اقوام کی تعمیر افراد کے ہاتھوں ہی انجام پاتی ہے۔جب افراد تساہل ،تن آسانی اور بے فکری کے خوگر ہوجائیں وہیں سے قوموں کے زوال کا آغاز ہونے لگتا ہے۔ یہ فطرت کا ایک غیر متبدل قانو ن ہے کہ انسان اپنی ایک طبعی عمرکے بعد دنیا سے کوچ کرجاتا ہے۔ اسی طرح قومیں بھی افراد کی کوتاہیوں کی وجہ سے اپنی تمام حشر سامانیوں، فتح و کامرانی اور شکست و ریخت کے بعد زوال پذیرہوجاتی ہیں ۔ موت کے بعد انسان کے عروج و زوال اور شوکت و عظمت کا بھی خاتمہ ہوجاتا ہے۔ مابعدموت انسان کے لئے دنیاکی زندگی کا تصورر بھی محال ہے۔لیکن قوموں کی زندگی اس کلیہ سے مستشنیٰ ہوتی ہے۔ کسی بھی قوم سے وابستہ افراد اپنی سعی و جستجوسے قوم کے مردہ جسم میں روح پھونک سکتے ہیں۔ قوم افراد تیار نہیں کرتی بلکہ افراد کے ہاتھوں قوم کی تعمیر ہوتی ہے۔ یہ سچ ہے کہ آج تک خالق کائنات نے کسی بھی قوم کوبغیر سعی و جستجو کے عروج و کمال عطا نہیں کیا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اللہ رب العزت نے افراد کو اپنی قوم کے زوال کو کمال میں بدلنے کا ہنر بخشا ہے۔ اگر کسی قوم کے افراد باشعور ہوں تو وہ قوم بھی زندہ و باشعور تصور کی جاتی ہے۔ قوموں کا عروج و زوال اس کے افراد کے علم و شعور سے وابستہ ہوتا ہے۔ قومیں اپنے تمام تر زوال اور شکست و ریخت کے باوجود اوج کمال تک پہنچنے میں کامیاب ہو سکتی ہیں بشر طیکہ ہر شخص قوم کی تعمیر میں اپنا گرانقدر کردار انجام دے۔اقبالؒ فرماتے ہیں
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر ہر فرد ہے ملّت کے مقدر کا ستارہ
قوم کی تعمیر کے لئے فرد کی تعمیرضروری ہے۔تاریخ کا مطالعہ جہاں مسلمانوں کو فخر و تسکین کے سامان فراہم کرتا ہے وہیں مسلمانوں کی ناکامی ،نامرادی کی المناک داستانیں بیان کرتے ہوئے ان کے اعصاب پر محرومی اورناامید ی کی ایک گہری چادر بھی تان دیتا ہے۔تاریخ کے مطالعے سے کشید کردہ سامان فخرو تسکین اور احساس ذلت و ناامیدی قوم کے زوال کو کمال میں نہیں بدل سکتا، بلکہ قوت احتساب ہی ایک ایسانسخہ کیمیا ہے جو قوم کو پھر سے مسند عروج و کمال پر بحال کرسکتا ہے۔اس مضمون میں ملت کے عروج و زوال میں کارفرما عناصر بالخصوص علمی وسائنسی انحطاط کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے جوقوم کی عظمت رفتہ کی بحالی میں معاون ثابت ہوگی۔
کسی بھی قوم کی ترقی و تنرل میں اس کے نظریہ علم کوکلیدی حیثیت حاصل رہتی ہے۔ دنیا کے مذاہب میں اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس نے علم کو ایک تحریک کی شکل میں عام کیا۔خدا ئے برتر کی عظمت جلال وجبروت کا احساس انسان کو علم کے ذریعے ہی حاصل ہوتا ہے۔اسلام خالصتاً ایک علمی مذہب ہے ۔اسلام اور جہالت دو متضاد کیفیت کے نام ہیں جو کبھی یکجا نہیں ہوسکتے ۔ اسلام نے دنیا کو ساکت و جامد نظریہ علم کے بجائے مرورزمانہ کے ساتھ معاشرے سے مطابقت و ہم آہنگ کرنے والا نظریہ علم عطاکیاجوذہنی جمود کو توڑکر کشادگی اور جدت نگاہ فراہم کرتا ہے۔قرآن علم وحکمت کا منبع ہے اور ایک مکمل دستور حیات بھی(یعنی نصاب زندگی بھی)۔اسلام کی تعلیمات نہایت سادہ اور عام فہم ہے جس کی بنیاد ہی علم وعمل پر استوار ہوتی ہے۔کسی بھی معاشرے کی تبدیلی ،ترقی اور انصاف کے قیام میں علم و عمل ہی کا بنیادی کردار ہوتا ہے۔ جذبہ عمل ہی انسان کو جد و جہد ،عمل و حرکت ،اخذو اکتساب تحقیق،تدبر ،تفکر،اور تخلیق پر مائل کرتا ہے۔اسلام نے معاشرتی ترقی کے دروازے ہمیشہ وا رکھے ۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ متابعین اسلام نے جب تک اس اصول سے انحراف نہیں کیا وہ علم و عظمت کی بلندیوں پر فائز رہے۔
اسلام کے مطابق انسان کی زندگی ایک امتحان اور دنیا کی حیثیت ایک امتحان گاہ کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس جہانِ فانی میں تمام انسانوں کو( خواہ وہ حاملین توحید و رسالت ہوں یاکفار،ملحدو بے دین ) سب کو یکساں اسباب فراہم کئے ہیں کیونکہ یکساں اسباب کی فراہمی کے بغیر امتحان بے معنیٰ ہو کر رہ جاتا ہے۔ انسان کاامتحان مطلوب ہونے کی وجہ سے اللہ تعالی نے انسان کو اپنی زندگی اپنی مرضی یا پھرا حکام الہی کیمطابق گزارنے کا اختیار بھی عطاکیا ۔ اسی لئے دنیا کو دارالاسباببنایا گیا۔ جس طرح اخروی کامیابی کے لئے احکامات خداوندی کی پابندی لازمی ہے اسی طرح دنیا وی ترقی کے لئے بھی اللہ تعالیٰنے چند معروضی اصول بنائے ہیں ۔ انسان جب اسلامی اصولوں پر کاربند ہوجاتا ہے تو دنیاوی ترقی کے معروضی اصولوں پر ازخود عمل ہونے لگتا ہے اور وہ اخروی کامیابی کے ساتھ دنیا میں بھی ترقی وعروج پانے لگتا ہے۔ اسلامی تعلیمات سے روگردانی کرنے والا ، کافر جو اللہ کا نافرمان ہوتا ہے لیکن اگر وہ دنیاوی ترقی کے معلنہٰ خدائی معروضی اصولوں پر عمل پیرا ہوتو دنیا میں عروج و کمال حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔لیکن احکامات خداوندی سے روگردانی کی پاداش میں وہ آخرت میں مجر م ٹھہرئے گا۔ قرآن حکیم ،سورہ حج 22،65 اور سورہ لقمان کی 30 اور 31 کی آیات اسی حقیقت کو بیان کرتی ہے کہ انسان کو زمین اور کائنات میں تصرف کا اختیار دیاگیا ہے اور ہرچیز اس کی دسترس میں رکھی گئی ہے۔
مسلمانوں کے عروج کے اسباب
اسلام دراصل دنیا کے لئے اللہ کا منشور ہے۔قرآن سرچشمہ علم ہے۔قرآن دنیا میں اللہ کا آخری پیغام ہے اور یہ کسی بھی تحریف اور تبدیلی سے پاک ہے ۔اللہ نے خود اس کتاب کی حفاظت کا ذمہ لے رکھا ہے۔قرآن اور اسوہ نبوی کو مسلمانوں نے جب حرز جاں بنالیا تو فتح و کامرانی ان کے قدم چومنے لگی۔ قرآن انسانوں کو کارخانہ قدرت میں غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ قرآن انسانوں کو تفکر،تدبر اور تبحر پر مائل کرتا ہے۔اسلامی تعلیمات توہم پرستی ،جعلی سائنس اور جھوٹی روایات پر قائم علم کا ابطال کرتی ہے۔قرآن اور تعلیمات نبویﷺ سے راست فکری وابستگی نے مسلمانوں کو عرو ج و کمال عطا کیا۔علم سے فطری لگاؤ کی وجہ سے مسلمانوں نے خود کو مختلف علوم کے تراجم تک محدود نہیں رکھا بلکہ عمرانی اور فطری علوم میں ایجاد و انکشاف کو رواج دیا۔قرآن اور سنت سے راست ہدایت حاصل کرنے کی وجہ سے مسلمانوں نے علم سے تشکیک اور ابہام کو دور کر دیا۔علم کی جدید کاری کا سہرا بھی اسلام کے سر جاتا ہے۔مسلمانوں نے قرآنی احکامات کے پیش نظر سائنسی انداز فکر کو فروغ دیتے ہوئے غور و فکر پر علم کی بنیادوں کو استوار کیا۔سیرت نبوی مسلمانوں کو تجرباتی اور سائنسی علوم کے حصول میں ہر دم ترغیب فراہم کرتی رہی۔تشکیک،ابہام اور تضادات کے خاتمے اور علوم و فنون کو معاشرتی تقاضوں اور ضروریات سے ہم آہنگ کرنے کے لئے اجتہاد کا راستہ ہمیشہ کھلا رکھا۔قرآنی تعلیم پر عمل پیرا مسلمانوں نے اپنے دور اقبال میں نئے افکار، نظریات اور تجربات سے جدیدسائنسی علوم کی نئی راہیں وا کئیں جن پر چل کر سائنس آج اس منزل تک پہنچی ہے۔اسلام نے کائنات کو ایک معمہ اور مافوق الفطرت شئے بنا کر نہیں پیش کیا بلکہ تعلیم اور تحقیق کا رخ تسخیر کائنات کی طرف موڑدیاتاکہ نئی ایجادات کی راہ ہموار ہوسکے اور تسخیر کائنات کا موثر اور فعال نظام وجود میں لایا جاسکے۔’’کیا تم نے نہیں دیکھاکہ اللہ نے تمہارے لئے آسمانوں اور زمینوں کی تمام چیزوں کو مسخر کردیا ہے۔‘‘)سورہ لقمان آیت نمبر 20 (مسلمان سائنسی اور دیگر علوم کی مسند عروج پر اس وقت تک فائز رہے جب تک ان میں تحقیقی اور تخلیقی اپروچ موجود رہا۔انسانی نشوونما اور مادی وسائل کی ترقی میں قرآن روایتی اور تقلیدی فکر سے منع کرتا ہے۔اسلامی تعلیمات نے اس کے پیرؤں کو مضبوطی سے ایک نظریہ حیات سے وابستہ کرتے ہوئے انسانی وسائل(Human Resources)ترقیاتی وسائل(Developmental Resources)اور مادی وسائل(Material Resources)کو ترقی دے کر انھیں عروج سے ہمکنار کردیا۔مختصر اً آل عمران کی آیت 143’’تمہیں غالب رہوگے ،بشرطیکہ تم (سچ مچ) مومن ہو۔‘‘کی روشنی میں مسلمان جب تک اسلام کے بنیادی اصولوں پر عمل پیرا رہے وہ ترقی کے راستوں پر گامزن رہے ۔مسلمانوں کے عروج کی وجہ آزادانہ سوچ ،غور و فکر تجربہ اور مشاہدہ تھا جس پر انھیں اسلامی تعلیمات نے ابھارا تھا۔اسی علمی نظریہ کے تحت وہ علم اور تحقیق میں دنیا سے بہت آگے نکل گئے اور ان کے قائم کردہ تحقیقی اور علمی معیار کا کوئی قوم صدیوں تک مقابلہ نہ کرسکی۔مسلمانوں کا یہ عروج صرف سائنس و ٹیکنالوجی کے زمرے میں ہی نہیں ہوا بلکہ دینی اور سماجی علوم میں بھی ان کا یہی حال تھا۔اسلام نے تعلیم کو قوم کی طاقت و قوت کا سرچشمہ قرار دیا۔تحقیقی مزاج اور فکر ی حریت جب تک مسلمانو ں میں باقی رہی وہ اوج ثریا تک پہنچ گئے۔لیکن جب حریت فکر پر کاری ضرب لگی اور اجتہاد کا دروازہ انھوں نے اپنے اوپر بند کرلیااور اندھی تقلید پر فخر کرنے لگے تب وہ زوال کے گم نام اور تاریک اندھیروں کی نذر ہوگئے۔مسلمانوں نے جب تک علم کو ایک اکائی کے طور پر مانا اور علوم کو دینی اور دنیو ی خانوں میں نہیں بانٹا کامیابی اور کامرانی ان کے قدم چومتے رہی۔بارہویں صدی عیسوی تک دیگر اقوام پر مسلمانوں کی برتری اور فضیلت کی بنیادی وجہ علم نافع یعنی افادی علوم تھے جن میں سائنس (تجرباتی سائنس) اور فلسفہ پیش پیش تھے۔علماو فقہا کا اسلامی تعلیمات کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کا مثبت رویہ مسلمانوں کے عروج میں اہم مانا گیا۔ مشاہدہ و تجربہ علمی اساس کی جان تھے۔عقلیت اور روشن خیالی کو کلیدی حیثیت حاصل تھی۔قیاس و منطق تضادات کوختم کرنے والے ہتھیار ہوا کرتے تھے۔استقرا،استناج اور استخراج کو نتائج کی تہہ تک پہنچنے کے ذرائع مانا جاتا تھا۔فرقہ پرستی اور نفاق کو علم کا دشمن سمجھا جاتا تھا۔جمودی تقلید شاہراہ علم کی رکاوٹ تصور کی جاتی تھی۔تقدیر پرستی اور بے عملی کے بجائے آزادی عقل و عمل کا مسلک غالب تھا۔یہ ہی علما اور اسکالرس کا مذہب تھا جس کی اندلس،غرناطہ اور بغداد کے علم دوستحکمران سرپرستی کیا کرتے تھے۔
مسلمانوں کے زوال کے اسباب
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ مسلمانوں کا زوال فکری سطح پر اسلامی طرز فکر چھوڑنے اور اسلامی احکامات کو عملی جامہ پہنانے میں سستی برتنے سے ہوا۔مغرب (یورپ ) جب مذہبی جہالتوں میں غرق تھامسلمان علم و دانش کے علمبر دار تھے۔مسلمان یورپ کو غفلت اور جہالت کی گہری نیند سے بیدار کرکے خود خواب غفلت کا شکار ہوگئے۔اہل کلیسا کی طرح مسلمانوں کے اسلامی اذہان کو فرقہ پرستی،نسلی عصبیت ،عقل دشمنی پر مبنی مذہبی تحریکیں لے ڈوبیں۔قومیں جب عقل کی حریف ہوجاتی ہیں تو زوال ان کا مقدر بن جاتا ہے۔عقل کے حریفوں میں عدم برداشت کا رجحان درآنا بھی ایک عام بات ہے۔ڈاکٹر افتخار حسین اپنی کتاب ’’قوموں کی شکست و زوال کے اسباب ‘‘میں رومیوں کے زوال کے متعلق فرماتے ہیں کہ رومی علم کے حصول کے بجائے مارشل آرٹس،فائن آرٹس،شاعری،خطابت ،موسیقی،فن تعمیر اور کھیلوں میں مشغول ہوچکے تھے۔تدریس جیسے اہم پیشے کی ان کے نزدیک کوئی اہمیت اور وقعت نہیں تھی۔معاشرے کے ذہین ترین افراد سول سرونٹس،شاعر ،خطیب ،اداکاراور کھلاڑی بننا پسند کرتے تھے۔درس و تدریس اور تعلیم وتربیت کا کام غلاموں پر چھوڑدیا گیا تھا۔رومیوں میں ایسے ادب اور فنون کا شوق پیدا ہوگیا تھا جن کی بنیاد جذباتیت پر رکھی ہوئی تھی۔روایت پسندی اور ترقی پسندی کے درمیان محاذآرائیاں ایک عام بات تھی۔رومیوں کے زوال کی اور دوایک وجوہات گرانتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان میں رومان پسندی اور ماضی کی عظمت پرستی کا مرض بھی در آگیا تھا۔ڈاکٹر افتخار کی تحقیق کے آئینے میں دیکھا جائے تو مسلمانوں کے زوال کے اسباب بھی کم و بیش یہ ہی معلوم ہوتے ہیں۔
تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ کتنے ہی روشن دماغ ہستیاں اپنے دور کے نام نہاد مذہبی علماکے زیر عتاب رہیں جنھیں بدعتی ،ملحد ،منکر اور کافر کہہ کر ہدف تنقید و ملامت اور تشدد کا نشانہ بنا یاگیا۔منطق،طبیعات،ریاضی اور موسیقی پر دوسوساٹھ سے زیادہ کتابیں تحریر کرنے والے عرب کے مشہور اسکالر الکندی (873-801)کا جینا دوبھر کردیاگیا۔اس عظیم اسکالر کو ضعیفی کی حالت میں بھی سربازار پچاس کوڑوں کی سزادی گئی۔تنگ نظر خلیفہ وقت کے حکم پر اس کا کتب خانہ ضبط کرلیا گیا۔عظیم طبیب،کیمیادان و فلسفی محمد ابن زکریا الرازی(925-854)کو بھی ایک قدامت پرست امیر نے کافر قرار دیا اور اسی کی کتاب سزا کے طور پر اس کے سر پر دی ماری جس کی وجہ سے یہ عظیم اسکالر بینائی سے محروم ہوگیا اور کچھ عرصے بعد فوت ہوگیا۔عالمی شہرت یافتہ سائنس داں طبیب و مفکر بوعلی سینا(1037-980)جو ایک حافظ قرآن بھی تھا کو منکر قرار دیا گیا اور اس کی کتابوں پر پابندی عائد کر دی گئی ۔بوعلی سینا نے وطن مالوف سے فرار ہوکر اپنی جان بچائی۔الفارابی (950-872)کو کافر کہا گیا۔ابن رشد(1198-1126)پر الحاد کا الزام لگا کر اس کی کتابوں کوجلادیا گیا۔علم دشمنی کی یہ روش صرف سائنس دانوں سے روا نہیں رکھی گئی بلکہ مذہبی مشاہیر اور فقہا بھی اس روش کی وجہ سے زیر عتاب رہے ۔حضرت امام اعظم ابو حنیفہ ؒ کو عباسی خلیفہ ابوجعفرمنصور نے قید کردیا اور قید خانے میں ہی آپ کی موت واقع ہوئی۔حضرت امام احمد بن حنبلؒ کو بھی خلق قرآن کے مسئلے پر درے لگائے گئے۔
یورپ کے تاریک عہد میں بھی ہمیں یہی تکلیف دہ صورتحال نظرآتی ہے۔گلیلیو گلیلی(Galileo Galilei 1564-1642)کو نذرزنداں کرنے کا واقعہ جورڈانوبرنو(Giordano Bruno 1548-1600)کو زندہ جلاکر ماردینے کا سانحہ بھی ماضی پرستی اور جہالت کو گلے سے لگائے رہنے کی مثالیں ہیں۔کلیساء کی پرنٹنگ پریس ،سائنسی کتابوں کو ضبط کرنا ایسی رجعت پسندی اور قدامت پرستی تھی جس کی وجہ سے یورپ صدیوں تک جہالت کے گھٹاٹوپ اندھیر ے میں ڈوبا رہا۔یورب کی کامیابی یہ ہے کہ وہ اپنی تمام تر بے علمی اور سنگین غلطیوں کے باوجود جہالت کی ظلمتوں سے نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔سائنسی علوم کوگلے سے لگا کر ان کی تقدیر ہی بدل گئی۔مسلمان جنہوں نے یورپ کو تاریک عہد سے باہر نکالا تھا لیکن آج وحئی ربانی اور اسوہ رسول سے خود کو دور کرکے خود اسی ظلمتوں کی نذر ہوگیا ہے۔مسلمان جو قرآن سے تفکر ،تدبر ،تبحر ،مشاہدہ اور تجربے کا علم پایا کرتا تھاجب قرآن سے دور ہوا تو اس کی عقل پر تالے پڑگئے ،علم کی دولت سے ہاتھ دھوبیٹھا،عروج زوال میں بدلا اور حاکم سے محکوم کی حالت میںآگیا۔
زوال کو عروج میں کیسے بدلیں
علامہ اقبالؒ نے اپنے لیکچر Reconstruction Religion Theory of Islamمیں فرمایا کہ ’’مسلمانوں نے پانچ سو سال سے سوچنا بند کردیا ہے۔‘‘مسلمانوں نے کی فکر کئی صدیوں سے مفلوج اور منجمد ہوچکی ہے۔ یورپ نے چرچ سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے جس طرح ترقی حاصل کی ہے اسی طرح ہمارے بعض ذی العلم روشن خیال اسکالر س بھی مکمل فکری آزادی کی وکالت کرتے نظرآتے ہیں۔یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلمانوں کے زوال کی وجہ سائنس سے دوری ہے جب کہ مغرب میں سائنس علوم کے زوال کا سبب ان کی مذہب سے دوری بنے گا۔ اسی تناظر میں مشہور فلسفی نٹشے کہتا ہے کہ’’ جو تہذیب ماضی میں دیوقامت افراد پیدا کررہی تھی وہ اب بالشتے پیدا کر رہی ہے۔‘‘اخلاقی اقدار سے عاری یہ مادیت کے پرستار استعمار کے ہتھیار سے لیس ہوکر انسانی جذبات کی پاسداری کرنے کے بجائے انھیں نفع اور نقصان کے ترازو میں تول کر اللہ کی زمین کو نمونے جہنم بنانے پر تلے ہیں۔اللہ کا صد شکر ہے کہ مسلمانوں کے پاس ابھی تک اپنے عقائد کی دولت اور اپنا خاندانی نظام محفوظ ہے لیکن یہ نظام اور عقائد ابھی بھی ثقافتی یلغار کی زد میں ہیں۔ہمیں ایسے پر آشوب دور میں اپنے مدارس اور جامعات کو جو اسلامی فکر کے قلعے تصور کئے جاتے ہیں انھیں عصری شعور اور اعلیٰ تحقیقی اسلوب سے لیس کرنا ہوگا۔آج اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ ایسے علوم کے مراکز قائم کئے جائیں جہاں مختلف مہارتوں کے حامل دانشور،سائنس دان جمع ہوں اور عالم اسلام کو فکری رہنمائی فراہم کرے جس کے بغیر ہم اپنے زوال کو عروج میں تبدیل نہیں کرسکتے ۔قرآنی حکمتیں اور چراغ مصطفوی ﷺ ہی تاریکیوں سے نکلنے کی راہ بتائیں گے۔قرآن تفکر،تدبر ،مشاہدے اور تحقیق کی تلقین کرتا ہے اور انسانوں کو حصول علم کی جانب راغب کرتے ہوئے انسانیت کی فلاح و بہبود گئے میں اپنا گرانقدر کردارپیش کرنے کی دعوت دیتا ہے۔قرآن کا یہ بھی ایک اعجاز ہے کہ خالق کائنات نے ترقی اور علوم جدیدہ کی وجہ سے در آنے والی تباہ کاریوں سے حفاظت کے فارمولے اس میں بیان کردیئے ہیں۔اسلام کے عقیدے اور فطرت میں غلبہ موجود ہے اور یہ غلبہ تمام جہان کے لئے سرمایہ رحمت ہے کیونکہ اسلام تما م دنیا کو سلامتی امن و چین فراہم کرنے والا مذہب ہے۔وقت کا اہم تقاضہ ہے کہ جب بھی جدید علوم کی سمت اور قبلہ بدل جائے اس کو درست کرنے کے لئے ہم تنگ نظری اور رجعت پسندی سے کام لینے کے بجائے قرآن سے رجوع کریں اور خداکی پیش کردہ حکمتوں کی روشنی میں اسے درست بنائیں۔اسلام جدید ترقیوں کا مخالف نہیں ہے۔سیرت رسولﷺ کے بے شمار پیغامات میں سے ایک پیغام یہ بھی ہے کہ ہر دور اور زمانے کا ایک مزاج ہوتا ہے مسلمان اس دور اور زمانے کیمزاج کو سمجھتے ہوئے مناسب اقدامات کریں کسی بھی شئے سے منفی اور مضر پہلوؤں کو نکال کر اسے مفید اور نافع بنائیں۔یہ اسلامی فکر ہے جسے آج کی دنیا جدید سائنس کہتی ہے۔
تعصب چھوڑ ناداں! دہر کے آئینہ خانے میں
یہ تصویریں ہیں تیری ،جن کو سمجھا ہے برا تونے
اہم بلاگز
۔23 مارچ کا یادگار دن
قوموں کی زندگی میں بعض لمحات بڑے فیصلہ کن ہوتے ہیں جو اپنے نتائج اور اثرات کے اعتبار سے خاصے دور رس اور تاریخ کا دھارا موڑنے کی اہلیت رکھتے ہیں، 23 مارچ کا یادگار دن ہماری قوم کیلئے بڑی اہمیت کا حامل ہے اسکی ایک تاریخی حیثیت ہے کہ سنہ 1940ء میں لاہور کے تاریخی شہر میں برصغیر کے تمام مسلمانوں کے نمائندوں نے قائد اعظم کی زیر صدارت ایک تاریخی اجتماع میں حصول پاکستان کی قرار داد منظور کی تھی۔ تا کہ برصغیر کے مسلمانوں کیلئے مسلم قومیت کی بنیاد پر ایک آزاد ملک حاصل کیا جا سکے۔ جس پر نہ غیر ملکی استعمار کے تاریک سائے پڑیں اور نہ ہی ہندو اکثریت اور چیرہ دستیاں مسلمانوں کے ارفع مقاصد کی راہ میں حائل ہونے پائیں۔ مسلمانان برصغیر اپنے لئے ایک الگ وطن اسی لئے چاہتے تھے جہاں قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں وہ ایک مثال اسلامی معاشرہ تشکیل دیں جہاں اسلامی عدل و انصاف کا دور دورہ ہوا اور جو عصر حاضر میں سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت کی قوتوں سے پسی ہوئی انسانیت کیلئے مشعل راہ ثابت ہو۔ اس عظیم مقصد کے لئے 23مارچ 1940ء کولاہور میں بادشاہی مسجد کے قریب ایک وسیع و عریض میدان میں لاکھوں مسلمان اکٹھے ہوئے اور بنگال کے وزیر اعلیٰ مولوی فضل حق نے ایک قرار داد پیش کی جس کی تائید تمام مسلمانوں نے دل و جان سے کر دی جس سے ان کی قسمت کا پانسہ پلٹ گیا۔ اس دن لاہور میں مسلمانان ہند نے اپنی منزل کا اعلان کیا تھا اور دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ ہم ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے آزاد خطوں کی جدوجہد کا اعلان کرتے ہیں۔
23 مارچ کو قرار داد کی منظوری کے بعد قیام پاکستان کی جدوجہد فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔ قوم کو ایک واضح نصب العین مل چکا تھا اور خوش قسمتی سے قائد اعظمؒ جیسے مدبر قائد میسر تھے جن کی قیادت سحر انگیز اور ولولہ انگیز ہونے کے علاوہ سیاست میں صداقت اور دیانتداری کی علمبردار تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے تک مسلمانان ہند مسلم لیگ کے پرچم تلے متحد ہو چکے تھے۔ 1945ء میں وائسرائے ہند لارڈ ویول نے مسلم لیگ اور مطالبہ پاکستان کی مقبولیت اور دوسری جماعتوں کی طاقت کا اندازہ کرنے کیلئے انتخابات کروائے۔ کانگرس کے ایماء پر بننے والے مسلمانوں کے نام نہاد متحدہ محاذ کی مخالفت کے باوجود مسلم لیگ کو تاریخی فتح حاصل ہوئی اور مسلم لیگ مسلمانان ہند کی نمائندہ جماعت بن کر سامنے آئی اور اس طرح حصول پاکستان کی منزل قریب سے قریب تر ہو گئی۔ اکتوبر 1946 ء میں ایک عبوری حکومت قائم کی گئی جس میں مسلم نمائندگان کی قیادت خان لیاقت علی خان نے کی ادھر حکومتی ایوانوں میں قائد اعظم ؒمسلمانوں کے سیاسی حقوق کے تحفظ اور قیام پاکستان کیلئے سیاسی جنگ لڑ رہے تھے تو دوسری طرف ہندو مسلم فسادات نے پورے ملک کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ ان فسادات میں لاکھوں مسلمان شہید ہوئے۔3 جون کو تقسیم ہند کے...
وہ دانائے سبل ختم الرسل
قارئین کرام یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ختم نبوت مسلمانوں کا قطعی اجماعی عقیدہ ہے، اس پر بیسیوں آیاتِ قرآنیہ اور سیکڑوں احادیث صحیحہ میں دلائل موجود ہیں۔ قرآن مجید میں وارد لفظِ خاتم النبیین میں کسی قسم کی تاویل اور تخصیص کی گنجائش نہیں ہے۔ اس میں تاویل و تخصیص کرنے والا دراصل قرآن و حدیث کی تکذیب کرتا ہے۔
چودہ سو سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود امتِ محمدیہ کا آج بھی اس پر اجماع ہے کہ مدعی نبوت اوراس کے پیروکارخارج از اسلام اور مرتد ہیں۔ تاریخ گواہ ہے جب بھی کسی باغی، طالع آزما یا فتنہ پرداز نے اپنے آپ کونبی کہنے کی جرأت کی، مسلمانوں نے اس کے خلاف بھرپورجہاد کیا۔ ہر مسلمان کا غیر متزلزل عقیدہ اور ایمان یہ ہے کہ حضور سرورِ عالم سیدنا محمدﷺ آخری نبی ہیں۔ حضورﷺ کی تشریف آوری کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ حضور اکرمﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آسکتا اور جو شخص اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور جو بدبخت اس کے اس دعویٰ کو سچا تسلیم کرتا ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد ہے اور اسی سزا کا مستحق ہے جو اللہ تبارک تعالیٰ نے مرتدکے لیے مقررکی ہے۔
بحیثیت مسلمان ازروئے قرآن و حدیث ہمارا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید ان پر نازل فرماکر دین کی تکمیل کردی اور قرآن کو تا قیامت محفوظ بھی کردیا۔ سلسلہ نبوت پر ختم کی مہر بھی لگادی آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی و رسول ہیں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی ہے نہ رسول ہے نہ تھا نہ تا قیامت ہوگا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہےاور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ قرآن مجید میں اس بات کی صراحت مختلف آیات میں ملتی ہے۔ جیسا کہ سورہ احزاب کی چالیسویں آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیا کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔
بہت سی احادیث میں بھی ختم نبوت کی تصدیق موجود ہے۔ حدیث مبارکہ ہے۔ میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک گھر بنایا، اس کو بہت عمدہ اور آراستہ پیراستہ بنایا مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی، پس لوگ جوق درجوق آتے ہیں اور تعجب کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں یہ اینٹ کیوں نہیں لگادی گئی۔ آپ نے فرمایا: وہ اینٹ میں ہوں اور میں انبیاء کرام کا خاتم ہوں۔ اسی مفہوم کی ایک اور حدیث مبارکہ حضرت جابر بن عبداللہ رضى الله تعالى عنه نے بھی روایت کی ہے۔(صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النّبیین...
الوداع نہیں کہتے
بی بی سی جماعت اسلامی کی خبریں عموما نہیں لگاتا۔ لیکن اس نے یہ خبر بہت کم وقت میں دے دی کہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب اپنے امارات عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں۔ہم جانتے ہیں بی بی سی کس کا چینل ہے۔ان کی نیتیں بھی یہ تھیں کہ اس خبر سے جماعت کو کمزور شکست خوردہ سمجھا جائے گا۔یہ خبر بھی سنی کہ حافظ نعیم صاحب نے دھاندلی والی نشست لینے سے انکار کردیا۔جو کہتے تھے کہ سیاستدانوں کا کوئی اخلاق نہیں ہوتا۔ان دیانتدار اور اعلی کردار کے حامل سیاست دانوں کو دیکھیں۔ایک نے ہاتھ آئی سیٹ ٹھکرا دی۔ دوسرے نے پارٹی کی سربراہی چھوڑ کر ثابت کر دیا کہ جماعت اسلامی میں عہدوں کی نہیں بلکہ ویلیوز کی اہمیت ہوتی ہے۔اور بےشک یہ احساسِ ذمہ داری فقط جماعت اسلامی میں پایا جاتا ہے۔
ان دونوں واقعات سے ہوا یہ کہ جماعت اسلامی کی جمہوریت شورائیت اور واضح ہوگئی۔ عوام جماعت اسلامی سے مذید متاثر ہوگئی۔ جی ہاں جماعت اسلامی عوامی مقبولیت حاصل کر چکی ہے۔ہر شعبہ ہائے زندگی کے لوگ اس کی دیانت خدمت کے قائل ہوچکے ہیں۔اس الیکشن کے بعد یہ مغالطہ ختم ہوچکا ہے کہ جماعت کا ووٹ بینک نہیں بنتا جماعت اسلامی کا کم ازکم یہ نتیجہ اس الیکشن میں تھا کہ اسے بلوچستان میں دو سیٹیں کے پی کے میں تین اور سندھ میں پندرہ سے زیادہ ہوتیں اگر زبردستی انتقال ہوئی پارٹی کے نئے جیون کی تیاری نہ ہوتی۔ ووٹ جماعت کو ملا ہے کراچی عوام نے اسے منتخب کیا ہے یہ ہاری نہیں اسے ہروایا ہے۔
یہ استعفی دراصل ہمارے قائد کی اعلی ظرفی ہے۔ انہوں اخلاقی طور سے اچھا کیا۔یہ استعفی ہر اس کارکن پر طمانچہ ہے۔جو سمجھتے ہیں کہ اس میں جماعت کا اس کی قیادت کا کوئی قصور ہے۔ ان سب حالات میں کسی کا کوئی قصور نہیں نہ کارکن کا قصوروار ہے نہ ہی امیر کا قصور ہے۔سمجھنے کی بات ہے کہ جماعت کا مقابلہ وقت کے اصل فرعون سے ہے۔ سیکولر لبرلز ساری طاقتیں مل کر اس کے خلاف ہیں اسلام کے دشمن فرعون نمرود ابو جہل دجالی فتنے آسان ٹاسک کسی بھی دور میں نہیں تھے۔ہمارے دور کے فرعون طاقت میں قدیم فرعون سے کہیں آگے ہیں۔الیکٹرانک میڈیا جماعت کو نہیں دکھاتا۔پرنٹ میڈیا جماعت پسند اسلام پسند تحریر نہیں چھاپتا۔عوام اگر قبولتی ہے اصل نتائج نہیں دیے جاتے۔قیادت کا کیا قصور وہ کیا اپنی جان مار دیں۔اس الیکشن کو آپ صلح حدیبیہ سے جوڑ لیں یقین کریں جماعت کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔جس عوام نے جماعت کو ووٹ دیا وہ اس کی شکست پر حیران ہے۔ جان چکی ہے کہ دینی جماعتوں میں خطرہ صرف جماعت اسلامی ہے۔عوام نے کبھی کسی موروثی مذہبی لیڈر یا پیر کو یوں اپنے عہدوں سے مستعفی ہوتے نہیں دیکھا۔جماعت اسلامی عوام کے لیے حل ہے تو باطل نظام کے لیے روک ہی روک ہے۔
یہ جماعت اسلامی کے لیڈر کی اعلی قیادت ہے۔جس میں حافظ نعیم الرحمن، مشتاق احمد صاحب، اکبر چترالی اور مولانا ہدایت الرحمن جیسے ہیرے پیدا کیے اور چمکنے کے خوب مواقع دیے۔سراج صاحب آپ...
حیا ہی پروانہ خیر
ویمن یونیورسٹی کی بس میں سب سے پہلی سوار ہونے والی حنا امتیاز معمول کے مطابق آج بھی کسی کتاب کی ورق گردانی میں گم تھی اس لیے اسے اپنے ارد گرد ہونے والی غیر معمولی ہلچل کا علم ہی نہ ہوا۔
آج کی کتب بینی نے اسے خاصا الجھن میں مبتلا کیا ہوا تھا فرانسیسی انقلاب کے وقت وہاں کی عوام نے قلم کاروں کی جس طرح پیروی کی وہ حیران تھی کہ کیسے کوئی قوم اپنے ہی جیسے انسانوں کے بنائے ہوئے افکار و نظریات کے پیچھے اندھا دھند چل پڑتی ہے چاہے وہ نظریات اخلاق سے کتنے ہی گرے ہوئے کیوں نہ ہوں۔
ڈرائیور کے ہارن کرنے پر اس نے کتاب سے سر اٹھایا تو بس مکمل خالی تھی اس کی ساتھی لیکچرار اور تمام طالبات بس سے پہلے ہی اتر چکی تھیں
یونیورسٹی میں داخل ہوتے ہی اسے اندازہ ہوگیا کہ آج کیا دن ہے؟
کلاس میں داخل ہوکرحنا نے ابتدائی سلام دعا کے بعد طالبات کی طرف معنی خیز مسکراہٹ سے دیکھا
“ پیاری لڑکیو! آج خیر سے آپ میں سے بیشتر لڑکیوں نے سرخ رنگ کے دوپٹے اور بعض نے تو پورا لباس ہی سرخ پہنا ہے”
“جی میم! آج ویلنٹائن ڈے ہے نا” کسی ایک طالبہ نے جواب دیا
تو ساتھ ہی کسی دوسری طالبہ نے مزید وضاحت بھی پیش کردی “میم اب وہ جونا مناسب سا ویلنٹائن سب مناتے ہیں ویسا تو ہم کچھ نہیں کر رہے بس سب نے سوچا کہ ایک تہوار آرہا تو چلومنا لیا جائے تفریح ہو جائے گی”
ہممم۔۔تویہ باقی طالبات آپ کے ساتھ شامل کیوں نہ ہوئیں؟ جی نائلہ آپ کا اس دن کے بارے میں کیا خیال ہے؟ حنا نے ایک طالبہ کو مخاطب کیا جوویلنٹائن ڈے منانے والی لڑکیوں میں شامل نہ تھی۔
میم میرے نزدیک ویلنٹائن اخلاقی لحاظ سے انتہائی نا مناسب تہوار ہے اوراس کا ایجنڈا حیا کے منافی ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ ہے
"جب تم حیا نہ کرو تو جو جی چاہے کرو"
نائلہ لیکن ہم کوئی نا مناسب حرکت تو نہیں کر رہے نا۔ ایک دوسری طالبہ نے نائلہ کو ٹوکا
جی جی ایسا ہی ہے میری شہزادی! آپ کی نیت بالکل صاف ہے آپ کا مقصد تفریح کے علاوہ کچھ نہیں ہے یہ مجھے معلوم ہے۔ حنا نے خوبصورتی سے دونوں کی بات چیت میں مداخلت کی اور بات کو مزید آگے بڑھایا۔
لڑکیو!بات دراصل یہ ہے کہ جب ہم خود کو اسلام کے دائرے میں داخل کردیتے ہیں نہ۔۔۔ تو شعوری طور پر حیا کا اختیار کرنا ہمارے لیے اس طرح ضروری ہوجاتا ہے جس طرح سانس لینے کے لیے ہوا میں آکسیجن کا ہونا ضروری ہے کیوں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ
” حیا ایمان کی شاخوں میں ایک شاخ ہے۔ “
لیکن اللہ کی پناہ ہم ایسے معاشرے کا حصہ بن چکے ہیں جہاں حیا کو کم اعتمادی اور ترقی پذیر عناصر کے برخلاف گردانا جاتا ہے اور یہ وہ نظریات ہیں جو ہمارے کچھ نامی گرامی مہذب طبقے نے مغربی معاشرے سے شاید عاریتاً لیے تھے اور اب سارے معاشرے میں تیزی سے سرایت کر تے جا رہے ہیں
اس...
مایوس مت ہونا
ڈاکٹر فہمیدہ آپ نے تو میرا ووٹ ضائع ہی کروا دیا۔ساجدہ بیگم اپنا چیک اپ کروانے آئی تو ساتھ ہی شکوہ کر بیٹھی،میرے شوہر نے کہا بھی تھا، کہ اس شہر میں جماعت کو کوئی نہیں جانتاووٹ ضائع ہوجائے گا،لیکن میں سمجھی کیا پتاقوم ایک موقع دے ہی دیں دین دار لوگوں کو، ساجدہ باجی تو گویا آج بھری بیٹھی تھیں۔ کیا آپ نےامیر جماعت سراج الحق صاحب کا بیان نہیں سنا؟ڈاکٹر فہمیدہ نے تمہید باندھی، جب ایک نیوز اینکر نے سراج الحق صاحب سےسوال کیا،لوگ جماعت اسلامی کو ووٹ کیوں نہیں دیتے؟ تو سراج الحق صاحب کا جواب تھا: ہر صبح فجر کے وقت مسجد سے اذان کی آواز آتی ہے” *حَیّ عَلی الْفَلاحِ حیّ عَلی الْفَلاحِ* اس آواز کو سن کر اگر کروڑوں لوگ سوتے ہیں اور چند ہزار لوگ اٹھ کر مسجدوں میں جاتے ہیں، تو یہ اس آذان یا موذن کی کمی نہیں ہے۔یہ تو ان لوگوں کی کمی ہے جنہوں نے نیند نہیں چھوڑی اور مسجد کی طرف نہیں دوڑے۔ اس لیے ہم تو اذان دیتے رہیں گےاور پکارتےرہیں گے کہ آو تمہاری دنیا اور آخرت کی کامیابی اس نظام میں ہے،جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں پیش کرچکے ہیں۔
نہیں ڈاکٹر صاحبہ میں تو سوچ رہی تھی ساجدہ باجی نے بات کاٹی،اتنا وقت کا ضیاع ہوا اتنا پیسہ خرچ ہوا اور گھرگھر جاکےسمجھایا بھی لوگوں کو بس اسی لیے نتیجہ دیکھ کرمایوس ہوگئی۔ سادہ طبیعت کی ساجدہ باجی پھر سے گویا ہوئیں۔ ساجدہ باجی کیا آپ نے وہ آیت نہیں پڑھی" الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ أَمَلًا"(مال اور اولاد تو دنیا کی زندگی کی رونق ہیں، اور تیرے رب کے ہاں باقی رہنے والی نیکیاں ثواب اور آخرت کی امید کے لحاظ سے بہتر ہیں۔) اس لیے میری بہن یہ ہرگز نہ سوچو کہ ہمارا پیسہ یا وقت ضائع ہوا،ارے اس کا اجر تو اللہ تعالٰی کے ذمہ ہے۔
ہماری ساری تگ ودو اللہ کے دین کو قائم کرنے اور اس ملک میں قرآن کا قانوں نافذ کرنے کے لیے ہے۔ہم نے بالکل مایوس نہیں ہونا اللہ کو ہماری یہی کوشش ہی درکار ہے۔اللہ پاک اپنے جن بندوں سے محبت کرتا انھیں آزمائش میں بھی ڈالتاہےتاکہ پتا چل سکے کون سخت وقت پہ ثابت قدم رہتاہےاور کس کے قدم ڈگمگاتے ہیں،ڈاکٹر فہمیدہ نے نرمی سے سمجھایا۔پھر تو ڈاکٹر صاحبہ ہمیں دوبارہ سے اس مہم کی تیاری میں جُت جانا چاہیے۔بالکل میری بہن!نظام کب نافذ ہوگا یہ تو اللہ ہی جانتا ہے،لیکن ہماری کوشش تو ہرحال میں جاری رہنی چاہیے۔ ہم تو اللہ کے سامنے عزر پیش کرنے والے بن سکیں، کہ اے اللہ میں نے اپنی پوری کوشش کی جہاں تک ہوسکا میں نکلی،جہاں مجھے پکارا گیا میں نے لبیک کہا، میرے مولا تو جانتا ہے،میں نےاپنی طرف سے کوئی کمی نہیں چھوڑی، ہر گھر پہ دستک دی، ہر فرد کودعوت دی، لیکن یارب تو گواہ رہنا میری اس ادنٰی سی کوشش پہ اور مجھے ہمت دے کہ میں اور زیادہ دین کی خدمت کرسکوں، ڈاکٹر فہمیدہ فرط جذبات سے بولیں۔ ساجدہ باجی شرمندگی سے...
طنز و مزاح
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
ٹک ٹاک ایک نشہ
ٹک ٹاک مختصر ویڈیو کی ایسی ایپ ہے جس میں وہی ویڈیو چلتی ہے جو ’’مختصر‘‘ ہو۔بس ایک ویڈیو وائرل ہونے کی دیر ہے پھر آپ ایک ہی رات میں ہیرو بن گئے۔گویاٹک ٹاک سوشل میڈیا کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں وہی ویڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں سب کچھ’’ پلیٹ‘‘میں رکھ کر پیش کیا جائے۔بلکہ نوجوان نسل تو وائرل ہونے کے لئے ایسی اشیاء بھی ’’پیش‘‘ کر دیتی ہیں جن کا پیش نہیں ’’زیر‘‘میں ہونا ہی معیاری،مناسب اور اخلاقی ہوتا ہے۔مگرچائنہ والوں کو کون سمجھائے کہ جس لباس کو ہم پاکستانی اعلیٰ اخلاقی اقدار سے گرا ہوا سمجھتے ہیں ان کے ہاں وہ لباس اعلی اقدار کا حامل سمجھا جاتا ہے۔بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ لباس کا صرف سرا ہی نظر آتا ہو تو اسے اخلاقی لباس سمجھا جاتا ہے۔چائنہ اور یورپ میں تو اسی کی زیبائش مناسب ہوتی ہے جس کی ’’نمائش ‘‘زیادہ ہو۔ ان کے سامنے تو بھاری بھر کم فراک،غرارہ و شرارہ زیب تن کر کے جائیں تو وہ حیران ششدر رہ جاتے ہیں کہ ان کا ناتواں جسم ایسا لباس ’’کیری‘‘ کرتاکیسے ہے۔شائد اسی وجہ سی چینی اور یورپی خواتین وہی لباس زیب تن کرتی ہیں جو ہمیں زیب نہ دیتا ہو۔
میں نے اپنے انتہائی معصوم و سادہ دوست شاہ جی سے ایک معصومانہ سوال کیا کہ مرشد ٹک ٹاک پر کیسے وائرل ہوا جاتا ہے۔شاہ جی نے شانِ بے نیازی (بے نیازی کو کسی نیازی سے نہ ملایا جائے )اور لاپروائی سے جواب دیا کہ فی زمانہ ٹک ٹاک ہی نہیں ہر جگہ وائرل ہونے کا ایک فارمولہ ہے۔میں نے متجسسانہ انداز میں پوچھا کہ مرشد وہ کیا۔فرمانے لگے۔’’جو دکھتی ہے وہ بکتی ہے‘‘یعنی جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔شاہ جی کے جواب پر سوال در سوال ذہن میں کود آیا کہ کیا اس فارمولہ کا اطلاق صنف نازک(جسے میں ہمیشہ صنف آہن کہتا ہوں)پر ہی ہوتا ہے یا صنف معکوس بھی اس زد میں آتے ہیں۔کہنے لگے فارمولہ تو وہی ہے بس الفاظ کے چنائو کو بدلنا ہوگا،یعنی۔۔۔۔۔یعنی مرد حضرات کے لئے الفاظ بدل کر ایسے ہو جائیں گے کہ ’’جو بَکتا ہے وہ بِکتا ہے‘‘
چین نے جب ٹک ٹاک ایپ متعارف کروائی تو اس کا مقصد سیلیکون شہر میں بیٹھ کر ایسی مختصر مدتی ،مختصر ویڈیو،مختصر لباس میں بنا کر پیش کرنا تھاکہ جو اپلوڈ ہوتے ہی وائرل ہو جائے،اور ایسا ہی ہوتا تھا۔اس لئے ہماری نوجوان نسل بھی چین کے نقش پا پر اپنے قدم جمائے ویسی ہی مختصر ویڈیو بناتے ہیں جو وائرل ہو جائے۔مجھے حیرت یہ نہیں کہ آج کی نسل سستی شہرت کے لئے ایسا کیوں کرتی ہے۔پریشانی یہ ہے کہ انہیں شہرت مل بھی جاتی ہے۔اب تو ٹک ٹاک بھی ایک حمام سا ہی دکھائی دیتا ہے ،وہ جس کے بارے میں اکثر سیاستدان بیان بازی کیا کرتے ہیں کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔اب تو ٹک ٹاک دیکھ کر بھی لگتا ہے کہ اس حمام میں بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویڈیو وائرل ہونے کے بارے میں ایک دوست کی بات یاد آگئی ،اس نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ یار ابھی تک...