ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

رمضان کا ماہ مبارک ایک امت کا تصور لئے آتا ہے اور یہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ اپنے ہر معاملے پر ایک ہوجاؤ مگر سب اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجدیں بنائے بیٹھے ہیں اور ایک دوسرے کے حالات پر سوائے افسوس کے اور کچھ نہیں کر رہے ۔ ہر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ یہ جس کے ساتھ ہو رہا ہے یہ اسی کے ساتھ ہونا تھا اور ہوگیا۔ گردن جھکائے دائیں بائیں ہلاتے آگے بڑھتے ہوئے ہم لوگوں کے دل میں کہیں تو یہ بات کچوکے لگاتی ہے کہ ایک دن کہیں ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی نا ہوجائے۔ ملک کاسیاسی ماحول تو کبھی بھی اچھا نہیں رہا یہی وجہ تھی کہ اکثراوقات فوج کو سیاسی ذمہ داریا ں بھی نبھانی پڑیں اور لمبے لمبے عرصے تک نبھائیں۔ پاکستان میں سیاسی حکومتوں سے زیادہ وردی والوں کا دور دورہ رہا ہے ، جن کے بارے میں یہی مشہور ہے کہ انہیں صرف حکم دینا آتا ہے یا پھر لینا آتا ہے۔
رحمتوں اور برکتوں کا ماہ مبارک ہے ، امت اس ماہ مبارک میں اپنے رب کی خوشنودی حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے۔ موسموں کی شدتیں بھی مسلمانوں کو اپنے رب کے حکم کی تعمیل کرنے سے نہیں روک سکتی تو یہ زمینی عزائم یہ دشمنوں کے کاری وار کیا ہمارے حوصلے پست کرینگے۔ آج کل ہمارے شہرِ کراچی کا موسم انتہائی شدید ہوچکا ہے روزہ داروں کی دعائیں بھی اس موسم کی شدت میں کمی لانے میں ناکام کیوں ہورہی ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ یہاں کے معصوم بچوں پر بھی قدرت اس قدر بے رحمانہ رویہ اختیار کئے ہوئے ہے ۔ یہ رویہ صرف کراچی کیلئے نہیں ہے ۔ یہ اس بے رخی اور بے ثباتی کا نتیجہ ہے کہ جو ہم اپنے مظلوم فلسطینیوں ، شامیوں ، کشمیریوں اور افغانیوں کے ساتھ برت رہے ہیں۔ آج اپنے مسلمان ممالک کیساتھ ہونے والے ظلم اور ستم کیخلاف آواز اٹھاتے ہوئے بھی ہماری زبان ساتھ نہیں دیتی۔ بظاہر نا صحیح مگر یہ بات بہت اچھی طرح سمجھ آرہی ہے کہ آج ہمارے ساتھ جس طرح سے جو کچھ ہورہا ہے درحقیقت ہماری نسل کشی کی جارہی ہے ۔ اس میں اہم بات یہ ہے کہ مرنے والے بھی ہم ہیں اور مارنے والے بھی ہم ہی ہیں۔ انسان کا ایک بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اگر آپ کے ساتھ نہیں ہورہا تو سکون سے رہیں اور اپنا اچھا وقت گزاریں۔ جب آپ کے ساتھ ہوگا تو آپ بھی ادھر ادھر دیکھتے تو دیکھائی دینگے لیکن کسی سے مدد مانگنے کے مستحق نہیں ہونگے کیوں کہ آپ کو یہ بات یاد رکھنی ہوگی کہ آپ نے کسی کے برے وقت میں اس سے کس طرح سے آنکھیں چرائیں۔
غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ جب سے اسرائیل میں امریکی سفارتخانے کے کھلنے کا عمل شروع ہوا ہے ، اسرائیلی جارحیت بہت بڑھ گئی ہے ۔ لگتا کچھ یوں ہے کہ یہ اس عمل سے دنیا کی توجہ ہٹانے کیلئے مظلوم اور نہتے فلسطینیوں کا خونِ ناحق بہایا جا رہا ہے ۔ کتنی عجیب سی بات ہے کہ امریکی حکومت میں اسرائیل کا بہت زیادہ عمل دخل بتایا جاتا ہے اور اسرائیلی تو یہاں تک کہتے سنے گئے ہیں کہ وہ امریکا کہ روحانی سرپرست ہیں، جبکہ پاکستان میں سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کا سہرا امریکیوں کے سر پر سجایا جاتا ہے اور یہ بات زبان زدِ عام ہے کہ پاکستان میں تو وہی ہوتا ہے جو امریکہ چاہتا ہے ۔ ان باتوں کی سچائی میڈیا پر عام ہے ۔
ایک بات بار بار لکھتے ہوئے بھی شرمندگی محسوس ہوتی ہے کہ کیا الفاظ اور وقت ضائع کر رہے ہیں مگر کیا کریں کہ اپنی ذمہ داری کا احساس چین سے بیٹھنے ہی نہیں دیتا۔یوں تو فلسطین ، کشمیر اور شام میں ہونے والے مظالم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں لیکن امریکہ میں ہونے والے ایک بہت ہی معمولی نوعیت کے واقعہ پر ساری دنیا چیخ و پکار میں مصروف ہوجاتی ہے اور اس وقت تک اس شور میں کمی نہیں آتی جب تک کہ امریکی خود یہ نا کہہ دیں کے آپ کا بہت شکریہ۔ ابھی تازہ ترین ریاست ٹیکساس میں ہونے والے واقعہ کو لیجئے بد قسمتی سے مادر وطن کی ایک بیٹی بھی اس سانحہ کا حصہ بن گئی ۔ اصولی طور پر تو پاکستان کو چاہئے تھا کہ ایک مذمتی بیانیہ جاری کرتا اور اس بات کا احتجاج ریکارڈ کرواتے کہ آپ اپنے شہریوں کو اور خصوصی طور پر اپنے مہمانوں کی حفاظت نہیں کرسکتے پھر کس لیئے ساری دنیا کی حفاظت کا ڈھونگ رچائے پھرتے ہو۔ پاکستان تو کیا دنیا کے کسی ملک میں اتنی جرات نہیں ہے۔ سعودی عرب جیسے مقدس اور مسلمانوں کے مرکز کو تو جدید دور میں دھکیل دیا گیا ہے اب وہاں وہ کچھ ہونے جا رہا ہے جن کی عدم دستیابی کی وجہ سے سعودی عرب اپنی کلیدی حیثیت رکھے ہوئے تھا۔
ہم پاکستانی تو ایک ڈاکٹر عافیہ صدیقی کیلئے کھل کر بات نہیں کر سکے اتنا عرصہ گزرجانے کے باوجود اقوام متحدہ میں ایک قرار دار جمع نہیں کروا سکے ۔ ہاں بس اتنا ضرور ہے کہ ہر روز آزمائشوں کی دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں اور ہمارا دائمی دشمن ہمارے اوپر بوجھ بڑھانے کی کوششوں میں سرگرم ہے اور ہمارے اپنے ہی یہ بوجھ لادے جا رہے ہیں۔ میری اس تحریر سے نا تو اسرائیل میں کھولا جانے والا امریکی سفارتخانہ بند ہوجائے گا اور نہ ہی فلسطینیوں کی شہادتوں کا سلسلہ رک جائے گا، لیکن اتنا ضرور ہوگا کہ دنیا کے سامنے ایک عام آدمی کی خاص بات منظر عام پر آجائے گی اور وہ یہی ہے کہ ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔
محکمہ موسمیات سے تعلق رکھنے والے بد ترین موسم کی مختلف توجیحات پیش کررہے ہیں جن میں سب سے اہم یہ کہ سمندر کی ہوائیں چلنا بند ہوگئی ہیں جس کے باعث موسم شدت اختیار کرتا جا رہا ہے ، لیکن ہمیں جو بات سمجھ آرہی ہے وہ یہ کہ ہمارے اعمال ایسے ہوگئے ہیں کہ قدرت کو روزہ داروں پر اور ان کی مانگی ہوئی دعاؤں پر بھی رحم نہیں آرہا ہے ۔ بہت خرابی ہوتی چلی جا رہی ہے جبکہ ابھی محبت کہ امتحان اور بھی ہیں۔
وقت ہم سے جو تقاضا کررہا ہے ہم اس سے مسلسل آنکھیں چرائے جا رہے ہیں اور بہت تیزی سے اپنی بربادی کی جانب بڑھتے ہی جا رہے ہیں ۔

حصہ
mm
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔

جواب چھوڑ دیں