ہمارا کہنا ہمارا کرنا

جو چیز کسی کی گھٹی میں پڑجائے وہ اس سے آخری سانسوں تک جدا نہیں ہو سکتی الا یہ کہ اللہ توفیق عطا کرے لیکن توفیق بھی طلب گاروں کو ہی ملا کرتی ہے۔ جس طرح پاکستان میں کچھ طاقتوں نے فیصلہ کر رکھا ہے کہ “طاقت” کو منوانا ہی ہے خواہ اس کا نتیجہ کچھ بھی نکلے اسی طرح دنیا کی سپر پاور امریکہ نے بھی تہیہ کیا ہوا ہے کہ اپنی طاقت کے گھمنڈ کو کمزور ممالک سے منوانا ہی منوانا ہے خواہ اس کے نتائج کچھ بھی برآمد ہوں۔

طاقت کا نشہ جب سر چڑھ جائے تو عقل و ہوش اندھے ہوجاتے ہیں اور جب تک غلبہ نہ مل جائے یا مد مقابل کے ہاتھوں تذلیل نہ ہوجائے اس وقت تک یہ نشہ اتر کر ہی نہیں دیتا۔ ایسا ہی کچھ حال امریکہ کا ہے اور خاص طور سے پاکستان کے بارے میں اس کا رویہ کچھ ایسا ہی ہے کہ وہ اپنے “ڈو مور ڈومور” کے وظیفے سے باز ہی نہیں آنا چاہتا۔

امریکہ کیا چاہتا ہے اور کیا نہیں لیکن پاکستان خود کیا چاہتا ہے اس امر کو بھی اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔

کل ہی کی بات ہے کہ جب امریکہ نے ڈومور کامطالبہ کیا تو پاکستان کی جانب سے پاکستانیوں کی بہت حوصلہ افزائی ہوئی اور کسی حد تک تشفی ہوئی کہ ہم اس پوزیشن میں آگئے ہیں کہ امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتے ہیں۔ خبر کی تفصیل کے مطابق “امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو فون کرکے تمام دہشت گرد تنظیموں کیخلاف بلاتفریق کارروائی اور افغان طالبان کے ساتھ مفاہمت کے عمل میں کردار ادا کر نے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ آرمی چیف نے واضح کیا ہے کہ پاک فوج نے حقانی نیٹ ورک سمیت تمام دہشت گرد گروپوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کی ہے اور پاکستانی سرزمین پر دہشت گردوں کا کوئی منظم نیٹ ورک موجود نہیں ہے، امریکا جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کے لیے زمینی حقائق کو مد نظر رکھے۔امریکی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ہیدر نوئرٹ کے دفتر سے جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو فون کرکے خطے کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔ مائیک پومپیو نے پاک امریکا تعلقات کو فروغ دینے، افغانستان میں سیاسی اتفاقِ رائے کی اہمیت پر گفتگو کی اور جنوبی ایشیا میں سرگرم تمام عسکری و دہشت گرد تنظیموں کے خلاف بلا تفریق کارروائی کی ضرورت پر زور دیا۔دوسری جانب ٹیلی فونک گفتگو میں پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے دوٹوک اور واضح مؤقف اختیار کیا اور کہا کہ پاکستان امریکا کے ساتھ باہمی احترام پر مبنی تعلقات چاہتا ہے، اس خطے میں قیام امن کے لیے پاکستان نے سب سے بڑھ کر قربانیاں دی ہیں اور کردار بھی ادا کیا ہے دہشت گردی کے خاتمے کی جنگ میں پاکستان کی افواج اور دیگر سیکورٹی فورسز نے حقانی نیٹ ورک سمیت تمام گروپوں کے خلاف بلا امتیاز کاروائی کی ہے اور اس وقت پاکستانی سر زمین پر کوئی منظم نیٹ ورک موجود نہیں ہے ۔اسے امریکی وزیر خارجہ نے بھی سراہا اور کہا کہ امریکا پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتا ہے تاکہ پورے جنوبی ایشیا میں قیام امن کو یقینی بنایا جائے۔ انہوں نے افغان طالبان کے ساتھ مفاہمت کے عمل میں بھی پاکستان کے کردار پر زور دیا جس پر امریکی وزیر خارجہ کو یقین دلایا گیا کہ اس حوالے سے پاکستان اپنا کردار اور تعاون کرنے کو تیار ہے کیونکہ پاکستان امریکا کو افغانستان میں کامیاب دیکھنا چاہتا ہے ناکام نہیں”۔ یہ تھی گزشتہ کل کی ڈولپمنٹ جو بہت حد تک خوش کن تھی علاوہ اس بات کے کہ “پاکستان امریکہ کو افغانستان میں کامیاب دیکھنا چاہتا ہے ناکام نہیں”۔ یہ بات کچھ چغلی کھاتی محسوس ہوئی کیوں کہ افغانستان میں امریکہ کی کامیابی پاکستان کیلئے کس حدتک خطرناک ہو سکتی ہے اس کی سنگینی کا احساس ممکن ہے پاکستان کی عسکری قوتوں کو ہو لیکن مصلحت کے تقاضے اس کی خطرناکیت کو الم نشرح نہ کرنا چاہتے ہوں۔ امریکہ کا معاملہ افغان اور پاکستان تک ہی محدود ہوتا تو پھر اطمنان بخش بات تھی لیکن جس امریکہ کا پاکستان کے مفادات سے کہیں زیادہ مفاد بھارت سے وابستہ ہو اور اس کا ہر تعاون پاکستان سے کہیں بڑھ کر بھارت کے ساتھ ہو اس کی افغانستان میں کامیابی پاکستان کے حق میں کتنی سود مند ہوسکتی ہے؟، یہ بہت غور طلب بات ہے۔ یہی نہیں جبکہ افغانستان میں بھارت کا اثرورسوخ دنیا کوصاف نظر ۤرہا ہو اور وہ بھی پاکستان دشمنی میں، اس صورت حال میں افغانستان میں امریکہ کی کامیابی کے متعلق پاکستان کی “خواہش” کچھ سمجھ سے بالاتر ہی لگتی ہے لیکن پھر بھی آرمی چیف کا واضح مؤقف اس لئے امید افزا لگا تھا کہ بعض اوقات حالات کے دھارے کو سامنے رکھ کر کچھ مشکل فیصلے بھی کرنے پڑتے ہیں اور کچھ وقتی مصالحتوں کو بھی اپنانا پڑ جاتا ہے۔

پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے اس بات کو بھی سامنے رکھنا ضروری ہے کہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات رواں برس کے آغاز سے ہی کشیدگی کا شکار ہیں،جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یکم جنوری کو ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں پاکستان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ ہم نے گزشتہ 15 سالوں کے دوران پاکستان کو 33 ملین ڈالر امداد دے کر حماقت کی جبکہ بدلے میں پاکستان نے ہمیں دھوکے اور جھوٹ کے سوا کچھ نہیں دیا۔ اس کے بعد امریکا نے پاکستان کی امداد بند کرنے کے حوالے سے اقدامات اٹھانا شروع کر دیے۔ امریکی محکمہ خارجہ نے پاکستان کی سیکورٹی معاونت معطل کرنے کا اعلان کردیا جبکہ پاکستان کو مذہبی آزادی کی مبینہ سنگین خلاف ورزی کرنے والے ممالک سے متعلق خصوصی واچ لسٹ میں بھی شامل کردیا گیاتھا۔ ان تمام الزامات کے باوجود تمام اہل پاکستان کیلئے یہ بات طمانیت کا باعث تھی کہ پاکستان اور پاک آرمی کی جانب سے ایک بہت واضح مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ” دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاکستان نے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں،اس لئے امریکہ کو چاہیے کہ وہ اپنی ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر مت ڈالے”۔

یہ ساری ڈؤلپمنٹ کل تک کی تھی لیکن شاید تصویر کا یہ حسین اور جرات مندانہ رخ ایسا نہیں تھا جیسا نظر آرہا تھا کیونکہ گزشتہ کل کے بعد جو باتیں اب سامنے آرہی ہیں وہ کافی حد تک اس کے بر عکس ہیں جو کل تک تھیں۔

امریکہ کے ڈومور کے مطالبے کو پاکستان میں سنجیدگی سے لیتے ہوئے ۔جمعہ کو نگراں وزیراعظم جسٹس ریٹائرڈ ناصر الملک کی زیرصدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں، خارجہ، داخلہ، خزانہ اور اطلاعات کے وزرا ، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی اور تینوں مسلح افواج کے سربراہان نے شرکت کی۔ اجلاس میں ملک کی مجموعی سیکورٹی صورتحال اور فنانشل ٹاسک فورس کے اگلے اجلاس کے حوالے سے پاکستان کے اقدامات کا جائزہ لیا گیا جب کہ آئندہ کی حکمت عملی بھی طے کی گئی۔وزیر خزانہ شمشاد اختر نے ایف اے ٹی ایف کے آئندہ اجلاس کے حوالے سے شرکا کو بریفنگ دی۔ انہوں نے شرکا کو بتایا کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی شرائط پوری کرنے کے لیے انتظامی اور قانونی اقدامات کیے جارہے ہیں ۔کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ ایف اے ٹی ایف سیکرٹریٹ کو پاکستان کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف اقدامات اور حکومت کی پالیسیوں سے آگاہ کیا جائے گا مزید برآں سلامتی کمیٹی نے عالمی ذمے داریاں پوری کرنے سے متعلق پاکستان کے اقدامات پر اطمینان کا اظہار کیا۔شرکا نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستان ایف اے ٹی ایف اور دیگر عالمی تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کرتا رہے گا۔ وزیرِاعظم ناصر الملک نے امریکی نائب صدر کے ساتھ ہونے والی ٹیلیفونک گفتگو پر شرکا کو اعتماد میں لیا۔

اس بات کو بھی پیش نظر رکھنا بہت ضروری ہے کہ پاکستان ابھی “عبوری” دور سے گزررہا ہے اور عبوری حکومت بنے بھی ابھی چند دن ہی ہوئے ہیں۔ جس بات پر فوری طور پر غور کرنا پڑ رہا ہے وہ کوئی عمومی نہیں بہت ہی سنجیدہ نوعیت کی ہے اور اس بات پر حتمی فیصلہ ایک ایسی حکومت کو کرنا پڑرہا ہے جو چند ہفتوں میں ختم ہو جائے گی۔ ایسی حکومت کے فیصلے اور اس کی توثیق کی بین الاقوامی کیا اہمیت ہوگی اور آنے والے دنوں میں ایک منتخب حکومت کیلئے وہ کیسا پس منظر ثابت ہوگی اس پر بھی سنجیدگی سے غور کرنا بہت ضروری ہے نیز جو پیغام بھیجا جارہا ہے وہ اس عزم و یقین کے برعکس ہے جس کا اظہار کل کیا گیا تھا۔ کل تک کا عزم یہ تھا کہ “بس ہم جتنا کرسکتے تھے کر لیا” لیکن آج کی بات کچھ یوں ہے کہ “جی حضور! فرمائیں اور کیا کیا کرنا ہے”۔

عبوری حکومت کی موجودگی میں مطالبات پر غور اور حتمی فیصلے تک پہنچنا کس حد تک پاکستان کے حق میں بہتر ہو سکتا ہے یہ تو فیصلہ کن قوتیں ہی جان سکتی ہیں لیکن اگر اس مطالبے کو چند ہفتوں بعد منتخب ہو کر آنے والی حکومت تک التوا میں ڈالاجاسکتا تھا یا جاسکنا ممکن ہو تو کیا یہ بات مناسب نہیں؟۔ امید ہے اس بات پر ضرور غور کیا جائے گا۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں