لوٹے،لفافے اور گھوڑے 

جیسے جیسے الیکشن قریب آتے جا رہے ہیں سیاسی لوٹے ایک سیاسی مسجد چھوڑ دوسرے سیاسی باتھ اور حمام کا رخ کر رہے ہیں ،حالانکہ اس سیاسی حمام میں سبھی ننگے دکھائی دے رہے ہیں۔جبکہ سیاسی گھوڑے اپنے سائیس سمیت ایک اصطبل کو چھوڑ دوسرے اصطبل،اور لفافوں کا تو کام ہی ہوتا ہے کہ جدھر کی ہوا ،ادھر کا رخ۔ہوا جانبِ مشرق تو لفافے بھی اسی رخ پکارتے چلے جاتے ہیں کہ ’’میں اڑ اڑ جاواں ہوا دے نال‘‘۔بہار کے آتے ہی جیسے طوطے ایک شاخ سے دوسری ٹہنی پر چہکتے ’’میاں مٹھو چوری کھانی ‘‘کی آواز بلند کرتے دکھائی دیتے ہیں،الیکشن کی بہار آتے ہی ہمارے سیاسی میاں مٹھو بھی سیاسی پارٹیوں کی شاخوں پر بیٹھ کر چوری کھانے کو تیار ہوتے ہیں۔2018 کا سال بھی الیکشن بہار کا سال ہے جس میں ہمارے سیاستدان بالکل بہار کے طوطے اور بلبلوں کی طرح سیاسی درختوں کی شاخوں پر’’ڈنڈا ڈولی‘‘کھیلتے ہوئے کبھی اس سیاسی پارٹی کی شاخ پر تو کبھی اُس سیاسی پارٹی کی ٹہنی پر مہکتے،چہکتے،دمکتے دکھائی دے رہے ہیں۔کسی پارٹی کو حمائتی مل رہے ہیں تو کسی کو دشمنوں کے دشمن اپنے دوست بن کر مل رہے ہیں۔اگر مکمل ملکی سیاسی منظر کو دیکھا جائے تو وقتِ حاضر میں سب سے زیادہ ن لیگ کو نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے،بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ’’ مجھے کیوں نکالا‘‘ کی ہزیمت کے بعدسب سے زیادہ نقصان ممبران کے پارٹی چھوڑ کر جانے پر اٹھانا پڑ رہا ہے۔بس یوں کہ سکتے ہیں کہ ’’کبھی دادے دیاں تے کدی پوتے دیاں‘‘۔جو سیاسی ہوا ملک میں چل رہی ہے،اس سے بہت سو کی ہوا نکل گئی ہے اور بہت سے ہوا چھوڑ کر تعفن پھیلا کر پارٹی سے الگ ہو گئے ہیں،اگر مسلم لیگ ن میں یہی ہوا چلتی رہی تو سیاسی گرد و غبار چھٹ جانے پر پی ٹی آئی نکھر کر سامنے آتی دکھائی دے رہی ہے۔کہ جس میں ہر ’’ن‘‘ لیگی دم کو’’ نون‘‘(نمک)لگائے ایسے دم دبا کے بھاگ بھاگ کر پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کر رہا ہے جیسے لوگ’’ منت‘‘پوری ہونے پردیگ چڑھانے داتا کی نگری جاتے ہیں۔اور کچھ اس لئے بھی کہ کہیں ان کے جانے تک دیگوں سے چاول ختم ہی نہ ہو جائیں۔سو چاول تقسیم سے قبل ہی سب فصلی بٹیرے چاول چگنے دوسری پارٹیوں میں جانا چاہ رہے ہیں۔داتا کی نگری کے جاتی امرا باسی دیکھئے کہاں جاتے ہیں کیونکہ ایک حالیہ بیان میں ان کے ’’عظیم بادشاہ‘‘ نے کہا ہے کہ میں ’’کہیں‘‘ سے بھی کال دوں میری عوام اس آواز پہ لبیک کہتی ہوئی سڑکوں پہ آ نکلے گی۔اب ’’کہیں بھی‘‘ میں بھی ویسا ہی ابہام ہے جیسا کہ اقامہ،تنخواہ کی وصولی،بیرونِ ملک پراپرٹی،اور مجھے کیوں نکالا میں تھا۔کہ کہیں بھی جیل کے خدشات کو جنم دے رہے ہیں یا ملک بدری کی طرف اشارہ ہے۔حقیقت تویہ ہے کہ جب ملک کی بڑی سیاسی پارٹی کا یہ عالم ہے تو ممبران کا لوٹے،لفافے اور گھوڑے بن کر اپنے مول پہ بکنا عین مبنی برحقیقت خیال کیا جا سکتا ہے۔کیونکہ یہ سیاسی لوٹے اور لفافے بہت عیار و چالاک ہوتے ہیں انہیں ’’اپنے ذرائع‘‘ سے خبر ہو جاتی ہے کہ رادھا کس بھاؤ ناچنے والی ہے۔بس جوبھی سیاسی کرشن زیادہ سے زیادہ ’’بولی‘‘لگا دے گا اسے کی ڈفلی پہ دھمال ڈالنا شروع کر دیتے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق ن لیگ کے اب تک تین درجن کے قریب ممبران دوسری پارٹیوں کے دُرجن سنگھ بنے بیٹھے ہیں۔اس تمام صورتِ حال پر ن لیگ کی طرف سے ایک بیانیہ بھی جاری کیا گیا ہے کہ پارٹی چھوڑ کر جانے والوں کے لئے پارٹی میں کوئی گنجائش نہیں،حالانکہ سب جانتے ہیں کہ سیاست میں کوئی بھی بات حتمی نہیں ہوتی،آج کے دوست کل کے دشمن بھی ہو سکتے ہیں۔میرا یک سادہ اور سیدھا سا سوال ہے ان تمام لوگوں سے جو سمجھتے ہیں کہ یہ بیان حقیقت بر مبنی ہے کہ کیا الیکشن 2013 میں جو لوگ دیگر پارٹیز کو چھوڑ کر ن لیگ میں شامل ہوئے تھے، ان کے لئے بھی یہی اصول و ضوابط کا اطلاق کیا جائے گایا پھر’’ میٹھا میٹھا ہپ اور کڑوا کڑوا تُھو‘‘وہ بھی تو سیاسی اصطلاح میں لوٹے ،لفافے اور گھوڑے ہی تھے۔اگر نہیں تو اس کا مطلب’’ساڈا کتا ۔کتا تے تہاڈا کتا ،ٹومی‘‘

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں