قبیح اور مضر عادت سگریٹ نوشی

صاحب میں اخبار اس لیے پڑھ لیتا ہوں کہ کچھ معلومات حاصل ہو کہ حالات حاضرہ پر اپنی نظر رکھ سکوں کہ آیا دنیا میں ہو کیا رہا ہے۔ آج کا اخبار پڑھ کر مجھے لگا کہ میری معلومات اپ ٹو ڈیٹ نہیں ہیں۔ اب یہاں ڈیٹ سے مراد وہ نہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں۔ میری نظر ایک کالم پر پڑی جس میں صاحب نے تمباکو نوشی، تمباکو خوری جیسی قبیح مضر اور نقصان دہ عادات کی جانب میری توجہ کو مرکوز کر دیا۔ میرے قیاس میں یہ بات نہیں تھی کہ میں اس پر کچھ لکھوں تو میں نے یہ تہیہ کیا کہ اس پر کچھ لکھنا چاہیے۔
ہمارے معاشرے میں پان سگریٹ کا استعمال اتنا عام ہوگیا ہے کہ اس کی لَت میں کم عمر نوجوان بھی مبتلا ہوگئے ہیں لیکن اس عمل کو نقصان دہ ہونے پر معیوب نہیں سمجھا جاتا۔پاکستان میں 65 تا 75 فیصد آبادی کسی کسی صورت میں تمباکو نوشی کر رہی ہے۔کہتے ہیں پہلے آدمی سگریٹ پیتا ہے پھر سگریٹ آدمی کو پیتی ہے۔ جتنے لوگ تو سگریٹ کو پینے سے نہیں مرتے اتنے تو سگریٹ پر مرتے ہیں۔ شاید لوگوں کو سگریٹ پینا اس لیے پسند ہے کہ انگریزی میں اس کو smoking کہتے ہیں کیونکہ اس لفظ کے آخر میں کِنگ آتا ہے۔ اب اتنے پْر آشوب دور میں کوئی کِنگ نہیں بن سکتا، تو smoking کر کے ہی کِنگ ہی بن جائیں یہ سستا اور مفید طریقہ بھی ہے۔
ویسے ٹی وی پر سگریٹ کے اشتہارات کو دیکھ کر یہ لگتا ہے کہ ہم سگریٹ پیئے بغیر زندہ رہ ہی نہیں سکتے۔ یہ ایک طاقت کا سرچشمہ معلوم ہوتی ہو جیسے، ایک اشتہار میں ایک شخص مخصوص برانڈ کی سگریٹ پی کر شیر کے شکار کو نکلتا اور شیر کو مار کر لوٹتا ہے۔ اگر آپ جانتے ہوں تو ففٹی ففٹی پروگرام میں اسکی پیروڈی کی گئی کہ ایک دن وہ اسی طرح سگریٹ پی کر شیر کے شکار کو نکلتا ہے۔مگر جب واپس آتا ہے تو تو وہ زخمی اور بدحال ہوتا ہے۔ ایک شخص پوچھتا ہے ’’آج تم شیر کو کیوں نہیں مار پایا کیا وجہ تھی؟‘‘ تو وہ بڑی اداسی سے کہتا ہے کہ ’’آج شیر نے اسی برانڈ کا سگریٹ پی رکھا تھا جب ہی میرا یہ حال ہوا ہے۔‘‘
ویسے اگر آپ سگریٹ نہ بھی پیتے ہوں تو ہمارے شہر کا ٹریفک اس قدر دھواں چھوڑتا ہے کہ کم از کم آپ راستے میں سفر کرتے ہوئے دو ے تین سگریٹ پی لیتے ہونگے۔ بڑے شہروں میں تو ایک دن سانس لینے کا مطلب ہے کہ آپ نے سگریٹ کی تین سے چار ڈبیاں سْلگا لی ہوں۔ عنقریب دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کی طرح دھواں چھوڑنے والے افراد کے خلاف بھی سڑکوں پر چالان کیا جائے گا۔ انگریزوں کے آنے سے پہلے اگر آپ دیکھیں تو آپکو حْقہ نظر ائے گا۔ یہ آپکے آباء و اجداد کے پاس تو ضرور ہوگا۔ انگریز ہم پر سگریٹ ہی کے زور پر حکومت کر گئے۔ تمام افراد ایک حلقہ بنا کر بیٹھ جاتے تھے،پھر باری باری پیا کرتے تھے۔ جیسے سب ایک جسم کے اعضاء ہوں۔ پھر انگریزوں نے اسے علیحدہ کر کے سب کو تھما دی۔ اب یہ سگریٹ ہمیں پی رہی ہے۔
مجھے سگریٹ کا دھواں اس قدر برا لگتا ہے کہ اگر پاس بیٹھا کوئی شخص سگریٹ پی رہا ہو تو میں اسے کھری کھری سنا دوں۔اب منہ کھولوں گا بھی تو بولنے کے لیے تو یہ دھواں ہی منہ کے اندر چلا جائے گا۔ سگریٹ ہے بھی کیا چیز ایک نَلی جس کے ایک سِرے پر شعلہ ہوتا ہے۔ دوسرے سِرے پر اس شعلے سے نکلنے والے دْھویں کو کھنچنے کے لیے روئی نما چیز لگی ہوتی ہے۔ سگریٹ کے دوسرے سِرے پر جو راکھ ہوتی ہے وہ پینے والے کی ہوتی ہے۔ ایش ٹرے وہ جگہ ہے جہاں اس راکھ کو وہاں ڈالتے ہیں۔ اگر ایش ٹرے نہ ہو تو سگریٹ پینے والے کے لیے پوری دنیا کو ہی وہ ایش ٹرے سمجھتے ہیں۔ پینے والے تو سگریٹ کو منہ میں رکھ کر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ایش ٹرے میں رکھی ہے۔
میری اس تحریر کا مقصد یہ ہے لوگوں یہ آگاہی فراہم کرنا کہ وہ اس قبیح عادت کو ترک کردیں۔ اس ملک کے ایک ایک شہری کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ عادت کس طرح بیماریوں کو دعوت دیتی ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال پانچ اعشاریہ چار بلین افراد موت کی وجہ بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر تمباکو نوشی سے ہی ہوتی ہے۔ اقوام متحدہ کے اس اعداد شمار کے بعد کئی ممالک نے اقدامات تو اٹھائیں ہیں۔ تاہم متعدد ممالک میں حالت جوں کی توں ہی ہے۔ لہذا حکومت کو چاہیے کہ وہ تمباکو نوشی کی صنعتوں کے خلاف فوری کاراوئی کرے اور اس جانب توجہ دی جائے کہ عوامی مقامات پر تمباکو نوشی پر ممکنہ پابندی اور اس سے لاحق ہونے والی بیماریوں کے خلاف پیشگی اقدامات کے لیے توجہ مرکوز کرنے کا اعادہ کرے۔

حصہ
mm
خطیب احمد طالب علم ہیں۔ صحافت اور اردو ادب سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ سماجی مسائل اور تعلیمی امور پر لکھنا پسند کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ فن خطابت سے بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں