اے کاش ایسا ہوجائے

کوئی ایک، دو یا پھر زیادہ سے زیادہ دس،یا پھر سو، نہیں سو بھی نہیں، بلکہ تین سو! جی ہاں آپ نے صحیح پڑھا تین سو ڈرونز نے ماہ مبارک کی آمد پر وہ کام کیا جو کہ کم از کم میرے تو وہم و گمان میں بھی نہ تھا!۔
اونچی بلڈنگوں سے نظارہ کرتے لوگ ،گیلریوں میں کھڑے افراد ، سڑکوں پر موجود ہجوم ، یہاں تک کہ گھروں پر بھی ٹی وی اسی کے مناظر مختلف زاویوں سے دیکھا رہا تھا. ہاتھوں میں موجود سیل فونز یہ سب ریکارڈ بھی کر رہے تھے اور ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر اپ لوڈ بھی ہورہا تھا. آہ کس قدر مسحور کن منظر تھا وہ! فضاء میں” رمضان المبارک” لکھنے کا منظر، اور یہ سب کام ڈرونز نے کیا تھا.
ڈرونز اپنا کام بہت خوبی سے انجام دیتے ہیں، مختلف اقسام کے ڈرونز مختلف کام کرتے ہیں، ان کو تصاویر، ویڈیو، فرسٹ ایڈ اور دیگر امدادی سامان پہچانے کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے. یعنی جس کے ہاتھ میں ہے،اب وہ جو بھی کام لے، والی بات ہے۔
مسلمانوں کے لئے خاص کر مقبوضہ علاقوں کے مظلوم مسلمانوں کے لئے ڈرونز خوف دہشت کی علامت ہیں، کہ کہیں سے آئیں،بم گرائیں، کیمیکل انڈیلیں، ماریں، جلائیں، تباہی مچائیں اور چلے جائیں! لمحوں میں منظر بدلنے کی طاقت رکھتے ہیں، کہ جہاں پہلے زندگی تھی وہاں خون ہوتا ہے، لاشوں کے انبار، سسکیاں ہوتی ہیں. چن چن کر مار دینے میں کمال حاصل ہے ان کو، اپنے ٹارگٹ کو بچنے کا موقع تک نہیں دیتے۔
صد شکر سعودی حکومت نے ان سے مثبت کام لیا، ایک سعادت حاصل ہوئی ڈرونز کو، دراصل انہوں نے مسلم امہ کے دلوں سے اس کا خوف نکالنا چاہا، عوام کے دلوں میں اس کے حوالے سے نرم گوشہ پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور اس سب کے لیے ماہ رحمۃ کے استقبال سے بڑا بھی کوئی کام ہو سکتا تھا؟ یہ ایک خوش آئند عمل ہے جس کی تحسین نہ کی جائے تو نا مناسب بات ہوگی۔
مگر لمحے میں ایک اس بات کا بھی خیال آیا کہ کیا ایسا ہوسکتا تھا؟ کہ جب برما کے مسلمانوں کے گھروں کو ظالم آگ لگا رہے تھے، وہاں یہ ڈرونز آگ بجھانے کا کام کرتے!
جہاں سیریا میں جب یہ بم برسا رہے تھے تو کچھ اور ڈرونز میڈیکل ایڈ ہی فراہم کردیتے، فلسطین میں جب اسرائیلی فوج نہتے عوام کو چھلنی کررہے تھے تو یہ ڈرونز آگے بڑھتے، کچھ تو کرتے! کشمیریوں کو ربڑ کی گولیوں کا نشانہ بننے سے بچاتے! افریقا کے مسلمانوں کو ان کے اپنوں کے ستم سے روکتے، پاکستان میں، افغانستان میں مسلمان بچوں، حفاظ کو نشانہ بننے سے روکتے، اے کاش ایسا ہوتا! اے کاش ایسا ہوسکتا! اے کاش ایسا ہو جائے!

حصہ
mm
مریم وزیرنے جامعہ کراچی سے شعبہ ابلاغ عامہ میں ماسٹرز کیا ہے اور تیسری پوزیشن حاصل کی ہے،جب کہ جامعہ المحصنات سے خاصہ کیا ہے/ پڑھا ہے. گزشتہ کئی سال سے شعبہ تدریس سے وابستہ ہیں۔تحریر کے ذریعے معاشرے میں مثبت کردار ادا کرنے کی خواہاں ہیں۔مختلف بلاگز میں بطور بلاگرز فرائض انجام دے رہی ہیں۔

2 تبصرے

جواب چھوڑ دیں