روزہ اور معاشرتی صحت

روزہ بظاہر ایک انفرادی عبادت ہے ، ہر فرد صبح سویرے اٹھتا ہے ، سحری کرتا ہے، پورا دن بھوکا پیاسا رہتا ہے اور شام میں افطار کرتا ہے اور اس کے روزے کا اس کو اور اس کے رب کو پتا ہوتا ہے، کسی تیسرے فرد کو پتا نہیں ہوتا ، ان معنوں میں روزہ ایک انفرادی عبادت ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ روزہ ایک اجتماعی عبادت بھی ہے معاشرتی عبادت بھی ہے ، اس لیے کہ پورا معاشرہ ایک ساتھ ایک وقت میں روزہ رکھنا شروع کرتا ہے ، چاند دیکھا جاتا ہے اور اس کے بعد پورے معاشرے کے اندر ایک نمایاں تبدیلی ہمیں نظر آتی ہے۔لوگ پہلی رمضان سے تراویح کے لیے جانا شروع کردیتے ہیں ، مسجدیں بھر جاتی ہیں ، پورے پورے مسلم معاشروں میں ایک وقت پر سحری ہوتی ہے ، ایک وقت پر لوگ کھانا روک دیتے ہیں ، پورے دن بھوکا پیاسا رہتے ہیں اس کے بعد ایک ہی وقت پر کھانا پینا شروع کردیتے ہیں اور پھر تراویح ہوتی ہے پورے معاشرے میں لاکھوں اور کروڑوں لوگ جب ایک کام کررہے ہوتے ہیں تو اس سے اجتماعی عبادت کی فضا بنتی ہے ۔ روزے ایک معاشرتی عبادت بن جاتے ہیں۔ روزے میں سب سے نمایاں جو تبدیلی معاشرے میں نظر آتی ہے اس کو کافی لوگوں نے اسٹڈی کیا ہے کہ کس کس طریقے سے معاشرے کے اندر تبدیلیاں آتی ہیں،بالخصوص ان معاشروں میں جہاں لوگ بڑی تعداد میں روزے رکھتے ہیں ان معاشروں میں بہت ہی نمایاں اور واضح تبدیلیاں ہمیں نظر آتی ہیں۔
تحقیق نے یہ بات ثابت کی ہے کہ روزے رکھنے کی وجہ سے معاشرے میں ڈسپلن پیدا ہوجاتا ہے اور پورے کا پورا معاشرہ ایک خاص نظم وضبط کا پابند ہوجاتا ہے ، سارے لوگ ایک وقت میں تراویح پڑھتے ہیں ، ایک وقت میں کھانا شروع کرتے ہیں ایک وقت میں ہی کھانا روک دیتے ہیں، یہ ڈسپلن جس معاشرے میں ہوتا ہے یہ اتنا موثر ہوتا ہے کہ دیکھنے والا اس کو دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے کچھ عرصہ پہلے رمضان کے مہینے میں آسٹریلیا سے ہمارے ایک دوست ڈاکٹر آئے جو بہت بڑے پروفیسر اور ریسرچر ہیں رمضان میں ہم انھیں ایک ریسٹورنٹ میں کھانے کے لیے لے کر گئے جب کھانے کے لیے سب لوگ بیٹھے تو وہ افطار کا وقت تھا، انھوں نے کہاکہ کھانا شروع کریں تو میں نے ان سے کہا کہ یہ ایک خاص وقت ہے جس پر سب لوگ کھانا شروع کریں گے اور پھر وہ وقت آیا اذان ہوئی ، سارے لوگوں نے ایک ساتھ کھانا شروع کیا یہ دیکھ کر وہ بہت حیران ہوئے اور اس کے بعد انھوں نے پاکستان، ہندوستان کے علاوہ مختلف جگہوں پر لیکچرز دئیے تو ہرجگہ یہ بات کہی کہ میں نے اپنی زندگی میں انسانوں میں اتنا بڑا ڈسپلن کبھی نہیں دیکھا۔ انھوں نے کہا کہ عورتیں بھی تھیں، بچے اور بوڑھے، بزرگ اورجوان بھی کھانا سامنے رکھا ہوا تھا لوگ پورے دن کے بھوکے پیاسے تھے مگر سب نے ایک خاص وقت پر ہی کھانا پینا شروع کیا، وہ اس ڈسپلن کو دیکھ کر اتنا متاثر ہوے کہ انھوں نے جگہ جگہ اس کا تذکرہ کیا۔ یہ اللہ کا فضل ہے کہ اگر ۱۰ ہزار افراد بھی ایک جگہ ہوں تو کوئی ایک فرد بھی ایسا نہیں ہوگا جو اپنے وقت سے پہلے افطار کرلے، یہ ڈسپلن جو روزے کے نتیجے میں انسان کے اندر پیدا ہوتا ہے اس کے اثرات زندگی کے مختلف معاملات میں نظر آتے ہیں۔ رمضان کے مہینے میں ٹریفک کے حادثات کم ہوجاتے ہیں اسی طرح بحیثیت مجموعی لوگوں کا رویہ تبدیل ہوجاتا ہے غصہ کم ہوجاتا ہے غصے سے منسلک جو ایشوز ہیں وہ کم ہوجاتے ہیں Stress Management بہتر ہوجاتی ہے اور اس کے نتیجے میں معاشرے پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں، رمضان کے مہینے میں لوگوں کے سماجی رابطے بڑھ جاتے ہیں، لوگ تراویح، اجتماعی نماز اور مسجدوں میں بڑے پیمانے پر ایک دوسرے سے تعارف حاصل کرتے ہیں اور جو لوگ معاشرے میں تنہائی کا شکار ہوتے ہیں وہ بھی ایک دوسرے سے مربوط ہوجاتے ہیں۔
رمضان کے مہینے میں صفائی ستھرائی بہتر ہوجاتی ہے ۔ لوگ جو سڑک پر چیزیں پھینک رہے ہوتے ہیں عام طورپر ان کے اندر بہتری آجاتی ہے۔ رویہ تبدیل ہوجاتا ہے اور لوگ ایک دوسرے کا خیال کرنے لگتے ہیں۔ عام دنوں میں لوگ ایک دوسرے کا جو خیال کرتے ہیں رمضان میں اس سے کہیں زیادہ خیال کرتے ہیں مثال کے طورپر دوسروں کی مدد کرنا اور یہ کسی بھی معاشرے میں مثبت چیز سمجھی جاتی ہے کہ اس معاشرے میں وہ لوگ جو زیادہ اچھی پوزیشن میں ہیں وہ ان لوگوں کی مدد کریں جو کم پوزیشن میں ہیں اوررمضان میں یہ کیفیت ہمیں اپنے عروج پر نظر آتی ہے اس طرح رمضان المبارک میں بیماریوں کی شرح میں بھی کمی واقع ہوجاتی ہے۔ جولوگ عام دنوں میں نشہ کرتے ہیں، جیسے جو لوگ سگریٹ پیتے ہیں ،پان ، تمباکو استعمال کرتے ہیں یا اورنشہ آور اشیاء کے استعمال کے عادی ہوتے ہیں ان کے نشے کے استعمال کے اندر کمی آجاتی ہے۔ میڈیکل ریسرچ سے یہ بات پتا چلی ہے کہ پوری کیمونٹی میںinfectionکی بیماریاں کم ہوجاتی ہیں دل کی بیماریاں کم ہوجاتی ہیں ، ہارٹ اٹیک سے ہسپتال میں جو داخلے ہوتے ہیں وہ کم ہوجاتے ہیں ، فالج کا حملہ کم ہوجاتا ہے۔ ماہرین نفسیات نے مطالعہ کیا ہے کہ رمضان کے مہینے میں مسلم معاشروں کے اندر جرائم کی شرح میں کمی آجاتی ہے پورے معاشرے میں جو مثبت تبدیلی پیدا ہوتی ہے اس کے نتیجے میں جرائم کم ہوجاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ معاشروں کے اندر نفسیاتی بیماریاں بھی کم ہوجاتی ہیں، خودکشی نفسیاتی بیماری کی ایک ایسی قسم ہے جو پوری دنیا میں اسٹڈی کی جاتی ہے ۔ دُنیا کے بہت سارے معاشروں میں خودکشی کا رجحان کافی زیادہ ہے ۔ مسلم معاشروں میں خودکشی کا رجحان بحیثیت مجموعی انتہائی کم ہے، مغربی معاشروں کے مقابلے میں لیکن اس کو بھی لوگوں نے اسٹڈی کیا ہے کہ مسلم معاشرے میں رمضان کے مہینے میں خودکشی کی شرح مزید 30-40 فیصد کم ہوجاتی ہے۔ڈپریشن میں بھی کمی آجاتی ہے ایک اور بڑی تبدیلی جو ہمیں نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ معاشرے میں کاروباری اورمعاشی سرگرمیاں بڑھ جاتی ہیں۔
رمضان کے فوراً بعد عید کا تہوار آتا ہے ، اس موقع پر لوگ اپنے لیے بھی کپڑے بناتے ہیں اور اپنے بچوں کے لیے بھی ، تحفے تحائف کا تبادلہ بھی ہوتا ہے ۔ اس اعتبار سے پورے رمضان میں معاشی سرگرمیاں بڑھ جاتی ہیں اور ان کا بڑھنا کسی بھی معاشرے کے لیے انتہائی اہم ہوتا ہے ۔ رمضان کا مہینہ صرف انفرادی طورپر ہی کسی فرد کی صحت کو بہتر نہیں کرتا بلکہ معاشرے میں بھی مثبت رجحانات کو فروغ دیتا ہے۔ معاشرے کی صحت ، نفسیات معاشی و سماجی سرگرمیاں بہتر ہوتی ہیں اور جرائم کی شرح میں کمی ہوتی ہے۔

حصہ
mm
پروفیسر ڈاکٹر محمد واسع شاکر ملک کے معروف نیورولوجسٹ ہیں جو آغا خان ہسپتال میں اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔صحت کے حوالے ملکی و بین الاقوامی جرائد میں ان کے تحقیقی مقالے شایع ہوتے رہتے ہیں

جواب چھوڑ دیں