عوامی لیڈر نامنظور

پاکستان میں حکومتوں کا سلسلے وار الٹ پلٹ ہونا اپنے اندر ایک کربناک کہانی رکھتا ہے۔ اس کربناکی میں جو “کراہ” سنائی دیتی ہے ممکن ہے کہ میرے کان اس کو جس طرح اور جس انداز میں سن رہے ہوں دوسروں کے کان اس کراہ کو اس طرح اور اس اندازمیں نہ سن رہے ہوں۔ مجھے اس کراہ میں جو آواز ابھرتی اور گونجتی سنائی دیتی ہے وہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ “عوامی لیڈر نامنظور”

قائد اعظم محمد علی جناحؒ شاید پاکستان کی اسٹبلشمنٹ کی کمزوری تھے اور ان کے ہوتے شاید یہ ممکن نہیں تھا کہ اسٹبلشمنٹ اس بات کی غلطی کر بیٹھتی کہ اپنی طاقت آزماتی ورنہ “زیارت” کے چکر تو باقائدگی سے کئے جارہے تھے۔ یہ طواف اس لئے نہیں تھا کہ قائد کی تیمارداری کی جائے یا خیریت دریافت کی جائے بلکہ اس بات کو یقینی بنایا جا رہا تھا کہ قائد کی زندگی کے کتنے سانس باقی ہیں۔ اس دوران، جبکہ قائد شدید علیل تھے شاید ان کو اس بات کا اندازہ تھا کہ ان کے بعد اسٹبلشمنٹ اس ملک کے ساتھ کیا کرنے والی ہے اسی لئے قائد نے واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ افواج پاکستان کو حکومتی معاملات میں مداخلت کا کوئی حق نہیں اور پارلیمنٹ کا کام نہ صرف قانون سازی کرنا ہے بلکہ وہی ایک ایسا ادارہ ہے جس کو ہر ادارے پر برتری حاصل ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ قائد کے رحلت کرجانے کے باوجود اس وقت کی اسٹبلشمنٹ کو اس بات کی فوری طور پر جرات نہ ہو سکئ کہ اقتدار پر قبضہ کیا جا سکے۔ ایسا کرنے لئے ابھی اور بھی میدان ہموار کرنا تھا جس کیلئے اس بات کی اشد ضرورت تھی کہ عوام کی نظر میں سیاسی قائدین کو گرایا جائے تاکہ ان کے اقتدار پر براجمان ہونے کو عوام ناپسند نہ کر سکیں۔ اس سب کیلئے بھی اس بات کی ضرورت تھی کہ کوئی بھی ایسا فرد جو کسی بھی وقت عوامی مقبولیت حاصل کرسکتا ہو اس کو جس طرح بھی ہوسکے عوام کی نظروں میں گرایا جائے اور اگر اس کام میں کوئی دشواری پیش آئے اور ایسا کرنا ممکنات میں سے نہ رہے تو اسے راستے سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ہٹادیا جائے۔

قائدؒ کے بعد پاکستان کی معتبر ترین ہستی اور آپؒ کے دست راست انسان لیاقت علی خان کے علاوہ اور کوئی ہو نہیں سکتا تھا۔ مسلم لیگ میں اگر کوئی قائدؒ کا سچا اور تحریک پاکستان کا مخلص ترین کوئی انسان ہو سکتا تھا تو وہ لیاقت علی خان ہی تھے جس کے اخلاص کی اس سے بڑی مثال کیا ہوسکتی ہے کہ آج کل کے حساب سے جو اس وقت کا کھرب پتی ہو سکتا تھا وہ لیاقت علی خان ہی تھے لیکن جب وہ شہید کئے گئے تو ان کے تن پر جو بنیان تھا وہ پھٹا ہوا تھا اور ان کے گھرکی الماری سے ان کے جو ذاتی لباس برآمد ہوئے وہ بھی پرانے اور بہت قلیل تھے۔ پاکستان بنا تو انڈیا میں بننے والے سفارت خانے کو اپنی کوٹھی وقف کردی۔ لیاقت علی خان نے ایک نہایت مفلس، بدحال اور غریب ملک کا اقتدار سنبھالا تو دوتین برس میں ہی یوں محسوس ہونے لگا کہ پاکستان نہ صرف اپنے پیروں پر کھڑا ہو جائے گا بلکہ دوڑنے بھی لگے گا۔ یہ سارے انداز ایک سیاست دان کو عوامی لیڈر بنانے کیلئے کافی ہوتے ہیں۔ چنانچہ ان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اسٹبلشمنٹ کیلئے سوہان روح بن سکتی تھی اور ان کا مستقبل تاریک ہو سکتا تھا۔ اگر ان کو اپنے مستقبل کی تاریکی کی فکر نہیں ہوتی تو پاکستان کا مستقبل نہ جانے کتنا روشن ہو چکا ہوتا۔ یہ بات ممکن ہے کہ کچھ اذہان پر بار گراں ہو لیکن جو جوں میں آ گے بڑھونگا توں توں ممکن ہے کہ میرے مخالفین مجھ سے نزدیک تر ہوتے جائیں۔

لیاقت علی خان کی عوامی مقبولیت کو ہر صورت میں ختم کرنا تھا لیکن یہ بات روز روشن کی طرح عیاں تھی کہ اس کو عوامی انداز میں ختم نہیں کیا جا سکتا تھا۔ پاکستان ایک نو زائدہ ملک تھا اور اس وقت کوئی اور قابل ذکر شخصیت بھی ایسی موجود نہیں تھی جس کو ان کے مقابلے پر پیش کیا جاسکتا تھا چنانچہ ایک ہی راستہ تھا کہ “نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری”۔ لیاقت باغ راولپنڈی جو نہ جانے اس وقت کس نام سے پکاراجاتا ہو، ان کا مقام شہادت ٹھہرا اور وہ “اللہ پاکستان کی حفاظت کرے” کی آخری تمنا کو دہراتے اللہ کو پیارے ہو گئے۔ قتل کی آخری نشانی کو بھی “نشانہ” بنا کر جرم کا ہر نشان ہمشہ ہمیشہ کیلئے مٹا دیا گیا۔

لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد میدان خود ہی ہموار ہوتا گیا اوراوپر تلے وزارتوں کی تبدیلی کو جواز بنا کر پاکستان کے اقتدار پرقبضے کے خواب دیکھنے والوں کا خواب تعبیر کو بھی شرمندہ کر گیا۔ جس ادارے میں پاکستان کو مستحکم اور مضبوط بنانے کا سہارا لیکر اقتدار پر قبضہ کیا انھوں نے اس پاکستان کی بنیادیں اس زور سے ہلائیں کہ ان کی اقتدار سے باہرہوجانے سے کہیں پہلے ہی پاکستان دو لخت ہو چکا تھا۔

پہلے مارشل لا کی طوالت کیلئے بھی یہ بات بے حد ضروری تھی کہ کوئی عوامی لیڈر پاکستان میں نہ ابھر سکے جس کی دو مثالی خود ایوبی دور میں سامنے آئیں جس میں اعظم خان اور محترمہ فاطمہ جناحؒ شامل ہیں۔ اعظم خان جو خود بھی وردی والے تھے لیکن پاکستان کے ساتھ بہت محبت رکھتے تھے۔گورنر ہونے کے باوجود خود عوام کا خادم سمجھتے تھے اور عوامی انداز میں عوام میں مقبولیت اختیار کرتے جا رہے تھے چنانچہ ضروری ہو گیا تھا کہ ان کو عوام سے دور ہی نہیں بہت دور کر دیا جائے سو ایسا ہی کیا گیا اور ان کو عہدے سے سبکدوش کر دیا گیا۔

محترمہ فاطمہ جناح کی شخصیت تو تھی ہی بہت بلند۔ ایسی شخصیات تو حکمرانوں کیلئے ہوتی ہی خطرہ ہیں لہٰذا ضروری تھا کہ ان کے نام و نمود کو خاک میں ملایا جائے لہٰذا ان پر بھارتی ایجنٹ کا الزام لگادیا گیا اور عوام سے دور رکھنے کیلئے ان کی تحریر، تقریر اور تصویر تک پر تا قیامت بابندی لگادی گئی۔

حالات نے ایسی کروٹ اختیار کی کہ ایک نہیں دو دو عوامی رہنما پیدا ہوئے۔ شیخ مجیب نے اس وقت کے مشرقی پاکستان میں مقبولیت کے جھنڈے گاڑے تو بھٹو نے اس وقت کے مغربی پاکستان میں اپنے جھنڈے گاڑے۔ اسٹبلشمنٹ خوب آگاہ تھی کہ مجیب کے حوالے اقتدار کرنے کا مطلب خود اس کی موت ہے جبکہ بھٹو کو اقتدار دینے میں بچت کے کافی امکانات ہیں۔ مجیب کی جیت کو دبانے کیلئے پاکستان کی بہترین فوج کو استعمال کیا گیا جس نے مشرقی پاکستان میں موجود اقلیت (بہاریوں) کو اپنے ساتھ ملاکر عوامی طاقت کو دبانے کی کوشش کی لیکن اس کوشش میں بہاریوں، ہمدرد پاکستانیوں، افواج پاکستان اور خود پاکستان کو بہت بڑا صدمہ اٹھانا پڑا اور پاکستان دو لخت ہو گیا۔ اسٹبلشمنٹ خود اتنے ضعف کا شکار ہوئی کہ ایک سولین (بھٹو) کو ایڈمنسٹریٹیو اختیارات سونپنے پڑے۔ شیخ مجیب جس کو عوامی لیڈر کی حیثیت حاصل ہو چکی تھی اس سے نجات کیلئے ملک کا دولخت ہوجانا تو گوارہ کر ہی لیا تھا لیکن مغربی پاکستان میں بھٹو کا یکہ و تنہا لیڈر بن کر ابھرنا بھی کسی کو کیسے گوارہ ہو سکتا تھا۔ جن حالات میں بھٹو کو تخت نشینی ملی ان کو دیکھتے ہوئے کوئی اس بات کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ پاکستان ری اسٹبلشڈ ہو جائے گا لیکن پاکستان نہ صرف پوری دنیا میں پاکستان کہلا یا بلکہ اس مختصر عرصہ میں پاکستان میں آگے پیچھے دو آئین بنائے گئے۔ ایک عبوری اور دوسرا مستقل۔ آئین کا بن جانا ہر ادارے کو اپنی اپنی سرحدوں میں محدود کر دیتا ہے۔ ایک جانب آئینی جکڑ بندیاں اور دوسری جانب ایک پاکستانی کا پاکستان کےعوامی رہنما کے طور پر ابھرنا اور چھاجانا کوئی ایسی گولی نہیں تھی جس کو آسانی کے ساتھ نگلا جا سکتا تھا لہٰزا ضروری تھا کہ راہ کے اس کانٹے کو جس حد تک ممکن ہو سکے ہٹایا جائے۔ شاید اس بات کو خود بھٹو صاحب کو بہت ادراک تھا لہٰذا انھوں نے بھی افواج پاکستان کو محدود کرنے کیلئے “ایف ایس ایف” کی بنیاد رکھی جس کا مقصد ملک کے اندرونی انتظامات کو سنبھالنا تھا اور فوج کو سرحدوں کی محافظت کیلئے مخصوص کر دینا تھا۔ یہ بات اچھی تھی یا خراب اس سے قطع نظر، اس بات کو افواج پاکستان گوارہ نہ کر سکیں۔ پہلے تو کوشش کی گئی کہ تمام حکومت مخالف جماعتوں کو جمع کرکے اس کا سیاسی میدان میں مقابلہ کیا جائے لیکن اس میں ناکامی کے بعد مارشل لا کا نفاذ بہر صورت لازمی قرار پایا۔ بات یہاں پر ہی ختم ہوجاتی تب بھی اسٹبلشمنٹ کو آنے والے دور میں بہت خوفناک حالات کو سامنا کر نا پڑتا۔ اس لئے اس بات کی یقینی بنایا گیا کہ پاکستان ہی کے نہیں، مسلم دنیا کے ایک مقبول لیڈر کو اپنی راہوں سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ہٹا دیا جائے۔ کیوں کی بھٹو کی مقبولیت بہت ہی اعلیٰ تھی اس لئے اس کا زندہ رہ جانا نہ جانے کن کن کی موت کا سبب بنتا اس لیئے اسکو اپنی راہ سے ہٹا ہی دیا گیا۔ اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 11 سالہ دور کے بعد جو الیکشن ہوئے اس میں جیتنے والی پارٹی بھٹو ہی کی تھی۔ عوام نے اس کی بیٹی کو اقتدار کی سب سے بڑی کرسی تک پہنچایا۔ جس کی بیٹی کو عوام میں اتنی پزیرائی ملی اگر وہ خود زندہ ہوتا تو پھر کیا حال ہوتا؟۔

اس الیکشن سے قبل بھی پاکستان میں مارشل لائی دور میں ایک جھوٹا سچا الیکشن کرایا گیا اور ضیا نے از خود اپنی پسند کے مطابق ملک کا ایک وزیر اعظم چنا۔ محمد خان جونیجو نے اقتدار سنبھالتے ہی عوامی سطح کے کام زور شور سے شروع کر دیئے۔ دنیا جانتی تھی کہ یہ ایک ڈمی وزیر اعظم ہے لیکن عوام میں بڑھتی ہوئی مقبولیت مقتدر اعلیٰ کیلئے خطرے کی گھنٹی بجانے لگی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وزیر اعظم، ان کی کیبنیٹ اور اسمبلیاں، سب ایک ساتھ ملیا میٹ کر دی گئیں۔ اس مرتبہ تاریخ میں پہلی بار ایک حکومت نے اپنے ہاتھوں بنائی گئی حکومت پر “کرپشن” کا الزام لگایا جس کی تصدیق آج تک نہیں ہو سکی۔ اس الزام کا سلسلہ تادم تحریر جاری ہے اور اب اس قسم کے الزامات چھوت کی بیماری کی مانند پورے پاکستان میں پھیل چکے ہیں۔

جنرل ضیا الحق ایک فضائی حادثے کا شکار ہوئے لیکن مارشل لا کا تسلسل جاری رہا۔

الیکشن کے نتائج کے سلسلے میں بینظیر کا آجانا بھی خطرے کی ایک گھنٹی ہی تھا۔ اس لئے فارغ کیا جانا بنتا تھا سو ایسا ہی ہوا، نواز شریف کے ساتھ بھی یہی معاملہ تھا لہٰذا اگر دیکھا جائے تو جو جو بڑاخطرہ بن سکتے تھے اور عوام میں اپنا مقام بنا سکتے تھے وہ کسی نہ کسی صورت میں فارغ کئے جاتے رہے۔ اگر غور کیا جائے تو نواز شریف اور بینظیر میں سب سے زیادہ خطرناک (اسٹبلشمنٹ کی نظر میں) عوامی لیڈر بینظیر یا پھر بھٹو فیمیلی والے ہی ہو سکتے تھے۔ چنانچہ بینظیر سے پہلے میر مرتضیٰ بھٹو کا مرڈر ہوا اور اس کے بعد بے پناہ عوامی پزیرائی حاصل کرتی شخصیت بے نظیر کو بھی راہ سے ہٹا دیا گیا۔

نواز شریف کی پارٹی کے متعلق یہ خیال کیا جاتا تھا کہ جس پارٹی کو ایک منظور وٹو توڑ سکتا ہو اس سے کیا ڈرنا اس لئے ابھی تک نواز شریف محفوظ ہیں۔ خیال تھا کہ اگر نواز شریف کو نااہل قرار دیدیا جائے تو پارٹی حسب سابق بکھر جائے گی لیکن یہ اندازہ غلط ثابت ہوا اور لگتا ہے کہ پارٹی اب واقعی سیاسی پارٹی بنتی جا رہی ہے اور عوام اب اپنی پارٹی کے کھمبے تک کو ووٹ ڈالنے کیلئے تیار ہیں جس کی حالیہ مثال جہانگیر ترین کی نشست پر ہونے والے الیکشن کے نتائج ہیں جس پر ایک ایسا فرد جیت گیا جس کو لوگ جانتے تک نہیں تھے۔ نواز شریف کیونکہ عوامی لیڈر کے طور پر ابھرتے جا رہے ہیں اور تمام سیاسی رہنماؤں میں فی الحال وہ یکہ و تنہا ہیں اس لئے ان کیلئے زندگی کی دعا ہی کی جا سکتی ہے۔

پاکستان کی اسٹبلشمنٹ ہو یا خود پاکستان کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں، کسی کا بھی مزاج معاشرے سے مختلف نہیں۔ ہرسیاسی و مذہبی پارٹی کی سوچ کا معیار ایک ہی ہے۔ کوئی پارٹی کسی کے عروج کو برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں اور جس طرح ممکن ہو وہ اقتدار تک پہنچ جانے والی پارٹی کو ہٹانے کیلئے ہر وہ قدم اٹھانے کیلئے تیار و آمادہ رہتی ہے جس کا جمہوری روایات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ چنانچہ اس کی سب سے بڑی مثال الطاف حسین ہیں جو ممکن ہے کہ سارے سیاسی چوہدریوں، ملکوں، وڈیروں، سرداروں اور خانوں کی لٹیا ہی ڈبو کر رکھ دیتے۔ ہنڈا ففٹی سے سیاسی جد و جہد کا ۤغاز کرنے والے ایک “غریب” فرد نے سب کیلئے گھنٹی بجادی تھی اس لئے اسی برق رفتاری سے اس کا تیاپانچہ بھی ضروری تھا۔ ابھی کراچی میں قدم گڑے ہی تھے کہ پاکستان کے ہر شہر میں دھوم مچ گئی۔ یہ مدح سرائی نہیں ہے۔ غور کریں کہ ملک کی ہر چھوٹی بڑی پارٹی کے لیڈر نے 90 زیرو کی چوکھٹ پکڑلی۔ نتائج کے فوراً بعد ایک عظیم الشان جلسہ کراچی میں ہوا جس کی نظیر ملتی ہی نہیں۔ اسی قسم کے پانچ جلسے اور بھی ہونے تھے لیکن لیاقت باغ کے جلسے کے بعد پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے سیاسی رہنما اور پارٹی کو اپنے مستقبل کی فکر لاحق ہو گئی۔ لیاقت باغ کی تقریر الطاف حسین کی سیاسی موت بن گئی اور اس کی باز گشت انگلیڈ اور امریکہ تک میں گونجنے لگی۔ عالم یہ ہوا کہ الطاف حسین کی تقریر کے بعد لیاقت باغ خالی ہو گیا اور نواز شریف کو اپنی تقریر چھٹتے ہوئے ہجوم کو دیکھتے ہوئے بہت ہی مختصر کرنی پڑ گئی۔ تقریر جاری رکھنے کی صورت میں ممکن تھا کہ انھیں خالی میدان سے ہی خطاب کرنا پڑتا۔

اب مجھے کوئی یہ بتائے کہ ہنڈا ففٹی پر بیٹھ کر الطاف حسین کے ساتھ جناح گراؤنڈ تک جانے والے نواز شریف کو الطاف حسین میں کوئی خرابی نظر نہیں آئی، مزار قائد پر ہونے والا تاریخ ساز جلسہ بھی پاکستانیوں کا لگا لیکن پنڈی میں جلسے کے بعد اچانک یہ بات کیسے علم میں آئی کہ الطاف حسین اور اس کی پارٹی “را” کی ایجنٹ ہے؟۔

اسٹبلشمنٹ والوں کو بھی مڈل کلاس والے کب اچھے لگے ہیں اور خاص طور سے اہل کراچی تو پاکستان بننے کے فوراً بعد ہی “بھارتی ایجنٹ” کے طور پر پورے ملک کو سمجھائے جانے لگے تھے تو اس عالم میں الطاف حسین کس طرح برداشت کر لئے جاتے۔

میں نے اپنی اس تحریر میں جس بات کو مرکزی حیثیت دی ہے وہ یہ دی ہے کہ اسٹبلشمنٹ کو “عوامی” لیڈر کسی طور گوارا نہیں۔ اس بات کو پیش نظر رکھ کر میں نے ان تمام ابھرنے والے رہنماؤں کا ذکر کیا جن کے پیچھے عوام کا ایک سیلاب ہے اور سیلاب تھا اور قوم نے ان کا حشر اپنی آنکھوں سے دیکھ بھی لیا اور ابھی کہانی جاری بھی ہے۔ یہاں میں ایک بات کی اور وضاحت کرنا چاہوں گا تاکہ اپنے مؤقف کو مزید واضح کر سکوں۔

جہاں اسٹبلشمنٹ کسی بھی لیڈر کو سر اٹھا کر چلنے دینے کو قطعاً تیار نہیں وہاں اس کی پوری کوشش یہ بھی ہے کہ پارٹیاں قائم و دائم رہیں البتہ ان کی جو بھی لیڈر شپ ہو وہ ان کی مرہون منت ہو اور ان کی خواہشات کے مطابق ملک چلائیں۔ کیا کسی نے اس بات کو محسوس نہیں کیا کہ جب بینظیر موجود تھیں اور حالات اس قسم کے تھے کہ وہ ملک سے باہر رہنے پر مجبور ہوں تو اسٹبلشمنٹ کی یہ پوری کوشش تھی کہ امین فہیم پارٹی کے لیڈر بن جائیں۔ نواز شریف کی غیر موجود گی میں بھی یہی کوشش رہی کہ شہباز شریف یا مخدوم جاوید ہاشمی مسلم لیگ کی قیادت سنبھال لیں۔ یہی کوششیں ایم کی ایم کی قیادت کیلئے بھی رہیں۔ ساری پارٹیاں اپنی اپنی جگہ رہیں لیکن اس شرط پر کہ اپنی اپنی قیادت کو مائینس کردیں۔ “مائینس ون” کی اصطلاح کہاں سے نکلی اور کس نے نکالی؟۔ یہ فرمائش اس وقت تک کی جاتی رہتی ہے جب تک پارٹی اس حد تک کمزور نہ ہوجائے کہ اس سے کسی بھی قسم کی واضح جیت کی توقع ختم ہو جائے۔ چنانچہ لوگ دیکھ سکتے ہیں کہ پارٹیاں اپنی اپنی جگہ موجود ہیں لیکن مائینس در مائینس ہونے کے بعد۔ اور اگر مائینس کے بغیر کچھ پارٹیاں موجود ہیں تو وہ صرف اس لئے موجود ہیں کہ ان کی مدد سے ان پارٹیوں کو توڑا جائے جو کہنے پر چلنے کیلئے تیار نہیں۔

نواز شریف جوں جوں اپنے مؤقف پر ڈٹ کر آگے بڑھتے جارہے ہیں توں توں مشکلات میں گھرتے جا رہے ہیں۔ دیکھا جائے تو نواز شریف سیاست کے میدان سے اس حوالے سے باہر ہو چکے ہیں کہ اب ان کیلئے کوئی آس امید نہیں کہ وہ اسمبلیوں کا حصہ بن سکیں لیکن ان کی پارٹی وابستگی اور عام لوگوں میں ان کی مقبولیت پارٹی کو بہت طاقتور بنارہی ہے اس لئے کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ آنے والے دنوں میں ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔

وہ پارٹیاں جن پر بظاہر اسٹبلشمنٹ کا کوئی دباؤ نہیں، وہ بھی اس بات کو سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ بھی کیا کچھ ہو سکتا ہے۔ آصف زرداری یا باالفاظ دیگر پی پی پی کو بڑی چھوٹ ملی ہوئی ہے لیکن وہ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ “اینٹ سے اینٹ” بجانے کی دھمکی کے بعد اگر وہ پورے پاکستان میں دندناتے پھر رہیں تو اس کے پس پردہ کیا کہانی ہے۔ اسی طرح عمران خان خوب اچھی طرح واقف ہونگے کہ اگر وہ نااہل ہونے سے بچ گئے ہیں تو ایسا کس کی خواہش ہے اور یہ بات بھی بخوبی جانتے ہونگے کہ اگر وہ مسند اقتدار پر متمکن ہونے میں کامیاب ہوبھی جائیں گے تب بھی ان کے ساتھ اسٹبلشمنٹ کا رویہ کیا ہو سکتا ہے۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں