گردے کی بیماریاں اور روزہ

گردے انسانی جسم میں انتہائی اہم فعل انجام دیتے ہیں یعنی یہ جسم میں پانی کی مقدار کو کنٹرول کر کے جسم میں پیدا ہونے والے زہریلے مادوں کو خارج کرتے ہیں، دونوں گردے 24 گھنٹے مسلسل کام کرتے ہیں۔گردے کی بیماریاں بھی ہمارے ملک میں بہت عام ہیں۔گردوں کی زیادہ تر بیماریاں شوگر کے مریضوں کو ہوتی ہیں،گردے کی پتھری بھی بہت عام تکلیف ہے۔
رمضان المبارک کے روزوں میں پانی اور غذا پر کنٹرول کے نتیجے میں جہاں انسانی جسم کے دیگر حصوں پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں وہیں گردوں پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ انسانی جسم یومیہ دو سے تین لیٹر پانی استعمال کرتا ہے، تقریباً ایک سے ڈیڑھ لیٹر پانی پیشاب کی صورت میں خارج ہو جاتا ہے جس میں جسم میں پیدا ہونے والے زہریلے مادے اور کیمیکلز ہوتے ہیں۔
روزے رکھنے کے نتیجے میں انسان کے میٹابولزم میں تبدیلی آتی ہے جس سے گردوں کا فعل بہتر ہو جاتا ہے۔ گردے کی بیماریاں عموماً پانی کے کم استعمال سے ہوتی ہیں۔ رمضان میں لوگ روزوں کی بنا پر بظاہر پانی کم پیتے ہیں، لیکن میڈیکل سائنس کی ریسرچ بتاتی ہے کہ رمضان میں لوگوں کا پانی کا استعمال بڑھ جاتا ہے، عام دن میں ایک یا ڈیڑھ لیٹر پانی پینے والا آدمی رمضان میں دو سے تین لیٹر پانی پیتا ہے۔
میڈیکل سائنس میں بڑے پیمانے پر اس سوال پر ریسرچ ہوئی ہے کہ جن لوگوں کو گردے کی بیماریاں ہیں کیا وہ روزہ رکھ سکتے ہیں اور روزہ رکھنے کے نتیجے میں ان کے گردوں کا فعل خراب ہو جاتا ہے یا بہتر۔ اس حوالے سے سعودی عرب میں کافی تحقیق ہوئی اور تحقیق کے نتائج شائع بھی کیے گئے۔ گردوں کی بیماری میں مبتلا مریضوں میں گردوں کا فعل روزے سے پہلے اور روزے کے بعد چیک کیا گیا جس سے پتا چلا کہ روزہ رکھنے کے نتیجے میں ان کے گردوں کا فعل بہتر ہو گیا۔ ’کرونک کڈنی ڈزیز، میں مبتلا یا ’رینل فنکشن، نارمل سے کم رکھنے والے مریضوں کو روزہ رکھنے سے نقصان نہیں بلکہ فائدہ ہوتا ہے اور اس کی بڑی وجہ پانی کے استعمال کی مقدار میں اضافہ ہے۔
مریضوں کے دوسرے گروپ میں ’کرونک کڈنی ڈزیز، کے مریض وہ ہوتے ہیں جو ڈائی لیسس (Dialysis) پر ہوتے ہیں ان کو ہفتے میں دو یا تین بار ڈائی لیسس کی ضرورت پڑتی ہے۔ بہت سے ڈاکٹروں کے مشاہدات سے پتا چلا ہے کہ یہ مریض بھی کامیابی کے ساتھ روزے رکھ سکتے ہیں۔ بالعموم ڈائی لیسس کے مریض کو پانی کے استعمال سے گریز کرایا جاتا ہے یا انھیں پانی کی کم مقدار استعمال کرنی ہوتی ہے وہ پانی کی اس کمی سے روزے میں زیادہ آسانی کے ساتھ گزارا کرسکتے ہیں۔ اگر ڈائی لیسس کے مر یض یہ سمجھتے ہیں کہ وہ روزہ رکھ سکتے ہیں اور ڈاکٹروں کی بھی یہی رائے ہو تب بھی مریض کو پہلے اپنے گردوں کا فعل چیک کرانا چاہیے اور تفصیلی ہدایات ڈاکٹر سے لینی چاہئیں کہ ان کو پانی کتنا استعمال کرنا ہے اور غذا کون سی لینی ہے۔
ایک اور بڑا گروپ ان افراد کا ہے جن کے گردے میں پتھری ہے، ان مریضوں کو پانی زیادہ مقدار میں چاہیے ہوتا ہے، بالعموم ان کو تین یا چار لیٹر پانی کی ضرورت ہوتی ہے، پانی کی کمی سے ان کو گردے کی تکلیف بڑھ سکتی ہے۔ پتھری کی وجہ سے تکلیف ہو اور مریض کو زیادہ پانی کی ضرورت ہو تو پھر ان مریضوں کو بعض اوقات دن میں چار پانچ مرتبہ ڈرپ کے ذریعے بھی پانی دینا پڑتا ہے۔ گردے میں پتھری کے مریض کی پتھری اگر مستحکم (stable) ہے تو وہ ڈاکٹر کے مشورے سے روزے رکھ سکتا ہے، لیکن تکلیف میں مبتلا ہو یا روزے سے تکلیف شروع ہو گئی ہو یا پیشاب کی نالی (ureter) کے اندر پتھری ہو تو ایسے مریض کو روزے نہیں رکھنا چاہیے، ان کو رخصت ہے۔
گردے کے مریضوں کا ایک چھوٹا گروپ وہ ہے جس کو گردوں کی پیوند کاری (ٹرانسپلانٹ) کی گئی ہے، ان کا رینل فنکشن بالعموم نارمل ہوتا ہے، یہ ایسی دوائیں لے رہے ہوتے ہیں جو ان کے ٹرانسپلانٹ کو محفوظ رکھتے ہیں۔ ان کے بارے میں تحقیق سائنسی جریدہ ’نیچر، میں شائع ہوئی ہے کہ ریسرچ سے ثابت ہوا ہے کہ پیوند کاری کے مریض بھی اپنے گردے کے افعال کو متاثر کیے بغیر روزے رکھ سکتے ہیں، ان کو دواؤں کے بارے میں ہدایات کی ضروت پڑتی ہے کہ دوائیں کس طرح لینی ہیں، کون سی احتیاط کرنی ہے۔ تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ ایسے مریض بھی عام لوگوں کی طرح روزہ رکھ سکتے ہیں۔ گردے کی بیماریوں کے حوالے سے ڈاکٹر کی ہدایات کی بڑی اہمیت ہے۔ اس حوالے سے سب سے اہم گروپ وہ ہے جس کو شوگر کی بیماری بھی ہے۔ شوگر دُنیا میں گردے کی بیماری کی ایک بڑی وجہ ہے۔ شوگر کے کسی مریض کے گردے کا فعل نارمل ہو تب بھی اس کو اپنے ڈاکٹر سے معلومات لینی چاہیے تاکہ روزے کے نتیجے میں گردے کے فعل پر اثر نہ پڑے، لیکن جن لوگوں کے گردے بالکل نارمل ہیں یا گردے کی کوئی معمولی بیماری ہے، ان کو چار پانچ چیزوں کا خیال رکھنا چاہیے۔
پہلی چیز یہ کہ رمضان سے ایک مہینے قبل گردے کا فعل چیک کرائیں، رینل فنکشن اور پیشاب کا ٹیسٹ ہوتا ہے، اس سے پتا چلتا ہے کہ پیشاب میں پروٹین کی مقدار کتنی ہے اور گردے کس طرح کام کر رہے ہیں۔ اس ٹیسٹ سے یہ معلوم ہو جائے گا کہ مریض کی base line کیا ہے۔ دوسری بات، ڈاکٹر سے ضرور معلوم کریں کہ رمضان میں ان کو پانی کی کتنی مقدار کی ضرورت ہے۔ تیسر ی بات غذاؤں کے استعمال سے متعلق ہے کیونکہ لوگ گردے کے مریضوں کو ہائی پروٹین غذا سے منع کیا جاتا ہے۔ ان کی غذا میں پروٹین کی مقدار کم رکھی جاتی ہے، لہٰذا غذا میں پروٹین کی مقدار پوچھ لینی چاہیے۔ چوتھی بات، گردے کی بیماری میں جو دوائیں استعمال کی جا رہی ہیں، ان کی مقدار (Doses) کس طرح ایڈجسٹ کی جائے، سحری میں کون سی اور افطار میں کون سی دوا لینی ہے، بالخصوص پیشاب آور دواؤں کے بارے میں مریض کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کب لینی ہیں اور کتنی مقدار میں، اور اس کے فنکشن کو کس طرح ناپنا ہے۔
ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ رمضان میں اپنے گردے کے فعل پر نظر رکھنی چاہیے۔ خون ٹیسٹ کی صورت میں Base line موجود ہے، دسویں یا پندرھویں روزے کے بعد دوبارہ رینل فنکشن چیک کرا کے ڈاکٹر کو دکھاناچاہیے تاکہ معلوم ہو سکے کہ روزہ رکھنے سے گردے پر منفی اثرات تو مرتب نہیں ہو رہے۔ گردے کے مریض ان نکات کا خیال رکھیں تو اُمید ہے کہ وہ آسانی کے ساتھ روزے رکھ سکیں گے اور اﷲ تعالی ان کی صحت میں بھی بہتری عطا فرمائے گا۔

حصہ
mm
پروفیسر ڈاکٹر محمد واسع شاکر ملک کے معروف نیورولوجسٹ ہیں جو آغا خان ہسپتال میں اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔صحت کے حوالے ملکی و بین الاقوامی جرائد میں ان کے تحقیقی مقالے شایع ہوتے رہتے ہیں

جواب چھوڑ دیں