کیا قوم کو جینے کا مقصد مل گیا ؟

پاکستان کی عوام پچھلے ستر سالوں سے آزمائشوں کی چکی میں پستی ہی چلی جا رہی ہے اور ان آزمائشوں میں عوام نے خود کو الجھا کر رکھا ہوا ہے۔ظاہر سی بات ہے جب پریشانی ہوگی تو ذہن کو کچھ سمجھنے کا موقع کہاں مل پائے گا۔ دوسری طرف ذہنی سکون فراہم کرنے کے مختلف وعدے کرنے والے ہمارے سیاستدان جن میں کسی نے روٹی ، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا کر عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچایا، کسی نے وڈیرہ شاہی اور جاگیر دارانہ نظام سے نجات دلانے کی باتیں کر کے بہلایا ، کسی نے اللہ کے نظام کے نفاذ کا یقین دلا کر اپنے پیچھے چلنے کی دعوت عام کی، کبھی لسانیت کا بیج بویا گیا، کبھی پانی و غذائی تقسیم پر سیاست کی گئی اور کبھی انسانی زندگیوں کو بھی اس اقتدار کے کھیل کی بھینٹ چڑھایا گیا۔ ہر طرح سے پسائی عوام کی ہوئی۔نا ہی خدا ملا اور نا ہی وصال صنم۔
کبھی بھی ایسا نہیں ہو سکا کہ ہمارے سیاستدان صرف اور صرف ایک نکاتی منشور بناتے اور اس پر عمل کرتے ہوئے عوام کے مسائل حل کرتے چلے جاتے جو کہ ایک بہت ہی سادہ اور سیدھاسا منشور ہوسکتا ہے کہ ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے اور عوام کوزندگی کی بنیادی ضروریات کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے۔
آخر ایسی کیا اہم بات ہے جسے سمجھانے کیلئے پاکستان میں سیاسی و مذہبی جماعتوں کی اسقدر بہتات ہے (دوسری طرف لوگوں کوکچھ بھی سمجھنے کی کوئی جستجو نہیں ہے)، الیکشن کمیشن پاکستان کی ویب سائٹ پر موجود جماعتوں کی کل تعداد ایک سو سات (۱۰۷) ہے۔ جس ملک کا سرکاری مذہب آئین میں تحریر ہے بلکہ نام کا حصہ ہے ، جس ملک کی سرکاری زبان آئین نے واضح کر رکھی ہے (گوکہ تحفظات کی وجہ سے غیر فعال ہے)، وہ تمام امور جو کسی ریاست کی بنیادی اکائی ہوتے ہیں پاکستان کے لکھے ہوئے آئین کا حصہ ہیں ۔اس بات سے صرف پاکستانی ہی نہیں بلکہ ساری دنیا واقف ہے کہ پاکستان اسلامی اقدار کی پاسداری اور عملداری کیلئے وجود میں آیا۔اس بات کوبھی ہمیشہ مدنظر رکھا گیا کہ اقلیتوں کے حقوق کی ناصرف ضمانت ہے بلکہ بھرپور حفاظت کی ذمہ داری بھی لی گئی ۔ اب جب یہ تمام بنیادی معاملات اتنے احسن طریقے سے طے پاچکے ہیں تو کونسے ایسے مسائل ہیں جن کیلئے ملک میں ایک سو سات سیاسی و مذہبی جماعتیں کام کررہی ہیں اور اس سے کہیں زیادہ سماجی و فلائی تنظیمیں کام کررہی ہیں۔
اس بات سے کسی کو اختلاف نہیں ہوسکتا کہ جاہل مقدار کی بات کرتا ہے اور علم والے میعار پر یقین رکھتے ہیں۔ ایک عام سا تجربہ ہے کہ جاہل اور کم علم رکھنے والے مقدار کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ انہیں کوئی بھی چیز زیادہ دیکھائی دینی چاہئے اسکے برعکس علم والے میعار کی بنیاد پر فیصلہ کرنا پسند کرتے ہیں اور چیز مہنگی لے لیتے ہیں لیکن میعار پر سمجھوتا نہیں کرتے ۔ بہت ہی سادہ سے طریقے سے اور عملی طور پر برتے ہوئے طریقے سے یہ بات سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اسلام نے جس طرز حکومت کو پسند کیا ہے اس میں معیار کی بنیاد پر اقتدار و اختیارات دئیے جاتے ہیں جبکہ ہمارے ملک میں رائج نظام حکومت جس کوعوام کی حکومت بھی کہا جاتا ہے صرف اور صرف مقدار پر بھروسہ کرتا ہے (اور عوام کو عوام کے ہاتھوں ہی پیسوانے میں مشغول رہتی ہے)۔ ساری سیاسی و مذہبی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ہر انتخابات کے بعد یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ انتخابات شفاف نہیں ہوئے اور پھر اگلے انتخابات تک یہی رونا گانا چلتا رہتاہے۔ ماضی میں یہ رونا گانا جب بہت شدید ہوجاتا تھا تو ہماری عسکری قیادت کو ملک کی باگ دوڑ سنبھالنا پڑتی اور یہ اسی طرح سے عسکری و جمہوری حکومتیں ملک کی باگ دوڑتھامے ملک کو بے دردی سے کھینچتی رہیں اور ملک ہلکان ہوتا جیسے تیسے چلتا رہا۔
وقت کے گزرنے سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ چیزوں میں بہتری آئے گی اور لوگوں میں احساس ذمہ داری کا بڑھ جانا ایک فطری عمل سمجھا جاتا ہے ۔ بدقسمتی سے بطور قوم ہم ان دونوں معاملات میں کسی قسم کی پیش رفت نہیں کرسکے ، بغیر لفظوں کی جھرمٹ لگائے یہ لکھ دینا کافی ہے کہ ہم بے حس ہوتے چلے جا رہے ہیں اور اس کا سہرا سرا سر ہمارے سیاستدانوں کے سر پر سجتا ہے لیکن سہرا سجاتا کون ہے۔
تھوڑی سی نظر ملائشیاء پر ڈال لیجئے ، ایشن ٹائیگر بنانے والے مہاتیر محمد نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی مگر ملک میں بدعنوان حکمران سے نمٹنے کیلئے پھر میدان عمل میں پھر چھلانگ لگا دی اور ملائشیاء کی عوام نے ان کی جماعت کو ووٹ کیساتھ ساتھ دلی طور پر سیاست میں واپسی پر والہانہ خوش آمدید کہا ہے۔لیڈر مہاتیر محمد جیسے ہوتے ہیں کہ جب کھڑے ہوجائیں جہاں کھڑے ہوجائیں لوگوں کا مجمع لگ جاتا ہے۔ اس بات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بدعنوان حکمرانوں کی صورت میں ملک کی عوام کو سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور عوام سے محبت کرنے والے لیڈر کبھی بھی عوام کو مشکلات میں ڈوبتا نہیں دیکھ سکتے اور وہ مہاتیر محمد کی طرح عمر اور صحت کی پروا کئے بغیر میدان عمل میں کود پڑتے ہیں۔
پاکستانی سیاستدان سڑکو ں پر سڑکیں بنا رہے ہیں، ہوائی اڈے بنا رہے ہیں ہر اس چیز پر دھیان دیا جا رہا ہے جس کا تعلق ملک کے امراء سے ہوتا ہے ۔ عوام کی بنیادی ضروریات پر کسی نے دھیان نہیں دیا جسکی وجہ سے حالات خراب سے خراب تر ہوتے چلے گئے ہیں اورآج تو پینے کیلئے پانی میسر نہیں ہے، بجلی ، گیس ، علاج معالجے کی بنیادی سہولیات کا کچھ پتہ نہیں ہے۔ بچے کہاں جنم لے رہے ہیں اور کہاں عورتیں دم توڑ رہی ہیں۔ اس کے برعکس ہمارے حکمران اپنے علاج معالجے سے لیکر پینے کا پانی تک غیر ملکی استعمال کرتے رہے ہیں۔ موجودہ چیف جسٹس محترم جناب ثاقب نثار صاحب نے عدالتی نظام کے زنگ آلود پہیہ کو چلانے کی کوشش کی ہے اور اس میں بہتری لانے کیساتھ ہی بدعنوانوں کو قانون کیمطابق انکے کئے کی سزا دینے کا بیڑا اٹھایا ہے اور اپنے پیشے سے وابستہ تمام لوگوں سے استدعا کی ہے کہ اپنی یعنی کالے کوٹ ، ترازو اور عبادت گاہوں کے بعد سب سے معتبر جگہوں (عدالتوں) کی عزت بحال کرانے کا اس سے بہتر موقع شائد پھر میسر نا آسکے۔ حقیقی معنوں میں آج ملک کے تمام ادارے اگر چاہیں تو اپنی ترقی کی راہیں چن سکتے ہیں اور ان پر چلنا شروع کرسکتے ہیں۔ اب کسی کو خلل ڈالنے کی جرات نہیں ہوگی۔
انصاف کی بحالی کا عمل شروع ہوتا دیکھائی دے رہا ہے جو معاشرے میں ایک ایسا احساس بیدار کر رہا ہے کہ جس کی بدولت لوگوں میں زندگی کی رمق محسوس کی جارہی ہے۔ پاکستان کی عوام کو جیسے جینے کا مقصد دیکھائی دینے لگا ہے۔ اگر ہم سب اپنا تھوڑا تھوڑا حصہ ڈال دیں اور آنے والے انتخابات میں بدعنوانوں کو عبرت ناک شکست کا مزا چکھا دیں تو کوئی ہمیں ایشین ٹائیگر تو کیا سپر پاور بننے سے نہیں روک پائے گا، بس ہمیں اپنی صفوں میں سے کالی بھیڑوں کو باہر نکالنا ہوگا ۔صبح و شام کی چکی میں پستی اس قوم کو اب لگتا ہے کہ جینے کا کوئی مقصد مل گیا ہے جسے پچھلے ستر ۷۰ سالوں سے ڈھونڈ رہے تھے۔

حصہ
mm
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔

جواب چھوڑ دیں