1219 ء میں چنگیز خان کے قاصد کے قتل سے شروع ہونے والا تباہی کا سلسلہ ہلاکو خان کے ہاتھوں 1258 ء میں سقوط بغداد پر ختم ہوتا ہے۔ چار دہائیوں پر مشتمل اس داستان میں کئی کردار ایسے ہیں جو اپنی انفرادیت کے باعث تاریخ کے صفحات پر انمٹ نقوش چھوڑ گئے۔ ان میں حاکم اترار ینال خان جیسے امراء بھی شامل ہیں کہ جس نے اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے قراقرم سے آنے والا تجارتی قافلہ لوٹ کر اور تاجروں کو قتل کرکے اس قضیے کی بنیاد ڈالی اور علاؤالدین خوارزم شاہ جیسے ناعاقبت اندیش حکمران بھی ہیں کہ جس نے بین الاقوامی مسلمہ قوانین کے خلاف ورزی کرتے ہوئے چنگیز خان کے قاصد کو قتل کردیا۔ اسی داستان میں جلال الدین خوارزم شاہ جیسا مرد میدان بھی ہے کہ جس نے آخری سپاہی تک تاتاریوں کا نہ صرف مردانہ وار مقابلہ کیا بلکہ دریائے آمو سے لے کر دریائے سندھ تک تن تنہا عالم اسلام کے دفاع کی جنگ لڑتا رہا۔ اس دفعہ ایسے ہی دو کرداروں کا تعارف قلمبند کیا جارہا ہے۔
حاکم قوقند ۔ تیمور ملک
تاتاریوں کو سلطنت خوارزم کے جن شہروں پر سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ان میں قوقند کا شہر سر فہرست تھا۔ قوقند جسے کتابوں میں خجند بھی لکھا گیا ہے سلطنت خوارزم کا مشرقی سرحدی شہر تھا۔ دریائے سیحوں یا سیر دریا کے کنارے واقع یہ شہر خوارزم کا نمایاں ترین سرحدی شہر تھا۔ قوقند کا حاکم مشہور زمانہ تاجک سردار تیمور ملک تھا۔ تیمور ملک اپنی فطری بہادری دلیری اور جنگی حکمت عملی کے باعث خوارزم شاہ کے قابل اعتماد امیروں میں شمار کیا جاتا تھا۔ روضتہ الصفا کے مصنف نے تیمور ملک کو دلیری میں مشہور ایرانی سردار رستم اور سہراب کے ہم پلہ شمار کیا ہے۔
جب علاؤالدین خوارزم شاہ تاتاری حملے سے پسپا ہو کر پامیر کے میدان سے واپس پلٹ گیا تو تیمور ملک کو اندازہ ہوگیا کہ اب سرحدی شہروں پر حملہ ہونے والا ہے۔ چنانچہ اس نے قوقند کی دفاعی تیاریاں شروع کردیں۔ شہر کے دفاع کے لیے تیمور ملک کے پاس صرف ایک ہزار سپاہی تھے۔ جبکہ تاتاریوں کی فوج کا ہر اول دستہ ہی پانچ ہزار سپاہیوں پر مشتمل تھا ۔ جبکہ چنگیز خان نے جوجی خان کی قیادت میں بیس ہزار کا لشکر قوقند کے لیے روانہ کردیا تھا۔
تیمور ملک کا قلعہ بند ہونا
مختصر ترین فوج رکھتے ہوئے بھی تیمور ملک نے شہر کے دفاع کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔ اس نے اپنا دفاعی مورچہ دریا میں واقع جزیرے پر موجود قلعے کو بنایا اور اپنی سپاہ کے ساتھ ضروری سازو سامان لے کر جزیرے میں قلعہ بند ہوگیا۔
ادھر تاتاری افواج قوقند کے قریب ہی واقع بناکت کے شہر پر حملہ آور ہوئیں اور صرف تین دن کی مزاحمت کے بعد بناکت فتح کرکے قوقند پہنچ گئیں۔ قوقند پہنچ کر جوجی خان کو معلوم ہوا کہ تیمور ملک دریا میں ایک جزیرے پر قلعہ بند ہوگیا ہے اور یہ کہ اس نے ساحل پر موجود تمام کشتیاں بھی اپنے پاس جمع کرلی ہیں۔
اب جوجی سٹپٹایا کہ کیا تدبیر اختیار کرے۔ اس نے اپنے تیر اندازوں اور منجیقوں کا رُخ جزیرے کی طرف کرکے حملہ کردیا۔ مگر جزیرہ ان کی پہنچ سے دور تھا اور منجیقوں کے ذریعے پھینکے گئے بھاری پتھر پانی میں گرتے رہے اور تیمور ملک کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔
تاتاریوں کی انوکھی ترکیب
بناکت کی فتح کے بعد جوجی خان سمجھ رہا تھا کہ تمام سرحدی شہر اسی طرح آسانی سے فتح ہوجائیں گے اور چند ہی ہفتوں میں ان سے نمٹ کر وہ خوارزم کے بڑے شہروں پر حملہ آور ہونے والی افواج سے مل جائے گا ۔ مگر تیمور ملک کی اس تدبیر نے اسے قوقند ہی میں روک لیا تھا۔ اب جوجی خان نے اس سے نمٹنے کے لیے ایک انوکھی تدبیر اختیار کی۔ اس نے بناکت سے قیدی بنائے گئے مسلمانوں اور قوقند کے شہریوں کو ساحل اور اطراف کے علاقوں پر موجود بڑے بڑے پتھروں کو جمع کرنے پر مامور کردیا۔ پھر ان پتھروں کو تاتاریوں نے دریا میں پھینکنا شروع کردیا۔ اس طرح آہستہ آہستہ دریا کے بیج میں سے ایک راستہ نمودار ہونا شروع ہوگیا۔ عقاب کی طرح چوکنا تیمور ملک سمجھ گیا کہ اب چند ہفتوں میں قلعہ تیر اندازوں کی پہنچ میں آجائے گا۔
تیمور ملک کی بکتر بند کشتیاں
اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیمور ملک نے اپنے بحری بیڑے میں موجود بارہ مضبوط ترین کشتیاں منتخب کیں اور ان میں لکڑی کی مضبوط چوبی دیواریں بنوا کر نصب کروائیں۔ ان تختوں کے درمیان تیر اندازوں کے لیے سوراخ کروائے اور اپنے ماہر ترین تیر انداز ان کشتیوں میں سوار کروا کر دریا میں راستہ بناتے تاتاری سپاہیوں پر حملہ آور ہوگیا۔ اس طرح سنگی راستہ بناتے تاتاریوں کا کام رُک گیا۔ تیمور ملک کا یہ حربہ بہت کامیاب رہا۔ اس کی بکتر بند کشتیاں ساحل پر موجود تاتاریوں پر حملہ کرتیں، جوابی تیر اندازی چوبی تختوں کی وجہ سے ان کا کچھ نہ بگاڑ سکتی اور وہ صحیح سلامت واپس آجاتیں۔ اب جوجی خان بڑا پریشان ہوا۔
جوجی خان کا جوابی حملہ
خوارزم پر حملہ آور ہونے سے قبل چنگیز خان چین کی سلطنت کو فتح کرچکا تھا۔ اس فتح میں اس کے ہاتھ چینی افواج کے آتشیں اور باروری اسلحہ بنانے کے ماہر لگ گئے تھے، تاتاری ان ماہرین کو بھی اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ جوجی خان نے اب تیمور ملک کی بکتر بند کشتیوں کو تباہ کرنے کے لیے ان سے کام لینے کا فیصلہ کیا۔ چینی ماہرین نے ہانڈیوں میں بارور بھر کے منجیقوں کے ذریعے تیمور ملک کی کشتیوں پر برسانا شروع کردیا۔ اس طرح تیمور ملک کا حملہ رک گیا ۔
بکتر بند کشتیوں کی ساخت میں ترمیم
اس صورتحال پر تیمور ملک نے اپنی بکتر بند کشتیوں کی ساخت میں تبدیلی کی۔ اس نے مٹی اور گارے کا لیپ بنوا کر چوبی دیواروں پر ملوادیا اور مزید یہ کہ لکڑی کے تختوں کی چھت بھی بنوالی اور ان چھتوں پر بھی مٹی کا پلستر کروا کر انہیں آگ سے محفوظ کرلیا۔ اس طرح تیمور ملک کی کشتیاں چینی ماہرین کے آتشیں حملوں سے محفوظ ہو کر دوبارہ تاتاریوں پر کامیاب حملے کرنے لگیں۔
جوجی خان کی روانگی
جوجی خان کو قوقند کا محاصرہ کئے تین ماہ بیت گئے۔ تیمور ملک کے حملوں سے دریا میں راستہ بنانے کا کام سست روی سے چل رہا تھا اور ان سے تاتاریوں کا سخت نقصان بھی ہورہا تھا۔ اس صورتحال سے تنگ آکر جوجی خان نے اس مہم کی ذمہ داری اپنے نائب سردار کو سونپ دی اور خود دریا کے بہاؤ کی سمت ایک لشکر لے کر روانہ ہوگیا۔
تیمور ملک کا قلعے کو چھوڑ کر چلے جانا
تین ماہ کے محاصرے کے دوران اگر چہ تیمور ملک نے تاتاریوں کا جم کر مقابلہ کیا تھا اور انہیں سخت جانی نقصان پہنچایا تھا مگر اس کے ساتھ ساتھ اس کے سپاہی بھی شہید ہوتے گئے تھے۔ ایک ہزار کی مختصر سی سپاہ میں سے بڑی تعداد ختم ہوگئی تھی ۔ دوسرا یہ کہ اس کے گمان کے مطابق اس نے تین ماہ تک جوجی خان کو مصروف رکھ کر اپنا فرض ادا کردیا تھا کیونکہ اسے علاؤالدین خوارزم شاہ کی طرف سے یہی ہدایت ملی تھی کہ سرحدی قلعدار زیادہ سے زیادہ وقت تک تاتاریوں کو مصروف رکھیں تاکہ اسے مرکزی لشکر منظم کرنے کا زیادہ سے زیادہ موقع مل سکے۔ وہ الگ بات ہے کہ پہلے ہی معرکے کے بعد کہیں بھی علاؤالدین نے ٹھہرکر تاتاریوں کا مقابلہ نہیں کیا۔
بہر حال تیمور ملک نے جب یہ دیکھا کہ ہر ممکن کوشش کے باوجود دریا میں بنتا راستہ جزیرے کے قریب آتا جارہا ہے، قلعہ کا سامان خوردنوش بھی کم ہوتا جارہا ہے اور قلیل سپاہ کے ساتھ مزید مقابلہ کرنا خود کشی کے سوا کچھ نہیں ۔ چنانچہ کسی بھی قسم کی کمک سے مایوس ہو کر اس نے جزیرے سے انخلاء کا فیصلہ کرلیا۔
رات کی تاریکی میں تیمور ملک نے اپنی مٹھی بھر سپاہ کے ساتھ ستر کے قریب کشتیوں میں سوار ہو کر قلعے سے کوچ کرتے ہوئے دریا کے بہاؤ کی سمت سفر شروع کردیا۔ تاتاری پہرے دار چوکنا تھے انہیں معلوم ہوگیا اور فوراً ایک گھڑ سوار دستہ دریا کے ساتھ ساتھ روانہ ہوگیا۔
جلد ہی تیمور ملک کی بحری بیڑے تک تاتاری پہنچ گئے اور ساحل سے تیر اندازی شروع کردی۔ تیمور ملک تیار تھا اس نے لکڑی کے تختے نصب ہوئی کشتیاں ساحل کی طرف کردیں اور تاتاریوں پر جوابی تیر اندازی شروع کردی۔
ادھر آگے بناکت کا ساحل قریب تھا اور وہاں پہلے ہی تاتاریوں کا قبضہ تھا۔ بناکت کے مقام پر تاتاریوں کو تیمور ملک کے بحری بیڑے کی اطلاع مل چکی تھی اور اسے روکنے کے لیے انہوں نے دریا کے بیچ آہنی زنجیر نصب کی ہوئی تھی۔ اس مقام پر پہنچ کر تیمور ملک نے اس زنجیر کو توڑدیا اور آگے بڑھ گیا۔ آگے جند کا ساحلی شہر تھا اور یہاں جوجی خان کا لشکر مقیم تھا۔ جند کے مقام پر جوجی خان نے تیمور ملک کو روکنے کے لیے دریا میں کشتیوں کا پُل بنا کر ماہر تیر انداز بٹھادئے اور ساحل پر منجیقیں نصب کرواکراس مرد میدان کا انتظار کرنے لگا۔ جوجی خان کو قوقند میں تیمور ملک کے ہاتھوں سخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا اور اب وہ حساب چکتا کرنا چاہتا تھا۔ مگر تیمور ملک کو اللہ نے کمال زکاوت بخشی تھی۔ اسے اندازہ تھا کہ جوجی خان یقیناًراستے میں جال بچھائے بیٹھا ہوگا۔ چنانچہ دریا میں مناسب ساحل دیکھ کر رات کی تاریکی میں وہ اپنے ساتھیوں سمیت ساحل پر اتر گیا۔ جب تک تاتاریوں کو علم ہوتا وہ ان کی پہنچ سے دور نکل چکا تھا۔
قربانی کا لازوال مظاہرہ
اب صورتحال اس طرح تھی کہ تیمور ملک اپنے مٹھی بھر ساتھیوں کے ساتھ آگے آگے تھا اور تاتاری گھڑ سوار دستہ ان کے تعاقب میں سرپٹ دوڑا چلا آرہا تھا ۔ جوجی خان کی ہدایت تھی کہ تیمور ملک کو ہر صورت زندہ یا مردہ پکڑ کے لایا جائے۔ ایسے موقع پر عموماً سالار اپنی جان بچا کر راہ فرار اختیار کرتا ہے اور سپاہیوں کو دشمن کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا کرتا ہے ۔ مگر تیمور ملک نے اپنے ساتھیوں کی بقا کے لیے قربانی دینے کا فیصلہ کیا اور راستے میں رک کر تاتاریوں کا مقابلہ کرتا رہا تاکہ اس کے ساتھیوں کو نکلنے کاموقع مل سکے۔ ایسی مثال ہمیں تاریخ میں بہت کم ملتی ہے ۔ تیمور ملک اپنے چند جانثاروں کے ساتھ راستے میں رک کر تاتاریوں کا مقابلہ کرتا اور انہیں مصروف رکھتا کہ اس دوران اس کے سپاہی دور نکل جاتے۔ یہ سلسلہ کئی دن تک چلتا رہا ۔ یہاں تک کہ اس کی تمام سپاہ فرار ہوگئی یا تاتاریوں کے ہاتھوں شہید اور تیمور ملک تنہا رہ گیا۔ اس کے تعاقب میں تین تاتاری سپاہی تھے اور اس کے ترکش میں بھی تین تیر ہی باقی بچے تھے۔
تیمور ملک نے ایسا تاک کر نشانہ لگایا کہ ایک تیر حملہ آور تاتاری کی آنکھ میں پیوست ہوگیا۔ اب تیمور ملک نے چلا کر کہا،
’’تمہاری تعداد کے مطابق دو تیر میرے ترکش میں موجود ہیں اور انہیں ضائع کرتے ہوئے مجھے افسوس ہوگا۔ لہٰذا بہتر یہی ہے کہ تم دونوں لوٹ جاؤ۔ ‘‘
دونوں تاتاری تیمور ملک کی ہیبت سے پہلے ہی خوفزدہ تھے یہ سن کر وہ اور ڈر گئے اور خاموشی سے پلٹ گئے ۔ تیمور ملک کی بہادری کا یہ واقعہ ’’روضتہ الصفاء‘‘اور الجوینی کی ’’جہاں گشائی‘‘دونوں میں تفصیلاً منقول ہے۔
تیمور ملک اور جلال الدین کا ساتھ
قوقند کے اس معرکے میں تیمور ملک نے جس دلیری سے تاتاریوں کا مقابلہ کیا تھا اس کا شہرہ پورے خوارزم میں پھیل گیا تھا۔ تاتاریوں کے قابل تسخیر ہونے کا تصور تیمور ملک کی بہادری سے متاثر ہوگیا تھا۔ اگر چہ وہ شہر کا دفاع نہ کرسکاتھا مگر صرف ایک ہزار کی سپاہ کے ساتھ تاتاریوں کا تین ماہ تک مقابلہ کرنا اور زندہ سلامت بچ نکلنا ہی بہت تھا۔ آخر کار یہ مرد جری اپنے بادشاہ علاؤالدین خوارزم شاہ کے پاس پہنچ گیا۔مگر جلد ہی اسے اندازہ ہوگیا کہ علاؤالدین ذہنی طور پر شکست کھا چکا ہے اور کہیں بھی رُک کر چنگیز خان کا مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں رکھتا۔ اس کے برعکس شہزادہ جلال الدین تاتاریوں کا مقابلہ کرنے کے لیے لشکر منظم کر رہا ہے اور خوارزم میں صرف وہ ہی اس کام کا اہل ہے۔ چنانچہ تیمور ملک جلال الدین کی خدمت میں حاضر ہوگیا اور جلال الدین نے اس کی بڑی آؤ بھگت کی ۔جلال الدین بہادروں کا قدردان تھا اور جلد ہی تیمور ملک جلال الدین کے قریبی امراء میں شامل ہوگیا۔ تیمور ملک اور جلال الدین کا ساتھ آخر تک برقرار رہا اور تاتاریوں کے خلاف جلال الدین کی مزاحمت میں تیمور ملک اس کے ساتھ شریک رہا۔ آج بھی تاجک قوم کے لوگ تیمور ملک کی دلیری پر فخر کرتے ہیں۔ شنید ہے کہ نامور فاتح امیر تیمور لنگ جو منگول قبائل سے تعلق رکھتا تھا اس کا نام تیمور ملک کے نام پر ہی رکھا گیا تھا۔
ملک ترکان خاتون
تیمور ملک جیسے بہادر اور نڈر سالار کے بعد سلطنت خوارزم کی ملکہ ترکان خاتون کا تذکرہ اپنے اندر ایک داستان عبرت لیے ہوئے ہے، ملکہ ترکان خاتون علاؤالدین خوارزم شاہ کی والدہ اور سلطان تکش کی ملکہ تھی۔
خوارزم کی سلطنت کی وسعت میں سلطان تکش کی سالوں کی فتوحات شامل تھیں اور ان فتوحات میں سلطان تکش کی ملکہ کا بڑا نمایاں کردار تھا۔ سلطان تکش نے ترکوں کے مشہور جنگجو فیصلے قیچاق کے سردار کی بیٹی سے نکاح کیا تھا۔اس طرح قیچاقی ترکوں کی مدد سے سلطان تکش کو غیر معمولی وسیع سلطنت حاصل ہوگئی۔ ان ترکوں کی وجہ سے ترکان خاتون کو بھی بطور ملکہ سلطنت میں بے پناہ طاقت اور اثروسوخ حاصل ہوگیا۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ ترکان خاتون نے سلطان تکش کی طرح باقاعدہ دارالحکومت میں اپنا دربار لگانا شروع کردیا جس میں اس کے اپنے امراء اور عمائدین شامل تھے۔ ملکہ کے دربار سے شاہی فرامین کی طرز پر باقاعدہ فرمان جاری کئے جاتے تھے۔ اکثر اوقات سلطان تکش اور ملکہ ترکان خاتون کے احکامات میں تضاد آجاتاتو حکام شش و پنج میں مبتلا ہوجاتے کہ کس کے احکامات پر عمل کریں ۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے یہ طریقہ وضع کیا گیاکہ بعد میں بھی آنے والے فرمان پر عمل کیا جائے گا۔
سلطان تکش کی وفات کے بعد سلطان علاؤالدین خوارزم شاہ کے دورِ حکومت میں ملکہ ترکان خاتون کا عمل دخل سلطنت میں اور بڑھ گیا۔ ایسا لگنے لگا کہ دو متوازی حکومتیں چل رہی ہیں ۔ علاؤالدین خوارزم شاہ جب بھی اپنی والدہ کا اثرو سورخ کم کرنے کی کوشش کرتا قبچاقی امراء اس کے سامنے آکھڑے ہوتے۔
حاکم اترار ینال خان جس نے چنگیز خان کے قافلے کو لوٹ کر اس قضیے کی بنیاد ڈالی تھی وہ انہی قبچاقی امراء میں سے تھا اور ملکہ ترکان خاتون کا رشتہ دار بھی تھا۔ اسی وجہ سے علاؤالدین اس کے خلاف کوئی کاروائی نہ کرسکا۔ اگر چنگیز خان کی شکایت پر ینال خان کے خلاف کاروائی کرلی جائے تو بظاہر اس تباہی سے بچا جاسکتا تھا۔ مگر ترکان خاتون کی وجہ سے ایسا نہ ہوسکا۔
ترکان خاتون کے دباؤ پر ہی علاؤالدین خوارزم شاہ نے اپنے بڑے بیٹے جلال الدین کے بجائے قطب الدین کو اپنا جانشین مقرر کیا تھا۔ کیونکہ قطب الدین کی ماں کا تعلق قبچاقی قبیلے سے تھا اور وہ ترکان خاتون کی عزیز بھی تھی جبکہ جلال الدین کی والدہ ہندوستانی نژا د تھی۔ اسی وجہ سے ملکہ ترکان خاتون کا تمام عمر جلال الدین سے اختلاف رہا اور وہ ہر وقت جلال الدین کے خلاف سازشوں میں مصروف رہی۔ وہ جلال الدین کو حقارت سے ہندوستانی بہو کا بیٹا کہتی تھی۔
چنگیز خان کی یلغار کے دوران ایک وقت ایسا آیا کہ تمام اختلافات بھلا کر قبچاقی جنگجو علاؤالدین خوارزم شاہ کے جھنڈے تلے تاتاریوں سے لڑنے لگے۔ مگر چنگیز خان نے ایک سازش کے ذریعے اس تعلق کو دوری میں تبدیل کردیا۔ تفصیل اس واقعے کی کچھ اس طرح ہے کہ طبرستان کے حاکم بدرالدین عمید کے باپ اور چچا کو خوارز م شاہ نے کسی بات پر قتل کروادیا تھا اور بدرالدین اس بات پر دل میں بغض لیے بیٹھا تھا ۔سمر قند پر چنگیز خان کے قبضے کے بعد وہ خفیہ طور پر سمر قند پہنچا اور چنگیز خان کو خوارزم شاہ اور ترکان خاتون کے اختلاف کے بارے میں بتایا ۔ تاتاریوں نے اس اختلاف سے فائدہ اٹھانے کی سازش کی اور ملکہ ترکان خاتون اور چنگیز خان کے درمیان ایک جعلی خط تیار کروا کر علاؤ الدین شاہ تک پہنچا دیا۔ خوارزم شاہ اس خط کو اصل سمجھ بیٹھا اور قبچاقی سرداروں پر سخت خفاہوا۔ قبچاقی سرداروں نے غصے میں آکر خوارزم شاہ کے خیمے پر رات کی تاریکی میں حملہ کردیا مگر خوارزم شاہ بچ گیا۔اس واقعے کے بعد قبچاقی سردار باقاعدہ طور پر خوارزم شاہ سے باغی ہوکر چنگیز خان سے جا ملے۔
ملکہ ترکان خاتون اور علاؤالدین خوارزم شاہ کے اختلاف کے ضمن میں شیخ مجد الدین کے قتل کا واقعہ بھی بہت مشہور ہے۔ شیخ مجددالدین اور گنج کے ولی کامل شیخ نجم الدین کے کبریٰ کے خلیفہ تھے۔ (شیخ نجم الدین کبریٰ کا ذکر پچھلے مضمون میں تفصیلاً آچکا ہے)شیخ مجد الدین سے ملکہ ترکان خاتون کو خاص عقیدت تھی اور وہ شیخ کی مجالس میں بکثرت جایاکرتی تھی۔اس عقیدت کی بنا پر خوازم شاہ کے امراء نے الزام لگایا کہ ملکہ شیخ مجدالدین سے نکاح کرنے والی ہے۔ اس بات کو سن کر خوارزم شاہ آگ بگولہ ہوگیا اور اس نے فی الفور شیخ مجدالدین کو دریا میں غرق کرکے قتل کرنے کا حکم دے دیا۔ شاہی فرمان یہ عمل کرتے ہوئے شیخ مجد الدین کو اسی طرح قتل کردیا گیا۔ غصہ ٹھنڈا ہونے پر خوارزم شاہ کو بہت رنج ہوا کہ اس نے جلد بازی سے کام لیا ہے۔ وہ شیخ نجم الدین کبریٰ کی خدمت میں پیش ہوا اور شیخ کے قدموں میں تلوار اور جواہرات رکھ کر کہا،
’’یا تو مجد الدین کے خون بہا میں یہ دولت قبول کرلیں ورنہ اس تلوار سے میرا سر قلم کرکے قصاص وصول کرلیں۔‘‘
شیخ نجم الدین کبریٰ نے فرمایا،
’’مجدالدین کا خون بہا یہ مال و دولت نہیں ہے، اس کا قصاص تو تمہارا سر اور تمہاری پوری سلطنت ہے۔اور اس میں میرا بھی سر قلم ہوگا اور اللہ کے بے شمار بندوں کے سر بھی قلم کئے جائیں گے۔ ‘‘
(حوالہ: روضتہ الصفا، نفحات الانس)
اور وقت نے ثابت کیا کہ یہ بات حرف بہ حرف درست تھی۔ ملکہ ترکان خاتون کی مطلعق العنایت نے سلطنت خوارزم کو بہت نقصان پہنچایا۔ زوالِ خوارزم شاہ کے اسباب میں یہ بھی اہم سبب تھا۔ ملکہ ترکان خاتون کو بر صغیر ہندوستان کی ملکہ نورجہاں کے ہم پلّہ طاقتور شمار کیا جاتا ہے ۔ ان دونوں میں قدر مشترک تھی کہ ان دونوں کے نام کے سکے ڈھالے گئے۔ مگر ترکان خاتون کو علیحدہ دربار رکھنے کے باعث ملکہ نور جہاں پر سبقت حاصل ہے۔
ملکہ نور جہاں کے برعکس ملکہ ترکان خاتون کا انجام بہت دردناک ہوا۔ سقوط اور گنج کے وقت دارالحکومت چھوڑتے وقت ترکان خاتون نے شقاوت اور سنگ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بیس کے قریب شاہی خاندان کے افراد کہ جن کے بارے میں اسے شبہ تھا کہ دارالحکومت خالی دیکھ کر تخت پر قبضہ کرسکتے ہیں انہیں قتل کروادیا تھا۔ اور گنج سے فرار ہو کر شاہی خاندان کی مستورات کے ساتھ ترکان خاتون نے ایلان کے قلعے میں پناہ لی۔ یہاں وزیر اعظم نظام الملک محمد بن صالح بھی ترکان خاتون کے ہمراہ تھا۔ شاہی خاندان کی موجودگی کا علم ہوتے ہی تاتاریوں نے ایلان کا محاصرہ کرلیا۔ ایلان کا قلعہ خوارزم کے مضبوط قلعوں میں شمار کیا جاتا تھا اور چار ماہ تک تاتاری اس کی فصیلوں کا محاصرہ کئے رہے مگر کچھ نہ بگاڑ سکے۔
قدرت کے فیصلے اٹل ہوتے ہیں اور وہ جب کسی کی بربادی کا فیصلہ کرلے تو ظاہری اسباب اس کی کچھ مدد نہیں کرسکتے۔ ملکہ ترکان خاتون کے سلسلے میں بھی ایسا ہی کچھ عجیب و غریب سا واقعہ ہوا۔ ایلان کا قلعہ سرسبز اور شاداب علاقے میں تھا اور وہاں بارش کثرت سے ہوتی تھی۔ قلعے کی غیر معمولی مضبوطی اور علاقے کی سرسبزی اور شادابی کی وجہ سے ہی خوارزم شاہ نے شاہی خاندان کے لیے اسے چنا تھا۔ بارش کی فراوانی کی وجہ سے قلعے میں پانی کی کمی اور قحط کا خطرہ بھی کم تھا۔ مگر قلعے کا محاصرہ ہوتے ہی علاقے سے بارش نے جیسے منہ ہی موڑ لیا۔ ایلان کا علاقہ خشک سالی کا شکار ہوگیا۔ چار ماہ کے سخت محاصرے اور مکمل ناکہ بندی کے بعد قلعے میں راشن ختم ہوگیا۔محصورین بھوک پیاس کی شدت سے بیتاب ہوگئے اور آخر کار تھک ہار کر قلعے سے باہر نکل آئے۔ قلعے کا دروازہ کھلنا ہی تھا کہ آسمان سے گرج چمک کے ساتھ پانی برسنا شروع ہوگیا۔ جل تھل ایک ہوگیا اور مورخ لکھتا ہے کہ قلعے کے دروازے سے پانی کا ریلہ باہر نشیب کی طرف بہہ رہا تھا۔
وزیر محمد بن صالح کو تاتاریوں نے مستقبل کی مشاورت کے لیے قید کرلیا اور شاہی خاندان کا قتل عام شروع کردیا۔ ملکہ ترکان خاتون کو قید کرکے چنگیز خان کے پاس بھیج دیا گیا۔ چنگیز خان کے دربار میں ملکہ ترکان خاتون کو ذلت اور رسوائی کے لاتعداد مناظر کا سامنا کرنا پڑا۔ چنگیز خان ملکہ ترکان خاتون کو زنجیریں ڈالے فخریہ انداز میں ساتھ لیے گھومتا تھا اور تاتاریوں کی سالانہ قرولتائی (کانفرنس) میں بھی ملکہ ترکان خاتون کو قیدی کے طور پر فاتحانہ انداز میں لے کر جاتا۔ ملکہ کو بھوک مٹانے کے لیے تاتاریوں کے لنگر سے قطار لگا کر کھانا لینا پڑتا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس حالت میں بھی اس کی نخوت برقرار تھی۔ اس کا ثبوت اس بات سے ملتا ہے کہ ایک خوارزمی جو ملکہ کا خدمت گار تھا اور دوران قید بھی ملکہ کے ساتھ تھا اس نے ایک دن فرارکا منصوبہ بنایا اور ملکہ سے کہا کہ فرار ہو کر نکل چلتے ہیں اور قریب ہی جلال الدین تاتاریوں سے نبرد آزما ہے اس کی پناہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہے۔
مگر ملکہ ترکان خاتون نے جواب دیا کہ جلال الدین کی پناہ میں جانے سے بہتر ہے کہ چنگیز خان کی قید میں رہ لیا جائے ۔ آخر کار اس قید میں بیچارگی کی حالت میں ملکہ ترکان خاتون کا انتقال ہوگیا۔
فَاعْتَبِرُوْ ایَآاُولِی الْاَبْصَارِ
*۔۔۔*۔۔۔*
7 تبصرے
جواب چھوڑ دیں
اہم بلاگز
۔23 مارچ کا یادگار دن
قوموں کی زندگی میں بعض لمحات بڑے فیصلہ کن ہوتے ہیں جو اپنے نتائج اور اثرات کے اعتبار سے خاصے دور رس اور تاریخ کا دھارا موڑنے کی اہلیت رکھتے ہیں، 23 مارچ کا یادگار دن ہماری قوم کیلئے بڑی اہمیت کا حامل ہے اسکی ایک تاریخی حیثیت ہے کہ سنہ 1940ء میں لاہور کے تاریخی شہر میں برصغیر کے تمام مسلمانوں کے نمائندوں نے قائد اعظم کی زیر صدارت ایک تاریخی اجتماع میں حصول پاکستان کی قرار داد منظور کی تھی۔ تا کہ برصغیر کے مسلمانوں کیلئے مسلم قومیت کی بنیاد پر ایک آزاد ملک حاصل کیا جا سکے۔ جس پر نہ غیر ملکی استعمار کے تاریک سائے پڑیں اور نہ ہی ہندو اکثریت اور چیرہ دستیاں مسلمانوں کے ارفع مقاصد کی راہ میں حائل ہونے پائیں۔ مسلمانان برصغیر اپنے لئے ایک الگ وطن اسی لئے چاہتے تھے جہاں قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں وہ ایک مثال اسلامی معاشرہ تشکیل دیں جہاں اسلامی عدل و انصاف کا دور دورہ ہوا اور جو عصر حاضر میں سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت کی قوتوں سے پسی ہوئی انسانیت کیلئے مشعل راہ ثابت ہو۔ اس عظیم مقصد کے لئے 23مارچ 1940ء کولاہور میں بادشاہی مسجد کے قریب ایک وسیع و عریض میدان میں لاکھوں مسلمان اکٹھے ہوئے اور بنگال کے وزیر اعلیٰ مولوی فضل حق نے ایک قرار داد پیش کی جس کی تائید تمام مسلمانوں نے دل و جان سے کر دی جس سے ان کی قسمت کا پانسہ پلٹ گیا۔ اس دن لاہور میں مسلمانان ہند نے اپنی منزل کا اعلان کیا تھا اور دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ ہم ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے آزاد خطوں کی جدوجہد کا اعلان کرتے ہیں۔
23 مارچ کو قرار داد کی منظوری کے بعد قیام پاکستان کی جدوجہد فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔ قوم کو ایک واضح نصب العین مل چکا تھا اور خوش قسمتی سے قائد اعظمؒ جیسے مدبر قائد میسر تھے جن کی قیادت سحر انگیز اور ولولہ انگیز ہونے کے علاوہ سیاست میں صداقت اور دیانتداری کی علمبردار تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے تک مسلمانان ہند مسلم لیگ کے پرچم تلے متحد ہو چکے تھے۔ 1945ء میں وائسرائے ہند لارڈ ویول نے مسلم لیگ اور مطالبہ پاکستان کی مقبولیت اور دوسری جماعتوں کی طاقت کا اندازہ کرنے کیلئے انتخابات کروائے۔ کانگرس کے ایماء پر بننے والے مسلمانوں کے نام نہاد متحدہ محاذ کی مخالفت کے باوجود مسلم لیگ کو تاریخی فتح حاصل ہوئی اور مسلم لیگ مسلمانان ہند کی نمائندہ جماعت بن کر سامنے آئی اور اس طرح حصول پاکستان کی منزل قریب سے قریب تر ہو گئی۔ اکتوبر 1946 ء میں ایک عبوری حکومت قائم کی گئی جس میں مسلم نمائندگان کی قیادت خان لیاقت علی خان نے کی ادھر حکومتی ایوانوں میں قائد اعظم ؒمسلمانوں کے سیاسی حقوق کے تحفظ اور قیام پاکستان کیلئے سیاسی جنگ لڑ رہے تھے تو دوسری طرف ہندو مسلم فسادات نے پورے ملک کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ ان فسادات میں لاکھوں مسلمان شہید ہوئے۔3 جون کو تقسیم ہند کے...
وہ دانائے سبل ختم الرسل
قارئین کرام یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ختم نبوت مسلمانوں کا قطعی اجماعی عقیدہ ہے، اس پر بیسیوں آیاتِ قرآنیہ اور سیکڑوں احادیث صحیحہ میں دلائل موجود ہیں۔ قرآن مجید میں وارد لفظِ خاتم النبیین میں کسی قسم کی تاویل اور تخصیص کی گنجائش نہیں ہے۔ اس میں تاویل و تخصیص کرنے والا دراصل قرآن و حدیث کی تکذیب کرتا ہے۔
چودہ سو سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود امتِ محمدیہ کا آج بھی اس پر اجماع ہے کہ مدعی نبوت اوراس کے پیروکارخارج از اسلام اور مرتد ہیں۔ تاریخ گواہ ہے جب بھی کسی باغی، طالع آزما یا فتنہ پرداز نے اپنے آپ کونبی کہنے کی جرأت کی، مسلمانوں نے اس کے خلاف بھرپورجہاد کیا۔ ہر مسلمان کا غیر متزلزل عقیدہ اور ایمان یہ ہے کہ حضور سرورِ عالم سیدنا محمدﷺ آخری نبی ہیں۔ حضورﷺ کی تشریف آوری کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ حضور اکرمﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آسکتا اور جو شخص اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور جو بدبخت اس کے اس دعویٰ کو سچا تسلیم کرتا ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد ہے اور اسی سزا کا مستحق ہے جو اللہ تبارک تعالیٰ نے مرتدکے لیے مقررکی ہے۔
بحیثیت مسلمان ازروئے قرآن و حدیث ہمارا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید ان پر نازل فرماکر دین کی تکمیل کردی اور قرآن کو تا قیامت محفوظ بھی کردیا۔ سلسلہ نبوت پر ختم کی مہر بھی لگادی آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی و رسول ہیں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی ہے نہ رسول ہے نہ تھا نہ تا قیامت ہوگا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہےاور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ قرآن مجید میں اس بات کی صراحت مختلف آیات میں ملتی ہے۔ جیسا کہ سورہ احزاب کی چالیسویں آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیا کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔
بہت سی احادیث میں بھی ختم نبوت کی تصدیق موجود ہے۔ حدیث مبارکہ ہے۔ میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک گھر بنایا، اس کو بہت عمدہ اور آراستہ پیراستہ بنایا مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی، پس لوگ جوق درجوق آتے ہیں اور تعجب کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں یہ اینٹ کیوں نہیں لگادی گئی۔ آپ نے فرمایا: وہ اینٹ میں ہوں اور میں انبیاء کرام کا خاتم ہوں۔ اسی مفہوم کی ایک اور حدیث مبارکہ حضرت جابر بن عبداللہ رضى الله تعالى عنه نے بھی روایت کی ہے۔(صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النّبیین...
الوداع نہیں کہتے
بی بی سی جماعت اسلامی کی خبریں عموما نہیں لگاتا۔ لیکن اس نے یہ خبر بہت کم وقت میں دے دی کہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب اپنے امارات عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں۔ہم جانتے ہیں بی بی سی کس کا چینل ہے۔ان کی نیتیں بھی یہ تھیں کہ اس خبر سے جماعت کو کمزور شکست خوردہ سمجھا جائے گا۔یہ خبر بھی سنی کہ حافظ نعیم صاحب نے دھاندلی والی نشست لینے سے انکار کردیا۔جو کہتے تھے کہ سیاستدانوں کا کوئی اخلاق نہیں ہوتا۔ان دیانتدار اور اعلی کردار کے حامل سیاست دانوں کو دیکھیں۔ایک نے ہاتھ آئی سیٹ ٹھکرا دی۔ دوسرے نے پارٹی کی سربراہی چھوڑ کر ثابت کر دیا کہ جماعت اسلامی میں عہدوں کی نہیں بلکہ ویلیوز کی اہمیت ہوتی ہے۔اور بےشک یہ احساسِ ذمہ داری فقط جماعت اسلامی میں پایا جاتا ہے۔
ان دونوں واقعات سے ہوا یہ کہ جماعت اسلامی کی جمہوریت شورائیت اور واضح ہوگئی۔ عوام جماعت اسلامی سے مذید متاثر ہوگئی۔ جی ہاں جماعت اسلامی عوامی مقبولیت حاصل کر چکی ہے۔ہر شعبہ ہائے زندگی کے لوگ اس کی دیانت خدمت کے قائل ہوچکے ہیں۔اس الیکشن کے بعد یہ مغالطہ ختم ہوچکا ہے کہ جماعت کا ووٹ بینک نہیں بنتا جماعت اسلامی کا کم ازکم یہ نتیجہ اس الیکشن میں تھا کہ اسے بلوچستان میں دو سیٹیں کے پی کے میں تین اور سندھ میں پندرہ سے زیادہ ہوتیں اگر زبردستی انتقال ہوئی پارٹی کے نئے جیون کی تیاری نہ ہوتی۔ ووٹ جماعت کو ملا ہے کراچی عوام نے اسے منتخب کیا ہے یہ ہاری نہیں اسے ہروایا ہے۔
یہ استعفی دراصل ہمارے قائد کی اعلی ظرفی ہے۔ انہوں اخلاقی طور سے اچھا کیا۔یہ استعفی ہر اس کارکن پر طمانچہ ہے۔جو سمجھتے ہیں کہ اس میں جماعت کا اس کی قیادت کا کوئی قصور ہے۔ ان سب حالات میں کسی کا کوئی قصور نہیں نہ کارکن کا قصوروار ہے نہ ہی امیر کا قصور ہے۔سمجھنے کی بات ہے کہ جماعت کا مقابلہ وقت کے اصل فرعون سے ہے۔ سیکولر لبرلز ساری طاقتیں مل کر اس کے خلاف ہیں اسلام کے دشمن فرعون نمرود ابو جہل دجالی فتنے آسان ٹاسک کسی بھی دور میں نہیں تھے۔ہمارے دور کے فرعون طاقت میں قدیم فرعون سے کہیں آگے ہیں۔الیکٹرانک میڈیا جماعت کو نہیں دکھاتا۔پرنٹ میڈیا جماعت پسند اسلام پسند تحریر نہیں چھاپتا۔عوام اگر قبولتی ہے اصل نتائج نہیں دیے جاتے۔قیادت کا کیا قصور وہ کیا اپنی جان مار دیں۔اس الیکشن کو آپ صلح حدیبیہ سے جوڑ لیں یقین کریں جماعت کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔جس عوام نے جماعت کو ووٹ دیا وہ اس کی شکست پر حیران ہے۔ جان چکی ہے کہ دینی جماعتوں میں خطرہ صرف جماعت اسلامی ہے۔عوام نے کبھی کسی موروثی مذہبی لیڈر یا پیر کو یوں اپنے عہدوں سے مستعفی ہوتے نہیں دیکھا۔جماعت اسلامی عوام کے لیے حل ہے تو باطل نظام کے لیے روک ہی روک ہے۔
یہ جماعت اسلامی کے لیڈر کی اعلی قیادت ہے۔جس میں حافظ نعیم الرحمن، مشتاق احمد صاحب، اکبر چترالی اور مولانا ہدایت الرحمن جیسے ہیرے پیدا کیے اور چمکنے کے خوب مواقع دیے۔سراج صاحب آپ...
حیا ہی پروانہ خیر
ویمن یونیورسٹی کی بس میں سب سے پہلی سوار ہونے والی حنا امتیاز معمول کے مطابق آج بھی کسی کتاب کی ورق گردانی میں گم تھی اس لیے اسے اپنے ارد گرد ہونے والی غیر معمولی ہلچل کا علم ہی نہ ہوا۔
آج کی کتب بینی نے اسے خاصا الجھن میں مبتلا کیا ہوا تھا فرانسیسی انقلاب کے وقت وہاں کی عوام نے قلم کاروں کی جس طرح پیروی کی وہ حیران تھی کہ کیسے کوئی قوم اپنے ہی جیسے انسانوں کے بنائے ہوئے افکار و نظریات کے پیچھے اندھا دھند چل پڑتی ہے چاہے وہ نظریات اخلاق سے کتنے ہی گرے ہوئے کیوں نہ ہوں۔
ڈرائیور کے ہارن کرنے پر اس نے کتاب سے سر اٹھایا تو بس مکمل خالی تھی اس کی ساتھی لیکچرار اور تمام طالبات بس سے پہلے ہی اتر چکی تھیں
یونیورسٹی میں داخل ہوتے ہی اسے اندازہ ہوگیا کہ آج کیا دن ہے؟
کلاس میں داخل ہوکرحنا نے ابتدائی سلام دعا کے بعد طالبات کی طرف معنی خیز مسکراہٹ سے دیکھا
“ پیاری لڑکیو! آج خیر سے آپ میں سے بیشتر لڑکیوں نے سرخ رنگ کے دوپٹے اور بعض نے تو پورا لباس ہی سرخ پہنا ہے”
“جی میم! آج ویلنٹائن ڈے ہے نا” کسی ایک طالبہ نے جواب دیا
تو ساتھ ہی کسی دوسری طالبہ نے مزید وضاحت بھی پیش کردی “میم اب وہ جونا مناسب سا ویلنٹائن سب مناتے ہیں ویسا تو ہم کچھ نہیں کر رہے بس سب نے سوچا کہ ایک تہوار آرہا تو چلومنا لیا جائے تفریح ہو جائے گی”
ہممم۔۔تویہ باقی طالبات آپ کے ساتھ شامل کیوں نہ ہوئیں؟ جی نائلہ آپ کا اس دن کے بارے میں کیا خیال ہے؟ حنا نے ایک طالبہ کو مخاطب کیا جوویلنٹائن ڈے منانے والی لڑکیوں میں شامل نہ تھی۔
میم میرے نزدیک ویلنٹائن اخلاقی لحاظ سے انتہائی نا مناسب تہوار ہے اوراس کا ایجنڈا حیا کے منافی ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ ہے
"جب تم حیا نہ کرو تو جو جی چاہے کرو"
نائلہ لیکن ہم کوئی نا مناسب حرکت تو نہیں کر رہے نا۔ ایک دوسری طالبہ نے نائلہ کو ٹوکا
جی جی ایسا ہی ہے میری شہزادی! آپ کی نیت بالکل صاف ہے آپ کا مقصد تفریح کے علاوہ کچھ نہیں ہے یہ مجھے معلوم ہے۔ حنا نے خوبصورتی سے دونوں کی بات چیت میں مداخلت کی اور بات کو مزید آگے بڑھایا۔
لڑکیو!بات دراصل یہ ہے کہ جب ہم خود کو اسلام کے دائرے میں داخل کردیتے ہیں نہ۔۔۔ تو شعوری طور پر حیا کا اختیار کرنا ہمارے لیے اس طرح ضروری ہوجاتا ہے جس طرح سانس لینے کے لیے ہوا میں آکسیجن کا ہونا ضروری ہے کیوں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ
” حیا ایمان کی شاخوں میں ایک شاخ ہے۔ “
لیکن اللہ کی پناہ ہم ایسے معاشرے کا حصہ بن چکے ہیں جہاں حیا کو کم اعتمادی اور ترقی پذیر عناصر کے برخلاف گردانا جاتا ہے اور یہ وہ نظریات ہیں جو ہمارے کچھ نامی گرامی مہذب طبقے نے مغربی معاشرے سے شاید عاریتاً لیے تھے اور اب سارے معاشرے میں تیزی سے سرایت کر تے جا رہے ہیں
اس...
مایوس مت ہونا
ڈاکٹر فہمیدہ آپ نے تو میرا ووٹ ضائع ہی کروا دیا۔ساجدہ بیگم اپنا چیک اپ کروانے آئی تو ساتھ ہی شکوہ کر بیٹھی،میرے شوہر نے کہا بھی تھا، کہ اس شہر میں جماعت کو کوئی نہیں جانتاووٹ ضائع ہوجائے گا،لیکن میں سمجھی کیا پتاقوم ایک موقع دے ہی دیں دین دار لوگوں کو، ساجدہ باجی تو گویا آج بھری بیٹھی تھیں۔ کیا آپ نےامیر جماعت سراج الحق صاحب کا بیان نہیں سنا؟ڈاکٹر فہمیدہ نے تمہید باندھی، جب ایک نیوز اینکر نے سراج الحق صاحب سےسوال کیا،لوگ جماعت اسلامی کو ووٹ کیوں نہیں دیتے؟ تو سراج الحق صاحب کا جواب تھا: ہر صبح فجر کے وقت مسجد سے اذان کی آواز آتی ہے” *حَیّ عَلی الْفَلاحِ حیّ عَلی الْفَلاحِ* اس آواز کو سن کر اگر کروڑوں لوگ سوتے ہیں اور چند ہزار لوگ اٹھ کر مسجدوں میں جاتے ہیں، تو یہ اس آذان یا موذن کی کمی نہیں ہے۔یہ تو ان لوگوں کی کمی ہے جنہوں نے نیند نہیں چھوڑی اور مسجد کی طرف نہیں دوڑے۔ اس لیے ہم تو اذان دیتے رہیں گےاور پکارتےرہیں گے کہ آو تمہاری دنیا اور آخرت کی کامیابی اس نظام میں ہے،جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں پیش کرچکے ہیں۔
نہیں ڈاکٹر صاحبہ میں تو سوچ رہی تھی ساجدہ باجی نے بات کاٹی،اتنا وقت کا ضیاع ہوا اتنا پیسہ خرچ ہوا اور گھرگھر جاکےسمجھایا بھی لوگوں کو بس اسی لیے نتیجہ دیکھ کرمایوس ہوگئی۔ سادہ طبیعت کی ساجدہ باجی پھر سے گویا ہوئیں۔ ساجدہ باجی کیا آپ نے وہ آیت نہیں پڑھی" الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ أَمَلًا"(مال اور اولاد تو دنیا کی زندگی کی رونق ہیں، اور تیرے رب کے ہاں باقی رہنے والی نیکیاں ثواب اور آخرت کی امید کے لحاظ سے بہتر ہیں۔) اس لیے میری بہن یہ ہرگز نہ سوچو کہ ہمارا پیسہ یا وقت ضائع ہوا،ارے اس کا اجر تو اللہ تعالٰی کے ذمہ ہے۔
ہماری ساری تگ ودو اللہ کے دین کو قائم کرنے اور اس ملک میں قرآن کا قانوں نافذ کرنے کے لیے ہے۔ہم نے بالکل مایوس نہیں ہونا اللہ کو ہماری یہی کوشش ہی درکار ہے۔اللہ پاک اپنے جن بندوں سے محبت کرتا انھیں آزمائش میں بھی ڈالتاہےتاکہ پتا چل سکے کون سخت وقت پہ ثابت قدم رہتاہےاور کس کے قدم ڈگمگاتے ہیں،ڈاکٹر فہمیدہ نے نرمی سے سمجھایا۔پھر تو ڈاکٹر صاحبہ ہمیں دوبارہ سے اس مہم کی تیاری میں جُت جانا چاہیے۔بالکل میری بہن!نظام کب نافذ ہوگا یہ تو اللہ ہی جانتا ہے،لیکن ہماری کوشش تو ہرحال میں جاری رہنی چاہیے۔ ہم تو اللہ کے سامنے عزر پیش کرنے والے بن سکیں، کہ اے اللہ میں نے اپنی پوری کوشش کی جہاں تک ہوسکا میں نکلی،جہاں مجھے پکارا گیا میں نے لبیک کہا، میرے مولا تو جانتا ہے،میں نےاپنی طرف سے کوئی کمی نہیں چھوڑی، ہر گھر پہ دستک دی، ہر فرد کودعوت دی، لیکن یارب تو گواہ رہنا میری اس ادنٰی سی کوشش پہ اور مجھے ہمت دے کہ میں اور زیادہ دین کی خدمت کرسکوں، ڈاکٹر فہمیدہ فرط جذبات سے بولیں۔ ساجدہ باجی شرمندگی سے...
طنز و مزاح
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
ٹک ٹاک ایک نشہ
ٹک ٹاک مختصر ویڈیو کی ایسی ایپ ہے جس میں وہی ویڈیو چلتی ہے جو ’’مختصر‘‘ ہو۔بس ایک ویڈیو وائرل ہونے کی دیر ہے پھر آپ ایک ہی رات میں ہیرو بن گئے۔گویاٹک ٹاک سوشل میڈیا کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں وہی ویڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں سب کچھ’’ پلیٹ‘‘میں رکھ کر پیش کیا جائے۔بلکہ نوجوان نسل تو وائرل ہونے کے لئے ایسی اشیاء بھی ’’پیش‘‘ کر دیتی ہیں جن کا پیش نہیں ’’زیر‘‘میں ہونا ہی معیاری،مناسب اور اخلاقی ہوتا ہے۔مگرچائنہ والوں کو کون سمجھائے کہ جس لباس کو ہم پاکستانی اعلیٰ اخلاقی اقدار سے گرا ہوا سمجھتے ہیں ان کے ہاں وہ لباس اعلی اقدار کا حامل سمجھا جاتا ہے۔بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ لباس کا صرف سرا ہی نظر آتا ہو تو اسے اخلاقی لباس سمجھا جاتا ہے۔چائنہ اور یورپ میں تو اسی کی زیبائش مناسب ہوتی ہے جس کی ’’نمائش ‘‘زیادہ ہو۔ ان کے سامنے تو بھاری بھر کم فراک،غرارہ و شرارہ زیب تن کر کے جائیں تو وہ حیران ششدر رہ جاتے ہیں کہ ان کا ناتواں جسم ایسا لباس ’’کیری‘‘ کرتاکیسے ہے۔شائد اسی وجہ سی چینی اور یورپی خواتین وہی لباس زیب تن کرتی ہیں جو ہمیں زیب نہ دیتا ہو۔
میں نے اپنے انتہائی معصوم و سادہ دوست شاہ جی سے ایک معصومانہ سوال کیا کہ مرشد ٹک ٹاک پر کیسے وائرل ہوا جاتا ہے۔شاہ جی نے شانِ بے نیازی (بے نیازی کو کسی نیازی سے نہ ملایا جائے )اور لاپروائی سے جواب دیا کہ فی زمانہ ٹک ٹاک ہی نہیں ہر جگہ وائرل ہونے کا ایک فارمولہ ہے۔میں نے متجسسانہ انداز میں پوچھا کہ مرشد وہ کیا۔فرمانے لگے۔’’جو دکھتی ہے وہ بکتی ہے‘‘یعنی جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔شاہ جی کے جواب پر سوال در سوال ذہن میں کود آیا کہ کیا اس فارمولہ کا اطلاق صنف نازک(جسے میں ہمیشہ صنف آہن کہتا ہوں)پر ہی ہوتا ہے یا صنف معکوس بھی اس زد میں آتے ہیں۔کہنے لگے فارمولہ تو وہی ہے بس الفاظ کے چنائو کو بدلنا ہوگا،یعنی۔۔۔۔۔یعنی مرد حضرات کے لئے الفاظ بدل کر ایسے ہو جائیں گے کہ ’’جو بَکتا ہے وہ بِکتا ہے‘‘
چین نے جب ٹک ٹاک ایپ متعارف کروائی تو اس کا مقصد سیلیکون شہر میں بیٹھ کر ایسی مختصر مدتی ،مختصر ویڈیو،مختصر لباس میں بنا کر پیش کرنا تھاکہ جو اپلوڈ ہوتے ہی وائرل ہو جائے،اور ایسا ہی ہوتا تھا۔اس لئے ہماری نوجوان نسل بھی چین کے نقش پا پر اپنے قدم جمائے ویسی ہی مختصر ویڈیو بناتے ہیں جو وائرل ہو جائے۔مجھے حیرت یہ نہیں کہ آج کی نسل سستی شہرت کے لئے ایسا کیوں کرتی ہے۔پریشانی یہ ہے کہ انہیں شہرت مل بھی جاتی ہے۔اب تو ٹک ٹاک بھی ایک حمام سا ہی دکھائی دیتا ہے ،وہ جس کے بارے میں اکثر سیاستدان بیان بازی کیا کرتے ہیں کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔اب تو ٹک ٹاک دیکھ کر بھی لگتا ہے کہ اس حمام میں بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویڈیو وائرل ہونے کے بارے میں ایک دوست کی بات یاد آگئی ،اس نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ یار ابھی تک...
Nice article
ماشاءاللہ ہمیشہ کی طرح بہت تفصیل سے لکھا ہے عدیل بھائی نے۔۔۔۔
حوالہ جات نے تحریر میں مذید جان ڈال دی ہے ۔۔۔
بہت عمدہ مضمون لکھا ھے آپ نے ماشاء اللہ عدیل سلیم صاحب ، سلامت رہیں
پچھلے مضامین کی مانند عدیل جملانہ صاحب نے ایک عمدہ مضموں لکھا ہے امید ہے کہ آئندہ بھی اسی طرح کے تاریخی مضامیں پڑھنے کو ملتے رہیں گے۔
ماشاءاللہ، عدیل سلیم ایک منجھے ہوئے قلم کار کی صورت میں سامنے آئے ہیں اور بہت مختصر وقت میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔آپ تاریخ پہ کمال عبور رکھتے ہیں اور دریا کو کوزے میں بند کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ انشاءاللہ اسی طرح ہم آپ کے مضامین سے فیضیاب ہوتے رہیں گے۔
تاتاری حملوں پر بہت آسان اور جامع تحریریں ہیں یہ، کچھ چنگیز خان کی اولاد کے اسلام قبول کرنے کے بارے میں بھی لکھیں عدیل بھائی!
I saw your article well. You seem to enjoy safetoto for some reason. We can help you enjoy more fun. Welcome anytime 🙂