گزشتہ دنوں انٹر میڈیٹ ،ایس ایس سی اور سیول سرویسز کے امتحانات کے نتائج کا اعلان ہوا۔ان نتائج کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ اہم پوزیشن حاصل کرنے والوں میں متوسط اور غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ کی ایک کثیر تعداد موجود تھی۔نیوز چینلز اور اخبارات نے غریب اور محنت کش گھرانوں کے بچوں کی امتیازی کامیابی کو بریکنگ نیوز کے طور پر پیش کیا۔ ٹی وی چیانلس اور اخبارت کی بریکنگ نیوز سے ایسا تاثر پیدا ہوتا ہے کہ غریب گھرانے کے طلبہ کا امتیازی کامیابی حاصل کرنا گویا ایک انوکھی بات ہے اور امیر اور دولت مند طلبہ کے لئیجیسے یہ روز مرہ کا کوئی معمول ہو۔ شایداسی وجہ سے غریب گھرانوں کے طلبہ کی کامیابیوں کو یہ لوگ بریکنگ نیوز کے طور پر پیش کرتے ہیں۔محنت کش اور غریب طلبہ کا امتحانات میں نمایاں اور اونچا مقام حاصل کرنا کوئی انوکھی بات نہیں ہے اور نہ ان کے امتحانات میں پوزیشن حاصل کرنے میں ان کی غربت اور مفلسی کا کوئی رول ہے۔ ان کی کامیابی درحقیقت ان کی محنت اور جفاکشی کا نتیجہ ہے۔سرکاری اسکولس میں تعلیم حاصل کرنے والے یہ طلبہ جب اونچی پوزیشن حاصل کرسکتے ہیں تو پھر کیوں والدین اپنی کم آمدنی کے باوجود بچوں کو غیر ضروری مہنگے خانگی اسکولوں میں پڑھا کر اپنے روپے، وقت اور بچوں کا مستقبل تباہ کر رہے ہیں؟۔سرکاری ،امدادی اور کم فیس والے خانگی اسکولوں اور کالجوں کی تعلیم اگر اتنی ہی بے اثر اور غیر فائدہ مند واقع ہوئی ہوتی تو پھر کیسے یہاں سے پڑھے ہوئے لوگ نوکریاں اورکاروبار کرتے ہوئے بہت سارا پیسہ کما نے کے قابل بنے ہیں اور اعلیٰ سرکاری و غیر سرکاری عہدوں پرخدمات انجام دے رہے ہیں۔ ملک کے مختلف معیار ی اور باوقار ادارہ جات میں درس و تدریس اور ایجاد و تحقیق کے فرائض بھی یہ لوگ انجام دے رہے ہیں۔میری اور مجھ سے بڑی عمر کے اکثربیوروکریٹس ،نامور قانون دان،کاروباری شخصیات ،ڈاکٹر ،انجینیئرس،سکریٹریز وغیرہ جو تقریباً سرکاری و نیم سرکاری (امدادی) اسکولو ں کے تعلیم یافتہ ہیں اور جن میں اکثر یت کا تعلق دیہات اور مضافاتی علاقوں سے ہیں پھر کیسے یہ ملک کے کاروبار کو کامیابی سے چلانے کے قابل بنے ہیں۔ کیااس دور میں ان نام نہاد کارپوریٹ مہنگے تعلیمی ادار وں کا کوئی وجود تھا؟بالکل نہیں۔ ماضی قریب تک پرائیویٹ اسکولوں کا کوئی وجود نہیں تھا اور اگر تھا بھی تو یہ ہر کس و ناکس کی دسترس سے بالکل باہرتھے اور یہ تعلیمی ادارہ جات بھی نفع کے بجائے خدمت کے جذبے سے قائم کیئے گئے تھے۔زیادہ تر آبادی دیہاتوں یا مضافاتی علاقوں میںآباد تھی اور والدین اپنے بچوں کو گھر کے قریب پائے جانے والے سرکاری یا نیم سرکاری اسکول میں شریک کرواتے تھے۔کئی نسلیں جب ان اسکولوں سے پڑھ کر آج اس مقام تک پہنچی ہے تو کیا آج یہ کام ممکن نہیں ہے۔ پھرکیوں والدین تعلیمی اشتہار بازی کا شکار ہورہے ہیں۔
فی زمانہ دیگر شعبوں میں جس طرح گراوٹ درج ہوئی ہے تعلیم کا شعبہ بھی اس سے نہیں بچ سکا۔ آج تعلیم کی ترویج، ترقی اور معیار کے نام پر لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے۔سرمایہ داروں کی چالاکی اور عیاری نیشعبہ تعلیم کو ایک منافع بخش تجارت اور انڈسٹری کی شکلدے دی ہے۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے قیام سے تعلیم جہاں ایک منافع بخش تجارت بن گئی ہے وہیں تعلیمی ادارے شیئر بازار ، متعلم پروڈکٹ اور اولیائے طلبہ کی حیثیت شیئر ہولڈرس کیہوگئی ہے۔تعلیم جو قوموں کی ترقی کا سب سے موثر ہتھیار تھا آج وہ تعلیمی مافیا کے قبضے میں ہے۔تعلیمی اداروں کے انتظامیہ میں مشنری جذبے کی کمی کے باعث علم حاصل کرنے والوں اور علم باٹنے والوں کے درمیان محبت و اخلاص کا فقدان پایا جاتا ہے۔ ظالم سرمایہ دارانہ نظام نے ملک کے ہر شعبے کو بالخصوص تعلیمی شعبے کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ تعلیم کا شعبہ سرمایہ دارانہ نظام کی نفع خورفکر اور فری مارکیٹ کی بھینٹ چڑھ چکا ہے۔ مسلمانوں کے لئے تعلیم ایک مقدس فریضہ ہے ۔مسلمانوں کے دین کی اساس ہی ’’اقراء‘‘ پر قائم ہے۔انھیں کے پاس تعلیم جیسی گراں مایہ متاع عزیز کا تجارت و کاروبار کی شکل اختیار کرجانا نہایت افسوس کا مقام ہے۔تعلیم و تربیت کے مقدس ادارے جن کو نبی اکرم ﷺ کے قائم کردہ ادارے مدرسہ صفّہ سے تشبیہ دی جاتی ہے محض مادہ پرستی اور پیسہ کما نے کی دکانیں بن کر رہ گئے ہیں۔
پرائیوٹ تعلیمی اداروں کے بغیر خسارے والے کاروبارکا آغاز دراصل ملک کے بیشتر سرکاری اسکولوں، کالجوں حتی کہ یونیورسٹیز کی خستہ حالی کی وجہ سے ہواہے۔ کارپوریٹ تعلیمی اداروں کی سفاکیت سے والدین بخوبی واقف ہیں۔ پھر بھی اپنی اولاد کے روشن مستقبل کی تمنا میں سماج کا ایک بڑا طبقہ جن میں متوسط طبقہ( جن کا کوئی مستقل ذریعہ معاش بھی نہیں ہوتا اور جو تنگ دستی کا بھی شکار رہتے ہیں) اس کے علاوہ یومیہ مزدوری پر گزر بسر کرنے والے اور خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے لوگ بھی سرکاری اسکولوں اور کم فیس کے اسکولوں میں بچوں کو داخل نہ کروا کر نام نہاد مہنگے کارپوریٹ تعلیمی ادروں میں اپنے نونہالوں کو شریک کرتے ہوئے خود کو اور بچوں کو بڑی مشقت ا ور دشواریوں میں ڈال رہے ہیں۔والدین کو اپنی آمدنی اور معاشی حالات کے مطابق بچوں کے اسکول ا ور کالج کاانتخاب کرنا چاہئے ۔تعلیم کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں ۔ملک بھر میں ہرسال غریب ،محنت کش اور نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے طلبہ کی ایک بڑی تعداد کے تعلیمی و تخلیقی میدانوں میں زبردست کامیابی حاصل کرنے سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ کوئی بھی اسکول چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتابلکہ انسان کی فکر اور اس کی محنت و جستجو اسے اونچا مقام فراہم کرتی ہے۔والدین اسکولس اور ان کی فیس کو اپنے اسٹیٹس،رتبے اور وقار کا مسئلہ بنانے کے بجائے بچوں کی اخلاقی تربیت پر توجہ مرکوز کریں تو تعلیم ہی نہیں بلکہ زندگی کے ہرمیدان میں کامیابی ان کے قدم چومے گی۔والدین سرکاری یاکسی چھوٹے اور کم فیس کے اسکول میں اپنے بچوں کو پڑھانے میں اور طلبہ پڑھنے میں عار محسوس نہ کریں۔ اپنے رشتے داروں کے بچوں کومہنگے اور کارپوریٹ اسکول جاتے دیکھ کر احساس کمتری کا ہرگز شکار نہ ہوں اور اپنی آمدنی کے مطابق ہی اپنے بچوں کی تعلیم کا انتظام کریں۔ اپنے محلے کے سرکاری،امدادی (ایڈیڈ) اور کم بجٹ والے خانگی اسکولوں پر توجہمرکوز کرتے ہوئے انھیں بہتر بنا نے کی کوشش کریں۔جس معاشرے میں انصاف،تعلیم اور صحت کی سہولتیں مہنگی ہوں وہ ہر محاذ پر ناکام ہوجاتا ہے۔ اسی لئے حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ملک و معاشرے میں پھیلے اس استحصالی تعلیمی نظام اور اداروں پر فوری پابندی عائد کرئے ۔سرکاری اسکولوں کے نظام کو چاق و چوبند بنائے تاکہ متوسط ،غریب اور کمزور طبقے کے لئے بھی تعلیم کا حصول آسان اور ممکن ہوسکے۔پرائیوٹ تعلیمی ادارہ جات تعلیم کو تجارت بنانے کے بجائے تعلیم کو خدمت خلق اور اللہ کی خوشنودی کا ذریعہ سمجھیں تاکہ ملک و قوم ترقی کی راہ پر گامز ن ہوسکیں۔
ہمارا ہر خاندان اوسطاً تین یا چار بچوں پر مشتمل ہوتا ہے اور چند ایک گھرانوں میں بچوں کی تعداد اس بھی زیادہ ہوتی ہے۔ یہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ کس طرح اپنے تمام بچوں کے لئے تعلیم کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔انھیں اس بات پر بھی خاص طور پر غورکرنے کی ضرورت ہے کہ کیا وہ تمام بچوں کے تعلیمی اخراجات کی تکمیل کے متحمل بھی ہیں یا نہیں۔ اکثر والدین بغیر کسی منصوبہ بندی کے بچوں کو مہنگے اسکولوں میں داخل کر دیتے ہیں اور جب ان کے سبھی بچے اسکول پہنچ جاتے ہیں تب وہ تعلیمی اخراجات کی تکمیل سے خو د کو عاجز پاتے ہیں۔ والدین جو بھی کماتے ہیں وہ تمام بچوں کی تعلیم ،علاج ا، اشیاء خوردو نوش اور دیگرسامان پر صرف ہوجاتا ہے۔ قلیل آمدنی کا رونا یہیں شروع ہوتا ہے ۔اپنی آمدنی کے برخلاف کیئے گئے فیصلوں پر اب انھیں ندامت ہوتی ہے۔لیکن وقت گزارجانے کے باعث خود کو عاجز پاتے ہیں ۔نتیجتاً بھاری قرضوں کے بوجھ تلے خو د کو کچل دیتے ہیں یا پھر بچوں کا ترک تعلیم والا افسوس ناک پہلو سامنے آتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ہم اپنی آمدنی کا90%(نوے فیصد) حصہ صحت ،تعلیم اور خوراک جیسی بنیادی ضرورتوں پر خر چ دیتے ہیں۔کسی دوسرے کاموں کے لئے ہمارے پا س روپے ہوں یا نہ ہوں بچوں کی فیس اور ان کے دیگر اخراجات کے لئے بہر صورت ہمارے پاس پیسے ہوناضروری ہوتا ہے۔ والدین اپنی آمدنی اور اخراجات کو پیش نظر رکھ کر بچوں کا تعلیمی منصوبہ ترتیب دیں۔یہ بات یقیناًاہم ہے کہ کم کھائیں لیکن بچوں کی بہتر تعلیم کا انتظام کریں اس کا یہ مطلب نہیں کہ والدین خود کو ہلاکت میں ڈال لیں۔اپنی آمدنی اگر اجازت نہ دیتی ہوتو بچوں کو سرکاری ،امدادی یا پھر کم فیس والے خانگی اسکولوں کو بھیجنے میں ہرگز عار نہ محسوس کریں۔اب ماضی کی طرح تھوڑے بہت ذہین طلبہ کو حکومت اور فلاحی اداروں کی جانب سے اسکالرشپ (وظیفہ) دیئے جانے کا رواج نہیں رہا ۔یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ طلبہ جب پیشہ وارانہ ڈگریاں ایم بی بی ایس ،ایم۔اے،ایم بی اے،انجینئرنگ یا دیگر ماسٹرس کی ڈگریاں حاصل بھی کرلیں تب بھی ان کو کوئی روز گار کی طمانیت حاصل نہیں ہے۔والدین قرض لے کر بچوں کو تعلیم دلانے کے رویے کو ترک کردیں۔ والدین بچوں کی تعلیمی منصوبہ بندی کے دوران اپنی معاشی صورت حال کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں۔
کارپوریٹ تعلیمی انتظامیہ جہاں تعلیم برائے فروخت کے فلسفے پر عمل درآمد میں مصروف ہے وہیں والدین تعلیم کو ایک بکاؤ جنس سمجھ کر خریدنے میں جٹے ہیں جس کی وجہ سے تعلیم ایک جنس تجارت بن رہ گئی ہے۔والدین کے غیر دانش مندانہ رویوں کی وجہ سے کارپوریٹ تعلیمی ادارہ جات دولت بٹورنے کی دوڑ میں جٹے ہیں۔والدین ایک طویل مدت کے بعد اشتہاری تعلیمی نظام کے استحصال سے واقف ہورہے ہیںیعنی سب کچھ لوٹا کے ہوش میں آئے تو کیا ہوا۔والدین اپنا پیٹ کاٹ کر اپنی خواہشات کا گلہ دبا کر اپنے بچوں کو ان تعلیمی اداروں میں اس توقع سے شریک کرتے ہیں کہ ان کا مستقبل تابناک ا ور روشن ہوگا۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ سوائے کف افسوس ملنے کے کچھ حاصل نہیں ہوپاتا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ والدین کو اپنی غلطی کا احساس ہونے لگتا ہے کہ وہ کس طرح اس استحصالی ،تجارتی تعلیمی اشتہاربازی کا شکار ہوئے ہیں ۔والدین کے فیصلے نہ صرف بچوں کے اہم تعلیمی سالوں کی بربادی کا باعث ہوجاتے ہیں بلکہ تعلیم پر بے تحاشہ پیسہ خرچ کرنے کی وجہ سے اولیائے طلبہ بھی معاشی غیر آسودگی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ سانپ جس طرح اپنے بچوں کونگل جاتا ہے بالکل اسی طرح کارپوریٹ تعلیمی ادارے بھی روپے کمانے کی دوڑ میں محنت کش طبقے کی کمائی اور بچوں کا مستقبل نگل ر ہے ہیں۔ متمول اور دولت مند طبقوں نے اپنے لئے علیحدہ رہائشی علاقوں کی طرح علیحدہ تعلیمی ادارے بھی قائم کرلیئے ہیں۔یہ رجحان انصاف ا ور مساوات پر مبنی معاشرے کے لئے سم قاتل سے کم نہیں ہے جو چھوت چھات پر مبنی معاشرے کے فروغ کاباعث بنتا جارہا ہے۔والدین کارپوریٹ تعلیمی ادارہ جات کے دلفریب اشتہار بازی سے اس قدر مرعوب ہوجاتے ہیں اورتصور کرنے لگتے ہیں کہ تعلیمی ادارہ جتنا مہنگا ہوگا وہ اسی قدر معیار ی بھی ہوگا۔اس بات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ اکثر اوقات ’’اونچی دکان،پھیکا پکوان ‘‘والی صورت حا ل پائی جاتی ہے۔ تعلیم پرخرچ کردہ ہوشربا اخراجات نے والدین اور طلبہ کے ذہنوں کو آلودہ کرددیا ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں رشوت خوری اور دیگر مادی فوائد حاصل کرنے کی غیر قانونی اور ناجائزمسابقت چل پڑی ہے۔والدین یاد رکھیں کہ جب تک وہ تعلیم خریدنے کی کوشش کریں گے تب تک تعلیمی تجارت فروغ پاتی رہے گی۔آج مسلم معاشرے میں تعلیم کی جس قدر پامالی ہورہی ہے اس کی مثال کسی دور میں بھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ گلی کوچوں میں سبزی فروخت کرنے والے ان پڑھ حضرات بھی سو،دیڑھ سو گز پر مشتمل کرایے کے گھروں میں ڈربہ نما اسکول کھول رہیہیں وہیں چند سرمایہ دار افراد( غیر معروف ذرائع سے کمائی اپنی دولت کو سفید بنانے اورخود کو سفید پوش افراد میں شمار کروانے کے مقصد سے) نے اونچی اونچی عمارتوں میں لاکھوں کڑورں کی اشتہار بازی کے ذریعہ تعلیمی تجارت کے بازار کو گرما رکھا ہے۔ایسے تجارتی مراکز(تعلیمی ادارے) نہ صرف مسلم معاشرہ بلکہ اغیار میں بھی اپنی اشتہاری طاقت کی بناء پر خو ب پنپ رہے ہیں۔ اگر اعداد وشمار اکٹھا کیئے جائیں تو معلوم ہوگا کہ ان مالکان مدارس کا دور دور تک بھی تعلیم و تربیت سے کوئی واسطہ نہیں ہے اوربیشتر حضرات نوشت و خواند ،آداب گفتگو اور تمیز و تہذیب سے بھی بالکل ناآشنا ہیں اور بعض تو مجرمانہ ریکارڈ کے بھی حامل ہیں ۔ والدین نے گویا تعلیم و تربیت کی ذمہ داری ان لوگوں کے سپر د کردی ہے جو نہ پڑھائے جانے والے علوم پر گہری نگاہ رکھتے ہیں اور نہ تعلیم کے حقیقی مقاصد (روح تعلیم ) سے آشنا ہیں۔جسے خو د کی خبر نہیں وہ کیسے دوسروں کی رہبری کے فرائض انجام دے سکتا ہے بقول حضرت علامہ اقبال ؒ
قوم کیا چیزہے ،قوموں کی امامت کیا ہے
اس کو کیا سمجھیں یہ بیچارے دو رکعت کے امام
تعلیم و تربیت اور خدمت خلقکے جذبیسے عاری یہ اسکول نسلوں کی تباہی کا سبب بن رہے ہیں جہاں تعلیم ایک جنس تجارت بن کر سسک رہی ہے۔ سرکاری اسکولوں میں سہولتوں اور اساتذہ کی قلت و فقدان کے سبب محدود وسائل رکھنے والا شخص بھی سرکاری اسکولوں کا رخ کرنے میں بے عزتی محسوس کرنے لگا ہے ۔ حالانکہ سرکاری ا سکولوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ پائے جاتے ہیں لیکن افسوس چند غیر ذمہ دار اساتذہ کی وجہ سے یہ ادارے اخلاقی گراوٹ کا شکار ہوچکے ہیں۔ تعلیم کا ایک بزنس کی شکل میں فروغ پانا ہماری ناقص تعلیمی پالسیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔بڑی بڑی بلڈنگوں میں قائم شدہ یہ کارپوریٹ اسکولس اپنی دلفریب اشتہاری بازی کے دم پر خودرو پودوں کی طرح پھیل چکے ہیں ان پر قابو پانے کی سخت ضرورت ہے۔حکومت جب تک اپنی تعلیمی پالیسی پر نظر ثانی کرتے ہوئے ان تعلیمی تجارتی اداروں پر شکنجہ نہیں کسے گی یہ کاروبار روز افزوں ترقی کرتا جائے گا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ تعلیم تربیت کے جو ہر سے آزاد ہوجائے گی۔خداوندان مدارس ،سرمایہ دار حضرات، صاحب اقتدار اصحاب خدارا تعلیم کو تعلیم ہی رہنے دیں ۔بچے خواہ کسی بھی طبقے کے ہوں اور امیر ہوںیا غریب تعلیم کسی کی پہنچ سے باہر نہیں ہونی چاہئے۔ یکساں تعلیمی نظام آج وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔ یکساں نصاب، یکساں تعلیمی ادارے، یکساں مواقعوں کی فراہمی یہ سبحکومت کی ذمہ داری ہے۔ ہمارے ملک میں سیاست دان جو زیادہ تر سیاسی نعروں پر زندہ ر ہتے ہیں ضرورت ہے کہ وہ قوم کی تعلیمی حالت کو درست کرنے کے لیے ایک لانگ ٹرم منصوبہ تیار کریں۔ میڈیا اور اہل رائے افرادجو معاشرے میں اپنا اثر رکھتے ہیں وہ اپنا فرض ادا کریں اور تمام عوام کے لیے یکساں نظام تعلیم اور مساوی تعلیمی مواقعوں کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔ نظامِ تعلیم کو بچانے کے لیے ایک بھرپور تعلیمی تحریک کی ضرورت ہے۔ ایک ایسی قومی تحریک جس کا ایک مقصد اور ایک ہی نعرہ ہو یعنی’’ سب کے لیے تعلیم ایک جیسی تعلیم‘‘۔
قسمتِ لالہ و گل اب بھی سنور سکتی ہے
نیت اچھی ہو جو گلشن کے نگہبانوں کی
اہم بلاگز
۔23 مارچ کا یادگار دن
قوموں کی زندگی میں بعض لمحات بڑے فیصلہ کن ہوتے ہیں جو اپنے نتائج اور اثرات کے اعتبار سے خاصے دور رس اور تاریخ کا دھارا موڑنے کی اہلیت رکھتے ہیں، 23 مارچ کا یادگار دن ہماری قوم کیلئے بڑی اہمیت کا حامل ہے اسکی ایک تاریخی حیثیت ہے کہ سنہ 1940ء میں لاہور کے تاریخی شہر میں برصغیر کے تمام مسلمانوں کے نمائندوں نے قائد اعظم کی زیر صدارت ایک تاریخی اجتماع میں حصول پاکستان کی قرار داد منظور کی تھی۔ تا کہ برصغیر کے مسلمانوں کیلئے مسلم قومیت کی بنیاد پر ایک آزاد ملک حاصل کیا جا سکے۔ جس پر نہ غیر ملکی استعمار کے تاریک سائے پڑیں اور نہ ہی ہندو اکثریت اور چیرہ دستیاں مسلمانوں کے ارفع مقاصد کی راہ میں حائل ہونے پائیں۔ مسلمانان برصغیر اپنے لئے ایک الگ وطن اسی لئے چاہتے تھے جہاں قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں وہ ایک مثال اسلامی معاشرہ تشکیل دیں جہاں اسلامی عدل و انصاف کا دور دورہ ہوا اور جو عصر حاضر میں سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت کی قوتوں سے پسی ہوئی انسانیت کیلئے مشعل راہ ثابت ہو۔ اس عظیم مقصد کے لئے 23مارچ 1940ء کولاہور میں بادشاہی مسجد کے قریب ایک وسیع و عریض میدان میں لاکھوں مسلمان اکٹھے ہوئے اور بنگال کے وزیر اعلیٰ مولوی فضل حق نے ایک قرار داد پیش کی جس کی تائید تمام مسلمانوں نے دل و جان سے کر دی جس سے ان کی قسمت کا پانسہ پلٹ گیا۔ اس دن لاہور میں مسلمانان ہند نے اپنی منزل کا اعلان کیا تھا اور دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ ہم ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے آزاد خطوں کی جدوجہد کا اعلان کرتے ہیں۔
23 مارچ کو قرار داد کی منظوری کے بعد قیام پاکستان کی جدوجہد فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔ قوم کو ایک واضح نصب العین مل چکا تھا اور خوش قسمتی سے قائد اعظمؒ جیسے مدبر قائد میسر تھے جن کی قیادت سحر انگیز اور ولولہ انگیز ہونے کے علاوہ سیاست میں صداقت اور دیانتداری کی علمبردار تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے تک مسلمانان ہند مسلم لیگ کے پرچم تلے متحد ہو چکے تھے۔ 1945ء میں وائسرائے ہند لارڈ ویول نے مسلم لیگ اور مطالبہ پاکستان کی مقبولیت اور دوسری جماعتوں کی طاقت کا اندازہ کرنے کیلئے انتخابات کروائے۔ کانگرس کے ایماء پر بننے والے مسلمانوں کے نام نہاد متحدہ محاذ کی مخالفت کے باوجود مسلم لیگ کو تاریخی فتح حاصل ہوئی اور مسلم لیگ مسلمانان ہند کی نمائندہ جماعت بن کر سامنے آئی اور اس طرح حصول پاکستان کی منزل قریب سے قریب تر ہو گئی۔ اکتوبر 1946 ء میں ایک عبوری حکومت قائم کی گئی جس میں مسلم نمائندگان کی قیادت خان لیاقت علی خان نے کی ادھر حکومتی ایوانوں میں قائد اعظم ؒمسلمانوں کے سیاسی حقوق کے تحفظ اور قیام پاکستان کیلئے سیاسی جنگ لڑ رہے تھے تو دوسری طرف ہندو مسلم فسادات نے پورے ملک کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ ان فسادات میں لاکھوں مسلمان شہید ہوئے۔3 جون کو تقسیم ہند کے...
وہ دانائے سبل ختم الرسل
قارئین کرام یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ختم نبوت مسلمانوں کا قطعی اجماعی عقیدہ ہے، اس پر بیسیوں آیاتِ قرآنیہ اور سیکڑوں احادیث صحیحہ میں دلائل موجود ہیں۔ قرآن مجید میں وارد لفظِ خاتم النبیین میں کسی قسم کی تاویل اور تخصیص کی گنجائش نہیں ہے۔ اس میں تاویل و تخصیص کرنے والا دراصل قرآن و حدیث کی تکذیب کرتا ہے۔
چودہ سو سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود امتِ محمدیہ کا آج بھی اس پر اجماع ہے کہ مدعی نبوت اوراس کے پیروکارخارج از اسلام اور مرتد ہیں۔ تاریخ گواہ ہے جب بھی کسی باغی، طالع آزما یا فتنہ پرداز نے اپنے آپ کونبی کہنے کی جرأت کی، مسلمانوں نے اس کے خلاف بھرپورجہاد کیا۔ ہر مسلمان کا غیر متزلزل عقیدہ اور ایمان یہ ہے کہ حضور سرورِ عالم سیدنا محمدﷺ آخری نبی ہیں۔ حضورﷺ کی تشریف آوری کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ حضور اکرمﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آسکتا اور جو شخص اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور جو بدبخت اس کے اس دعویٰ کو سچا تسلیم کرتا ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد ہے اور اسی سزا کا مستحق ہے جو اللہ تبارک تعالیٰ نے مرتدکے لیے مقررکی ہے۔
بحیثیت مسلمان ازروئے قرآن و حدیث ہمارا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید ان پر نازل فرماکر دین کی تکمیل کردی اور قرآن کو تا قیامت محفوظ بھی کردیا۔ سلسلہ نبوت پر ختم کی مہر بھی لگادی آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی و رسول ہیں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی ہے نہ رسول ہے نہ تھا نہ تا قیامت ہوگا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہےاور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ قرآن مجید میں اس بات کی صراحت مختلف آیات میں ملتی ہے۔ جیسا کہ سورہ احزاب کی چالیسویں آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیا کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔
بہت سی احادیث میں بھی ختم نبوت کی تصدیق موجود ہے۔ حدیث مبارکہ ہے۔ میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک گھر بنایا، اس کو بہت عمدہ اور آراستہ پیراستہ بنایا مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی، پس لوگ جوق درجوق آتے ہیں اور تعجب کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں یہ اینٹ کیوں نہیں لگادی گئی۔ آپ نے فرمایا: وہ اینٹ میں ہوں اور میں انبیاء کرام کا خاتم ہوں۔ اسی مفہوم کی ایک اور حدیث مبارکہ حضرت جابر بن عبداللہ رضى الله تعالى عنه نے بھی روایت کی ہے۔(صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النّبیین...
الوداع نہیں کہتے
بی بی سی جماعت اسلامی کی خبریں عموما نہیں لگاتا۔ لیکن اس نے یہ خبر بہت کم وقت میں دے دی کہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب اپنے امارات عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں۔ہم جانتے ہیں بی بی سی کس کا چینل ہے۔ان کی نیتیں بھی یہ تھیں کہ اس خبر سے جماعت کو کمزور شکست خوردہ سمجھا جائے گا۔یہ خبر بھی سنی کہ حافظ نعیم صاحب نے دھاندلی والی نشست لینے سے انکار کردیا۔جو کہتے تھے کہ سیاستدانوں کا کوئی اخلاق نہیں ہوتا۔ان دیانتدار اور اعلی کردار کے حامل سیاست دانوں کو دیکھیں۔ایک نے ہاتھ آئی سیٹ ٹھکرا دی۔ دوسرے نے پارٹی کی سربراہی چھوڑ کر ثابت کر دیا کہ جماعت اسلامی میں عہدوں کی نہیں بلکہ ویلیوز کی اہمیت ہوتی ہے۔اور بےشک یہ احساسِ ذمہ داری فقط جماعت اسلامی میں پایا جاتا ہے۔
ان دونوں واقعات سے ہوا یہ کہ جماعت اسلامی کی جمہوریت شورائیت اور واضح ہوگئی۔ عوام جماعت اسلامی سے مذید متاثر ہوگئی۔ جی ہاں جماعت اسلامی عوامی مقبولیت حاصل کر چکی ہے۔ہر شعبہ ہائے زندگی کے لوگ اس کی دیانت خدمت کے قائل ہوچکے ہیں۔اس الیکشن کے بعد یہ مغالطہ ختم ہوچکا ہے کہ جماعت کا ووٹ بینک نہیں بنتا جماعت اسلامی کا کم ازکم یہ نتیجہ اس الیکشن میں تھا کہ اسے بلوچستان میں دو سیٹیں کے پی کے میں تین اور سندھ میں پندرہ سے زیادہ ہوتیں اگر زبردستی انتقال ہوئی پارٹی کے نئے جیون کی تیاری نہ ہوتی۔ ووٹ جماعت کو ملا ہے کراچی عوام نے اسے منتخب کیا ہے یہ ہاری نہیں اسے ہروایا ہے۔
یہ استعفی دراصل ہمارے قائد کی اعلی ظرفی ہے۔ انہوں اخلاقی طور سے اچھا کیا۔یہ استعفی ہر اس کارکن پر طمانچہ ہے۔جو سمجھتے ہیں کہ اس میں جماعت کا اس کی قیادت کا کوئی قصور ہے۔ ان سب حالات میں کسی کا کوئی قصور نہیں نہ کارکن کا قصوروار ہے نہ ہی امیر کا قصور ہے۔سمجھنے کی بات ہے کہ جماعت کا مقابلہ وقت کے اصل فرعون سے ہے۔ سیکولر لبرلز ساری طاقتیں مل کر اس کے خلاف ہیں اسلام کے دشمن فرعون نمرود ابو جہل دجالی فتنے آسان ٹاسک کسی بھی دور میں نہیں تھے۔ہمارے دور کے فرعون طاقت میں قدیم فرعون سے کہیں آگے ہیں۔الیکٹرانک میڈیا جماعت کو نہیں دکھاتا۔پرنٹ میڈیا جماعت پسند اسلام پسند تحریر نہیں چھاپتا۔عوام اگر قبولتی ہے اصل نتائج نہیں دیے جاتے۔قیادت کا کیا قصور وہ کیا اپنی جان مار دیں۔اس الیکشن کو آپ صلح حدیبیہ سے جوڑ لیں یقین کریں جماعت کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔جس عوام نے جماعت کو ووٹ دیا وہ اس کی شکست پر حیران ہے۔ جان چکی ہے کہ دینی جماعتوں میں خطرہ صرف جماعت اسلامی ہے۔عوام نے کبھی کسی موروثی مذہبی لیڈر یا پیر کو یوں اپنے عہدوں سے مستعفی ہوتے نہیں دیکھا۔جماعت اسلامی عوام کے لیے حل ہے تو باطل نظام کے لیے روک ہی روک ہے۔
یہ جماعت اسلامی کے لیڈر کی اعلی قیادت ہے۔جس میں حافظ نعیم الرحمن، مشتاق احمد صاحب، اکبر چترالی اور مولانا ہدایت الرحمن جیسے ہیرے پیدا کیے اور چمکنے کے خوب مواقع دیے۔سراج صاحب آپ...
حیا ہی پروانہ خیر
ویمن یونیورسٹی کی بس میں سب سے پہلی سوار ہونے والی حنا امتیاز معمول کے مطابق آج بھی کسی کتاب کی ورق گردانی میں گم تھی اس لیے اسے اپنے ارد گرد ہونے والی غیر معمولی ہلچل کا علم ہی نہ ہوا۔
آج کی کتب بینی نے اسے خاصا الجھن میں مبتلا کیا ہوا تھا فرانسیسی انقلاب کے وقت وہاں کی عوام نے قلم کاروں کی جس طرح پیروی کی وہ حیران تھی کہ کیسے کوئی قوم اپنے ہی جیسے انسانوں کے بنائے ہوئے افکار و نظریات کے پیچھے اندھا دھند چل پڑتی ہے چاہے وہ نظریات اخلاق سے کتنے ہی گرے ہوئے کیوں نہ ہوں۔
ڈرائیور کے ہارن کرنے پر اس نے کتاب سے سر اٹھایا تو بس مکمل خالی تھی اس کی ساتھی لیکچرار اور تمام طالبات بس سے پہلے ہی اتر چکی تھیں
یونیورسٹی میں داخل ہوتے ہی اسے اندازہ ہوگیا کہ آج کیا دن ہے؟
کلاس میں داخل ہوکرحنا نے ابتدائی سلام دعا کے بعد طالبات کی طرف معنی خیز مسکراہٹ سے دیکھا
“ پیاری لڑکیو! آج خیر سے آپ میں سے بیشتر لڑکیوں نے سرخ رنگ کے دوپٹے اور بعض نے تو پورا لباس ہی سرخ پہنا ہے”
“جی میم! آج ویلنٹائن ڈے ہے نا” کسی ایک طالبہ نے جواب دیا
تو ساتھ ہی کسی دوسری طالبہ نے مزید وضاحت بھی پیش کردی “میم اب وہ جونا مناسب سا ویلنٹائن سب مناتے ہیں ویسا تو ہم کچھ نہیں کر رہے بس سب نے سوچا کہ ایک تہوار آرہا تو چلومنا لیا جائے تفریح ہو جائے گی”
ہممم۔۔تویہ باقی طالبات آپ کے ساتھ شامل کیوں نہ ہوئیں؟ جی نائلہ آپ کا اس دن کے بارے میں کیا خیال ہے؟ حنا نے ایک طالبہ کو مخاطب کیا جوویلنٹائن ڈے منانے والی لڑکیوں میں شامل نہ تھی۔
میم میرے نزدیک ویلنٹائن اخلاقی لحاظ سے انتہائی نا مناسب تہوار ہے اوراس کا ایجنڈا حیا کے منافی ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ ہے
"جب تم حیا نہ کرو تو جو جی چاہے کرو"
نائلہ لیکن ہم کوئی نا مناسب حرکت تو نہیں کر رہے نا۔ ایک دوسری طالبہ نے نائلہ کو ٹوکا
جی جی ایسا ہی ہے میری شہزادی! آپ کی نیت بالکل صاف ہے آپ کا مقصد تفریح کے علاوہ کچھ نہیں ہے یہ مجھے معلوم ہے۔ حنا نے خوبصورتی سے دونوں کی بات چیت میں مداخلت کی اور بات کو مزید آگے بڑھایا۔
لڑکیو!بات دراصل یہ ہے کہ جب ہم خود کو اسلام کے دائرے میں داخل کردیتے ہیں نہ۔۔۔ تو شعوری طور پر حیا کا اختیار کرنا ہمارے لیے اس طرح ضروری ہوجاتا ہے جس طرح سانس لینے کے لیے ہوا میں آکسیجن کا ہونا ضروری ہے کیوں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ
” حیا ایمان کی شاخوں میں ایک شاخ ہے۔ “
لیکن اللہ کی پناہ ہم ایسے معاشرے کا حصہ بن چکے ہیں جہاں حیا کو کم اعتمادی اور ترقی پذیر عناصر کے برخلاف گردانا جاتا ہے اور یہ وہ نظریات ہیں جو ہمارے کچھ نامی گرامی مہذب طبقے نے مغربی معاشرے سے شاید عاریتاً لیے تھے اور اب سارے معاشرے میں تیزی سے سرایت کر تے جا رہے ہیں
اس...
مایوس مت ہونا
ڈاکٹر فہمیدہ آپ نے تو میرا ووٹ ضائع ہی کروا دیا۔ساجدہ بیگم اپنا چیک اپ کروانے آئی تو ساتھ ہی شکوہ کر بیٹھی،میرے شوہر نے کہا بھی تھا، کہ اس شہر میں جماعت کو کوئی نہیں جانتاووٹ ضائع ہوجائے گا،لیکن میں سمجھی کیا پتاقوم ایک موقع دے ہی دیں دین دار لوگوں کو، ساجدہ باجی تو گویا آج بھری بیٹھی تھیں۔ کیا آپ نےامیر جماعت سراج الحق صاحب کا بیان نہیں سنا؟ڈاکٹر فہمیدہ نے تمہید باندھی، جب ایک نیوز اینکر نے سراج الحق صاحب سےسوال کیا،لوگ جماعت اسلامی کو ووٹ کیوں نہیں دیتے؟ تو سراج الحق صاحب کا جواب تھا: ہر صبح فجر کے وقت مسجد سے اذان کی آواز آتی ہے” *حَیّ عَلی الْفَلاحِ حیّ عَلی الْفَلاحِ* اس آواز کو سن کر اگر کروڑوں لوگ سوتے ہیں اور چند ہزار لوگ اٹھ کر مسجدوں میں جاتے ہیں، تو یہ اس آذان یا موذن کی کمی نہیں ہے۔یہ تو ان لوگوں کی کمی ہے جنہوں نے نیند نہیں چھوڑی اور مسجد کی طرف نہیں دوڑے۔ اس لیے ہم تو اذان دیتے رہیں گےاور پکارتےرہیں گے کہ آو تمہاری دنیا اور آخرت کی کامیابی اس نظام میں ہے،جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں پیش کرچکے ہیں۔
نہیں ڈاکٹر صاحبہ میں تو سوچ رہی تھی ساجدہ باجی نے بات کاٹی،اتنا وقت کا ضیاع ہوا اتنا پیسہ خرچ ہوا اور گھرگھر جاکےسمجھایا بھی لوگوں کو بس اسی لیے نتیجہ دیکھ کرمایوس ہوگئی۔ سادہ طبیعت کی ساجدہ باجی پھر سے گویا ہوئیں۔ ساجدہ باجی کیا آپ نے وہ آیت نہیں پڑھی" الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ أَمَلًا"(مال اور اولاد تو دنیا کی زندگی کی رونق ہیں، اور تیرے رب کے ہاں باقی رہنے والی نیکیاں ثواب اور آخرت کی امید کے لحاظ سے بہتر ہیں۔) اس لیے میری بہن یہ ہرگز نہ سوچو کہ ہمارا پیسہ یا وقت ضائع ہوا،ارے اس کا اجر تو اللہ تعالٰی کے ذمہ ہے۔
ہماری ساری تگ ودو اللہ کے دین کو قائم کرنے اور اس ملک میں قرآن کا قانوں نافذ کرنے کے لیے ہے۔ہم نے بالکل مایوس نہیں ہونا اللہ کو ہماری یہی کوشش ہی درکار ہے۔اللہ پاک اپنے جن بندوں سے محبت کرتا انھیں آزمائش میں بھی ڈالتاہےتاکہ پتا چل سکے کون سخت وقت پہ ثابت قدم رہتاہےاور کس کے قدم ڈگمگاتے ہیں،ڈاکٹر فہمیدہ نے نرمی سے سمجھایا۔پھر تو ڈاکٹر صاحبہ ہمیں دوبارہ سے اس مہم کی تیاری میں جُت جانا چاہیے۔بالکل میری بہن!نظام کب نافذ ہوگا یہ تو اللہ ہی جانتا ہے،لیکن ہماری کوشش تو ہرحال میں جاری رہنی چاہیے۔ ہم تو اللہ کے سامنے عزر پیش کرنے والے بن سکیں، کہ اے اللہ میں نے اپنی پوری کوشش کی جہاں تک ہوسکا میں نکلی،جہاں مجھے پکارا گیا میں نے لبیک کہا، میرے مولا تو جانتا ہے،میں نےاپنی طرف سے کوئی کمی نہیں چھوڑی، ہر گھر پہ دستک دی، ہر فرد کودعوت دی، لیکن یارب تو گواہ رہنا میری اس ادنٰی سی کوشش پہ اور مجھے ہمت دے کہ میں اور زیادہ دین کی خدمت کرسکوں، ڈاکٹر فہمیدہ فرط جذبات سے بولیں۔ ساجدہ باجی شرمندگی سے...
طنز و مزاح
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
ٹک ٹاک ایک نشہ
ٹک ٹاک مختصر ویڈیو کی ایسی ایپ ہے جس میں وہی ویڈیو چلتی ہے جو ’’مختصر‘‘ ہو۔بس ایک ویڈیو وائرل ہونے کی دیر ہے پھر آپ ایک ہی رات میں ہیرو بن گئے۔گویاٹک ٹاک سوشل میڈیا کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں وہی ویڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں سب کچھ’’ پلیٹ‘‘میں رکھ کر پیش کیا جائے۔بلکہ نوجوان نسل تو وائرل ہونے کے لئے ایسی اشیاء بھی ’’پیش‘‘ کر دیتی ہیں جن کا پیش نہیں ’’زیر‘‘میں ہونا ہی معیاری،مناسب اور اخلاقی ہوتا ہے۔مگرچائنہ والوں کو کون سمجھائے کہ جس لباس کو ہم پاکستانی اعلیٰ اخلاقی اقدار سے گرا ہوا سمجھتے ہیں ان کے ہاں وہ لباس اعلی اقدار کا حامل سمجھا جاتا ہے۔بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ لباس کا صرف سرا ہی نظر آتا ہو تو اسے اخلاقی لباس سمجھا جاتا ہے۔چائنہ اور یورپ میں تو اسی کی زیبائش مناسب ہوتی ہے جس کی ’’نمائش ‘‘زیادہ ہو۔ ان کے سامنے تو بھاری بھر کم فراک،غرارہ و شرارہ زیب تن کر کے جائیں تو وہ حیران ششدر رہ جاتے ہیں کہ ان کا ناتواں جسم ایسا لباس ’’کیری‘‘ کرتاکیسے ہے۔شائد اسی وجہ سی چینی اور یورپی خواتین وہی لباس زیب تن کرتی ہیں جو ہمیں زیب نہ دیتا ہو۔
میں نے اپنے انتہائی معصوم و سادہ دوست شاہ جی سے ایک معصومانہ سوال کیا کہ مرشد ٹک ٹاک پر کیسے وائرل ہوا جاتا ہے۔شاہ جی نے شانِ بے نیازی (بے نیازی کو کسی نیازی سے نہ ملایا جائے )اور لاپروائی سے جواب دیا کہ فی زمانہ ٹک ٹاک ہی نہیں ہر جگہ وائرل ہونے کا ایک فارمولہ ہے۔میں نے متجسسانہ انداز میں پوچھا کہ مرشد وہ کیا۔فرمانے لگے۔’’جو دکھتی ہے وہ بکتی ہے‘‘یعنی جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔شاہ جی کے جواب پر سوال در سوال ذہن میں کود آیا کہ کیا اس فارمولہ کا اطلاق صنف نازک(جسے میں ہمیشہ صنف آہن کہتا ہوں)پر ہی ہوتا ہے یا صنف معکوس بھی اس زد میں آتے ہیں۔کہنے لگے فارمولہ تو وہی ہے بس الفاظ کے چنائو کو بدلنا ہوگا،یعنی۔۔۔۔۔یعنی مرد حضرات کے لئے الفاظ بدل کر ایسے ہو جائیں گے کہ ’’جو بَکتا ہے وہ بِکتا ہے‘‘
چین نے جب ٹک ٹاک ایپ متعارف کروائی تو اس کا مقصد سیلیکون شہر میں بیٹھ کر ایسی مختصر مدتی ،مختصر ویڈیو،مختصر لباس میں بنا کر پیش کرنا تھاکہ جو اپلوڈ ہوتے ہی وائرل ہو جائے،اور ایسا ہی ہوتا تھا۔اس لئے ہماری نوجوان نسل بھی چین کے نقش پا پر اپنے قدم جمائے ویسی ہی مختصر ویڈیو بناتے ہیں جو وائرل ہو جائے۔مجھے حیرت یہ نہیں کہ آج کی نسل سستی شہرت کے لئے ایسا کیوں کرتی ہے۔پریشانی یہ ہے کہ انہیں شہرت مل بھی جاتی ہے۔اب تو ٹک ٹاک بھی ایک حمام سا ہی دکھائی دیتا ہے ،وہ جس کے بارے میں اکثر سیاستدان بیان بازی کیا کرتے ہیں کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔اب تو ٹک ٹاک دیکھ کر بھی لگتا ہے کہ اس حمام میں بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویڈیو وائرل ہونے کے بارے میں ایک دوست کی بات یاد آگئی ،اس نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ یار ابھی تک...