رشتوں کی پامالی کا المیہ

وہ رکشہ میں میرے ساتھ ہی بیٹھیں تھیں دھان پان کمزور سی … بیٹھتے وقت خاص توجہ نہ دی۔ 10 منٹ کے راستے میں جب تک ادھر ادھر توجہ دیں اتنی دیر میں اسٹاپ آجاتا ہے۔
اماں رکشہ کے اچھلنے پر بے طرح کراہ جاتیں ___ یہ روڈ پورے سال ادھڑی پڑی رہتی ہے پانی کے رساؤ نے جگہ جگہ گہرے گڑھے بنا دیئے ہیں محرم سے پہلے عارضی کارپٹنگ کرکے حکومت جان چھڑا لیتی ہے۔
تیسری کراہ پر رہا نہیں گیا پوچھ ہی لیا آپ کو کہیں تکلیف ہے وہ پیٹ پر ہاتھ رکھے بیٹھی تھیں تکلیف چہرے سے عیاں، اپنے طور پر جھٹکوں سے بچنے کے لئے رکشہ سے ٹیک لگالی تھی … ہاں میرے جگر میں تکلیف اور گردوں میں پتھری ہے بہت درد ہے . ڈاکٹر کو دکھایا آپ نے ؟؟؟
ہاں بیٹا ڈاکٹر کو دکھایا ،یہ ایک دن کی دوا 70 روپے کی، یہ دو گولیاں ہیں ____ یہ کہہ کر اپنی درجن بھر تھیلیوں میں لپٹی رپوٹیں جن میں انڈس اور الخدمت ہسپتال نارتھ کراچی کی بھی تھیں۔
ابھی کہاں سے آرہی ہیں؟
وہ ایک ” جنی ” (خاتون/ عورت ) کے پاس گئی تھی پیسوں کے لیے پر وہ ملی نہیں
اور بچے آپ کے ؟؟؟
بیٹا سسرال کا ہوگیا بہو رکھتی نہیں۔ایک بیٹی تھی انتقال ہوگیا اس کا، اس کی ایک دس سال کی بچی ہے میرے پاس، اسے کسی کے پاس چھوڑ کر گئی تھی۔
اتنی دیر میں اسٹاپ قریب آگیا انھیں اپنی نواسی کو لینا تھا اور مجھے ذرا آگے کلینک اس لیے انھیں کلینک کا ایڈریس سمجھا کر کہا آپ آئیے گا کلینک ____ پھر دیکھتے ہیں۔ ان شاء اللہ
دوسرے دن کلینک ڈھونڈتی پہنچیں۔۔۔ گھریلو حالات پوچھے ___تو بتایا بیوہ ہیں،قریب کچی آبادی میں ایک کمرے کے مکان میں کرایہ پر رہتی ہیں بہو رکھنے کو تیار نہیں .. میرا سامان اٹھا کر پھینک دیا یہ کہتے ہوئے رو پڑیں بیٹا سسرال کا ہوگیا۔
کرایہ کہاں سے دیتی ہیں ؟؟
لوگ جو مدد کرتے ہیں اسی میں سے دیتی ہوں ۔ مکان کیا ہے ایک کمرہ ہے۔اب 9 سال کی اتی بڑی نواسی ہے ہاتھ کے اشارے سے قد بتایا۔ بس اللہ اتنی زندگی دے دے کہ اس بچی کا کوئی سہارا ہوجائے ورنہ یہ کہاں جائے گی۔
یہ یہاں کی قریبی آبادی کے 80 فیصد گھرانوں کی کہانی ہے۔ غربت وافلاس اتنا ہے ایک وقت کھانے کو ہے تو دوسرے وقت کا پتہ نہیں۔مزدور لوگ ہیں، خواتین گھروں میں ہی سلائی اور دیگر کام کرتی ہیں اپنے بچوں کے پیٹ پالتی ہیں ___ بچے جوان ہوجائیں شادی کردیں تو زندگی سے رہا سہا سکون بھی اٹھ جاتا ہے _____ اور یوں والدین سڑک پر آجاتے ہیں۔
ہمارے معاشرے کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ماں باپ بیٹیوں کی تعلیم پر تو خوب توجہ دیتے ہیں ____ لیکن ان کی تربیت نہیں کرتے____ جب یہی بچیاں دوسرے گھر جاتی ہیں تو سسرال کو جہنم بنادیتی ہیں۔
لڑکیوں کے ذہنوں میں صرف میراگھراور میرا شوہر ۔۔۔ باقی کوئی رشتہ نہیں۔وہ عورت وہ والدین جو پیدائش سے جوان ہونے تک اپنی ہر آرام ہر خوشی تج کر کسی قابل بنا کر بہو کے حوالے کرتی ہے اور جب اپنے لگائے درخت سے پھل کھانے کے دن آتے ہیں تو اسے نکال پھینک دیے جاتے ہیں۔
ہر روز ایسی کہانیاں سنتی ہوں سمجھ نہیں آتا کیسے ان کے زخموں پر مرہم رکھوں کیسے ان کا درد بانٹوں۔۔۔؟
بیٹیوں کی تعلیم کے ساتھ ان کی تربیت بھی ماؤں کی ذمہ داری ہے۔
اپنی بیٹیوں کی ساتھ بیٹوں کے بھی اچھے نصیب کی دعا کرنا چاہیے کہ اچھی بہو کیساتھ ہی گھر کا سکون وابستہ ہے۔

حصہ
mm
ڈاکٹر سیما سعید پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر ہیں۔ مریض کے ساتھ سماج کے نبض پر بھی ہاتھ ہے۔ جسمانی بیماریوں کے ساتھ قلم کے ذریعے معاشرتی بیماریوں کا علاج کرنے کا جذبہ بھی رکھتی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں