھائی کا برتاو کرے۔ ۔ ” لا خیر فی کثیر من نجواھم الا من امر بصدقہ  او معروف او اصلاح بین الناس صرف تین چیزوں میں سرگوشیاں اہمیت رکھتی ہیں۔   1۔صدقات۔2۔امر خیر۔3.اور لوگوں کے درمیان صلح و آشتی کی خاطر۔غور فرمائیے تین کے تین امور اجتماعیت سے متعلق ہیں، اسلام ایک عالمگیر قانون زندگی پر محیط خداوندی تخفہ ہے۔جس کا تعلق انسانی زندگی کے کسی ایک پہلو کے ساتھ نہیں بلکہ تمام پر حاوی ہےتب ہی تو اسلام نے اپنا ملکی ،جہادی،اور عدالتی نظام تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہےجس پر عمل سیاست کے بعیر ممکن نہیں۔ اس لیے تو ہم کہتے ہیں کہ سیاست نہ صرف جائز بلکہ دین کہ ہمہ جہت فکر اور نظریہ کو عملی زندگی میں لانے کیلیے ضروری ہے،
علامہ شمس الحق افعانی ایک جگہ پر فرماتے ہیں کہ اگر اسلام چند رسمی چیزوں کا نام ہوتا تو ممکن ہے کہ دعوی کیا جاتا (بلکہ آجکل کیا جاتا ہے)کہ سیاست کو دین سے الگ کر لو۔لیکن قران جس میں تعزیراتی قانون ہیں مثلا (الزانیہ والزانی)السارقہ والسارقہ فاقطعواایدیھما)کہ ہاتھ کاٹ لو،اور جو لوگ ڈاکہ ڈالیں قران فرماتا ھے کہ اسکا ایک ہاتھ اور ایک پیر کاٹو۔اور جو کسی کی جان لے تم بھی اسکی جان لے لو۔ ثابت ہوا کہ ان قوانین کا اجراء سیاست کے بعیر ممکن نہیں ہو سکتا۔جنگی قوانین  میں موجود ہے،یہود و نصریٰ کے متعلق فرمایا ہے کہ اگر وہ اسلام کی سربلندی تسلیم کرلیں اور فوجی خدمات کے سلسلے میں ٹیکس دیں تو لڑائی بند کر لو یہ سیاست کی روح ہے۔تو سیاست کے تمام اجزاء قران میں موجود ہیں،دین پر چلنا تب ہی ممکن ہے جب سیاست ہو۔
امور مملکت کے علاوہ بھی بہت سارے مفاہیم لفظ سیاست میں پوشیدہ ہیں جس سے اس بات کا علم ہوتا ہے کہ زندگی کا کوئی شعبہ بھی ایسا نہیں جس میں سیاست کا عمل دخل نہ ہو اور سیاست پر چلے بغیر ہم زندگی کی راہوں پر ثابت قدمی سے رواں دواں ہو سکیں۔ اس کی دلیل میں ایک عام سا جملہ ہر عام و خاص کے منھ سے سب نے ہی سنا ہوگا “یار کچھ تو سیاست سے کام لے لیا ہوتا” یا “ذرا بھی سیاسی حکمت عملی اختیار کر لی جاتی تو کام آسان ہو جاتا”۔ یہ بات عموماً کسی بھی معاملے میں کسی اختلاف کے بڑھ جانے کے سبب اپنی اپنی ضد یا انا پر اڑجانے کے بعد کہی یا سنی جاتی ہے خواہ ان معاملات کا تعلق کسی بھی شعبہ ہائے زندگی سے ہو۔

غور کیا جائے  تویہاں  لفظ سیاست “مصلحت” کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر ہم اس کی بجائے کہ “یار کچھ تو سیاست سے کام لے لیا ہوتا” یہ کہدیں کہ کچھ تو مصلحت سے کام لے لیا ہوتا تو سیاست کے وہی معنی نکلتے جولفظ مصلحت کے ہیں۔ خود لفظ مصلحت کی اصل “صلح” ہے جس کے عام معنیٰ و مفہوم ہی یہ ہیں کہ کسی بھی تلخی، تنازع، اختلاف،ضد، ہٹ دھرمی، لڑائی یا جھگڑے میں پڑے بغیر مسئلے کے حل تک پہنچنا نیز یہ کہ ذرہ برابربھی فریقین کے دل و دماغ میں اس حل کے خلاف کوئی ایسی بات جو بعد میں بھی کسی الجھن کا سبب بنے، نہ پیدا ہو سکے۔ اگر ایسا ہی ہوگا تو وہ “صلح” کے معنوں میں گنی جائے گی ورنہ کسی وقتی خاموشی جیسی بات قرار پائے گی۔

روز اول سے متمدن معاشروں میں نہ جانے کتنے معاہدات ہوتے رہے ہونگے جن کا سلسلہ تا حال جاری ہے اور جاری رہے گا۔ پھر تاریخ نے دیکھا ہوگا کہ ان میں سے بیشتر معاہدات ٹوٹے بھی اور توڑ بھی دیئے گئے ہوں گے لیکن کچھ ایسے بھی ہونگے جو ایک مرتبہ کر لئے جانے کے بعد پتھر کی لکیر بن گئے ہونگے۔ جو معاہدات ٹوٹے یا توڑدیئے گئے وہ “صلح” حقیقی نہیں بلکہ “مجبوری” کی بنیاد پر استوار ہوئے ہونگے لہٰذا جب کسی مجبور فریق کی مجبوری اس کی طاقت میں تبدیل ہوئی ہوگی اس نے کئے گئے معاہدے کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا ہوگا لیکن جب ان کی بنیاد “صلح” کی اصل روح رہی ہوگی ان کو دوام حاصل ہو گیا ہوگا۔  بس مصلحت اور صلح میں یہی بنیادی فرق ہے کہ مصلحت کے تحت کوئی کام یا معاہدہ حالات کے دھارے بدل جانے پر ٹوٹ جایا کرتا ہے جبکہ “صلح” کے فیصلے اٹل اور پتھر کی لکیر ہوتے ہیں۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ “سیاست” مصلحت کے قریب تو ضرور ہے لیکن اس کا تعلق صلح سےبالکل بھی نہیں۔

اگر ہم سیاست کے مفاہیم و معانی کے دائرے کو پھیلانے کی بجائے اس کو ان امور کی تک محدود کردیں جن کا تعلق امور حکومت سے ہے تو ہم اس کے خطوط کچھ یوں کشید کر سکتے ہیں۔

سیاست اقتدار کے حصول کیلئے

سیاست حقوق کے حصول کیلئے

سیاست جمہوری اقدار اور روایات کے تحفظ کیلئے

ذاتی مفادات کے تحفظ کیلئے

مذہبی اقدار و روایات کے تحفظ کیلئے

یہ جو چند نقاط بیان کئے گئے ہیں ان کے حصول کیلئے کسی بھی قسم کی جدوجہد کرنا سیاست ہے لیکن ہماری بد قسمتی ہے کہ ان تمام باتوں کے حصول کا لارا لپا دینے والے اور قوم کو اپنے پیچھے لگانے والے اپنے لگائے گئے نعروں  اور دعوں میں کہیں سے کہیں تک بھی مخلص اور سچے نہیں ہوتے۔ ان کے سارے دعوں اور وعدوں کے پیچھے جھوٹ، مکر، فریب اور دھوکہ دہی کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا جس کی وجہ  سے سیاست  جھوٹ، مکر، فریب اور دھوکہ دہی کا دوسرا نام بن کر رہ گئی ہے بلکہ اگر میں یہ کہوں کہ  جھوٹ، مکر، فریب اور دھوکہ دہی ہی سیاست کہلانے لگی ہے تو کہیں سے کہیں تک بے جا نہ ہوگا۔

ہماری بد قسمتی ہے کہ آج کل کی سیاست پر وہ لوگ چھائے ہوئے ہیں جو دنیوی لحاظ سے بہت مضبوط و توانا ہیں، دولت مند ہیں، جاگیروں کے مالک ہیں، مل اونرز ہیں، ہیلی کوآپٹر اور ہوائی جہازوں کے مالک ہیں یا پھر عسکری قوت رکھتے ہیں اور اپنی طاقت، دولت اور قوت کے سبب سیاہ و سفید کے مالک بنے ہوئے ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ وہ لوگ جن کو عوام کہاجاتا ہے وہ بھی ایسے ہی بڑے بڑے مگرمچھوں کو اپنا “مائی باپ”، پالنہار، نجات دہندہ اور مشکل کشا سمجھتے ہیں اور اگر ان کے مقابلے پر کوئی سرپھرا لیکن لائق، فائق، قابل، اہل، جرات و استقلال  کاحامل لیکن غریب طبقے سے تعلق رکھنے والا کھڑا ہوجائے تو وہ اسی ننگے بھوکے عوام کی نظر میں مکھی اور مچھر سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ یہی وجہ ہے کہ جن جن مشکلات کو وہ دور کرنے کیلئے لٹیروں، بدقماشوں، بدماشوں، جاگیرداروں، سرمایہ داروں، مل آنروں اور صاحب طاقت و قوت والوں کو  اپنا ملجا و ماویٰ سمجھ بیٹھتے ہیں وہ ان کے دکھ درد کو کم کرنے کی بجائے مزید اضافے کا سبب بن جاتے ہیں۔ یہ بات بھی نہیں کہ وہ اپنے بڑھتے ہوئے مسائل، تکلیف اور پریشانیوں کا سبب نہ سمجھتے ہوں لیکن وہ  تمام ڈاکوؤں اور ان کے ظلم کے خلاف اپنی رائے کا استعمال کرتے ہوئے ڈر اور خوف کا شکار ہوتے ہیں کیونکہ انھیں اپنے انجام بد کا خیال آجاتا ہے۔

اسلام اس سلسلے میں کیا ہدایت کرتا ہے اس بات کا جائزہ لینا بھی بے حد ضروری ہے ۔ سورت البقرہ آیت 247 ، ارشاد باری تعالیٰ ہے”  ان کے بنی نے ان سے کہا کہ اللہ نے طالوت کو تمہارے لئے باد شاہ مقرر کیا ہے۔  یہ سن کر وہ بولے، ہم پر با دشاہ بننے کا وہ کیسے حق دار ہوگیا اس کے مقابلے میں بادشاہی کے ہم زیادہ مستحق ہیں۔ وہ تو کوئی مالدار آدمی نہیں ہے۔ نبی نے جواب دیا اللہ نے تمہارے مقابلے میں اسی کو منتخب کیا ہے اور اس کو دماغی اور جسمانی دونوں قسم کی اہلیتیں فراوانی کے ساتھ عطا فرمائی ہیں اور اللہ کو اختیار ہے کہ وہ اپنا ملک جس کو چاہے دے اللہ بڑی وسعت رکھتا ہے  اور سب کچھ اس کے علم میں ہے”۔

یہاں یہ بات واضح ہو گئی کہ دنیوی لحاظ سے مضبوط اور متوول شخصیات ہی حکمرانی کا حق نہیں رکھتیں بلکہ حکمرانی کا اہل وہی ہے جو علم میں طاق ہو اور جسمانی لحاظ سے معذور نہ ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں  کہ جو لوگ مضبوط اور متوول بھی ہوں اور جسمانی لحاظ سے بھی معذورین میں شمار نہ ہوتے ہوں ان کو حق حکمرانی سے محروم نہیں کیا گیا لیکن اس سوچ کو کہ وہی لوگ حکمرانی کے لائق و اہل ہیں جو مال و دولت اور قدرت و اخیتارات کے حامل ہوں صرف انھیں کو اپنا ملجا و ماویٰ مانا جائے، یہ آیت اس کی نفی کرتی ہے۔

اس سے ایک بات اور واضح ہوتی ہے کہ انسان کسی بھی دور کا ہو، ماضی کا ہو یا حال کا، اس کی سوچ کی وسعت میں ابھی تک کوئی فرق نہیں آیا وہ اسی انداز میں سوچ رہا ہے جس طرح وہ صدیوں قبل سوچا کرتا تھا۔ اسلام دراصل اسی سوچ اور فکر کو ختم کرنے کیلئے آیا ہے اور انسان کو انسانیت سکھانے آیا ہے۔

آئیے، قرآن کی روشنی میں سیاست اور اسلامی ریاست کو سمجھنے کی مزید کوشش کرتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے “اے برادران قوم اللہ کی بندگی اختیار کرو (کیونکہ) اس کے سوا تمہارا کوئی الٰہ نہیں”۔ (الاعراف 65)۔ “اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو”۔ (الشعرا 163)۔

یہاں جو بات سب سے زیادہ قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ ریاست کا مقتدر اعلیٰ انسان نہیں بلکہ اللہ ہے۔ جیسا کہ کہا گیا ہے کہ “اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کر” یعنی میں جو کچھ بھی تمہیں حکم دے رہا ہوں وہ میری گڑھی ہوئی باتیں نہیں ہیں یہ سب وحی الٰہی اور احکامات خداوندی ہیں میں تو صرف حق نیابت نبھارہا ہوں جبکہ جتنے بھی فلسفہ ہائے حیات یا ریاست کو چلانے کیلئے دستور، آئین اور قوانین دنیا اور دنیا والوں نے اپنے اور اپنے عوام کیلئے بنائےہیں اس میں مقتدر اعلیٰ کہیں سے کہیں تک اللہ تعالیٰ کی ذات نہیں بلکہ یا تو عوام ہی طاقت و قوت کا سر چشمہ ہیں یا پھر سب کچھ ملک کا سر براہ ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے “اے پروردگار مجھ کو جہاں بھی تو داخل کر سچائی کے ساتھ داخل کراور جہاں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ نکال اور اپنی جانب سے ایک اقتدار کو میرا مددگار بنادے”۔  (بنی اسرائیل 80)۔ یہ حکم اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد میری اس بات کی تائید کرتا ہے کہ بغیر اقتدار و قدرت اصلاح معاشرہ یا اللہ کے احکامات کا نفوذ ممکن نہیں۔ اب دو ہی صورتیں ایسی ہیں جو اس بات کا سبب بنیں گی جس کی مدد سے اللہ تعالیٰ کے احکامات معاشرے (ریاست) میں نافذ کئے جانا ممکن ہو سکتا ہے، یا تو خود وہ فرد جو مسلمانوں کا رہنما و قائد ہو وہ اقتدار  میں آئے یا پھر کوئی صاحب اقتدار اس کا مددگار بن جائے۔ کوئی تیسری شکل، مثلاً محض دعائیں اور وظیفے کام نہیں آئیں گے۔

ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے “ہم نے اپنے رسول واضح نشانیاں دے کر بھیجے ہیں اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان (عدل) اتاری ہے تاکہ انسان انصاف پر قائم ہوں اور ہم نے اتارا لوہا  (ریاست کی قوت و جبروت) جس میں سخت قوت ہے اور لوگوں کیلئے بہت فوائد ہیں”۔ (الحدید 25)۔ ثابت ہوا کہ قوانین، آئین اور دستور خواہ اللہ کی بھیجی ہوئی ہدایت کے مطابق معاشرے میں نافذ کئے جائیں یا ان کو انسانوں نے خود بنایا ہو، اگر وہ متوازن نہیں ہوئے یا ان بنائے ہوئے قوانین کے نفاذ کیلئے قوت نافذہ موجود نہیں ہوئی تو پھر معاشرے میں امن و سکون کی توقع رکھنا دیوانے کا خواب یا مجذوب کی بڑ تو کہلائی جا سکتی ہے حقیقت نہیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے کتاب (دستور)، میزان (عدل) اور لوہے (قوت نافذہ) کا ذکر ایک ساتھ کیا ہے اور یہی وہ تین چیزیں ہیں جو کسی ریاست کی اساس ہیں ورنہ دنیا کے نقشے میں ریاست کا نام  تو بے شک موجود ہو سکتا ہےلیکن اس میں ریاست نام کی کوئی شے موجود نہیں ہوسکتی۔

ایک اور مقام پر فرمایا “وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس کو تمام ادیان پر غالب کردے خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار کیوں نہ ہو”۔ (الصف 9)۔  پھر ایک جگہ فرمایا  “اور وہ جو اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہی کافر ہیں”۔ المائدہ 44)۔  یہاں یہ بات طے ہے کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی مسلمان موجود ہیں ان پر لازم ہے کہ وہ اللہ کے قوانین کو معاشرے میں نافذ کرنے اور ان کو عوام الناس سے منوانے کے پابند ہیں۔ یہ کام آسان تو نہیں لیکن اس کام کو اپنی تمام زندگی جاری رکھنا بہر حال لازم و ملزوم ہے۔ ہر مسلمان اپنی صلاحیتوں کے مطابق اصلاح معاشرہ کا پابند ہونا چاہیے اور اپنی سی جد و جہد کو جاری و ساری رکھنا  چاہیے۔ بے شک یہ ہر اس فرد اور قوم کو برا لگے گا جو کفر کا راستہ اختیار کئے ہوئے ہے لیکن یہ کڑوا گھونٹ تو پینا ہی ہے کیونکہ کہ یہ حکم خداوندی ہے جس کا نفاذ بہر لحاظ ضروری ہے۔

ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے “یہ مسلمان وہ ہیں کہ اگر ہم نے انھیں زمین میں صاحب اقتدار کر دیا تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰت دیں گے، نیکیوں کا حکم دیں گے، برائیوں سے روکیں گے اور تمام باتوں کا انجام کار  اللہ ہی کے ہاتھوں میں ہے”۔ (الحج 41)۔ گویا صاف صاف کہہ دیا گیا ہے کہ ہر وہ مسلمان جو صاحب اقتدار ہو جائے۔ اسے کسی ایسے خطہ زمین کی حکمرانی مل جائے جو ہر لحاظ سے آزاد، خود مختار اور خاص طور سے ایسی آبادی والا علاقہ ہو جس میں مسلمان ہی آباد ہوں تو پھر تو اس کو ہر صورت میں صرف اور صرف اللہ اور اس کے رسول (ص) کے دین کو ہی نافذ کرنا ہے اور کسی کی مرضی کو چلنے ہی نہیں دینا ہے۔ اس آیت کی روشنی میں پاکستان میں بسنے والے مسلمانوں اور ان کے حکمرانوں   کوکچھ تو خدا کا خوف کرنا چاہیے کہ وہ خطہ زمین جس کو حاصل ہی اللہ اور اس کے رسول (ص) کے نظام کو نافذ کرنے کیلئے کیا گیا تھا وہاں کس بیدردی کے ساتھ اسلام کے احکامات کی خلاف ورزی ہو رہی ہے اور یہاں کے حکمران اللہ کے حکم کی کس کس طرح دھجیاں بکھیر رہے ہیں اور اس گمان میں مبتلا ہیں کہ ان کی کوئی پکڑ ہی نہیں ہوگی۔  صاف صاف کہا جا رہا ہے کہ “یہ وہ مسلمان ہیں کہ اگر ہم نے انھیں زمین میں صاحب اقتدار کردیا  تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰت دیں گے، نیکیوں کا حکم دیں گے، برائیوں سے روکیں گے اور تمام باتوں کا انجام کار  اللہ ہی کے ہاتھوں میں ہے”، اس کے باوجود گزشتہ 70 برس سے مسلسل اللہ تعالیٰ کے احکامات کو پس پشت ڈالے ہوئے ہیں اور پھر بھی یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ ان کی کوئی گرفت ہی نہیں ہوگی۔ اس آیت کی روشنی میں 57 سے زیادہ اسلامی ریاستوں کا بھی وہی فرض بنتا ہے جس کا پابند پاکستان کے حکمرانوں کو لازماً ہونا تھا۔ کیا ان ریاستوں میں اقتدار مسلمانوں کے پاس نہیں ہے؟۔ اگر غور کریں تو یہ ساری مسلمان ریاستیں جس میں پاکستان سر فہرست ہے، نام کی مسلمان ریاستیں ہیں۔ حقیقتاً یہ ساری ریاستیں کفر پر قائم ہیں  اور عملاً ان کے مسلمان حکمران “کافر” ہی ہیں کیونکہ مسلمان وہ نہیں ہوتا جس کا نام مسلمانوں جیسا ہو، مسلمان وہ ہوتا ہے جس کی ساری زندگی اللہ کے احکامات کی پابند ہو۔

ان بیان کردہ احکامات خداوندی کو اگر سامنے رکھا جائے تو  خلاصہ کچھ یوں نکلتا ہے۔

1۔ ریاست کا ادارہ انسانی سماج کی ایک بنیادی ضرورت ہے اور اس کے بغیر منظم اجتمائی زندگی کا تصور مشکل ہے۔

2۔ اسلام انسان کی پوری زندگی کیلئے ہدایت ہے اور اس نے اجتماعی زندگی کیلئے بھی واضح رہنمائی فرمائی ہے۔

3۔ اسلام دین و سیاست میں کسی تفریق کا روادار نہیں۔ وہ پوری زندگی کو خدا کے قانون کے تابع کرنا چاہتا ہے اور اس مقصد کیلئے سیاست کو بھی اسلامی اصولوں پر مرتب کرتا ہے اور ریاست کو اسلام کے قیام اور اس کے استحکام کیلئے استعمال کرتا ہے۔

4۔ یہ روش دنیا اور آخرت دونوں میں عتاب الٰہی کی موجب ہے کہ کچھ احکام الٰہی کو تسلیم کر لیا جائے اور کچھ دوسرے احکام سے صرف نظر اور روگردانی اختیار کی جائے خواہ خواہش اور نفس کی اندرونی کیفیت کی بناپر یا کسی بیرونی دباؤ یا مرعوبیت کی وجہ سے۔

5۔ دین اور ریاست و حکومت کا اتنا قریبی تعلق ہے اور ایک دوسرے سے اس طرح وابستہ ہے کہ اگر ریاست  و حکومت  اسلام کے بغیر ہوں تو ظلم اور بے انصافی کا ذریعہ بن جاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں چنگیزیت رو نما ہوتی ہے اور اگر اسلام ریاست و حکومت کے بغیر ہو تو اس کا ایک حصہ معطل ہو کر رہ جاتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ریاست کو اسلامی بنیادوں پر قائم کیا جائے۔ حکومت اسلام کی پابند ہو اور اس کے قیام و استحکام کیلئے سرگرم عمل رہے۔

علامہ اقبال کی سوچ و فکر کو میں آخری اور حتمی تو نہیں مانتا  کیونکہ میں خیال کرتا ہوں کہ اسلام میں “سیاست” یعنی جھوٹ، فریب، دھوکہ دہی، دروغ کوئی، بے ایمانی اور وحشت و بربریت کی ذرہ برابر بھی آمیزش نہیں۔ سیاست جس کا تعلق امور مملکت و ریاست کو چلانے سے ہے وہ آج کل کی دنیا میں انھیں ساری صفات بد کا حامل ہو کر رہ گیا ہے۔ اسلام نے جن جن اصولوں کو بیان کردیا ہے اور اللہ نے جن جن احکامات کا پابند ایک مسلمان کو کردیا ہے اس میں کوئی تبدیلی کی ہی نہیں جا سکتی کیونکہ اللہ تعالیٰ کے احکامات بدلا نہیں کرتے وہ اٹل ہوتے ہیں۔ وہ جو سیاست کا مفہوم “مصلحت” کے معنوں میں لیتے ہیں ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ قرآن میں “سورہ کافرون” میں کیا کہا گیا ہے یہی ناں کہ اسلام کے احکامات میں کسی بھی قسم کے سمجھوتے کی کوئی گنجائش نہیں۔ کافروں (تم کو) کو کافروں کا طور طریق مجھکو (مسلمانوں کو) ہمارا طور طریق یا اس کے علاوہ بھی اور کچھ کہا گیا ہے؟۔ جب صورت حال یہ ہو تو پھر میں پورے تیقن اور اطمنان کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ سیاست کا اسلام سے کوئی تعلق ہے ہی نہیں۔ اس کے برعکس اسلام ایک مکمل دین ہے جس کو من و عن اسی طرح نافذ کرنا مسلمانوں پر فرض ہے جس طرح اس کے نافذ کئے جانے کا حق ہے وہ بھی بنا کسی سمجھوتہ و لچک کے۔

لفظ “دین” کوئی بہت عام سا لفظ نہیں۔ یہ اپنے اندر بہت جامعیت رکھتا ہے۔  بے شک اس کے عام معنیٰ مذہب، مسلک، دھرم اور ایمان ہی کے ہیں لیکن سب سے اہم  جوبات ہے وہ یہ ہے کہ اس میں کسی بھی معاملے میں ذرہ برابر بھی کھوٹ نہیں ہے، کجی نہیں یا ٹیڑھ پن نہیں ہے بلکہ دین یہ ہے کہ جو اصول و قوائد طے کر لئے جائیں وہ ہر امیروغریب، چھوٹے بڑے اور عام و خاص کیلئے ہوں اور ان پر عمل درآمد نہایت دیانتداری اور بلالحاظ و امتیاز کیا جاتا ہو۔  اگر وضع کردہ اصولوں میں کہیں بھی اس کے حق سے ہٹ کر کام کیا جائے تو پھر وہاں دین ختم ہو جائے گا اور دین”چنگیزیت” کا روپ دھار لیگا۔

پوری دنیا میں یہی وہ اصول (دین) ہے جس پر چل کر دنیا جنت نظیر بنائی جا سکتی ہے یا پھرجہنم کا نمونہ  ۔ یہاں اگر ہم تھوڑی دیر کیلئے اسلام سے صرف نظر کرتے ہوئے اس بات کا جائزہ لیں کہ دنیا میں زیادہ امن، خوشحالی اور انسانوں کوزیادہ خوش اور مطمئن کہاں دیکھ رہے ہیں اور کہاں وحشت و بربریت نظر آرہی ہے تو اس بات کو سمجھ لینے میں کچھ تامل نہ ہوگا کہ جہاں لوگوں نے اپنے ہی بنائے ہوئے اصول و قوائد پر سختی سے عمل کیا ہوا ہے وہاں تو چہارسو اطمنان و سکون کی حکمرانی ہے لیکن جہاں جہاں یا تو اصول و قوائد وضع ہی نہیں کئے ہوئے ہیں یا اصول و قوائد بنائے ہوئے تو ہیں لیکن ان پر عمل ہی نہیں کیا جاتا یا کیا تو جاتا ہے لیکن امتیاز و لحاظ کے ساتھ کیا جاتا ہےوہاں بے سکونی ، ابتری، افرات و تفریت اور نفرت و بدنظمی کا راج ہے اور زندگی جہنم کا نمونہ بنی ہوئی ہے۔

سورت العصر میں پورےگروہ انسانی کو دو واضح دھڑوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک دھڑا وہ ہے جو سراسر خسارے میں ہے اور دوسرا دھڑا وہ ہے جو خسارے میں نہیں ہے۔ جو خسارے میں نہیں ہیں وہ ایمان والے ہیں، ان کے سارے کے سارے اعمال صالح اور نیک ہیں، وہ نیک اعمال و افکار اپنانے کی مسلسل تاکید کرتے رہتے ہیں اور اپنے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چلنے والوں پر آنے والی ہر آزمائش پر صبر کی تاکید بھی کرتے ہیں اور خود بھی  صبر اور استحکام کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ گویا ثابت ہوا کہ انسانوں کے گروہ دو ہی ہیں مگر خسارہ نہ اٹھانے ولالا وہی ہے جس نے اپنے آپ کو خود اچھا رکھنے اور اوروں کو بھی اچھائی پر قائم رکھنے پر کمربستہ ہے۔ باالفاظ دیگر ایک گروہ “دین” پر قائم ہے اور دوسرا گروہ “چنگیزیت” پر ڈتا ہوا ہے۔

یہاں اس بات کو سمجھنا بھی بہت ضروری ہے کہ آخر “دین” کس طرح  چنگیزیت کا روپ دھار لیتا ہے۔  اس کو سمجھنا بہت ہی آسان ہے۔ اگر لوگ حق پر قائم ہیں اور اپنے ذاتی اور اجتمائی معاملات میں احکامی الٰہی کے پابند ہیں تو گویا وہ لوگ اور وہ معاشرہ “دین” پر ہے لیکن اگر وہ اس کے برعکس اپنی ذاتی یا اجتمائی زندگی گزار رہے ہیں تو وہ بہر صورت چنگیزیت کے علاوہ کچھ نہیں۔ سچ دین ہے، جھوٹ چنگیزیت ہے، اخلاق دین ہے بداخلاقی چنگیزیت ہے، کسی سے محبت سے ملنا دین ہے، دل میں میل رکھ کر ملنا چنگیزیت ہے، پورا تولنا دین ہے اور ڈنڈی مارنا چنگیزیت ہے۔ عدل دین ہے اور ظلم چنگیزیت ہے۔ اللہ کے نازل کردہ احکامات کے مطابق اپنی زندگی گزارنا دین ہے اور طاغوت کی پیروی کرنا چنگیزیت ہے۔ یہی امور ذاتی ہوں تب بھی یا اجتماعی ہوں تب بھی، دین وہی ہے جس کے گزارنے کے طور طریق اللہ اور اس کے رسول (ص) نے بتائے ہیں اور وہ زندگی، اجتماعی و انفرادی، جو اللہ اور اس کے رسول (ص) کے احکامات کے بر خلاف  گزرے یا گزاری جائے چنگیزیت کے علاوہ اور کچھ نہیں۔

اگرکوئی بھی حکومت اور اس کا حکمران عدل سے کام نہیں لیگا، انصاف میں امتیاز و لحاظ رکھے گا، اپنے عوام کی فلاح و بہبود کا خیال نہیں رکھے گا۔ ان کی حفاظت اور ان عزت و آبرو کا محافظ نہیں ہوگا تو وہ کس طرح ایک خوش حال ریاست کا حکمران کہلائے گا۔

حکومت تو بڑے بڑے فرعونوں اور شیطانوں نے چلائی ہے۔ بڑے بڑے جابر اور ظالم بادشاہ انسانوں پر حکومت کرتے رہیں ہیں لیکن تاریخ نے کبھی انھیں اچھے الفاظ میں یاد نہیں کیا ہے کیونکہ ان کی حکومت انسانوں کے جسموں پر تو رہی ہے ان کے سینوں مین دھڑکنے والے دلوں میں وہ حکومت کرنے میں  ناکام رہے ہیں۔ کیوں؟، اس لئے کہ چنگیزیت کیونکہ اپنی خواہش نفس سے آگے کی سوچ ہی نہیں رکھتی اس لئے اس کے اقتدار کے نزدیک کسی کی بھی عزت و توقیر کی کوئی قدروقیمت نہیں ہوتی۔

جس دین سے اخلاق، کردار، شرافت، سچ، وفاداری، ایمان، یقین، اللہ کا خوف، عدل، عوام کی فلاح و بہبود، اپنے آپ کو اللہ کے آگے جواب دہ ہونے کا تصور اور اقتدار کی طاقت و قدرت ، جس کو علامی محمد اقبال (رح) نے “سیاست” کا نام دیا ہے، نکل جائے تو آپ خود ہی سوچ لیں کہ اس میں “چنگیزیت” کے علاوہ اور کیا باقی رہ جائے گا۔

ہم پوری دنیا کا کا جائزہ لیں تو دنیا کا امن و سکون وہاں وہاں کسی حد تک نظر آئے گا جہاں جہاں اللہ کے احکامات کے مطابق قوانین بنائے گئے ہیں اور ان پر اسی طرح عمل بھی کیا جارہا ہے خواہ وہ ممالک کافروں اور ملحدوں کے ہی کیوں نہ ہوں اور وہ سارے ممالک جہاں کے عوام اور صاحب اقتدار و اختیار افراد اللہ اور اس کے رسول کے مقرر کردہ قوانین پر عمل کرنے کیلئے تیار و آمادہ ہی نہ ہوں وہاں فتنہ و فساد کے علاوہ اور کچھ بھی نظر نہیں آرہا ہوگا۔ اسی لئے اقبال اپنے شکوے

قہر تو یہ ہے کہ کافر کو ملے حور و قصور

اور بے چارے مسلماں کو فقط وعدہ حور

پرشر مندہ ہو کر جواب شکوہ میں فرماتے ہیں

کیا کہا بہر مسلماں ہے فقط وعدہ حور

شکوہ بیجا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور

عدل ہے فاطر ہستی کا ازل سے دستور

مسلم آئیں ہوا کافر تو ملے حور و قصور

تم میں حوروں کا کوئی چاہنے والا ہی نہیں

جلوہ طور تو موجود ہے موسیٰ ہی نہیں

جنت اور دوزخ کے فیصلے تو قیامت کے روز ہونگے اور وہاں ہر انسان اپنی اپنی  ذمہ داریوں کی کارکردگیوں کی بنیادپر جزا و سزا کا مستحق ہوگا لیکن دنیا میں بھی ہر فرد و ملت و ریاست کو اس بنیاد پر امن و سکون و اطمنان نصیب ہوگا کہ وہ اپنے قوانین، آئین اور دساتیر کو اللہ کے مقرر کردی حدود کے مطابق بناتا ہے اور ان پر خود بھی عمل کرتا ہے اور معاشرے کو بھی پابند کرتا ہے یا محض اللہ سے بغاوت پرہی  زندگی گزارنا چاہتا ہے۔ ہم میں سے ہر فرد کو چاہیے کہ وہ دنیا کی بد حالی و خوشحالی پر غور کرے اور پھر خود ہی اپنے دل اور ضمیر کو قائل کرے کہ وہ کس گروہ میں ہے اور کیوں ہے۔ خسارے والے (چنگیزی والے) میں ہے یا ایمان و یقین والوں میں۔ جب وہ اس پر غور کریگا تو اپنی ناکامی و کامیابی کا سبب بھی اسے خود ہی سمجھ میں آجائے گا۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں