مستحقین انفاق کی شناخت مشکل تو ہے ناممکن نہیں 

سہ روزہ دعوت کے ۲۲ مئی ۲۰۱۸ کے شمارے میں عمیر کوٹی ندوی کا ایک چشم کشا مضمون شایع ہوا ہے جس کی مزید تشہیر و اشاعت کی غرض سے ہم آج اس کے اہم اقتباسات اپنے کالم میں شامل کر رہے ہیں ۔ انہوں نے ورنداون (متھرا ۔یو پی ) کے ایک  ایسے واقعے کاتذکرہ کیا ہے جو ہمارے علم میں بھی نہیں تھا کہ ۔۔’’حال ہی میں سوشل میڈیا میں ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی ورنداون کے بھکاریوں اور بھیک کے (منظم اور غیر معمولی نفع بخش) کاروبار کے بارے میں تھی (تاہم یہ ویڈیو  ابھی تک  ہماری نظر سے نہیں گزری ہے )۔اس میں ایک بھکاری کا انٹر ویو تھا جس میں اس نے بتایا تھا کہ وہ ایک کوالیفائڈ انجینئر ہے اور اس کی طرح اور بہت سے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ اس پیشے سے وابستہ ہیں۔ ۔بھیک مانگنے والوں کے بہت سے  نٹ ورک (بلکہ باقاعدہ کمپنیاں) ہیں جس کے ذمہ داروں (مالکان وغیرہ ) کو معین رقم ادا کرنے کے بعد بھی ان بھکاریوں کی ماہانہ آمدنی ستر سے اَسّی ہزار روپئے ہوتی ہے ! ظاہر ہے کہ یہ کاروبار  صرف   ورنداون تک محدود نہیں ۔یہ تو برفشار کی محض ایک چوٹی (ٹِپ آف دی آئس برگ ) ہے۲۰۱۱ کی مردم شماری کے ریکارڈ کے مطابق ملک میں (صرف ) ۳ لاکھ ۷۲ ہزار بھکاری ہیں (؟)ان میں سے ۲۱ فیصد یعنی ۷۸ ہزار بھکاری بارہویں کلاس پاس تھے اور ۳ ہزار بھکاریوں کے پاس تکنیکی ڈپلومہ یا سرٹیفکٹ بھی تھا ۔ان کے علاوہ ۴۱۰ بھکاری انجینیئرنگ یا پوسٹ گریجوئٹ ڈگریوں کے مالک تھے ۔ ‘‘

غیر معمولی غربت ،حد سے بڑھی ہوئی بیروزگاری ،ناقص تعلیمی پالیسی اور بد حال تعلیمی اداروں اور کرپشن میں سر فہرست  قریب ڈیڑھ ارب کی کثیر آبادی والے  اس ملک میں مردم شماری رجسٹر ۲۰۱۱ کے مندرجہ بالا اعددو شمارناقابل اعتبار نظر آتے ہیں ۔بھیک کاروبار میں ملوث ،پچاس ہزار روپئے ماہانہ کمانے والے  پڑھے لکھے  اور عام بھکاریوں ،دونوں ہی کی اصل تعداد اِس سے کہیں زیادہ ہوگی ۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ حکومت اور سماج دونوں ہی اپنی ذمہ داریاں  ضرورت کے مطابق ادا نہیں کر رہے ہیں ۔

ہم پچھلے قریب چار برسوں سے مستقلاً علی گڑھ میں مقیم ہیں اور گزشتہ سال سے یہاں بھکاریوں کی ایک نئی ’مابعد جدید ‘ اور ’ہائی ٹیک ‘نسل کا مشاہدہ کر رہے ہیں جو سایکل رکشہ پر ڈی جے والے ساؤنڈ سسٹم  اور ریکارڈ پلئیر کے ساتھ بھیک مانگتے ہیں۔پچھلے سال صرف ایک ہی رکشہ تھا ،اِمسال اُن کی تعداد نصف درجن سے زائد ہو چکی ہے ۔اگلے سال کیا ہوگا ۔۔یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے  !

لیکن ،بھیک مانگنے والوں کی دن بدن بڑھتی ہوئی تعداد ،اور بھیک مانگنے اور منگوانے کے منظم کاروبار سے قطع نظر ،مٹھی بھر قارونوں اور فرعونوں کے قبضے میں سسکتی ہوئی ہماری اس دنیا میں ،گوگل کے فراہم کردہ تازہ ترین اعداد و شمار  کے مطابق پوری دنیامیں بدترین بھکمری کے شکار افراد کی تعداد کم از کم ۸۲ کروڑ ہے جن میں سے ایک تہائی وریب ۳۰ کروڑ بھوکے صرف بھارت میں رہتے ہیں ! ان کے علاوہ قریب ۸۴ کروڑ غربت ،افلاس اور بیروزگاری کے مارے  ہندستانی  شہری ایسے  ہیں جن کی فی کس یومیہ آمدنی بیس روپئے (نصف امریکی ڈالر سے بھی کم ) ہے ۔آج رات بھی (یعنی ۲۴ مئی ۲۰۱۸ کو جب یہ سوال گوگل سے پوچھا گیا ہے )قریب ۲۰ کروڑ ہندستانی بھوکے سوئیں گے !ہم اس دور میں ہیں جب غربت اور امارت کی درمیانی کھائی گھٹنے کے بجائے دن بدن چوڑی اور گہری ہوتی جا رہی ہے۔ آکسفیم جیسے اداروں کے مطابق اس خلیج  کے بڑھنے اور گہرے ہونے کی رفتار پچھلے تین چار برسوں میں اور تیز ہو چکی ہے ۔بتایا جاتا ہے کہ اس کا سبب وہ ’اچھے دن‘  ہیں مودیوں ،ٹرمپوں اور یاہوؤں اور ان کے مٹھی بھر بھکتوں نے دنیا پر مسلط کر رکھے ہیں ۔ آج دنیا کی مجموعی آمدنی  آٹھ سو باون ارب ڈالر کا آدھا چار ارب ۲۶ کروڑ ڈالر ۔۔ سات ارب بیس کروڑ  نفوس کی آبادی والی دنیا میں صرف  آٹھ ۔۔جی ہاں ،آپ نے صحیح پڑھا ،صرف آٹھ امیر ترین قارونوں کے پاس ہے ! یعنی دنیا آدھی آبادی ۔۔تین ارب ساٹھ کروڑ۔۔افراد کے پاس  مجموعی طور پر جتنی دولت ہے اُتنی اکیلے اکیسویں صدی کے  آٹھ  عدد قارون سمیٹے اور دبائے بیٹھے ہیں اور اپنے ’گودی میڈیا کے ذریعےدنیا کا  یہ سب سے بڑا  جھوٹ پھیلانے میں مصروف ہیں کہ لازمی اشیائے صرف ۔۔روٹی کپڑے اور مکان کی قلت  کا سبب آبادی کا اضافہ ہے  !جبکہ آکسفیم ہی کی ایک اور رپورٹ میں یہ اعتراف موجود ہے کہ  دنیا کی  ایک فیصد آبادی دنیا کی ننانوے فیصد آبادی کے وسائل زندگی  پر قابض ہے !

مسئلہ حل اس لیے  حل نہیں ہوتا کہ قارونی سرمایہ داریت  پوری دنیا کے معاشی نظام پر قابض ہے۔اور جو احمق اس کا مداوا ڈھونڈنے کی کوشش بھی کرتے ہیں وہ بھی  اس’ دائرہ شر‘( viscious circle)سے باہر آنے کی کوشش نہیں کرتے ۔اس کا علاج اسلام کا  غیر سودی  و عادلانہ نظام معیشت ہے جو کسی مسلم کہلانے والے ملک میں صد فی صد رائج و نافذ العمل نہیں ۔ ترکی اور ایران   صرف اس حد تک مستثنیٰ قرار دئیے جا سکتے ہیں کہ وہاں  اسلامی نظام صرف  نوے تا  پچانوے فی صد نافذ ہے باقی پانچ تا دس فی صد عالمی معاشی نظام کے زیر اثر  رہنے پر مجبور ہیں ۔سعودی عرب ،متحدہ عرب امارات اور بحرین ملوکیت اور اسراف کی لعنتوں میں گرفتار ہیں ۔اور ستم ظریفی یہ ہے کہ صرف ان ہی تینوں ملکوں کی دولت صہیونی قارونی مقتدرہ کی ریڑھ کی ہڈی بنی ہوئی انہیں واصل جہنم ہونے سے روکے ہوئے ہے ۔دولت کے ناجائز اور غیر منصفانہ  ارتکازا ور اسراف و  تبذیر پر مبنی نظام معیشت کے ’’مطلق اور مکمل ‘‘خاتمے کے بغیر نظام ظلم و جبر و استبداد سے  مستضعفین فی الارض کی نجات ممکن نہیں ۔ نظام عدل و خلافت کی جگہ ملوکیت اور عوام دشمن شہنشاہیت کے ابلیسی نظاموں کی پوری تاریخ، ماضی اور حال ،سب ہماری آنکھوں کے سامنے ہے!

بات مستحقین انفاق کی شناخت سے شروع ہوکر بظاہر بہت دور نکل گئی ہے ۔لیکن ہم کہنا یہ چاہتے ہیں کہ ہم اور آپ  تنہا نظام شر پر قائم اپنی اور عالمی  حکومتوں کو بدلنے کی طاقت نہیں رکھتے ۔البتہ اتنا ضرور ہمارے بس میں ہے کہ ہم میں سے ہر ایک فرداً فرداً صلہ رحمی کے قرآنی احکامات پر عمل شروع کر دے اور صرف ’ذَوِی ا لقُربیٰ‘ اور پڑوسیوں  ہی کے حقوق کی ادائگی لفظاً اور معناً شروع کردی جائے  تو صرف یہی دونوں کام ، ناقابلِ یقین مثبت تبدیلیوں کا پیش خیمہ بن سکتے ہیں ! فھل من مدکر ؟

حصہ
mm
لکھنو کے رہنے والے عالم نقوی ہندوستان کے ایک کہنہ مشق صحافی،اور قلم کار ہیں وہ ہندوستان کے مختلف اخبارات و جرائد ور ویب پورٹل کے لیے لکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں