طاقت پرستی اور دانشورانہ دہشتگردی

ہمارے زمانے کا سب سے بڑا ظلم ’تلبیس ِ حق و باطل ‘ اور لفظوں سے معنی چھین لیے جانے کی مابعد جدید دانشورانہ دہشت گردی ہے۔اپنے سے برتر  اور کسی حد تک ناقابل رسائی قوت کی پرستش چونکہ انسان کی جبلت میں شامل ہے لہٰذا اس نے بخیال خود اللہ کے تصور سے پیچھا چھڑالیا ہے ،کہیں بقول نطشے ؔ  نے اُسے مار کر(The GOD is Dead) اور کہیں رچرڈ ڈاکنس نے  اُسے ایک مریضانہ وہم (Delusion)قرار دے کر (The GOD Delusion)اور اب ’مابعد جدیدیت‘ہی اس کا نیا الہٰ ہے جو فی الواقع  کسی دانشورانہ دہشت گردی سے کم نہیں ۔

جاوید اختر نے ’دا گاڈ ڈیلیوژن ‘کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے ہوئے۲۰۰۷ میں  کتاب پر  اپنے تبصرے میں دنیا کے تمام موحدین اور تمام Believers کو تلقین کی تھی کہ وہ اسے ضرور پڑھیں تاکہ ان کے ذہنوں سے ’یقین کے جالے ‘ صاف ہو سکیں !

رچرڈ ڈاکنس نیروبی کینیا میں رہنے والے ایک سفید فام ملحد  ہیں۔وہ اس وقت اٹھتر سال کے ہیں ۔وہ لکھتے ہیں کہ وہ فی الواقع کسی بھی مذہب کو نہیں مانتے کیونکہ سبھی مذاہب  دنیا کو نہ سمجھنے ہی میں مطمئن رہنے کا درس دیتے ہیں ۔مذہبی ’اندھ وشواس ‘کسی بھی عقلی  سوال و تحقیق کو پسند نہیں کرتا ۔وغیرہ ۔

دنیا کا مسئلہ یہ ہے کہ یا تو انسانوں کی ایک قابل ذکر تعداد اللہ کو مانتی ہی نہیں اور اللہ کو ماننے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد اُس کی ضرورت اِس دنیا کے لیے نہیں ، صرف اُس  دنیا کے لیے سمجھتی ہے !البتہ آج دنیا میں جن کو تفوق تمکن غلبہ اور اقتدار حاصل ہے وہ یا تو اللہ باغی ہیں یا پھر منافق اور اللہ کے سب سے بڑے باغی ابلیس سے تحالف کیے ہوئے ہیں اور اس زَعم میں بھی گرفتار ہیں کہ بس وہی اللہ کے چہیتے ،دوست اور ولی ہیں اور باقی سب اُن کی چاکری کے لیے دنیا میں بھیجے گئے ہیں۔ یہی عقیدہ یہود و براہمہ کا نقطہ اشتراک ہے ۔اوریہی ’اہل ایمان کے سب سے بڑےدشمن ہیں(المائدہ ۸۴)۔‘

مگر حقیقت یہ ہے کہ  یہود و مشرکین کے یہ دونوں گروہ  طاقت کے پجاری اور آخرت کے انکاری ہیں ۔یعنی مرنے کے بعد کسی آخرت میں اپنے دنیوی اعمال کی جواب دہی کا تصور نہیں رکھتے اور دنیا میں صرف طاقت ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں ۔ اس طاقت پرستی میں آزادی کا بے لگام تصور بھی ہے جس میں ہر طرح کے ظلم اور اسراف کی کھلی  آزادی ہے ۔لہٰذا انہوں نے انصاف ،اخلاق اور آزادی ہی کے معنی بدل دئیے ہیں : جو یہ کہیں وہی اخلاق  اور قانون اور جو یہ کریں وہی انصاف ۔اور باقی سب ظلم ۔ اور رہی آزادی تو وہ ان کے گھر کی لونڈی ہے جس طرح چاہیں استعمال کریں ۔اس کے لیے انہوں نے مابعد جدیدیت ،یعنی  ’متن کی معنی سے محرومی ‘ کا فلسفہ ایجاد کر ڈالا۔اور پھر اس شیطانی نظام کو ادب میں بھی داخل کر دیا ۔بد قسمتی سے ہماری بے چاری اردو کے بھی وہ ادیب ،نقاد اور افسانہ نگار جن کی کتابیں محض چند سو چھپتی ہیں اور جنہیں قاری چند سو بھی میسر نہیں آتے اور تنقید کے نام پر  من ترا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگو کے قصیدوں سے دل بہلاتے رہنا ہی جن کی مقبولیت کی  معراج  ہے ،مابعد جدیدیت کی خرافات پر خامہ فرسائی کو فرض ِعین سمجھ کے وہ کچھ لکھے چلے جارہے ہیں جسے وہ خود بھی  نہیں سمجھ   سکتے ۔

لیکن دنیا  حقائق پر  ناقابل تفہیم فلسفے اور طاقت کے کتنے ہی پردے ڈالنے کی کوشش کرے وہ زندہ و پائندہ حقیقتوں کو بہت دیر تک چھپائے نہیں رکھ سکتی ۔ عالمی صہیونی پریوار اور بھارتی سنگھ پریواراور ان کے حامیوں اور دوستوں کے  عزائم و افکار پوری طرح   طشت از بام  ہو چکے ہیں ۔ دنیا کی تاریخ اور جغرافیہ۔۔جی ہاں ،تاریخ اور جغرافیہ دونوں  بہت تیزی سے تبدیل ہونے والے ہیں ۔آنے والے چند سال بہت اہم اور فیصلہ کن  ہوں گے۔

یورپ ایران اور ترکی کا ساتھ دے گا یا امریکہ اور اسرائل کا ،یہی اس کا مستقبل بھی طے کرے گا ۔ تیسری جنگ عظیم ایران پر حملے سے شروع ہو ۔۔یا  اسرائلی ، امریکی پاگلوں شیطانوں  اور ان کے حلیفوں پر حملے سے ۔۔اہل ایمان کے دائمی دشمنوں کے نصیب میں بالآخر  شکست اور مایوسی ہی لکھی ہے۔فی الحال وہ دنیا کی آدھی آبادی ختم کر ڈالیں یا دنیا  کے مستضعفین کی اکثریت کو موت کے گھاٹ اتار دیں اسرائل  فنا  ہوکر رہے گا ، نہ صرف غزہ ، مغربی کنارہ رام اللہ اور الخلیل  سمیت پورے  فلسطین پر  بلکہ یمن و سیریا و لبنان سمیت پورے عالم عرب پر مظلومین و  اہل انصاف کی حکومت ہو گی۔انشااللہ ۔

  ہم اگر واقعی  اپنی اور دنیا کی عافیت کے لیے فکر مند ہیں تو ہمارا پہلا اور آخری کام صرف اور صرف  اتنا  ہے کہ ہم خود کو اپنے آپ کو  بدلنے کی کوشش کریں ۔ ظلم ،حق و باطل کی تلبیس ،جھوٹ ،فریب اور ہر طرح کی بدعنوانی و بے ایمانی سے پیچھا چھڑائیں ،صلہ رحمی کریں ،قرابت داروں اور پڑوسیوں کے حقوق ادا کریں اور ۔۔کونو ا مع ا لصادقین ۔۔سچوں کے ساتھ ہو جائیں ،،! فھل من مدکر ؟

حصہ
mm
لکھنو کے رہنے والے عالم نقوی ہندوستان کے ایک کہنہ مشق صحافی،اور قلم کار ہیں وہ ہندوستان کے مختلف اخبارات و جرائد ور ویب پورٹل کے لیے لکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں