مہنگے اسکول ۔۔۔تعلیمی معیار ،قابلیت اور کامیابی کے ضامن نہیں

گزشتہ دنوں انٹر میڈیٹ ،ایس ایس سی اور سیول سرویسز کے امتحانات کے نتائج کا اعلان ہوا۔ان نتائج کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ اہم پوزیشن حاصل کرنے والوں میں متوسط اور غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ کی ایک کثیر تعداد موجود تھی۔نیوز چینلز اور اخبارات نے غریب اور محنت کش گھرانوں کے بچوں کی امتیازی کامیابی کو بریکنگ نیوز کے طور پر پیش کیا۔ ٹی وی چیانلس اور اخبارت کی بریکنگ نیوز سے ایسا تاثر پیدا ہوتا ہے کہ غریب گھرانے کے طلبہ کا امتیازی کامیابی حاصل کرنا گویا ایک انوکھی بات ہے اور امیر اور دولت مند طلبہ کے لئیجیسے یہ روز مرہ کا کوئی معمول ہو۔ شایداسی وجہ سے غریب گھرانوں کے طلبہ کی کامیابیوں کو یہ لوگ بریکنگ نیوز کے طور پر پیش کرتے ہیں۔محنت کش اور غریب طلبہ کا امتحانات میں نمایاں اور اونچا مقام حاصل کرنا کوئی انوکھی بات نہیں ہے اور نہ ان کے امتحانات میں پوزیشن حاصل کرنے میں ان کی غربت اور مفلسی کا کوئی رول ہے۔ ان کی کامیابی درحقیقت ان کی محنت اور جفاکشی کا نتیجہ ہے۔سرکاری اسکولس میں تعلیم حاصل کرنے والے یہ طلبہ جب اونچی پوزیشن حاصل کرسکتے ہیں تو پھر کیوں والدین اپنی کم آمدنی کے باوجود بچوں کو غیر ضروری مہنگے خانگی اسکولوں میں پڑھا کر اپنے روپے، وقت اور بچوں کا مستقبل تباہ کر رہے ہیں؟۔سرکاری ،امدادی اور کم فیس والے خانگی اسکولوں اور کالجوں کی تعلیم اگر اتنی ہی بے اثر اور غیر فائدہ مند واقع ہوئی ہوتی تو پھر کیسے یہاں سے پڑھے ہوئے لوگ نوکریاں اورکاروبار کرتے ہوئے بہت سارا پیسہ کما نے کے قابل بنے ہیں اور اعلیٰ سرکاری و غیر سرکاری عہدوں پرخدمات انجام دے رہے ہیں۔ ملک کے مختلف معیار ی اور باوقار ادارہ جات میں درس و تدریس اور ایجاد و تحقیق کے فرائض بھی یہ لوگ انجام دے رہے ہیں۔میری اور مجھ سے بڑی عمر کے اکثربیوروکریٹس ،نامور قانون دان،کاروباری شخصیات ،ڈاکٹر ،انجینیئرس،سکریٹریز وغیرہ جو تقریباً سرکاری و نیم سرکاری (امدادی) اسکولو ں کے تعلیم یافتہ ہیں اور جن میں اکثر یت کا تعلق دیہات اور مضافاتی علاقوں سے ہیں پھر کیسے یہ ملک کے کاروبار کو کامیابی سے چلانے کے قابل بنے ہیں۔ کیااس دور میں ان نام نہاد کارپوریٹ مہنگے تعلیمی ادار وں کا کوئی وجود تھا؟بالکل نہیں۔ ماضی قریب تک پرائیویٹ اسکولوں کا کوئی وجود نہیں تھا اور اگر تھا بھی تو یہ ہر کس و ناکس کی دسترس سے بالکل باہرتھے اور یہ تعلیمی ادارہ جات بھی نفع کے بجائے خدمت کے جذبے سے قائم کیئے گئے تھے۔زیادہ تر آبادی دیہاتوں یا مضافاتی علاقوں میںآباد تھی اور والدین اپنے بچوں کو گھر کے قریب پائے جانے والے سرکاری یا نیم سرکاری اسکول میں شریک کرواتے تھے۔کئی نسلیں جب ان اسکولوں سے پڑھ کر آج اس مقام تک پہنچی ہے تو کیا آج یہ کام ممکن نہیں ہے۔ پھرکیوں والدین تعلیمی اشتہار بازی کا شکار ہورہے ہیں۔
فی زمانہ دیگر شعبوں میں جس طرح گراوٹ درج ہوئی ہے تعلیم کا شعبہ بھی اس سے نہیں بچ سکا۔ آج تعلیم کی ترویج، ترقی اور معیار کے نام پر لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے۔سرمایہ داروں کی چالاکی اور عیاری نیشعبہ تعلیم کو ایک منافع بخش تجارت اور انڈسٹری کی شکلدے دی ہے۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے قیام سے تعلیم جہاں ایک منافع بخش تجارت بن گئی ہے وہیں تعلیمی ادارے شیئر بازار ، متعلم پروڈکٹ اور اولیائے طلبہ کی حیثیت شیئر ہولڈرس کیہوگئی ہے۔تعلیم جو قوموں کی ترقی کا سب سے موثر ہتھیار تھا آج وہ تعلیمی مافیا کے قبضے میں ہے۔تعلیمی اداروں کے انتظامیہ میں مشنری جذبے کی کمی کے باعث علم حاصل کرنے والوں اور علم باٹنے والوں کے درمیان محبت و اخلاص کا فقدان پایا جاتا ہے۔ ظالم سرمایہ دارانہ نظام نے ملک کے ہر شعبے کو بالخصوص تعلیمی شعبے کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ تعلیم کا شعبہ سرمایہ دارانہ نظام کی نفع خورفکر اور فری مارکیٹ کی بھینٹ چڑھ چکا ہے۔ مسلمانوں کے لئے تعلیم ایک مقدس فریضہ ہے ۔مسلمانوں کے دین کی اساس ہی ’’اقراء‘‘ پر قائم ہے۔انھیں کے پاس تعلیم جیسی گراں مایہ متاع عزیز کا تجارت و کاروبار کی شکل اختیار کرجانا نہایت افسوس کا مقام ہے۔تعلیم و تربیت کے مقدس ادارے جن کو نبی اکرم ﷺ کے قائم کردہ ادارے مدرسہ صفّہ سے تشبیہ دی جاتی ہے محض مادہ پرستی اور پیسہ کما نے کی دکانیں بن کر رہ گئے ہیں۔
پرائیوٹ تعلیمی اداروں کے بغیر خسارے والے کاروبارکا آغاز دراصل ملک کے بیشتر سرکاری اسکولوں، کالجوں حتی کہ یونیورسٹیز کی خستہ حالی کی وجہ سے ہواہے۔ کارپوریٹ تعلیمی اداروں کی سفاکیت سے والدین بخوبی واقف ہیں۔ پھر بھی اپنی اولاد کے روشن مستقبل کی تمنا میں سماج کا ایک بڑا طبقہ جن میں متوسط طبقہ( جن کا کوئی مستقل ذریعہ معاش بھی نہیں ہوتا اور جو تنگ دستی کا بھی شکار رہتے ہیں) اس کے علاوہ یومیہ مزدوری پر گزر بسر کرنے والے اور خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے لوگ بھی سرکاری اسکولوں اور کم فیس کے اسکولوں میں بچوں کو داخل نہ کروا کر نام نہاد مہنگے کارپوریٹ تعلیمی ادروں میں اپنے نونہالوں کو شریک کرتے ہوئے خود کو اور بچوں کو بڑی مشقت ا ور دشواریوں میں ڈال رہے ہیں۔والدین کو اپنی آمدنی اور معاشی حالات کے مطابق بچوں کے اسکول ا ور کالج کاانتخاب کرنا چاہئے ۔تعلیم کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں ۔ملک بھر میں ہرسال غریب ،محنت کش اور نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے طلبہ کی ایک بڑی تعداد کے تعلیمی و تخلیقی میدانوں میں زبردست کامیابی حاصل کرنے سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ کوئی بھی اسکول چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتابلکہ انسان کی فکر اور اس کی محنت و جستجو اسے اونچا مقام فراہم کرتی ہے۔والدین اسکولس اور ان کی فیس کو اپنے اسٹیٹس،رتبے اور وقار کا مسئلہ بنانے کے بجائے بچوں کی اخلاقی تربیت پر توجہ مرکوز کریں تو تعلیم ہی نہیں بلکہ زندگی کے ہرمیدان میں کامیابی ان کے قدم چومے گی۔والدین سرکاری یاکسی چھوٹے اور کم فیس کے اسکول میں اپنے بچوں کو پڑھانے میں اور طلبہ پڑھنے میں عار محسوس نہ کریں۔ اپنے رشتے داروں کے بچوں کومہنگے اور کارپوریٹ اسکول جاتے دیکھ کر احساس کمتری کا ہرگز شکار نہ ہوں اور اپنی آمدنی کے مطابق ہی اپنے بچوں کی تعلیم کا انتظام کریں۔ اپنے محلے کے سرکاری،امدادی (ایڈیڈ) اور کم بجٹ والے خانگی اسکولوں پر توجہمرکوز کرتے ہوئے انھیں بہتر بنا نے کی کوشش کریں۔جس معاشرے میں انصاف،تعلیم اور صحت کی سہولتیں مہنگی ہوں وہ ہر محاذ پر ناکام ہوجاتا ہے۔ اسی لئے حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ملک و معاشرے میں پھیلے اس استحصالی تعلیمی نظام اور اداروں پر فوری پابندی عائد کرئے ۔سرکاری اسکولوں کے نظام کو چاق و چوبند بنائے تاکہ متوسط ،غریب اور کمزور طبقے کے لئے بھی تعلیم کا حصول آسان اور ممکن ہوسکے۔پرائیوٹ تعلیمی ادارہ جات تعلیم کو تجارت بنانے کے بجائے تعلیم کو خدمت خلق اور اللہ کی خوشنودی کا ذریعہ سمجھیں تاکہ ملک و قوم ترقی کی راہ پر گامز ن ہوسکیں۔
ہمارا ہر خاندان اوسطاً تین یا چار بچوں پر مشتمل ہوتا ہے اور چند ایک گھرانوں میں بچوں کی تعداد اس بھی زیادہ ہوتی ہے۔ یہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ کس طرح اپنے تمام بچوں کے لئے تعلیم کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔انھیں اس بات پر بھی خاص طور پر غورکرنے کی ضرورت ہے کہ کیا وہ تمام بچوں کے تعلیمی اخراجات کی تکمیل کے متحمل بھی ہیں یا نہیں۔ اکثر والدین بغیر کسی منصوبہ بندی کے بچوں کو مہنگے اسکولوں میں داخل کر دیتے ہیں اور جب ان کے سبھی بچے اسکول پہنچ جاتے ہیں تب وہ تعلیمی اخراجات کی تکمیل سے خو د کو عاجز پاتے ہیں۔ والدین جو بھی کماتے ہیں وہ تمام بچوں کی تعلیم ،علاج ا، اشیاء خوردو نوش اور دیگرسامان پر صرف ہوجاتا ہے۔ قلیل آمدنی کا رونا یہیں شروع ہوتا ہے ۔اپنی آمدنی کے برخلاف کیئے گئے فیصلوں پر اب انھیں ندامت ہوتی ہے۔لیکن وقت گزارجانے کے باعث خود کو عاجز پاتے ہیں ۔نتیجتاً بھاری قرضوں کے بوجھ تلے خو د کو کچل دیتے ہیں یا پھر بچوں کا ترک تعلیم والا افسوس ناک پہلو سامنے آتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ہم اپنی آمدنی کا90%(نوے فیصد) حصہ صحت ،تعلیم اور خوراک جیسی بنیادی ضرورتوں پر خر چ دیتے ہیں۔کسی دوسرے کاموں کے لئے ہمارے پا س روپے ہوں یا نہ ہوں بچوں کی فیس اور ان کے دیگر اخراجات کے لئے بہر صورت ہمارے پاس پیسے ہوناضروری ہوتا ہے۔ والدین اپنی آمدنی اور اخراجات کو پیش نظر رکھ کر بچوں کا تعلیمی منصوبہ ترتیب دیں۔یہ بات یقیناًاہم ہے کہ کم کھائیں لیکن بچوں کی بہتر تعلیم کا انتظام کریں اس کا یہ مطلب نہیں کہ والدین خود کو ہلاکت میں ڈال لیں۔اپنی آمدنی اگر اجازت نہ دیتی ہوتو بچوں کو سرکاری ،امدادی یا پھر کم فیس والے خانگی اسکولوں کو بھیجنے میں ہرگز عار نہ محسوس کریں۔اب ماضی کی طرح تھوڑے بہت ذہین طلبہ کو حکومت اور فلاحی اداروں کی جانب سے اسکالرشپ (وظیفہ) دیئے جانے کا رواج نہیں رہا ۔یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ طلبہ جب پیشہ وارانہ ڈگریاں ایم بی بی ایس ،ایم۔اے،ایم بی اے،انجینئرنگ یا دیگر ماسٹرس کی ڈگریاں حاصل بھی کرلیں تب بھی ان کو کوئی روز گار کی طمانیت حاصل نہیں ہے۔والدین قرض لے کر بچوں کو تعلیم دلانے کے رویے کو ترک کردیں۔ والدین بچوں کی تعلیمی منصوبہ بندی کے دوران اپنی معاشی صورت حال کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں۔
کارپوریٹ تعلیمی انتظامیہ جہاں تعلیم برائے فروخت کے فلسفے پر عمل درآمد میں مصروف ہے وہیں والدین تعلیم کو ایک بکاؤ جنس سمجھ کر خریدنے میں جٹے ہیں جس کی وجہ سے تعلیم ایک جنس تجارت بن رہ گئی ہے۔والدین کے غیر دانش مندانہ رویوں کی وجہ سے کارپوریٹ تعلیمی ادارہ جات دولت بٹورنے کی دوڑ میں جٹے ہیں۔والدین ایک طویل مدت کے بعد اشتہاری تعلیمی نظام کے استحصال سے واقف ہورہے ہیںیعنی سب کچھ لوٹا کے ہوش میں آئے تو کیا ہوا۔والدین اپنا پیٹ کاٹ کر اپنی خواہشات کا گلہ دبا کر اپنے بچوں کو ان تعلیمی اداروں میں اس توقع سے شریک کرتے ہیں کہ ان کا مستقبل تابناک ا ور روشن ہوگا۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ سوائے کف افسوس ملنے کے کچھ حاصل نہیں ہوپاتا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ والدین کو اپنی غلطی کا احساس ہونے لگتا ہے کہ وہ کس طرح اس استحصالی ،تجارتی تعلیمی اشتہاربازی کا شکار ہوئے ہیں ۔والدین کے فیصلے نہ صرف بچوں کے اہم تعلیمی سالوں کی بربادی کا باعث ہوجاتے ہیں بلکہ تعلیم پر بے تحاشہ پیسہ خرچ کرنے کی وجہ سے اولیائے طلبہ بھی معاشی غیر آسودگی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ سانپ جس طرح اپنے بچوں کونگل جاتا ہے بالکل اسی طرح کارپوریٹ تعلیمی ادارے بھی روپے کمانے کی دوڑ میں محنت کش طبقے کی کمائی اور بچوں کا مستقبل نگل ر ہے ہیں۔ متمول اور دولت مند طبقوں نے اپنے لئے علیحدہ رہائشی علاقوں کی طرح علیحدہ تعلیمی ادارے بھی قائم کرلیئے ہیں۔یہ رجحان انصاف ا ور مساوات پر مبنی معاشرے کے لئے سم قاتل سے کم نہیں ہے جو چھوت چھات پر مبنی معاشرے کے فروغ کاباعث بنتا جارہا ہے۔والدین کارپوریٹ تعلیمی ادارہ جات کے دلفریب اشتہار بازی سے اس قدر مرعوب ہوجاتے ہیں اورتصور کرنے لگتے ہیں کہ تعلیمی ادارہ جتنا مہنگا ہوگا وہ اسی قدر معیار ی بھی ہوگا۔اس بات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ اکثر اوقات ’’اونچی دکان،پھیکا پکوان ‘‘والی صورت حا ل پائی جاتی ہے۔ تعلیم پرخرچ کردہ ہوشربا اخراجات نے والدین اور طلبہ کے ذہنوں کو آلودہ کرددیا ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں رشوت خوری اور دیگر مادی فوائد حاصل کرنے کی غیر قانونی اور ناجائزمسابقت چل پڑی ہے۔والدین یاد رکھیں کہ جب تک وہ تعلیم خریدنے کی کوشش کریں گے تب تک تعلیمی تجارت فروغ پاتی رہے گی۔آج مسلم معاشرے میں تعلیم کی جس قدر پامالی ہورہی ہے اس کی مثال کسی دور میں بھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ گلی کوچوں میں سبزی فروخت کرنے والے ان پڑھ حضرات بھی سو،دیڑھ سو گز پر مشتمل کرایے کے گھروں میں ڈربہ نما اسکول کھول رہیہیں وہیں چند سرمایہ دار افراد( غیر معروف ذرائع سے کمائی اپنی دولت کو سفید بنانے اورخود کو سفید پوش افراد میں شمار کروانے کے مقصد سے) نے اونچی اونچی عمارتوں میں لاکھوں کڑورں کی اشتہار بازی کے ذریعہ تعلیمی تجارت کے بازار کو گرما رکھا ہے۔ایسے تجارتی مراکز(تعلیمی ادارے) نہ صرف مسلم معاشرہ بلکہ اغیار میں بھی اپنی اشتہاری طاقت کی بناء پر خو ب پنپ رہے ہیں۔ اگر اعداد وشمار اکٹھا کیئے جائیں تو معلوم ہوگا کہ ان مالکان مدارس کا دور دور تک بھی تعلیم و تربیت سے کوئی واسطہ نہیں ہے اوربیشتر حضرات نوشت و خواند ،آداب گفتگو اور تمیز و تہذیب سے بھی بالکل ناآشنا ہیں اور بعض تو مجرمانہ ریکارڈ کے بھی حامل ہیں ۔ والدین نے گویا تعلیم و تربیت کی ذمہ داری ان لوگوں کے سپر د کردی ہے جو نہ پڑھائے جانے والے علوم پر گہری نگاہ رکھتے ہیں اور نہ تعلیم کے حقیقی مقاصد (روح تعلیم ) سے آشنا ہیں۔جسے خو د کی خبر نہیں وہ کیسے دوسروں کی رہبری کے فرائض انجام دے سکتا ہے بقول حضرت علامہ اقبال ؒ
قوم کیا چیزہے ،قوموں کی امامت کیا ہے
اس کو کیا سمجھیں یہ بیچارے دو رکعت کے امام
تعلیم و تربیت اور خدمت خلقکے جذبیسے عاری یہ اسکول نسلوں کی تباہی کا سبب بن رہے ہیں جہاں تعلیم ایک جنس تجارت بن کر سسک رہی ہے۔ سرکاری اسکولوں میں سہولتوں اور اساتذہ کی قلت و فقدان کے سبب محدود وسائل رکھنے والا شخص بھی سرکاری اسکولوں کا رخ کرنے میں بے عزتی محسوس کرنے لگا ہے ۔ حالانکہ سرکاری ا سکولوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ پائے جاتے ہیں لیکن افسوس چند غیر ذمہ دار اساتذہ کی وجہ سے یہ ادارے اخلاقی گراوٹ کا شکار ہوچکے ہیں۔ تعلیم کا ایک بزنس کی شکل میں فروغ پانا ہماری ناقص تعلیمی پالسیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔بڑی بڑی بلڈنگوں میں قائم شدہ یہ کارپوریٹ اسکولس اپنی دلفریب اشتہاری بازی کے دم پر خودرو پودوں کی طرح پھیل چکے ہیں ان پر قابو پانے کی سخت ضرورت ہے۔حکومت جب تک اپنی تعلیمی پالیسی پر نظر ثانی کرتے ہوئے ان تعلیمی تجارتی اداروں پر شکنجہ نہیں کسے گی یہ کاروبار روز افزوں ترقی کرتا جائے گا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ تعلیم تربیت کے جو ہر سے آزاد ہوجائے گی۔خداوندان مدارس ،سرمایہ دار حضرات، صاحب اقتدار اصحاب خدارا تعلیم کو تعلیم ہی رہنے دیں ۔بچے خواہ کسی بھی طبقے کے ہوں اور امیر ہوںیا غریب تعلیم کسی کی پہنچ سے باہر نہیں ہونی چاہئے۔ یکساں تعلیمی نظام آج وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔ یکساں نصاب، یکساں تعلیمی ادارے، یکساں مواقعوں کی فراہمی یہ سبحکومت کی ذمہ داری ہے۔ ہمارے ملک میں سیاست دان جو زیادہ تر سیاسی نعروں پر زندہ ر ہتے ہیں ضرورت ہے کہ وہ قوم کی تعلیمی حالت کو درست کرنے کے لیے ایک لانگ ٹرم منصوبہ تیار کریں۔ میڈیا اور اہل رائے افرادجو معاشرے میں اپنا اثر رکھتے ہیں وہ اپنا فرض ادا کریں اور تمام عوام کے لیے یکساں نظام تعلیم اور مساوی تعلیمی مواقعوں کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔ نظامِ تعلیم کو بچانے کے لیے ایک بھرپور تعلیمی تحریک کی ضرورت ہے۔ ایک ایسی قومی تحریک جس کا ایک مقصد اور ایک ہی نعرہ ہو یعنی’’ سب کے لیے تعلیم ایک جیسی تعلیم‘‘۔
قسمتِ لالہ و گل اب بھی سنور سکتی ہے
نیت اچھی ہو جو گلشن کے نگہبانوں کی

حصہ
mm
فاروق طاہر ہندوستان کےایک معروف ادیب ،مصنف ، ماہر تعلیم اور موٹیویشنل اسپیکرکی حیثیت سے اپنی ایک منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ایجوکیشن اینڈ ٹرینگ ،طلبہ کی رہبری، رہنمائی اور شخصیت سازی کے میدان میں موصوف کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔جامعہ عثمانیہ حیدرآباد کے فارغ ہیں۔ایم ایس سی،ایم فل،ایم ایڈ،ایم اے(انگلش)ایم اے ااردو ، نفسیاتی علوم میں متعدد کورسس اور ڈپلومہ کے علاوہ ایل ایل بی کی اعلی تعلیم جامعہ عثمانیہ سے حاصل کی ہے۔

جواب چھوڑ دیں