جان کی امان پاؤں تو۔۔۔۔۔۔

ڈی جی آئی ایس پی آر جناب میجر جنرل آصف غفور نے اسلام آباد میں ایک بھرپور پریس کانفرنس کی جس میں انھوں نے بہت سارے معاملات پرافواج پاکستان کا مؤقف بہت کھل کر بیان کیا۔ اب اس مؤقف کو میں حکومت کے کسی ماتحت ادارے کا مؤقف تصور کروں یا حکومت کا، یہ ایک بہت مشکل کام ہے۔ اس بات پر کہ یہ ادارے کی ترجمانی ہے یا ادارہ حکومت کی ترجمانی کر رہا ہے، میں بعد میں بات کرونگا لیکن پہلے میں اس میں کہی ہوئی باتوں کو سمجھنا زیادہ بہتر تصور کرتا ہوں۔

مجھے پاک فوج کے ترجمان کی یہ بات بہت ہی اچھی لگی کہ ” فوج نے کسی غلطی کو آج تک معاف نہیں کیا نہ کرے گی ،خواہ وہ سپاہی ہو یا جنرل”۔ اس کے بعد انھوں نے حوالے کے طور پر جنرل (ر) اسد درانی کا حوالہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ “اسد درانی نے این او سی کے بغیر کتاب لکھی،ادارے نے خود نوٹس لیا اور انکوائری شروع کی ہے،جلد فیصلہ آئے گا”۔

آصف غفور صاحب ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ غلطیوں کو کبھی معاف نہیں کرنا چاہیے اس لئے کہ معافیوں کے سلسلے حالات کے بگاڑ کا سبب بن جاتے ہیں اور معافیاں پانے والے احسان مند ہونے کی بجائے حوصلہ مند ہوجاتے ہیں اور پہلے سے بھی کہیں بڑھ کر وارداتیے بن جاتے ہیں۔ لیکن یہاں صرف یہ پوچھنا تھا کہ غلطیوں کا تعلق اور اس پر سزا دینے والی بات منسوب کس سے ہوتی ہے اور اس اصول کی زد میں آتا کون ہے؟۔

اپنے ہی بیان کی روشنی میں کیا آپ اس بات کی وضاحت پیش کر سکتے ہیں کہ مشرقی پاکستان ٹوٹنے جیسا واقعہ اور اس کے بعد ہزاروں مسلح سپاہیوں کا دشمن ملک کے سامنے ہتھیار ڈال دینے جیسی دلخراش بات سے لیکر پرویز مشرف کا پاکستان اور پاکستان کے بیٹے اور بیٹیوں تک کو امریکہ کے آگے بیچ دینے جیسی غلطی پر کتنے ذمہ دار جوانوں اور جرنیلوں پر مقدمات قائم کرکے ان کو لائقِ تعزیر و سزا قرار دیا گیا؟۔ جذبہ جہاد کو پروان چڑھا کر ہزاروں افراد کو افغان وار میں جھونکا گیا پھر ان کو بے نکیل اونٹ کی طرح چھوڑ کر پورے پاکستان کو خلفشار کی کیفیت میں مبتلا کرکے عام زندگی کو عذاب بنانے کے عمل میں شریک کن کن ذمہ داران کو سزا دی گئی؟، یہ اور اسی طرح کے بہت سارے سوالات ہیں جس کے جوابات آج تک قوم کو نہیں ملے تو ایک جنرل(ر) اسد درانی انکوائری کی کہانی عوام تک کہاں آنی ہے اور اگر آئے گی بھی تو ہزاروں چھلنیوں سے چھن جانے کے بعد وہی کہانی سامنے آئے گی جس کو آپ سامنے لانا چاہیں گے۔

جنرل درانی کے سلسلے میں انکوائری پر بھی اس بات کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ اس پر بھی شاید پر اسرار خاموشی ہی چھائی رہتی لیکن برا ہو یا بھلا سوشل میڈیا کا جس نے جنرل درانی کی کتاب کے راز کو طشت از بام کیا اور یوں درانی صاحب گرفت میں آئے ورنہ تو آپ کا محکمہ ان کی سر گرمیوں کی جانب سے غافل ہی تھا۔ یہ وہ میڈیا ہے جو آپ کو بہت برا لگتا ہے لیکن اسی “خرابے” سے یہ “خوبی” برآمد ہوئی ہے اس لئے ضروری ہے کہ اس پر شائع ہونے والی باتوں پر اتنی برہمی کا مظاہرہ نہ کیاجائے کہ اسے بند ہی کردیا جائے۔ بہت زیادہ پابندیاں حالات کو بگاڑا ہی کرتی ہیں سنوارا نہیں کرتیں۔ اس کی بہترین مثال ڈھاکہ فال ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب خبروں کی ذریعہ صرف پی ٹی وی یا ریڈیو پاکستان ہی ہوا کرتا تھا اور ان سب سے “سب اچھا ہے” کے علاوہ اور کچھ بھی نشر نہیں ہوا کرتا تھا لیکن پھر بھی پاکستان دو لخت ہوگیا۔ جھوٹ سچ آنے دیں پاکستان کے عوام کو جاہل اور بے عقل تصور مت کریں کیوں کہ وہ سچ میں سے جھوٹ اور جھوٹ میں سے سچ کو کشید کرنا خوب اچھی طرح جانتے ہیں۔

جنرل درانی کو تو آپ نے محض “وضاحت” کیلئے طلب کیا ہے وہ بھی اس لئے کہ کتاب کیلئے انھوں نے(جیسا کہ آپ نے کہا) “این او سی” کیوں نہیں لیا تھا۔ کیا یہ بات آپ کو ذرا بھی خوفناک نہیں لگی کہ پاکستان کی خفیہ کا سب سے بڑا عہدیدار دشمن ملک کی سب سے بڑی خفیہ را کے عہدیدار سے تنہائی میں متعددبار اور کئی کئی ہفتوں اور کئی کئی ملکوں میں اپنی راتیں کالی کرتا رہا ہو؟۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ اس بارے میں یا تو ہماری خفیہ کو ہوا بھی نہ لگی ہو یا تجاہل عارفانہ سے کام لیا گیا ہو، ہر دو صورتوں میں ذمہ دار کون ہوا اور جو ادارہ “غلطیاں” معاف ہی نہیں کرتا ہو کیا اس کی زد میں ذمہ داران آئیں گے یا معاف نہ کرنے کی زد میں ادارے سے باہر ہی کے لوگ آیا کرتے ہیں۔

کبھی آپ نے سوچا کہ کیا کتاب میں کوئی لکھاری ایسی باتیں جس پر قانونی گرفت ہو سکے، شائع کرنے کی حماقت کر سکتا ہے؟۔ کیا کبھی آپ نے سوچا کہ جوباتیں غیر طبع شدہ ہیں، جو کئی کئی ہفتوں دورانِ نوشانوش ہوتی رہی ہونگی وہ کیا ہونگی؟۔ کیا اتنے اہم عہدے پر متمکن شخص مافوق البشر ہوتا ہے؟، کیا خطا فرشتے کرتے ہیں؟، انسان بہت خطاکار و کمزور ہیں تو کیا کوئی ایک بھی راز کی بات راز و نیاز میں سینے کے باہر نہیں آئی ہوگی؟۔ اس پر بڑے فخر کے ساتھ یہ کہنا کہ “فوج” غلطی معاف نہیں کیا کرتی، نظر ثانی طلب ہے۔

ڈی جی صاحب! آپ کی یہ تشویش بجا کہ “غیر ملکی میڈیا پی ٹی ایم کے جلسے کو کیوں براہ راست نشر کررہا ہے،ہمارے پاس بہت سے ثبوت ہیں کہ کس طریقے سے پی ٹی ایم کو استعمال کیا جا رہا ہے، سوشل میڈیا کو پاکستان اور اداروں کیخلاف استعمال کیا جارہاہے”۔ مودبانہ عرض ہے کہ کیا غیر ملکی میڈیا نے کبھی وہ بات بھی کی ہے جو پاکستان کے حق میں جاتی ہو؟۔ نیز یہ کہ ہمارے ملک کا میڈیا وہ سب کچھ کیوں نہیں دکھا رہا جو ملک میں ہو رہا ہے؟، جب لاانفورسمنٹ ایجنسیاں منظور پشتین کو شہر شہر جلے جلوس کرنے کی اجازت دے رہی ہیں تو میڈیا کس کی ہدایت پر ان جلسوں کی کوریج نہیں دے رہا؟، یہ خود ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ میڈیا کو ہر سرگرمی کو دکھانے کی اجازت ہونی چاہیے تاکہ عوام کو معلوم ہو سکے کہ کون کیا کر رہا ہے۔ بے خبری افواہوں کو جنم دیتی ہے اور افواہیں فتنہ فساد کو۔ پھر انصاف کا تقاضہ ہے بھی یہی کہ جس پر الزام ہو اس کا بیان بھی سامنے ہونا چاہیے تاکہ غلط اور سہی کا علم ہر عام و خاص کو ہو سکے۔ ویسے یہ بات بھی آپ کے علم میں ہوگی کہ وہ “اپنا بچہ” ہے کا خطاب یافتہ ہے اور اس کو اس خطاب سے کس نے نوازا، اس کا علم بھی آپ کو خود ہوگا۔

ناحق ہم مجبوروں پر ہے تہمت خود مختاری کی

جو چاہو سو آپ کرو ہو ہم کو عبث بدنام کیا

فاٹا انضمام کے سلسلے میں ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ “فاٹا کے انضمام کا افغانستان کی سرحد کے ساتھ نہ پہلے کوئی تعلق تھا، نہ اب ہے اور نہ آئندہ ہو گا”، اس میں کوئی دو آرا نہیں اس لئے کہ فاٹا پاکستان ہی میں شمار کیا جاتا تھا اور شمار کیا جاتا رہے گا لیکن کے پی کے کے ساتھ انضمام کی بجائے اسے صوبہ قرار دیئے جانے میں کیا قباحت تھی؟، اس پر بھی غور کرنا ضروری ہے اگر گلگت الگ صوبہ بنایا جاسکتا ہے تو فاٹا کیوں نہیں؟۔ سیاسی جماعتوں اور فاٹا کے عوام میں بھی اختلاف کی بنیادی بات یہی ہے اگر اس پر فاٹا کے عوام کی رائے براہ راست لے لی جاتی تو کوئی دینی مسئلہ تو نہیں تھا۔

یہ کہنا کہ سوشل میڈیا پر جھوٹے نعرے لگتے ہیں درست ہے اور ان نعروں سے پاک فوج اور ریاست کو کمزور کرنے کے علاوہ اور کچھ مقصد نہیں ہوا کرتا لیکن کیا اس بات پر بھی کوئی ایکشن ہوا جو ہمارے اپنے میڈیا پر “سچے” نعرے لگائے جاتے ہیں۔ کیا کے پی کے کا یہ کہنا کہ “ہم پختون ہیں اور ہمیں روکا گیا تو ہم کوئی اور نعرہ بھی لگا سکتے ہیں”۔ آزاد کشمیر کے صدر کا یہ کہنا کہ “ہم کوئی اور فیصلہ بھی کرسکتے ہیں”۔ محمود خان اچکزئی کا یہ فرمانا کہ “ان حالات میں کوئی پختون پاکستان زندہ باد کا نعرہ بلند کرتا ہے تو وہ وہ بے غیرت ہے”۔ زرداری کا یہ کہنا کہ میں فلاں فلاں سن سے اب تک کے جنرلوں کی لسٹیں نکال کر سامنے رکھ دوں تو پھر خود ہی نمٹتے رہنا نیز یہ کہ میں اینٹ سے اینٹ بجاکر رکھ دونگا”۔ وزیر اعلیٰ کے پی کے کی موجودگی میں اسلام آباد کی جانب بڑھنے والے جلوس کے شرکا کا وزیر اعلیٰ کے سامنے آزادی آزادی کے نعرے” لگائے گئے۔ کیا یہ سب کسی بھی وقت کسی کے بھی آلہ کار نہیں بن سکتے؟۔ اگر ان سب باتوں کے پس منظر میں چھانک کر دیکھا جائے تو یہ سب اپنی اپنی دموں پر پاؤں پڑنے پر ہی باغیانہ انداز میں بولے تو کیا کوئی اور ایسا نہیں کرسکتا۔ ضروری ہے کہ ہرفرد اور ادارے کو اپنی اپنی کمیوں اور کوتاہیوں پر بھی غور کرنا ہوگا کہ افراد میں خفگی کیوں بڑھ رہی ہے اور ہر فرد اندر ہی اندر کیوں سلگ رہا ہے۔

خود ترجمان پاک فوج کا یہ کہنا کہ “عوام کی محبت فوج کے لیے پچھلے 10 سال میں زیادہ ہوئی ہے کم نہیں ہوئی” اس جانب اشارہ ہے کہ دس سال قبل عوام کی محبت فوج سے کم ہوگئی تھی تو پھر غور طلب بات یہ ہے کہ کیوں کم ہوگئی تھی اور بقول خود کہ فوج غلطیوں کو معاف نہیں کیا کرتی تو کتنے جوان اور افسران محبت میں کمی کے اسباب پر سزا کو پہنچے؟۔

تر جمان کا کہنا تھا “اگر فوج کو گالیاں دینے سے آپ کا قد بڑا ہوتا ہے تو دیں لیکن اگر ایسا کرنے سے پاکستان کا قد چھوٹا ہوتا ہے تو یہ نہ کریں۔”۔ کسی بھی ادارے کو برابھلاکہنے سے پاکستان کا قد کبھی بڑا نہیں ہوا نہ ہوسکتا ہے اس لئے کہ اداروں کی مضبوطی ہی پاکستان کی مضبوطی ہے۔ اسی طرح کیا یہ بات قابل غور اور توجہ طلب نہیں کہ اپنی ہی حکومت کے خلاف 24 گھنٹے ہرزہ سرائی، اس کی بار بار تبدیلی، اس کے سربراہ کی تذلیل، اس کی پوری ٹیم کے کپڑے اتارنا اور ہر حکومتی ممبر کی دم میں نمدہ کستے رہنے میں پاکستان کا قد بلند ہوتا ہے؟۔ جب حکومت کے ماتحت ادارے کی تضحیک سے پاکستان کی بنیادیں کمزور ہوتی ہوں تو جس کے تحت پورا پاکستان آتا ہو اسی کو ہلایا جاتارہے تو پھر یہ سمجھ لینا کہ پاکستان نہیں ہلے گا تو یہ باتیں بھی اسی طرح قابل گرفت ہونی چاہئیں جس طرح کسی ادارے کو کمزور کرنے والی باتیں۔

ترجمان پاک فوج کی اس بات پرکہ “ہم سے زیادہ کسی کو خوشی نہیں کہ حکومت نے اپنا وقت پورا کیا اور اس پر انہیں مبارکباد دیتے ہیں، پاک فوج کو خوشی ہے دوسری جمہوری حکومت نے اپنی مدت پوری کی”۔ واقعی ایک خوش کن اور لائق تحسین بات ہے لیکن کیا پہلی اور دوسری مدت کو مکمل سکون کے ساتھ پورا ہونے دیا گیا؟۔ اسلام آباد کا مہینوں گھیراؤ، سرکاری املاک کی توڑ پھوڑ، پی ٹی وی پر قبضہ جیسے واقعات، انگلی اٹھائے جانے کی 126 دن دھمکیاں اور اس پر پر اسرا خاموشی کو کس خانے میں فٹ کیا جائے گا، تعاون کے یا عدم تعاون کے؟۔

بہت ساری باتیں تو محض سیاسی ہی ہوتی ہیں لیکن ریٹائرڈ جنرلوں کے خود بیشمار اسٹیٹمنٹ اس بات کے پس منظر میں موجود ہیں کہ پاکستان میں مختلف آپریشنوں، حکومتوں کو بنانے اور بگاڑنے اور گھیراؤ میں ان کا ہاتھ رہا ہے۔ اصغر خان کیس اس بات کا ایک مبینہ ثبوت ہے، اس پریہ کہنا کہ فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹاجائے کوئی بہت مناسب بات نہیں البتہ یہ ضرور ہے کہ کوئی خود ہی آکودے تو کوئی کیا کر سکتا ہے۔ کیا اس بات کیلئے یہی کافی نہیں کہ” 2018 تبدیلی کا سال قرادیاجانا کس کا بیان ہے”۔ 2018 الیکشن کا سال تو ضرور ہے لیکن تبدیلی کس بات سے اور کیوں کر آئے گی کیا وضاحت طلب بات نہیں؟۔ مختصر یہ کہ پسند اور نہ پسند کا سلسلہ بند ہونا چاہیے، کودم کاد کو اب تھم جانا چاہیے اور جو بھی حکومت آئے اس کو پورے سکون کے ساتھ یا تو کام کرنے کا موقعہ دینا چاہیے یا پھر ماضی کی طرح خود حکومت پر براجمان ہوجانا چاہیے یعنی

“سر آئینہ مرا عکس ہے پس آئینہ کوئی اور ہے” والی کہانی ختم ہوجانی چاہیے ورنہ مستقبل کوئی بہت اچھا منظر پیش کرتا نظر نہیں آرہا۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں