وفاق

                جب پاکستان بنا تو وہ صرف پاکستان تھا، صوبے پانچ تھے لیکن ایک صوبہ باقی چار صوبوں سے ایک ہزار میل کے فاصلے پر تھا۔

                پھر ہوا یوں کہ ملک میں اچانک مارشل لاءکا نفاذہوگیا۔

                مسلمانان بر صغیر نے انگریزوں کے دور کا مارشل لاءدیکھا ہوا تھا اور اس کی خونخواریاں بھی یاد تھیں، اس لئے سارے کے سارے عوام اور اس وقت کی سیاسی پارٹیاں دم سادھ کر بیٹھ رہیں۔

                اس دور میں ہوا یوں کہ پاکستا ن کو ون یونٹ قرار دے دیا گیا۔

                کیا ہی عجب بات؟۔  ایک وحدت (ون یونٹ) ہونے کے باوجود بھی مشرقی اور مغربی پاکستان کے الگ الگ گورنرتھے۔

                جب چیز ہی ایک ہو تو توڑنے کے لئے بھی پھروہی چیز رہ جاتی ہے۔

                چنانچہ ون یونٹ پاکستان اسی مارشل لا کے زیر نگرانی دولخت ہو گیا۔

                پھر سے جمہوریت کے سورج نے مشرق کی بجائے براہ راست مغرب سے سر ابھارنا شروع کیا اور یہ فیصلہ کیا کہ اب جمہوریت کا سورج مغرب سے ہی ابھرا کرے گا اورمغرب میں ہی غروب ہوا کرے گا۔ یہ بات اس لئے بھی ضروری تھی کہ جمہوریت ہے ہی مغربی طرزِ حکومت۔

                اس پاکستان کے ساتھ بھی کیا کیا کھلواڑے ہوتے رہے ہیں۔ جب میرے قائد قائد اعظم محمد علی جناح نے اس پاکستان بنایا تھا تو اس کا نام صرف پاکستان تھا۔ پھر یہ پاکستان “پوربو” پاکستان اور”پچھمی” پاکستان بنا۔ مشرقی پاکستان اورمغربی پاکستان کہلایا۔ عوامی جمہوریہ پاکستان بنا۔ پھر دوبارہ پاکستان بنا اور اب اسلامی جمہویہ پاکستان کہلاتا ہے۔

                المختصر، ون یونٹ ختم ہوا اور ایک نئے پاکستان میں ایک نئے لفظ کا اضا فہ ہوا جس کو “وفاق” کا نام دیا گیا۔

                پانچ کونے والے ستارے کا مطلب پانچ صوبوں سے تعبیر کیا گیا۔ ایک طویل عرصے تک چار صوبے ہونے کے باوجود ستارے کے پانچویں کونے کے متعلق غور ہی نہیں کیا گیا۔ چند سال قبل آنکھ کھول کر جھنڈے پر بنے ستارے کا پانچواں کونا نظر آیا تو ایک صوبے کے اضافے کا خیال آیا اور یوں گلگت ایک صوبہ بنادیا گیا۔

                صوبے بحال ہوئے، اور ان سب کی باگ وفاق کو تھمادی گئی، گویا صوبوں کی خود مختاری کو ایک وفاقی لبادہ اوڑھا کر وفاق کے شکنجے میں کس دیا گیا اور صوبے خوش کہ ہم خود مختار بنا دیئے گئے، خود مختاری تو ان کے ہاتھ کیا آتی، البتہ یہ طفل تسلی ان کو بغاوت کی جانب دھکیلتی ضرور نظر آرہی ہے۔

                پاکستان بننے سے ٹھیک دس سال قبل، اپریل 1937 ءمیں ہندوستان کو بھی ایک “وفاق” میں جکڑ دیا گیا تھا اور اس پر پورے ہندوستان میں جشن منایا گیا تھا کہ اب اس ہندوستان کو کوئی تقسیم نہیں کر سکتا۔۔۔۔ مگر؟۔۔۔۔۔

                جہاں دیدہ افراد کی کسی بھی دور میں کمی نہیں رہی، اس نظام کی خرابیاں اس وقت کے عظیم انقلابی شاعر “جوش ملیح آبادی” نے ایک نظم “وفاق” کے عنوان سے اپنے شعری مجموعہ حرف حکایت میں بیان کیں۔

                کہتے ہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے، اس نظم کو پڑھنے کے بعد۔۔ اور۔۔۔ اسی طرح کے بیشمار ایسے خیالات جن کااظہار اس دور میں، پاکستان بننے کے وقت بہت سارے عالموں ، دانشوروں، ادیبوں اور شعرا نے کیا تھا آج حقیقت بن کر ہمارے سامنے آتے جارہے ہیں لیکن افسوس کہ ہم خوابِ غفلت سے بیدار ہونے کے لئے تیار نہیں، اس نظم کو اسی پس منظر میں پڑھیں اور دیکھیں کہ کیا ہم پاکستان بنے سے دس سال قبل کے زمانے میں تو نہیں کھڑے؟۔

دھومیں مچی ہوئی ہیں نظام وفاق کی

ہندوستاں ہنوز ظلوم و جہول ہے

اس نوحہ خزاں کو سمجھنا نویدِ گل

اک بے پناہ چوک ہے اک سخت بھول ہے

یہ بوستانِ اہل سیاست کی شاخِ گل

شیطاں کے پائیں باغ کی سوکھی ببول ہے

یہ ہے نیا نکاح کہ دولھا تو ہے خموش

قاضی یہ کہہ رہا ہے کہ دل سے قبول ہے

ہشیار اہلِ ہند کہ پھر اس زمین پر

گردوں سے ایک تازہ بلا کا نزول ہے

کہتے جس کو ”دولت بیدار“ اہل غرب

دہ اک متاعِ کاسد و جنس فضول ہے

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں