کشمیر کب تک؟

قانونِ فطرت ہے کہ عروج ایک خاص حد تک جا کر زوال میں تبدیل ہو جاتا ہے۔اور زوال بالآخر عروج کی طرف گامزن دکھائی دیتا ہے۔عروج و زوال کی داستان تاریخِ مسلم میں کچھ نئی نہیں ہے۔عرب کے لق و دق صحرا میں رہنے والے بدو دنیا کی بہترین قوم اور تاریخ کی اعلی ترین مثال بن گئے۔مجوسی،زرتشت،فرعونی اور بدھا جیسے عقائد اپنے عروج سے نیچے آتے آتے ختم ہونے کو ہیں لیکن مسلمان رہتی دنیا تک آیا ہے۔یہ ہر طرف امن و آشتی،بھائی چارہ،مساوات،سلامتی اور رواداری پھیلانے کا امین ہے۔وہ مسلمان کسووو کے ہوں،بوسنیا،فلسطین،یمن یا کشمیرکے،امید سحر کا دامن ہاتھ سے کبھی نہیں چھوڑتے۔سورج کتنی بھی آب و تاب سے کیوں نہ چمکے تھل، چولستان ،صحرا ؤں کے تپتے ریگزاروں میں بھی زندگی نمو پاتی ہے،کبھی کہیں زندگی مر نہیں جاتی جب تک مشیتِ ایزدی نہ ہو۔سمندر اور دریا کتنے ہی طوفان اور گرداب اپنے اندر چھپائے بیٹھے ہوں ،انسان ان کا سینہ چیرتا ہوا انہیں اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔اور اس میں سے اپنے لئے مختلف ذرائع تلاش کر لیتا ہے جو انسان کے مستقبل اور معاش کے لئے بہتر ہو۔جنگلوں میں کتنے ہی شیروں کی دھاڑیں سنائی دیں ہرنوں کے بچے قلابیں بھرتے دکھائی دیں گے۔ایسے ہی مسلمانانِ کشمیر پہ دشمن کتنا ہی زندگی کے حصار کو تنگ کر دے،آزادی ان کا مقدر بن کر ہی رہے گی ا ن شأاللہ۔۔۔۔۔۔سرزمیںِبرصغیر پر انگریز کبھی بھی مسلمانوں کی خیر خواہی کے لئے نہیں آیا،وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی بنیاد ہو،1857 کی جنگِ آزادی ہو،1905 کی تقسیمِ بنگال،1911 میں تنسیخِ بنگال یا پھر تین جون کا منصوبہ تقسیم،جو منصوبہ بھی انگریز لے کر آیا وہ مسلمانوں کے لئے کبھی بھی نہیں تھا،جیسے کہ ماؤنٹ بیٹن جب تقسیم کا منصوبہ لے کر آیا تو اس نے ساتھ ہی یہ اعلان کر دیا کی’’مسٹر نہرو میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ مجھے وہ آخری وائسرائے نہ سمجھیں جو برطانوی راج ختم کرنے آیا ہے ،بلکہ وہ پہلا وائسرائے خیال کریں جو نئے ہندوستان کو راستہ دکھانے آیا ہے۔‘‘اس سے انگریز کی ہندو نوازی کا پول کھلتا ہے۔اسی نا منصفانہ تقسیم کے نتیجہ میں پاکستان اور مقامی افراد کے لئے وہ مسئلہ پیدا ہوا جس کے حل کے لئے ہم نے لاکھوں لوگوں کی قربانیاں دیں،اس مسئلہ کا نام ہے مسئلہ کشمیر۔انگریزوں کی من مانیوں سے جونا گڑھ اور حیدر آباد تو instrument of accession کے ذریعے ہندو بنئیے کی جھولی میں ڈال دیا گیا۔دکھ اور مقام افسوس تو یہ ہے کہ جب کشمیر کی باری آئی تو اسی قانون کی دھجیاں اڑا کر other factors کے تحت ہندؤں نے اپنے گلے کا جینو بنا کر اٹوٹ انگ کا دعویٰ کر دیا،اس طرح کشمیر کے مسلمانوں کے لئے تاریخ کو تاریک بنا دیا۔کشمیریوں کے ساتھ ظلم روا رکھا جانے لگا،خون کی ندیاں بہائی جانے لگیں،عصمتیں نیلام اور عزتوں کا جنازہ نکالا جانے لگا،اور نوجوانوں کو جوانی سے قبل ہی سولی چڑھنے پہ مجبور کیا جانے لگا۔اوپر سے نہرو کا یہ پیغام کہ’’کشمیر کے بارے میں جو بھی اقدامات کئے ہیں سب گاندھی جی کی بدولت ہیں‘‘آج سے 68 برس پہلے ہندوستان نے جنگ کا خود آغاز کیا اور خود ہی جنگ بندی کے لئے اقوام متحدہ کی چوکھٹ پہ سر بھی جھکایا۔اور مقدمہ درج کروایا جو کہ کشمیر میں جنگ بندی کے متعلق تھا۔جس کے متعلق فیصلہ کے لئے پوری عالمی برادری ،خصوصاً کشمیری اب تک منتظر ہیں۔اقوام متحدہ نے مسئلہ کے حل کے لئے ایک کمشن بنایا کہ وہ پاکستان اور بھارت جا کر دونوں ملکوں کے نمائندوں سے ملاقات کر کے کشمیری عوام کی مرضی جان سکے۔اس کمشن کے ذمے یہ کام تھا کہ جنگ بندی کرائے،فوجوں کا انخلا،کشمیری عوام کی مرضی معلوم کرے کہ وہ کس ملک کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں۔یہی right of self determination ہے۔اور اقوام متحدہ کی زیرِ نگرانی ریفرنڈم کروایا جائے۔فریقین نے اس معاہدہ پہ دستخط کئے اور جہاں فوجیں ٹھہری ہوئی تھیں اس جگہ کو سیز فائر لائن اور 1973 کو اسے لائن آف کنٹرول کا نام دیا گیا۔ان تمام مذکور باتوں میں صرف جنگ بندی ہی ممکن ہو سکی باقی سب مسائل یوں کے توں ہیں۔اسی بنا پہ پانچ جنوری کو کشمیری عوام اور جنوبی ایشیا کے تمام مسلمان مل کر اپنے کشمیریوں بھائیوں کے ساتھ اس دن کو یومِ یک جہتی کے طور پہ مناتے ہیں اور اس عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ کشمیری اپنے اس مقصد میں اکیلے نہیں ہیں ،تمام مسلمان خصوصاً جنوبی ایشیا کے مسلمان ان کے دکھ درد،مصائب و الم اور جنگ و امن میں ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔حیرانگی مجھے ہمیشہ اس بات پہ ہوتی ہے کہ میں نے جب بھی بطور تاریخ کے طالب علم کے تاریخ کی ام الکتب کا مطالعہ کیا ہے تو ایک بات مجھے ہمیشہ حیران کرتی ہے کہ بھارت اقوام متحدہ میں خود ہی قرادادیں پیش کرتا ہے اور پھر خود ہی اس کا انکاری کیوں ہو جاتا ہے؟،جیسا کہ 1949 میں بھارتی وفد کی قیادت کرتے ہوئے سر بینگال راما راؤ نے اقوامِ متحدہ کو اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ ’’میں اپنی حکومت کے ایما پر یہ یقین دلاتا ہوں کہ میری حکومت نہ صرف کشمیر کے تنازعہ کو حل کرنے میں کمشن کے ساتھ ہے بلکہ اقوامِ متحدہ کی طرف سے دنیا میں کہیں بھی قیامِ امن کی کوشش کی گئی تو وہ اس ادارے کا ساتھ دے گی کیونکہ یہ واحد ادارہ ہے جو مستقبل کی نسلوں کے لئے مستقل اور مضبوط بنیادوں پر قیامِ امن کی واحد امید ہے‘‘زخم بھی خود ہی دے کر گلہ کرنی والی قوم سن لے تمھارا ظلم اور بربریت کشمیریوں کے جذبہ حریت اور حب الوطنی کو کبھی ٹھنڈا نہیں کر سکے گی۔اب مسئلہ اپنی انتہا کو آن پہنچا ہے کہ شائد قدرت کو اس کی آزادی منظور ہو چکی ہے۔ان شأاللہ۔۔۔۔۔۔لیکن ایک سوال میرے ذہن کے کسی کونے میں ہمیشہ ضربیں لگاتا رہتا ہے کہ عصمتیں لٹیں،عزتیں نیلام ہوئیں،خون بہا،لاشوں کے انبار لگے،بستیاں جلائی گئیں،اور اس سے بھی بڑھ کر طرح طرح کے ظلم کی داستانیں کشمیر کی گلی کوچوں میں بھری ہوئی ہیں۔یہ کشمیر کی حالت تو ہے،لیکن کب تک؟شائد جلد؟شائد بہت جلد یا پھر بہت ہی جلد؟ ان شأاللہ۔
اگر فردوس بر روئے زمین است۔۔۔۔۔۔۔ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں